متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کی لڑائی عدالتوں سے باہر بھی ہوسکتی ہے
دونوں جماعتوں کے رہنما اس کشیدہ صورتحال اور اسکے ضمنی الیکشن پر پڑنےممکنہ اثرات کے حوالےسے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں
عمران خان کے لندن میں الطاف حسین کے نام لیے بغیر بیان کے بعد مڈل کلاس کی دو نمائندہ جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ اورتحریک انصاف میں کشیدگی ایک بار پھرشدت اختیارکرگئی ہے۔
یہ کشیدگی قانوی جنگ سے آگے بھی جا سکتی ہے، ایم کیو ایم نے عمران خان کے بیان پر شدید ردعمل ظاہرکرنے کے علاوہ سند ھ ہائیکورٹ میں5 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائرکر دیا ہے، دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی10ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان کیاہے تاہم حتمی فیصلہ عمران خان کی وطن واپسی پر ہو گا، لندن میٹرو پولیٹن پولیس، ایم کیو ایم کے سابق کنوینرڈاکٹر عمران فاروق کے قتل، منی لانڈرنگ کیس اور الطاف حسین کی مبینہ اشتعال انگیز تقاریرکیخلاف شکایات کی تفتیش کر رہی ہے ، تاہم پولیس نے ابھی تک کسی کو باقاعدہ گرفتار کیا ہے اور نہ ہی الطاف حسین یا ان کی پارٹی کے کسی لیڈر پرفردجرم عائدکی ہے، ایم کیو ایم کویقین ہے کہ وہ چند ماہ کے دوران موجودہ بحران سے نکل آئے گی،لیکن عمران کے لندن سے جاری بیان پر پریشان ہے۔
اگرچہ اس طرح کی کوئی رپورٹ نہیں ملی کہ عمران خان اپنی شکایات کے حوالے سے لندن پولیس سے ملے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے عدالت میں جانے اور پی ٹی آئی کی طرف سے جوابی دعویٰ دائرکرنے کے اعلان سے پتہ چلتا ہے کہ لڑائی عدالتوں تک محدود نہیں رہے گی، اگلے ماہ ہونیوالے ضمنی الیکشن میں دونوں جماعتیں پھر آمنے سامنے ہوں گی، پی ٹی آئی کوجماعت اسلامی کی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم میں کشیدگی تو11مئی کے الیکشن سے بہت پہلے کی ہے، اصل میں یہ کشیدگی 12مئی 2007 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب عمران نے ایم کیو ایم پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہلاکت کا الزام لگایا تھا ، ایم کیو یم نے12مئی کے سانحے میں ملوث ہونے کی تردیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بھی16کارکن مارے گئے ہیں، مڈل کلاس کی نمائندہ جماعتیں ہونے کے باوجود دونوں نے اختلافات دور کرنے ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش نہیں کی۔
البتہ دونوں تشدد کی حد تک ایک دوسرے کیخلاف نہیں گئیں، گذشتہ پانچ سال کے دوران جب ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی تھی دونوں جماعتوں میں کبھی تصادم نہیں ہوا، حالیہ الیکشن کے دوران اور بعد میں دونوں کے معاملات بد سے بد تر ہوتے گئے ہیں، الیکشن سے دو دن قبل پی ٹی آئی کی لیڈر زہرا شاہد کے قتل کے بعد صورتحال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب عمران خان کے قتل کا الزام براہ راست الطاف حسین پر لگا دیا، عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے کراچی میں نہ صرف قومی اسمبلی کی ایک نشست بلکہ دو صوبائی نشسستیں بھی جیت لیں، بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ پی ٹی آئی نے ہر سیٹ پر اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے بعض سیٹوں پر تو وہ دوسرے نمبر پر رہی، یہ نتائچ خود پی ٹی آئی کیلیے بھی غیر متوقع تھے، عید کے بعد ضمنی الیکشن میں دونوں جماعتیں پھر ایک دوسرے کے سامنے ہوں گی۔
دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگانے شروع کر دیے ہیں، عمران خان جو میڈیکل چیک اپ کے بعد لندن سے واپس آنیوالے ہیں، شاید میڈیا کو بتائیں کہ کیا انھوں نے الطاف حسین کیخلاف کارروائی کیلیے برطانوی حکومت پر زور دیا ہے یا پھر ایم کیو ایم کے لیڈر کیخلاف ان کا بیان محض ایک صحافی کے سوال کا جواب تھا؟ یہ حالات کراچی کی خراب صورتحال کیلیے مزید خطرناک ہیں، کیونکہ اگر عمران خان نے الطاف حسین پر حملے جاری رکھے تو لڑائی عدالتوں سے باہر بھی جا سکتی ہے، خان کی نیت ان کی واپسی کے بعد ہی واضح ہو گی، البتہ دونوں جماعتوں کے سمجھ دار رہنما اس کشیدہ صورتحال اور اس کے ضمنی الیکشن پر پڑنے ممکنہ اثرات کے حوالے سے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
یہ کشیدگی قانوی جنگ سے آگے بھی جا سکتی ہے، ایم کیو ایم نے عمران خان کے بیان پر شدید ردعمل ظاہرکرنے کے علاوہ سند ھ ہائیکورٹ میں5 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائرکر دیا ہے، دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی10ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان کیاہے تاہم حتمی فیصلہ عمران خان کی وطن واپسی پر ہو گا، لندن میٹرو پولیٹن پولیس، ایم کیو ایم کے سابق کنوینرڈاکٹر عمران فاروق کے قتل، منی لانڈرنگ کیس اور الطاف حسین کی مبینہ اشتعال انگیز تقاریرکیخلاف شکایات کی تفتیش کر رہی ہے ، تاہم پولیس نے ابھی تک کسی کو باقاعدہ گرفتار کیا ہے اور نہ ہی الطاف حسین یا ان کی پارٹی کے کسی لیڈر پرفردجرم عائدکی ہے، ایم کیو ایم کویقین ہے کہ وہ چند ماہ کے دوران موجودہ بحران سے نکل آئے گی،لیکن عمران کے لندن سے جاری بیان پر پریشان ہے۔
اگرچہ اس طرح کی کوئی رپورٹ نہیں ملی کہ عمران خان اپنی شکایات کے حوالے سے لندن پولیس سے ملے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے عدالت میں جانے اور پی ٹی آئی کی طرف سے جوابی دعویٰ دائرکرنے کے اعلان سے پتہ چلتا ہے کہ لڑائی عدالتوں تک محدود نہیں رہے گی، اگلے ماہ ہونیوالے ضمنی الیکشن میں دونوں جماعتیں پھر آمنے سامنے ہوں گی، پی ٹی آئی کوجماعت اسلامی کی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم میں کشیدگی تو11مئی کے الیکشن سے بہت پہلے کی ہے، اصل میں یہ کشیدگی 12مئی 2007 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب عمران نے ایم کیو ایم پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہلاکت کا الزام لگایا تھا ، ایم کیو یم نے12مئی کے سانحے میں ملوث ہونے کی تردیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بھی16کارکن مارے گئے ہیں، مڈل کلاس کی نمائندہ جماعتیں ہونے کے باوجود دونوں نے اختلافات دور کرنے ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش نہیں کی۔
البتہ دونوں تشدد کی حد تک ایک دوسرے کیخلاف نہیں گئیں، گذشتہ پانچ سال کے دوران جب ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی تھی دونوں جماعتوں میں کبھی تصادم نہیں ہوا، حالیہ الیکشن کے دوران اور بعد میں دونوں کے معاملات بد سے بد تر ہوتے گئے ہیں، الیکشن سے دو دن قبل پی ٹی آئی کی لیڈر زہرا شاہد کے قتل کے بعد صورتحال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب عمران خان کے قتل کا الزام براہ راست الطاف حسین پر لگا دیا، عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے کراچی میں نہ صرف قومی اسمبلی کی ایک نشست بلکہ دو صوبائی نشسستیں بھی جیت لیں، بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ پی ٹی آئی نے ہر سیٹ پر اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے بعض سیٹوں پر تو وہ دوسرے نمبر پر رہی، یہ نتائچ خود پی ٹی آئی کیلیے بھی غیر متوقع تھے، عید کے بعد ضمنی الیکشن میں دونوں جماعتیں پھر ایک دوسرے کے سامنے ہوں گی۔
دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگانے شروع کر دیے ہیں، عمران خان جو میڈیکل چیک اپ کے بعد لندن سے واپس آنیوالے ہیں، شاید میڈیا کو بتائیں کہ کیا انھوں نے الطاف حسین کیخلاف کارروائی کیلیے برطانوی حکومت پر زور دیا ہے یا پھر ایم کیو ایم کے لیڈر کیخلاف ان کا بیان محض ایک صحافی کے سوال کا جواب تھا؟ یہ حالات کراچی کی خراب صورتحال کیلیے مزید خطرناک ہیں، کیونکہ اگر عمران خان نے الطاف حسین پر حملے جاری رکھے تو لڑائی عدالتوں سے باہر بھی جا سکتی ہے، خان کی نیت ان کی واپسی کے بعد ہی واضح ہو گی، البتہ دونوں جماعتوں کے سمجھ دار رہنما اس کشیدہ صورتحال اور اس کے ضمنی الیکشن پر پڑنے ممکنہ اثرات کے حوالے سے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔