علیم خان کی گرفتاری کیا یہ پوائنٹ اسکورنگ ہے

اگر نیب اپنی حدود میں رہ کر کام کر رہا ہے تو اُسے صفائی پیش کرنے کی کیا ضرورت پڑ جاتی ہے۔


علی احمد ڈھلوں February 08, 2019
[email protected]

''ڈیٹیرنس'' کا مطلب دو گروہوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے۔اسے عمومی طور پر خطرناک حد تک اور ازحد ضروری توازن بھی کہا جاتا ہے جو اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ دو گروپ برابری کی سطح پر قائم رہیں اور عدم توازن کی صورت میں کہیں تصادم کا شکار نہ ہو جائیں۔ گزشتہ روز قومی احتساب بیورو (نیب) نے پنجاب حکومت کے سینئر وزیر علیم خان کو آف شور کمپنی کیس میں نیب کے سوالوں کے تسلی بخش جوابات نہ دینے پر حراست میں لے لیاہے۔

اس پر نیب کا کہنا تھا کہ نیب بہتر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات سرانجام دے رہا ہے جس میں ''پسند نا پسند'' کا تصور نہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسی بھی بڑی گرفتاری کے وقت نیب کو ''صفائی''کیوں پیش کرنا پڑ جاتی ہے، اگر نیب اپنی حدود میں رہ کر کام کر رہا ہے تو اُسے صفائی پیش کرنے کی کیا ضرورت پڑ جاتی ہے۔

بہرحال تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ علیم خان کی گرفتاری اس لیے کی گئی ہے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ صرف ن لیگ کے رہنما ہی احتساب کی زد میں نہیں ہیں بلکہ برسراقتدار پارٹی کے لوگ بھی اس کی زد میں آرہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو صرف ''بیلنس آف پولیٹکس'' کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ آپ اگر اپوزیشن کے لوگوں کو عبرت کا نشان بنارہے ہیں تو اس کے بدلے میں ایک شخص حکومت کا بھی اُٹھا لیا جائے اور واہ واہ کرالی جائے۔

راقم عبدالعلیم خان کا اسپوکس پرسن تو نہیں مگر جتنا میں انہیں جانتا ہوں یہ ان کی سیاسی کاوشوں کا ہی ثمر ہے کہ ن لیگ پنجاب سے بھی آؤٹ ہوئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ وہ ن لیگ کی کرپشن پر بہت بڑھ چڑھ کر بولتے رہے ہیں، اب وہ خود اسی الزام میں گرفتار ہیں، سیاست میں ایسا بھی ہوتا ہے، البتہ یہ بات سوچنے والی ہے کہ شہباز شریف جس شہر میں 10سال حکومت کرتا رہا، وہ علیم خان کے خلاف کوئی مقدمہ نہ بنا سکا۔ جب پنجاب کی وزرات اعلیٰ کے لیے اُن کا نام سامنے آیا ہے تو اچانک ان کے خلاف انکوائری کی خبریں سامنے آئیں اور وہ وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔

آج علیم خان کی گرفتاری پر کم و بیش تمام سیاستدان مذمت کر رہے ہیں۔ ن لیگ کے رہنماء بھی اس گرفتاری پر تنقید کرتے نظر آرہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان پر الزام صحیح ہو مگر جتنا میں اُسے جانتا ہوں وہ ایک مخیر شخصیت ہے، اب وہ مجرم ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں چل جائے گا۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان میں لفظ ''احتساب'' مشکوک نظروں دیکھا جاتاہے۔احتساب کو مشکوک بلندیوں تک پہنچانے میں گزشتہ سیاسی پارٹیوں اور آمروں کا خاصہ کردار رہا ہے۔ احتساب کو ذاتی و سیاسی انتقام کیلیے استعمال کیا جاتا رہا۔پاکستانی عوام برسوں سے حقیقی احتساب کی راہ تک رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے لفظ احتساب کی مقبولیت آج بھی قائم ہے۔احتساب کے معنی 'جانچ پڑتال'کے ہیں۔یعنی محاسبہ کرنا۔ہمارے ہاں درمیانہ طبقہ احتساب کا خاصہ متلاشی رہا ہے۔کیونکہ اس طبقے کو ہر دور میں یہی ابہام رہا ہے، کہ ان کے جائز حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔

دوسری طرف امراء و جاگیرداروں میں اسے مزاح کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔کیونکہ انہیں یقین ہے کہ، یہ ممکن ہی نہیں کہ احتساب ہو سکے۔ بروقت مناسب احتساب قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ، یورپ، اور چائنہ وغیرہ ہم سے بہت آگے ہیں۔ بروقت احتساب نے قوموں کو بام عروج تک پہنچایا ہے۔واقعی اس میں ان کی محنت ہی شامل ہے۔ ہمارے ہاں جیسی محنت و کارکردگی دیگر شعبوں میں ہے،ویسی ہی احتساب کے عمل میں۔بلکہ ہمارے ہاں حکومتیں اور ادارے احتساب کو اپنے ذاتی مفاد و مقاصد کے حصول کیلیے استعمال کرتے آئے ہیں۔

عرصے سے ہمارے ہاں احتساب قسط در قسط سیاسی مفادات کی غرض سے جاری ہے۔کبھی پیپلز پارٹی، تو کبھی مسلم لیگ اور اب پی ٹی آئی ۔کیا وجہ ہے ہمارے ہاں بار بار وہی چہرے سامنے آتے رہے؟ وجہ ایک ہی ہے کہ احتسابی عمل کی کبھی تکمیل ہی نہیں ہوئی۔جس کی بدولت ان کو بار بار کرپشن کا موقع ملتا ہے۔ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں احتساب کی بازگشت صرف اور صرف سیاسی انتقام اور ڈیٹرنس کی صورت میں ہی سنائی دی۔

سیاسی پارٹیوں میں انتقامی احتساب برسوں سے چل رہا ہے۔کبھی اس کی باری تو کبھی اس کی اور یہ انتقامی احتساب ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمارے ملک پر آمر بھی قابض رہے۔سنا ہے کہ آمریت بہت مضبوط ہوتی ہے۔مگر افسوس کہ گزشتہ ادوار کے آمر بھی فقط ہدفی احتساب کو ہی فروغ دیتے رہے۔احتساب پر مفادات اور اقتدار کو ترجیح دیتے رہے۔

بروقت اور شفاف احتساب کی تکمیل میں گزشتہ آمر و منتخب حکومتیں ناکام رہی ہیں۔احتساب کے خوف سے پارٹیاں بدلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اوراحتساب کی جیسی فضا آج چل رہی ہے، ایسی ہی فضا گزشتہ ادوار میں بھی چلتی رہی ہے۔گزشتہ منتخب حکومتوں اور آمروں نے اداروں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہ کیا ہوتا تو آج ہمارے اداروں پر سوالیہ نشان نہ ہوتا۔وزیراعظم صاحب اگر واقعی احتساب چاہتے ہیں تو پارٹیوں کی تفریق کیے بغیر ہر رنگ کی پارٹی کے شخص کو جو مطلوب ہو، کٹہرے میں لایا جائے۔

عوام موجودہ حکومت پر اعتماد کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ گزشتہ ادوار کی طرح لوگوں کو ہدف بنا کر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کریں گے۔بلکہ صدق دل سے سیاسی انتقام، پارٹی اور ذاتی مفادات کو پرے رکھ کر احتساب کے عمل کو تکمیل تک پہنچائیں گے تاکہ احتساب پر عمل درآمد کرانے کا سہرا عمران خان کے سر پر سجے اور لوگ صدیوں تک انہیں یاد رکھیں کہ انہوں نے ملک سے کرپشن ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

عمران خان نے ہمیشہ ہر فورم پر کرپشن کے خاتمے پر زور دیا، اسی بدولت عوام نے انہیں آج ایوانوں میں پہنچایا ہے۔عوام آج احتساب کے مطالبے پر عملدرآمد چاہتی ہے۔عمران خان اپنے اس وعدے پر قائم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف، نواز شریف ، خواجہ برادران سمیت دیگر سیاست دان نیب کی تحویل میں ہیںمگر اس عمل کو منطقی انجام پر بھی پہنچایا جانا چاہیے۔

اس وقت نیب کی لسٹ میں 100سے زائد سیاستدان موجود ہیں جن کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں ۔مگر نہ جانے کیوں صرف منتخب نمائندوں کو ہی گرفتار کیا جارہا ہے، اگر واقعی کڑا احتساب کرنا ہے تو اس جھنجٹ سے اُسے فوری نکلنا ہوگا کیوں کہ عوام مکمل احتساب چاہتے ہیں۔نہ کہ صرف ہدفی احتساب۔ عوام ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ نہ ڈالا جائے۔بلکہ عوام چاہتے ہیں کہ جلد از جلد ملک کے لٹیرے سلاخوں کے پیچھے ہوں، چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں۔اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اس میں تبدیلی کہاں ہے؟روایتی سیاست کو ہر گز تبدیلی نہیں کہا جاتا۔تبدیلی کیلیے کچھ نیا کرنا پڑتا ہے، تبدیلی میں پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہوتی، دکھاؤا نہیں ہوتا، بڑی بڑی باتوں کے بجائے بڑے بڑے کام ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں