کچھ تو کرنا ہوگا
اگر ذرا بھی سنجیدگی اور بہتر منصوبہ بندی سے کام کیا تو شاید ملک کے حالات درست ہو جائیں۔
ISLAMABAD:
ملک کے تازہ ترین انتخابات یعنی 2018 کے انتخابات میں جب سے ایک نئی پارٹی نے اگرچہ بھرپور اکثریت سے نہ سہی مگر باریاں کھیلنے والی دو تجربہ کار پارٹیوں کے مقابلے میں اس نسبتاً نئی جماعت نے مرکز اور دو صوبوں میں حکومت بنائی ہے۔
ایک طرف حکمرانی کے مزے لوٹنے والے کسی زخمی شیرکی طرح دھاڑ رہے ہیں تو دوسری جانب معجزاتی طور پر ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہوجانے والے پیر نیم کش کی تکلیف سے تڑپ رہے ہیں ، بلبلا رہے ہیں اور ان دونوں کے حامی و حمایتی جتنا ممکن ہوسکے گلا پھاڑ پھاڑکر موجودہ حکمرانوں کے ہر عمل پر جائز و ناجائز تنقید فرما رہے ہیں ۔
جس کا لب لباب یہ ہے کہ حکمرانوں کو ملک چلانے کا کوئی تجربہ ہی نہیں ، ان سے پوچھا جائے کہ تجربہ کچھ کرنے کی ابتدا سے ہوتا ہے یا کہ ایسے کاموں کا تجربہ گھر بیٹھے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب آپ نے یعنی پچھلی دو جماعتوں نے کارکردگی کا آغاز کیا تھا تو کیا پہلے سے کوئی تجربہ تھا ؟ آپ بھی کئی بار کسی نہ کسی غلطی پر برطرف کیے گئے ، تفصیل سے سب ہی آگاہ ہیں ۔ البتہ عوام کو بے وقوف بناکر ایک جماعت تقریباً پینتیس سال اور دوسری دس بار حکمرانی کے مزے لوٹتی رہی اور یوں وہ تجربہ کار ہوتی رہی ۔
مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا انھوں نے حکمرانی کا تجربہ حاصل کیا یا عوام کو غربت ، بے روزگاری اور ہر بنیادی سہولت سے محروم کرکے خود اپنے خاندان اور کچھ چہیتوں کو بنانے کا تجربہ حاصل کیا؟
ایک جانب تجربہ نہ ہونے کا اور دوسری جانب جمہوریت کو خطرہ کے جو پرجوش نعرے لگائے جا رہے ہیں تو ذرا ایک طائرانہ نظر ان کے دور حکومت میں جمہوریت پر بھی ڈالی جائے ۔ ان کے دورکی جمہوریت کسی بد ترین ڈکٹیٹر شپ سے بھی بدترین تھی۔ جمہور یعنی عوام کو اس دوران کون سا بنیادی حق حاصل ہوا؟ تعلیم، صحت، روزگار جیسی بنیادی ضروریات میں کیا اضافہ ہوا ؟ ایک رپورٹ کے مطابق پرائمری سطح کے بعد تعلیم کو خیر باد کہنے کی شرح میں اضافہ ہی ہوا ، سیکڑوں سرکاری اسکول اصطبل میں تبدیل ہوئے یا پھر پینے کا پانی ، چھت اور بیت الخلا کی سہولت تک ان میں میسر نہ ہوسکی بلکہ بے شمار اسکول تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ملبے کا ڈھیر ہوگئے، مگر غیر ممالک میں حکمرانوں کی جائیدادیں بنتی رہیں کاروبار مستحکم ہوتے گئے۔
ملکی دولت لوٹ کر بدیسی بینکوں میں جمع ہوتی رہی ۔ بھلا ان حکمرانوں کے پاس اتنی دولت کہاں سے آتی کہ عوام کے لیے اچھے تعلیمی ادارے، عالمی معیارکے مطابق نہ سہی مگر علاج کی بنیادی سہولت سے آراستہ شفا خانے بن سکتے ۔ ممالک غیر میں کاروبار جمانے کے بجائے اگر ملک میں سرمایہ کاری کرتے تو بے روزگاری کے بھوت پر کچھ تو قابو پایا جاتا ۔ یہ صورتحال 35 سالہ دور اقتدار والوں اور دس سالہ بلکہ صوبائی سطح پر مزید عرصہ اقتدار میں رہنے والی دونوں جماعتوں کے دور میں جاری رہی۔
ہم ایک بار پہلے بھی اپنے ایک اظہاریے میں واضح کرچکے ہیں کہ اگر تجربہ کار ہونا یہی ہے تو اللہ ہمیں ایسے تجربہ کاروں سے بچائے۔ یہ بھی درست ہے کہ موجودہ حکمران جماعت اگرچہ 2013 کے انتخابات میں ہی کامیابی کی متمنی تھی مگر شاید اللہ تعالیٰ ان کو مزید موقعہ عطا فرمانا چاہتے تھے۔ لہٰذا مزید وقت ملا جس کو بہتر منصوبہ بندی اور اپنے طرز حکمرانی کو آسان بنانے اور عمدہ کارکردگی کے اہداف حاصل کرنے پر توجہ دینے کے بجائے مخالفین کے خلاف ، دھرنے، مظاہرے اور تنقید میں پورے 5 سال صرف کردیے۔
موجودہ حکمران جماعت کے نہ صرف سربراہ بلکہ ان کے تمام ہمدرد اور مشیر اپنی گفتگو، تقاریر اور انٹرویوز میں سابقہ حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور لوٹ مار کے بارے میں کھل کر عوام کو بتا رہے ہیں ۔ یعنی ملک کی معاشی صورتحال سے وہ مکمل طور پر واقف تھے، مگر اب جب اس صورتحال کو درست کرنے کی کوئی پیش بندی نہ کی تو کہا جا رہا ہے کہ سابقہ حکمران ملکی خزانہ خالی اور ملک پر بڑے بڑے قرضوں کا بوجھ چھوڑ کرگئے ہیں تو ہم اتنے کم عرصے میں یہ سب کیسے ٹھیک کرسکتے ہیں۔ بات بالکل درست ہے، مگر ہمیں خانصاحب کا وہ بیان بھی یاد ہے کہ 9 دن میں ملک کے 90 فیصد مسائل حل کردیں گے تو ہم نے ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے لکھنے والوں نے بھی لکھا تھا کہ مطلب یہ کہ 10 دن میں صد فیصد مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ دعوے تو اور بھی بڑے بڑے کیے گئے تھے۔
اس سیاسی صورتحال کا ایک اور بھی پہلو ہے کہ سابق حکمرانوں نے اپنی کارکردگی سے عوام کو متاثر کرنے کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کا آغاز کیا جبکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے دور حکومت میں انھیں مکمل نہ کرسکیں گے۔
ان منصوبوں کی آڑ میں اپنے خزانوں میں اضافہ کیا ۔ سخت سے سخت شرائط پر بڑے بڑے قرض لیے گئے۔ خیال یہ تھا کہ آیندہ انتخابات بظاہر کارکردگی کی بنیاد پر جیت لیں گے تو آگے پھر دیکھا جائے گا اور اگر عوام اس دھوکے میں نہ آئے تو آنے والی نئی حکومت خالی خزانے اور قرض تلے دب کر لاکھ ہاتھ پاؤں مارے کامیاب نہ ہوسکے گی۔ اب اس ساری صورتحال کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ ہمارے حکمران ملک سے کس قدر مخلص تھے؟ موجودہ حکومت بے شک گمبھیر مسائل کا شکار ہے لیکن فی الحال یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش تو کر رہی ہے، اگر ذرا بھی سنجیدگی اور بہتر منصوبہ بندی سے کام کیا تو شاید ملک کے حالات درست ہو جائیں۔
ملک کے تازہ ترین انتخابات یعنی 2018 کے انتخابات میں جب سے ایک نئی پارٹی نے اگرچہ بھرپور اکثریت سے نہ سہی مگر باریاں کھیلنے والی دو تجربہ کار پارٹیوں کے مقابلے میں اس نسبتاً نئی جماعت نے مرکز اور دو صوبوں میں حکومت بنائی ہے۔
ایک طرف حکمرانی کے مزے لوٹنے والے کسی زخمی شیرکی طرح دھاڑ رہے ہیں تو دوسری جانب معجزاتی طور پر ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہوجانے والے پیر نیم کش کی تکلیف سے تڑپ رہے ہیں ، بلبلا رہے ہیں اور ان دونوں کے حامی و حمایتی جتنا ممکن ہوسکے گلا پھاڑ پھاڑکر موجودہ حکمرانوں کے ہر عمل پر جائز و ناجائز تنقید فرما رہے ہیں ۔
جس کا لب لباب یہ ہے کہ حکمرانوں کو ملک چلانے کا کوئی تجربہ ہی نہیں ، ان سے پوچھا جائے کہ تجربہ کچھ کرنے کی ابتدا سے ہوتا ہے یا کہ ایسے کاموں کا تجربہ گھر بیٹھے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب آپ نے یعنی پچھلی دو جماعتوں نے کارکردگی کا آغاز کیا تھا تو کیا پہلے سے کوئی تجربہ تھا ؟ آپ بھی کئی بار کسی نہ کسی غلطی پر برطرف کیے گئے ، تفصیل سے سب ہی آگاہ ہیں ۔ البتہ عوام کو بے وقوف بناکر ایک جماعت تقریباً پینتیس سال اور دوسری دس بار حکمرانی کے مزے لوٹتی رہی اور یوں وہ تجربہ کار ہوتی رہی ۔
مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا انھوں نے حکمرانی کا تجربہ حاصل کیا یا عوام کو غربت ، بے روزگاری اور ہر بنیادی سہولت سے محروم کرکے خود اپنے خاندان اور کچھ چہیتوں کو بنانے کا تجربہ حاصل کیا؟
ایک جانب تجربہ نہ ہونے کا اور دوسری جانب جمہوریت کو خطرہ کے جو پرجوش نعرے لگائے جا رہے ہیں تو ذرا ایک طائرانہ نظر ان کے دور حکومت میں جمہوریت پر بھی ڈالی جائے ۔ ان کے دورکی جمہوریت کسی بد ترین ڈکٹیٹر شپ سے بھی بدترین تھی۔ جمہور یعنی عوام کو اس دوران کون سا بنیادی حق حاصل ہوا؟ تعلیم، صحت، روزگار جیسی بنیادی ضروریات میں کیا اضافہ ہوا ؟ ایک رپورٹ کے مطابق پرائمری سطح کے بعد تعلیم کو خیر باد کہنے کی شرح میں اضافہ ہی ہوا ، سیکڑوں سرکاری اسکول اصطبل میں تبدیل ہوئے یا پھر پینے کا پانی ، چھت اور بیت الخلا کی سہولت تک ان میں میسر نہ ہوسکی بلکہ بے شمار اسکول تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ملبے کا ڈھیر ہوگئے، مگر غیر ممالک میں حکمرانوں کی جائیدادیں بنتی رہیں کاروبار مستحکم ہوتے گئے۔
ملکی دولت لوٹ کر بدیسی بینکوں میں جمع ہوتی رہی ۔ بھلا ان حکمرانوں کے پاس اتنی دولت کہاں سے آتی کہ عوام کے لیے اچھے تعلیمی ادارے، عالمی معیارکے مطابق نہ سہی مگر علاج کی بنیادی سہولت سے آراستہ شفا خانے بن سکتے ۔ ممالک غیر میں کاروبار جمانے کے بجائے اگر ملک میں سرمایہ کاری کرتے تو بے روزگاری کے بھوت پر کچھ تو قابو پایا جاتا ۔ یہ صورتحال 35 سالہ دور اقتدار والوں اور دس سالہ بلکہ صوبائی سطح پر مزید عرصہ اقتدار میں رہنے والی دونوں جماعتوں کے دور میں جاری رہی۔
ہم ایک بار پہلے بھی اپنے ایک اظہاریے میں واضح کرچکے ہیں کہ اگر تجربہ کار ہونا یہی ہے تو اللہ ہمیں ایسے تجربہ کاروں سے بچائے۔ یہ بھی درست ہے کہ موجودہ حکمران جماعت اگرچہ 2013 کے انتخابات میں ہی کامیابی کی متمنی تھی مگر شاید اللہ تعالیٰ ان کو مزید موقعہ عطا فرمانا چاہتے تھے۔ لہٰذا مزید وقت ملا جس کو بہتر منصوبہ بندی اور اپنے طرز حکمرانی کو آسان بنانے اور عمدہ کارکردگی کے اہداف حاصل کرنے پر توجہ دینے کے بجائے مخالفین کے خلاف ، دھرنے، مظاہرے اور تنقید میں پورے 5 سال صرف کردیے۔
موجودہ حکمران جماعت کے نہ صرف سربراہ بلکہ ان کے تمام ہمدرد اور مشیر اپنی گفتگو، تقاریر اور انٹرویوز میں سابقہ حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور لوٹ مار کے بارے میں کھل کر عوام کو بتا رہے ہیں ۔ یعنی ملک کی معاشی صورتحال سے وہ مکمل طور پر واقف تھے، مگر اب جب اس صورتحال کو درست کرنے کی کوئی پیش بندی نہ کی تو کہا جا رہا ہے کہ سابقہ حکمران ملکی خزانہ خالی اور ملک پر بڑے بڑے قرضوں کا بوجھ چھوڑ کرگئے ہیں تو ہم اتنے کم عرصے میں یہ سب کیسے ٹھیک کرسکتے ہیں۔ بات بالکل درست ہے، مگر ہمیں خانصاحب کا وہ بیان بھی یاد ہے کہ 9 دن میں ملک کے 90 فیصد مسائل حل کردیں گے تو ہم نے ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے لکھنے والوں نے بھی لکھا تھا کہ مطلب یہ کہ 10 دن میں صد فیصد مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ دعوے تو اور بھی بڑے بڑے کیے گئے تھے۔
اس سیاسی صورتحال کا ایک اور بھی پہلو ہے کہ سابق حکمرانوں نے اپنی کارکردگی سے عوام کو متاثر کرنے کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کا آغاز کیا جبکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے دور حکومت میں انھیں مکمل نہ کرسکیں گے۔
ان منصوبوں کی آڑ میں اپنے خزانوں میں اضافہ کیا ۔ سخت سے سخت شرائط پر بڑے بڑے قرض لیے گئے۔ خیال یہ تھا کہ آیندہ انتخابات بظاہر کارکردگی کی بنیاد پر جیت لیں گے تو آگے پھر دیکھا جائے گا اور اگر عوام اس دھوکے میں نہ آئے تو آنے والی نئی حکومت خالی خزانے اور قرض تلے دب کر لاکھ ہاتھ پاؤں مارے کامیاب نہ ہوسکے گی۔ اب اس ساری صورتحال کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ ہمارے حکمران ملک سے کس قدر مخلص تھے؟ موجودہ حکومت بے شک گمبھیر مسائل کا شکار ہے لیکن فی الحال یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش تو کر رہی ہے، اگر ذرا بھی سنجیدگی اور بہتر منصوبہ بندی سے کام کیا تو شاید ملک کے حالات درست ہو جائیں۔