یہ امتحان ہے محض وفاداری کا

یہ حیات دنیوی ایک امتحان ہے جس کے نتیجے میں جزا یا سزا ملنی ہے۔


[email protected]

اصحاب کہف واقعے کے پس منظر اور حالات کی مناسبت سے کچھ خصوصی ہدایات آنحضورؐ اور ان کے ساتھیوں کو دی گئی ہیں۔ اصحاب کہف کا مقصد بھی یہی تھا کہ نوجوانوں نے بدترین شرک کے ماحول میں نعرہ توحید بلند کیا۔ جس کے نتیجے میں انھیں بادشاہ وقت کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو یہ صورتحال مکی دور میں درپیش ہوئی اور یہ وہی وقت ہے جب سورۃ الکہف نازل ہو رہی ہے۔

مکہ جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور سے مرکز توحید کی حیثیت حاصل تھی، نبی کریمؐ کی بعثت کے وقت بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز بن چکا تھا۔ ایسے میں حضور اور آپ کے صحابہ نے نعرہ توحید بلند کیا تو انھیں تمام اوچھے ہتھکنڈوں سے ستایا گیا، ترغیب اور لالچ بھی دی گئی، بدترین تشدد ہوا اور بالآخر آنحضورؐ کی جان لینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

یہ وقت اصحاب کہف کے حالات سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ چنانچہ اصحاب کہف پر جب ناطقہ حیات تنگ ہوگیا تو انھوں نے اپنے کنبے قبیلے اور شہری سہولیات کو ترک کرکے غاروں میں پناہ لی۔ یہاں بھی حضور اکرمؐ اور مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ استقامت دکھائی جائے اور اللہ پر توکل مزید گہرا ہو۔ لہٰذا اس کے لیے راستہ بتایا گیا کہ ''تلاوت کرو(اس کی کہ) جو وحی کی گئی ہے تمہاری طرف، تمہارے رب کی کتاب میں سے۔'' ایمان کو مزید پختہ کرنے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کرنے کا ذریعہ تلاوت قرآن ہے۔ اس کو غور و فکر کے ساتھ پڑھنے سے یہ یقین تازہ ہوگا کہ اس کائنات میں اصل طاقت اللہ ہی کی ہے اور یہی یقین استقامت کی بنیاد بنتا ہے۔

پھر فرمایا گیا ''اللہ تعالیٰ کے کلمات کو بدلنے والا کوئی نہیں'' اگرچہ اس وقت سرداران قریش فرعون بنے بیٹھے ہیں لیکن ان میں سے کوئی تمہارے رب کے فیصلوں کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ باطل قوتوں کو ایک وقت تک چھوٹ دی جاتی ہے۔ لیکن بالآخر رب کا فیصلہ ہی نافذ ہوتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس کے اذن سے ہو رہا ہے اور جو نتائج نکلیں گے وہ بھی اذن رب ہی سے نکلیں گے۔ درحقیقت تمہاری آزمائش مقصود ہے۔ اگر تم راہ حق پر چلو گے تو کامیاب قرار پاؤ گے۔

چنانچہ آگے واضح کردیا گیا کہ ''اور تم اس کے سوا کوئی اور جائے پناہ نہیں پاؤ گے۔'' اصحاب کہف نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ایک معنی میں وہاں سے ہجرت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اسباب و علل کے پردوں کو چاک کرکے اپنی مدد کا ایک نقش قائم کردیا۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔ کبھی وہ اسباب کے پردوں کے اندر سے ہی مدد کرتا ہے اور کبھی غیبی طور پر، لیکن جائے پناہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ ابلیس کو اس کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے مہلت دے دی تھی وہ اللہ کے نیک بندوں کو ورغلا سکے۔

آیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ'' اور (اے نبیؐ!) آپؐ اپنے آپ کو روک کر رکھیے ان لوگوں کے ساتھ جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔'' سرداران قریش حضورؐ کو کہا کرتے تھے کہ تم نے اپنے ارد گرد جو کم حیثیت لوگ (معاذ اللہ، نقل کفر کفر نہ باشد) بٹھائے ہوئے ہیں پہلے انھیں اٹھاؤ، پھر ہم تمہاری بات سنیں گے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت آرہی ہے کہ آپؐ ان امرا اور رؤسا کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ آپ کی التفات کا مرکز وہ درویش لوگ ہونے چاہئیں جو ایمان لاچکے ہیں۔ یہ افراد حاصل انسانیت ہیں۔

یہ لوگ کیوں قابل ترجیح اور زیادہ پسند ہیں، اس کی وجہ آگے بیان کردی گئی کہ ''وہ رب کے روئے انورکے طلب گار ہیں۔'' ان کی زندگی کا مقصد صرف اپنے رب کی رضا کا حصول ہے۔ لہٰذا ہدایت کی گئی کہ ایسے لوگوں کے ساتھ جڑ کر رہو جو دنیا کی چمک دمک میں کھوکر نہیں رہ گئے بلکہ اپنے رب کو پکارنے والے، اسی پر توکل کرنے والے اور اس کی رضا کے طالب ہیں۔ پھر فرمایا گیا ''آپ کی نگاہیں ان سے ہٹ کر دنیا کی زیب و زینت کی طرف مائل نہ ہونے پائیں۔'' یعنی ان صاحب حیثیت لوگوں کے پیچھے زیادہ ہلکان ہونا، اللہ کو پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امر کا محتاج نہیں ہے کہ دنیا میں اسلام انھی کے ذریعے آئے گا۔ مسبب الاسباب وہ خود ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جب تک اس قسم کے لوگ نہیں آئیں گے، اسلام کو قوت حاصل نہیں ہوگی۔

آیت 29 کے آغاز میں ارشاد ہوا ''اور اے نبیؐ کہہ دیجیے کہ حق تو وہی ہے جو ہمارے رب کی جانب سے ہے'' کسی بات کے جھوٹ یا سچ ہونے کا فیصلہ کرنا ہو تو قرآن کے پیمانے پر پرکھو۔ ایک حدیث میں ہے کہ ''جس نے قرآن کی بنیاد پر بات کہی اس نے سچ بات کہی۔'' قرآن سے ہٹی ہوئی بات باطل ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے شان استغناء کا اظہار ہے کہ ''جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔'' اللہ کا کلام موجود ہے اور حق منکشف ہو گیا ہے اب چاہو تو مانو اور چاہو تو انکار کرو۔ یہ سب سرداران قریش کو سنایا جا رہا ہے۔ اہل حق کا انداز بھی اصل میں یہی ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کو دل سوزی اور خیر خواہی کے ساتھ اللہ کے دین کی طرف بلائیں، لیکن اس کے بعد ان کا جو فیصلہ ہے وہ کریں، جتنی ان پر بات منکشف ہوگی، اتنا ان کا مواخذہ سخت ہوتا چلا جائے گا۔

کیا وہ اللہ کی عدالت سے کھسک سکتے ہیں؟ یہ حیات دنیوی ایک امتحان ہے جس کے نتیجے میں جزا یا سزا ملنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ کسی کو زبردستی راہ ہدایت پر نہیں لاتا ، جو انسان شیطان کے راستے کو اختیار کرے وہ اس کے لیے مزید آسان ہوتا جاتا ہے اور جو شخص صراط مستقیم کی طرف آئے اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہ راستہ آسان بناتا جاتا ہے، اگرچہ آزمائش بھی ہوتی ہے۔

ابدی زندگی میں انجام کے حوالے سے فرمایا جا رہا ہے ''ہم نے ایسے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔ اس (آگ) کی قناتیں ان کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔'' یعنی اس وقت بھی جہنم کی آگ کی قنات ان کو گھیرے ہوئے ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابھی وہ آگ انھیں نظر نہیں آرہی اور اس کی حدت محسوس نہیں ہو رہی۔ دنیا میں انسان کو غیب میں رکھا گیا ہے اور اسی سے امتحان ہے۔ آیت کے اگلے حصے میں بیان ہوا کہ ''اگر فریاد کریں گے تو سزا پانے والے جب پانی مانگیں گے تو ان کو ایسا پانی دیا جائے گا جو کھولتے ہوئے تانبے کی مانند ہوگا۔'' کالمہل'' کا ترجمہ پیپ بھی کیا گیا ہے، جیسے زخموں کا دھون ہوتا ہے اور وہ اتنی گرم ہوگی کہ منہ کو بھون کر رکھ دے گی۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ''سب سے بری ہے پینے کی وہ چیز (جو ان کا مقدر ہے) اور بہت ہی بری آرام گاہ ہے (جو ان کو نصیب ہوگی)''۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر استقامت عطا فرمائے۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں