کیا بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہے
یہ انسان ہے جس نے اپنے مفادات کے تحت دوسرے انسان کے لیے اس کی خوراک کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔
HARIPUR:
عوام الناس کا اصل مسئلہ اقتصادی ہے، اقتصادی مسئلے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو رب العالمین یعنی تمام جہانوں کا پالنے والا کہہ کر مخاطب کیا ہے، بچے کی دنیا میں آمد کے ساتھ ہی اس کی ماں کی چھاتی میں اس کی خوراک کا بندوبست ہو جانا، اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے۔
یہ انسان ہے جس نے اپنے مفادات کے تحت دوسرے انسان کے لیے اس کی خوراک کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ انسان کا یہ طرز عمل ہی ہمارے اقتصادی اور معاشی مسائل کی بنیاد ہے۔ مغرب کے نزدیک بڑھتی ہوئی آبادی معاشی مسائل کی جڑ ہے۔ مالتھس تھیوری کے مطابق وسائل میں اضافہ ایک ، دو، تین اور چار کے حساب کے تناسب سے ہوتا ہے ،اس کے برعکس آبادی میں اضافہ دو، چار، آٹھ اور سولہ کے تناسب سے ہوتا ہے۔
اس طرح آبادی میں اضافے کی صورت میں اسی تناسب سے وسائل میں اضافہ ممکن نہیں۔ اس لیے آبادی کو وسائل کے تناسب کے حساب سے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آبادی پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔ مغرب نے اسی فارمولے پر عمل کرکے اپنی معاشی اور اقتصادی حالت کو بہتر بنایا ۔ سوال یہ ہے کہ مغرب نے ہی بڑھتی ہوئی آبادی کو معاشی مسئلہ کیوں قرار دیا ۔ اس کے جواب کے لیے ہمیں انسانی تاریخ کے اوراق میں جانا ہوگا ۔
انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب انسانی ذہن کو پہلی بار اس بات کا ادراک اور شعور حاصل ہوا کہ جنگلی درختوں کی خود بخود افزائش کے علاوہ اناج کو بویا جاسکتا ہے تو اس کی سوچ نے انسان کو نئے دور میں داخل کیا ۔ اس دور میں انسان کھیتی باڑی کے فن سے آشنا ہوا ۔ جب انسان اور مویشیوں کی خوراک کا مستقل اور قابل اعتماد انتظام ہوگیا تو انسان نے شکاری اور خانہ بدوشی کی زندگی ترک کرکے ایک جگہ مستقل طور پر سکونت اختیار کر لی ۔ اس طرح گاؤں اور بستیاں وجود میں آئیں مل جل کر رہنے اور معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا ۔
زرعی نظام کے وجود میں آتے ہی شخصی ملکیت کا تصور رائج ہوا ۔ شخصی ملکیت میں کھیت ، باپ اورکنبہ پیداواری اکائی تھا اورکھیتوں میں کام کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نفری کی ضرورت تھی ۔ اس لیے بچوں کی پیدائش مفید عمل بن گیا ۔ زیادہ بچے معاشی اثاثہ قرار پائے۔ ہر نارمل بچہ بہت جلد سمجھدار اور خود انحصار ہو جاتا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں زندگی کے طبعی کاموں کو سمجھ لیتا تھا ۔ اسے بس زمین ، ایک ہل اور قوت بازوکی ضرورت ہوتی تھی ، اس لیے چھوٹی عمر میں شادی ہو جاتی تھی پھر ایک نئے خاندان کی تشکیل کا عمل شروع ہو جاتا تھا ۔
اس کے بعد انسان دست کاری اور منزل حرفت کے دور میں داخل ہوا ۔ لوگ لوہار ، موچی ، حجام، جولاہا اور اس قسم کے دوسرے پیشے اختیارکرنے لگے ۔ یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہا ۔ اٹھارہویں صدی میں یورپ میں صنعتی انقلاب آیا جس نے ساری صورتحال کو بدل کر رکھ دیا ۔ اس دور میں انسانوں کا کام مشینوں سے لیا جانے لگا جس کی وجہ سے افرادی قوت جو معیشت کی بنیاد تھی اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ بچے معاشی اثاثہ نہ رہے نوعمری کی حوصلہ شکنی کی جانے لگی جنسی ضرورت کے فطری طریقے کو روکا گیا تو جنسی بے راہ روی اور بے حیائی نے اپنا راستہ نکالا ۔ ماں باپ کی حاکمیت جو معاشی بنیاد پر قائم تھی جب وہ اپنی بنیاد سے محروم ہوئی تو نتیجے میں خاندانی نظام تباہ ہونا شروع ہوا ۔ لہٰذا مغرب کے پاس ان مسائل کا ایک ہی حل تھا کہ آبادی پرکنٹرول حاصل کیا جائے ۔ لہٰذا یورپ نے سائنسی طریقے آبادی پرکنٹرول حاصل کرکے اپنے معاشی مسائل کافی حد تک حل کر لیے۔
اب ہم اپنے معاشرے کی بات کرتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ بھی صنعتی ترقی سے متاثر ہے۔کسی زمانے میں کسی پیداواری ادارے کو چلانے کے لیے جہاں ہزاروں افراد کی ضرورت ہوتی تھی ، جدید مشینوں کے استعمال سے چند سو افراد کی مدد سے اسے کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے۔ تعمیرات کا کام جدید مشینوں سے لیا جانے لگا ۔ خرید و فروخت کے لیے جگہ جگہ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بیوپاری نظر آتے تھے، اس کی جگہ بڑے بڑے یوٹیلیٹی اسٹور وجود میں آگئے جن کو چند سو افراد کی مدد سے باآسانی چلایا جاسکتا ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں ہاتھوں سے کام کرنے والے ہنر مند افراد کی جگہ جدید مشینوں نے لے لی ہے اس طرز زندگی کی بدولت بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے غذائی اجناس کو غیر فطری طریقوں سے بڑھایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں نئے نئے امراض پیدا ہو رہے ہیں۔ معاشرے میں چوری، ڈاکہ، استحصال، ناانصافی جیسی برائیاں بڑھ گئی ہیں ۔ ایسے حالات میں ہمارے یہاں کے اہل فکر و دانش کی جانب سے بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کی بات کی جاتی ہے۔
ان عناصرکے نزدیک اگر ہمارے یہاں خاندانی منصوبہ بندی کے فارمولے پر عمل کیا جائے تو اقتصادی اور معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں ، ان عناصر کے نزدیک بد قسمتی سے ہمارے یہاں خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب نئے بچوں کی آمد کو روکنا سمجھا جاتا ہے جوکہ ایک غلط تصور ہے خاندانی منصوبہ بندی کا مقصد نئے بچوں کی آمد کو روکنا نہیں ہے بلکہ بچوں کی تعداد کو محدود رکھنا ہے تاکہ فرد کا معیار زندگی بلند ہوسکے اور ہر بچہ اپنے حصے کی خوشیوں کو سمیٹ سکے۔
مغرب سے متاثر خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کے حامی عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مغربی دنیا کو آبادی کے کنٹرول کے اس فارمولے نے دنیا بالخصوص مغربی دنیا کو ایک نئے بحران میں مبتلا کردیا ہے، ہر بچے کی آمد اور اس کی مسکراہٹ اس کی خوشیاں اور اس کی شرارتیں والدین کو ایک روحانی خوشی فراہم کرتی ہیں اور ان کی زندگی کو معنی عطا کرتی ہیں اور ان کی زندگی کو با مقصد بناتی ہیں ۔ مغرب نے جب خاندانی منصوبہ بندی کے فارمولے پر عمل کیا تو وہاں کا معاشرہ اس روحانی مسرت سے محروم ہوگیا ۔
بچوں کی پیدائش کے خوف نے وہاں 'ہم جنس پرستی' کو فروغ دیا ہے جس سے ان کا خاندانی نظام تباہ ہوگیا ہے۔ بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے نوجوانوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے، امور زندگی انجام دینے کے لیے یہ ممالک افرادی قوت کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اس طرز زندگی نے انھیں ایک عذاب میں مبتلا کر دیا ہے لہٰذا یہ ممالک بچوں کی پیدائش کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں ، لیکن ان کو اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہے جس نے وہاں ایک بحران کی کیفیت پیدا کردی ہے۔
لہٰذا ہمیں ایسے اقدامات سے گریزکرتے ہوئے معاشی مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں فطری زندگی یعنی زراعت کو فروغ دینا ہوگا ، ناقابل کاشت زمین کو قابل کاشت بنانا ہوگا ، گاؤں گوٹھوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کو روکنا ہوگا ، سرمایہ داری نظام جو جدیدیت اور ترقی کے نام پر اپنے پس پردہ مقاصد یعنی زیادہ سے زیادہ سرمایہ میں اضافے کی تکمیل کر رہا ہے، اس پر ضرب لگانی ہوگی، اس کے لیے ہمیں اسلام کے رہنما اصول سادگی کو فروغ دینا ہوگا ۔ اسی میں دنیا اور ہمارے معاشی مسائل کا حل پوشیدہ ہے ۔