پاکستان تکہ فیسٹیول

مجوزہ فیسٹیول میں پاکستانی کھانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی ہینڈی کرافٹس اور فیشن ڈیزائنرز کے بھی بوتھ ہوں گے۔

moazzamhai@hotmail.com

'' مان گئے بھئی مان گئے، یہ ایک بے مثال کباب ہے، ایسا کہ جیسا آج تک میں نے کہیں نہیں کھایا'' یہ الفاظ ہیں مارک وینز کے اور یہ کھا رہے ہیں مردان کے چپلی کباب جنھیں کھاتے ہوئے ان کے چہرے پہ وہی بے ساختہ مسکراہٹ امڈ آئی ہے جوکہ دنیا بھر میں ان کا مقبول ٹریڈ مارک ہے ۔

یہ پچھلے سال کی بات ہے جب مارک وینز نے مردان کے چپلی کبابوں پہ اپنا ویڈیو اپنے یوٹیوب چینل پہ اپ لوڈ کیا اور 24 گھنٹے کے اندر اندر اس ویڈیو کو تقریباً ایک ملین یعنی کوئی دس لاکھ بار دیکھا گیا اور تینتیس ہزار لائکس ملیں ۔ یہ تعداد اب 30 لاکھ ویوز اور 59 ہزار لائکس سے آگے بڑھ چکی ہے۔ یہ یو ٹیوب پہ فوڈ ویڈیوز کی ویونگ کے لحاظ سے ایک بڑی تعداد ہے۔ مردان کے چپلی کباب والا ویڈیو مارک وینز کی پاکستان سیریزکا حصہ ہے جو کراچی سے لے کر لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، اسلام آباد، مردان، پشاور، ہنزہ، گلگت اور اسکردو تک کے ویڈیوز پہ مشتمل ہے۔

مارک وینز اس وقت دنیا کے سرفہرست وی لاگرز میں سے ایک ہیں ۔ یہ ملک ملک گھومتے ہیں اور وہاں کے مختلف کھانے بالخصوص اسٹریٹ فوڈ کھاتے اور ان پہ اپنی رائے دیتے ہیں۔ ان کے ویڈیوز کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کو ان ملکوں کے کھانوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے شہریوں، ان کی ثقافت، ان کے شہری اور دیہی علاقوں کی خوبصورتی بھی جاننے کا موقعہ ملتا ہے۔

مارک وینز اس وقت تک دنیا کے درجنوں ملکوں میں جاچکے ہیں تاہم جو پذیرائی اور مقبولیت ان کی پاکستان سیریز کو دنیا بھر میں ملی ہے وہ ان کی کسی دوسری سیریز کو نہیں حاصل ہوسکی۔ آپ اس امر کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان کی پاکستان سیریز کے تقریباً ہر ویڈیو کو دو ملین یا اس سے زیادہ ویوز ملے ہیں اور دنیا بھر میں یہ ویڈیوز دیکھنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

مارک وینز کی پاکستان سیریز کی ایک اور خاص بات ان میں سے ہر ویڈیو پہ دنیا بھر سے آنے والی ہزارہا کمنٹس ہیں جن کے کئی دلچسپ پہلو ہیں مثلاً ایک یہ کہ یہ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک قرب و جوار سے لے کر دور دراز کے ممالک مثلاً میکسیکو، پیرو، گرین لینڈ سے لے کر الجزائر، صومالیہ سے لے کر فلپائن، روس اور چین سے لے کر یورپ اور امریکا تک سے آتی ہیں، دوسرے یہ کہ ان کمنٹس میں پاکستانیوں کا حصہ بمشکل 5 فیصد تک ہوگا باقی سب غیر ملکیوں کی ہیں جن میں ایک بہت بڑی تعداد بھارتیوں کی ہے جو تقریباً سب ہی پاکستان گھومنے اور پاکستانی کھانے خصوصاً گوشت سے بنی پاکستانی ڈشز کھانے کے لیے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔

امریکا، یورپ، آسٹریلیا سے لے کر بھارت تک کے لوگ اپنے کمنٹس میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں ان کے متعصب میڈیا کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ان کا جو منفی تاثر تھا وہ بالکل غلط نکلا ۔


اس طرح کے تاثرات آپ کو صرف مارک وینز یا چند دوسرے یوٹیوب وی لاگرز کے پاکستان کے دوروں پہ ہی نہیں بلکہ کئی پاکستانی فوڈ وی لاگرز کے ویڈیوز پہ بھی ملیں گے۔ آپ رانا حمزہ سیف المعروف ''شپاک'' کی مثال لے لیجیے جو پاکستان بھر میں گھوم پھر کر مختلف شہروں کے کھانوں پہ ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں، عام طور پر ان کھانوں کی اکثریت مختلف طرح کے گوشت کی ڈشز پہ مشتمل ہوتی ہے۔ اب آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ ''شپاک'' کے ویڈیوز پہ اپنی پسندیدگی کی رائے دینے والوں اور ان کے مستقل سبسکرائبرز (یوٹیوب چینل ممبرز) کی تقریباً اکثریت کا تعلق بھارت اور ہندو مذہب کے ماننے والوں سے ہے جوکہ عام طور پر ویجی ٹیرین یعنی سبزی خور مشہور ہیں۔ مارک وینز اور آر ایچ ایس شپاک کی یہ دو مثالیں اس طرح کی کئی مثالوں کا حصہ ہیں۔

پچھلے دو عشروں کے دوران دنیا میں موجود ہر برائی پاکستان سے منسلک کی جاچکی ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا خصوصاً مغربی، بھارتی اور ایرانی میڈیا پاکستان کو دہشت گردی ، منشیات اور عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم اور مذہبی انتہا پسندی، جنونیت اور تنگ نظری کا مرکز بنا کر پیش کرتا ہے۔

پاکستان، مظلوم پاکستان پہ مزید ستم در ستم اس کے طاقتور اداروں نے معاشرے کے کرپٹ اور نا اہل ترین افراد اور گروہوں کو این آر او کے ذریعے پاکستان پہ این آر او زدہ جمہوریت کے ساتھ مسلط کرکے کیا ہے جس کے نتیجے میں کرپشن، بے ایمانی، بے رحمی اور بدمعاشی اوپر سے نیچے تک پاکستانی معاشرے کا کلچر بن گئیں اور جس سے پاکستان کی بدنامی کو چار چاند لگ گئے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ ان اداروں کے پاکستان اور پاکستان کے قانون سے زیادہ اہم اور بالاتر بادشاہ لوگ ایک بار پھر اس ملک کے میگا لٹیروں کو این آر او دینے پہ مائل ہیں۔

چہ خوب! کوئی مایوسی سی مایوسی ہے، کوئی ناامیدی سی ناامیدی ہے۔ بہرحال ہم عام پاکستانی سوائے دل جلانے کے اور کیا چارہ رکھتے ہیں۔ تو اب بد نامی اور مایوسی کے اس ماحول میں وفاقی حکومت ملک میں بین الاقوامی سیاست کو متوجہ کرنے پہ کمربستہ ہوگئی ہے۔ 55 ممالک کے شہریوں کے لیے پاکستان میں ویزا آن ارائیول کی سہولت پیش کی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر ملکی سیاح پاکستان کی طرف کیونکر متوجہ ہوں۔ ملک میں ہر سو پھیلی مذہبی انتہا پسندی اور سماجی تنگ نظری کی بنا پہ ہم یورپ، امریکا دورکی بات ترکی، ملائیشیا اور دبئی جیسے مسلم معاشروں جیسی سہولتیں تک بین الاقوامی سیاحوں کو فراہم نہیں کرسکتے۔ ہمیں چنانچہ بین الاقوامی سیاحوں کو ملک میں لانے کے لیے کچھ نئے اور تخلیقی آئیڈیاز پہ کام کرنا ہوگا ۔

جیسے کہ یوٹیوب پہ مختلف وی لاگرز کے پاکستانی کھانوں پہ اپ لوڈ کیے جانے والے ویڈیوز کی دنیا بھر میں بڑھتی مقبولیت ظاہرکرتی ہے کہ ہم پاکستانی کھانوں کے ذریعے نہ صرف پاکستان کا امیج بہتر کرسکتے ہیں بلکہ پاکستانی معیشت اور سیاحت میں بھی نمایاں اضافہ کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں پاکستانی فوڈ ٹورازم کو بنانا اور بڑھانا ہوگا۔ ہمیں اپنے مشہور کھانوں کی پاکستانی برانڈنگ اور پوزیشننگ کرنی ہوگی۔ پاکستان کا فوڈ ٹورازم دنیا بھر سے سیاحوں، کاروبار اور زرمبادلہ کو پاکستان لائے گا۔ مگر اس سلسلے میں ہمیں روایتی بیورو کریٹک طریقوں کے بجائے نئے اور تخلیقی آئیڈیاز پہ کام کرنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی کھانوں کے ایسے فوڈ فیسٹیول منعقد کرنے ہوں گے جو کھانوں کے روایتی میلوں سے مختلف ہوں۔

اس سلسلے میں پیش ہے آئیڈیا ''پاکستان تکہ فیسٹیول'' کا۔ یہ مختلف ممالک میں لگایا جانے والا ایک ایسا فوڈ فیسٹیول ہوگا جہاں پاکستان کے مشہور باربی کیو تکہ بوٹی وغیرہ کے ریسٹورنٹ اور شیف وغیرہ پاکستانی باربی کیو فوڈ کی مختلف مزے دار اقسام کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔

اس فوڈ فیسٹیول میں شوبز، میڈیا، اسپورٹس، مقامی سیاست اور یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا فورمز کے وی لاگرز شخصیات کو بلایا جائے گا۔ اس مجوزہ فیسٹیول میں پاکستانی کھانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی ہینڈی کرافٹس اور فیشن ڈیزائنرز کے بھی بوتھ ہوں گے۔ یہاں پاکستانی فلمیں اور ٹی وی پروگرام بھی پیش کیے جائیں گے۔ پاکستان ٹورازم ڈپارٹمنٹ کو ملکی اور غیر ملکی ایئرلائنز، ٹریول ایجنسیوں اور ٹورسٹ کمپنیوں کا اشتراک بھی حاصل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان تکہ فیسٹیول میں پاکستان ٹورازم کے بہترین پیکیجز بھی پیش کیے جائیں۔ پاکستان تکہ فیسٹیول کی طرز پہ پاکستان کڑاہی فیسٹیول، پاکستان بریانی فیسٹیول بھی بعدازاں منعقد کیے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story