جناب وزیراعظم سینئر صحافیوں کے رُو برو
حکومت میڈیا کی بے جا توجہ حاصل کرنے سے بھی گریز پا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو مرکز میں برسرِ اقتدار آئے پچاس دن سے اوپر ہو چکے ہیں۔ اِس دوران منتخب وزیرِ اعظم جناب محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا ہے نہ اجتماعی طور پر اُنہوں نے اخبار نویسوں کو ملاقات کا شرف بخشا۔ جناب میاں نواز شریف اِس سے قبل دو بار وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ وہ اِن دونوں باتوں سے خوب آگاہ ہیں کہ اِس پر ہمیشہ عمل کرتے رہے ہیں لیکن اِس بار میاں صاحب کچھ زیادہ ہی احتیاط اور جُز رسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اُن کی دیکھا دیکھی اُن کے وزراء بھی اتنے محتاط ہو گئے ہیں کہ افطار کی کھجوریں کھلانے سے بھی پرہیز کیا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جناب وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے اِس بار وزارتِ عُظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد جو اسلوبِ سیاست اپنایا ہے، اِس کی وجہ سے سرکاری فنڈز کے اسراف سے بچا جا سکے گا۔
حکومت میڈیا کی بے جا توجہ حاصل کرنے سے بھی گریز پا ہے۔ غالباً اِسی وجہ سے وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید صاحب نے ابھی تک کسی میڈیا ہائوس کا دورہ نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وزیرِ اعظم صاحب کے دَورۂ چین میں بھی شامل نہیں تھے۔ سابق حکومت کی طرح نہیں کہ اُس کے ایک وزیرِ اطلاعات نے امریکا کا ذاتی دورہ کیا تو نیو یارک میں مقیم اپنے ''دوستوں'' کی محفل میں ڈالروں میں ''ویلیں'' بھی دی جاتی رہیں۔ شاید اِسی طرح کی غیر سنجیدگیکی وجہ سے گیارہ مئی کو گزشتہ حکومت کی لُیٹا بالکل ہی ڈوب کر رہ گئی۔ میاں صاحب اور اُن کے آزو بازو میں بیٹھنے والوں نے سابقون کی عبرت ناک شکست سے درس لیتے ہوئے احتیاط، سنجیدگی و فہمیدگی اور محض کام کا راستہ اپنایا ہے۔
بعض نقادوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب ''میڈیا شائی'' ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ جس شخص نے ایک سے زیادہ بار پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ''ہنڈائی'' ہو، جو پہلے بھی دو بار وزارتِ عُظمیٰ کے عہدے پر متمکن رہ چکا ہو اور جس نے نصف عشرے سے زائد عرصے کو محیط جلا وطنی کے دکھوں کے دوران غیر ملکی میڈیا کا سامنا کیا ہو، اُس شخص کو میڈیا سے جھجھکنے والا قرار دینا قرینِ انصاف و حقیقت نہیں۔ اب وزیرِ اعظم صاحب 23 جولائی کی سہ پہر وزیرِ اعظم آفس میں پہلی بار پاکستان بھر کے سینئر صحافیوں (جن میں اخبارات کے ایڈیٹر بھی تھے، سینئر کالم نگار بھی اور معروف اینکر پرسنز بھی شامل تھے) کے رُوبرو آئے تو انھوں نے جس صاف، غیر مبہم اور بھر پور اعتماد کے لہجے میں جو گفتگو کی، اِس سے واضح ہوتا تھا کہ وہ زیرِ بحث موضوع کے بارے میں خوب تیاری کرتے ہیں اور سامعین تک سادہ اسلوب میں ابلاغ اُن کی گفتگو کا حقیقی نیو کلیئس ہے۔
اِس بار اُن کی گفتگو سے یہ بھی واضح ہوا کہ وزیرِ اعظم محمد نواز شریف گزشتہ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف باتیں کر کے وقت ضایع نہیں کرنا چاہتے۔ تئیس جولائی 2013ء کی بھر پور بریفنگ کے دوران میاں صاحب ''گزرے ہوئوں'' کا ذکر کرنے سے دانستہ اعراض کرتے رہے۔ اگر ایک آدھ جملہ اُن کی زبان سے سرزد بھی ہوا تو وہ بھی محض اشارتاً ہی تھا۔ انھیں یہ فن بھی آ گیا ہے کہ پریس کانفرنسوں اور مخصوص پریس بریفنگز کے دوران متنازعہ اور بھڑکا دینے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، خوشگوار لہجے میں، احتیاط کا دامن کس طرح تھامے رکھنا ہے۔ مثال کے طور پر: اسّی نوے کے قریب سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران جب اُن سے کالا باغ ڈیم کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا تو میاں صاحب نے نہایت محتاط لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا: ''کالا باغ ڈیم کے بارے میں میرا جو موقف ہے، آپ اس سے آگاہ ہیں۔'' سُننے والوں نے بھی اِس جواب پر اکتفا کر لیا اور سوال کرنے والے کا بھی شکریہ کہ اُس نے پانی میں مدھانی نہیں ڈالی۔
کیا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تحمل اور بُردباری کا لہجہ بھی نواز شریف کی گفتگو کا خاصہ نہیں بن گیا؟ اِس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ مثال کے طور پر 23 جولائی کو الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے سینئر ارکان اور دانشوروں سے بات چیت کے دوران جب میاں صاحب سے عمران خان کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو اُنہوں نے بغیر کسی توقف سے کہا: ''جی ہاں، ملک و قوم کی بہتری، ملک کو مستحکم اور پُرامن بنانے کی خاطر میَں عمران خان صاحب سے علیحدہ ملاقات کے لیے تیار ہوں۔'' ہم سمجھتے ہیں کہ اِس لہجے کی تحسین کی جانی چاہیے کہ اِس اسلوب کی بنیاد پر ملک بھر میں بے جا سیاسی تنقیدات اور نفرتوں سے بچا جا سکتا ہے اور جُملہ سیاستدان، خواہ وہ اقتدار کے اندر ہیں یا باہر، اپنے اپنے جماعتی دساتیر پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد تمام صوبوں، خصوصاً خیبر پختونخوا اور سندھ، میں مخالف سیاسی جماعتوں کی بننے والی حکومتوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے اور اُن سے مطلوبہ تعاون بھی کر رہے ہیں۔ اِس کی مثال چھ عشروں پر پھیلی ہماری مختصر سی تاریخ میں کم کم ملتی ہے۔ وگرنہ یہاں تو یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ اگر ایک سیاسی پارٹی مرکز میں حکمران بن گئی ہے تو اُس نے ''بائی ہُک اینڈ کرک'' صوبوں کے اقتدار کو بھی اپنے قلابے میں بھرنا چاہا۔
23 جولائی کو وزیرِ اعظم آفس میں سینئر صحافیوں سے وزیرِ اعظم محمد نواز شریف کا مکالمہ اِس لیے بھی یاد گار رہے گا کہ اِس میں انھوں نے ملکی مسائل اور دستیاب وسائل کے بارے میں، بالکل غیر مبہم انداز میں کھل کر باتیں کیں۔ بظاہر کوئی بات سینے کے دفینے میں رکھنی مناسب خیال نہ کی اور خود بھی اقرار کیا کہ آپ کی مشاورت اور تجاویز سے ملک اور ہماری حکومت کو یقیناً بہت سے فائدے پہنچیں گے۔ پاکستان کو درپیش سیکیورٹی کے بے پناہ مسائل اور توانائی کے سنگین بحران دو ایسے پہاڑ ہیں جنہوں نے واقعی معنوں میں پاکستان کی صنعتی ترقی اور معاشی خوشحالی کا راستہ روک رکھا ہے۔ جس ملک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں تقریباً ساٹھ ہزار معصوم افراد قتل کر دیے جائیں، وہاں نئی صنعتوں کا دروازہ کیونکر کھلے گا؟ اور جس ملک میں توانائی بحران کے اژدھے نے کئی ملکی صنعتوں کو نگل لیا ہو، وہاں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار کیوں قدم رکھے گا؟
یہی چِنتا کی بات نواز شریف نے خود، اپنے وفاقی وزراء (شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف اور محمد اسحٰق ڈار) اور اپنے معاونِ خصوصی ڈاکٹر مصدق ملک کے توسط سے سامعین کو سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ بجلی اور گیس بحران کے حل کے لیے خود بھی بے چین ہیں اور اپنے متعلقہ وزراء کو بھی چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے۔ اُن کی مساعی کا نتیجہ تو مستقبل قریب میں ہی نکلے گا لیکن وہ دوڑ دھوپ کرتے نظر تو آ رہے ہیں۔ جنابِ وزیرِ اعظم جب یہ کہتے ہیں کہ بجلی نہیں تو کچھ بھی نہیں تو سب کو اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ وہ نئی بجلی پیدا کرنے، موجود بجلی کی بچت اور بجلی چوروں کو سخت سزائیں دینے کے لیے جس سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، امید تو یہی کی جانی چاہیے کہ اِن تلخ فیصلوں کا ثمر شیریں ہی ہو گا لیکن ایک ذرا سا صبر۔ وہ جب بجلی اور گیس چوروں کا ذکر کرتے ہیں تو افسردگی کا ایک غیر مرئی سا غبار اُن کے چہرے پر چھا جاتا ہے۔ وہ غفلتوں اور نالائقی کا ذکر بھی کرتے ہوئے سنائی دیے۔ انھوں نے نہایت درد مندی سے یہ انکشاف کیا کہ تھرکول سے اگر بھارت (اپنے علاقے میں) بے پناہ بجلی پیدا کر رہا ہے تو ہم سندھ میں اپنے حصے کے تھرکول سے استفادہ کیوں نہ کر سکے؟
تیسری بار وزیرِ اعظم بننے والے نواز شریف صاحب کے بارے میں گزشتہ دنوں ایک اخبار نے خبر شایع کی کہ جب سے میاں صاحب وزیرِ اعظم بنے ہیں، ہنسنا مسکرانا بھول گئے ہیں لیکن ہم نے 23 جولائی کے مکالمے کے دوران اِس کے برعکس مشاہدہ کیا۔ بجلی کی بچت کے طریقے بتاتے ہوئے جناب وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر مصدق ملک صاحب نے جب یہ کہا کہ تاجر اور دکاندار حضرات اگر شام آٹھ بجے دکانیں اور اسٹور بند کر کے اپنے بال بچوں کے پاس گھر چلے جایا کریں تو ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی بچت ہو سکتی ہے تو کسی طرف سے آواز آئی: پھر آبادی میں اضافے کا مزید بوجھ بھی برداشت کرنا ہو گا، اِس پر ہر طرف سے قہقہے بلند ہوئے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف صاحب بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکے۔
حکومت میڈیا کی بے جا توجہ حاصل کرنے سے بھی گریز پا ہے۔ غالباً اِسی وجہ سے وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید صاحب نے ابھی تک کسی میڈیا ہائوس کا دورہ نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وزیرِ اعظم صاحب کے دَورۂ چین میں بھی شامل نہیں تھے۔ سابق حکومت کی طرح نہیں کہ اُس کے ایک وزیرِ اطلاعات نے امریکا کا ذاتی دورہ کیا تو نیو یارک میں مقیم اپنے ''دوستوں'' کی محفل میں ڈالروں میں ''ویلیں'' بھی دی جاتی رہیں۔ شاید اِسی طرح کی غیر سنجیدگیکی وجہ سے گیارہ مئی کو گزشتہ حکومت کی لُیٹا بالکل ہی ڈوب کر رہ گئی۔ میاں صاحب اور اُن کے آزو بازو میں بیٹھنے والوں نے سابقون کی عبرت ناک شکست سے درس لیتے ہوئے احتیاط، سنجیدگی و فہمیدگی اور محض کام کا راستہ اپنایا ہے۔
بعض نقادوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب ''میڈیا شائی'' ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ جس شخص نے ایک سے زیادہ بار پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ''ہنڈائی'' ہو، جو پہلے بھی دو بار وزارتِ عُظمیٰ کے عہدے پر متمکن رہ چکا ہو اور جس نے نصف عشرے سے زائد عرصے کو محیط جلا وطنی کے دکھوں کے دوران غیر ملکی میڈیا کا سامنا کیا ہو، اُس شخص کو میڈیا سے جھجھکنے والا قرار دینا قرینِ انصاف و حقیقت نہیں۔ اب وزیرِ اعظم صاحب 23 جولائی کی سہ پہر وزیرِ اعظم آفس میں پہلی بار پاکستان بھر کے سینئر صحافیوں (جن میں اخبارات کے ایڈیٹر بھی تھے، سینئر کالم نگار بھی اور معروف اینکر پرسنز بھی شامل تھے) کے رُوبرو آئے تو انھوں نے جس صاف، غیر مبہم اور بھر پور اعتماد کے لہجے میں جو گفتگو کی، اِس سے واضح ہوتا تھا کہ وہ زیرِ بحث موضوع کے بارے میں خوب تیاری کرتے ہیں اور سامعین تک سادہ اسلوب میں ابلاغ اُن کی گفتگو کا حقیقی نیو کلیئس ہے۔
اِس بار اُن کی گفتگو سے یہ بھی واضح ہوا کہ وزیرِ اعظم محمد نواز شریف گزشتہ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف باتیں کر کے وقت ضایع نہیں کرنا چاہتے۔ تئیس جولائی 2013ء کی بھر پور بریفنگ کے دوران میاں صاحب ''گزرے ہوئوں'' کا ذکر کرنے سے دانستہ اعراض کرتے رہے۔ اگر ایک آدھ جملہ اُن کی زبان سے سرزد بھی ہوا تو وہ بھی محض اشارتاً ہی تھا۔ انھیں یہ فن بھی آ گیا ہے کہ پریس کانفرنسوں اور مخصوص پریس بریفنگز کے دوران متنازعہ اور بھڑکا دینے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، خوشگوار لہجے میں، احتیاط کا دامن کس طرح تھامے رکھنا ہے۔ مثال کے طور پر: اسّی نوے کے قریب سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران جب اُن سے کالا باغ ڈیم کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا تو میاں صاحب نے نہایت محتاط لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا: ''کالا باغ ڈیم کے بارے میں میرا جو موقف ہے، آپ اس سے آگاہ ہیں۔'' سُننے والوں نے بھی اِس جواب پر اکتفا کر لیا اور سوال کرنے والے کا بھی شکریہ کہ اُس نے پانی میں مدھانی نہیں ڈالی۔
کیا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تحمل اور بُردباری کا لہجہ بھی نواز شریف کی گفتگو کا خاصہ نہیں بن گیا؟ اِس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ مثال کے طور پر 23 جولائی کو الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے سینئر ارکان اور دانشوروں سے بات چیت کے دوران جب میاں صاحب سے عمران خان کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو اُنہوں نے بغیر کسی توقف سے کہا: ''جی ہاں، ملک و قوم کی بہتری، ملک کو مستحکم اور پُرامن بنانے کی خاطر میَں عمران خان صاحب سے علیحدہ ملاقات کے لیے تیار ہوں۔'' ہم سمجھتے ہیں کہ اِس لہجے کی تحسین کی جانی چاہیے کہ اِس اسلوب کی بنیاد پر ملک بھر میں بے جا سیاسی تنقیدات اور نفرتوں سے بچا جا سکتا ہے اور جُملہ سیاستدان، خواہ وہ اقتدار کے اندر ہیں یا باہر، اپنے اپنے جماعتی دساتیر پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد تمام صوبوں، خصوصاً خیبر پختونخوا اور سندھ، میں مخالف سیاسی جماعتوں کی بننے والی حکومتوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے اور اُن سے مطلوبہ تعاون بھی کر رہے ہیں۔ اِس کی مثال چھ عشروں پر پھیلی ہماری مختصر سی تاریخ میں کم کم ملتی ہے۔ وگرنہ یہاں تو یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ اگر ایک سیاسی پارٹی مرکز میں حکمران بن گئی ہے تو اُس نے ''بائی ہُک اینڈ کرک'' صوبوں کے اقتدار کو بھی اپنے قلابے میں بھرنا چاہا۔
23 جولائی کو وزیرِ اعظم آفس میں سینئر صحافیوں سے وزیرِ اعظم محمد نواز شریف کا مکالمہ اِس لیے بھی یاد گار رہے گا کہ اِس میں انھوں نے ملکی مسائل اور دستیاب وسائل کے بارے میں، بالکل غیر مبہم انداز میں کھل کر باتیں کیں۔ بظاہر کوئی بات سینے کے دفینے میں رکھنی مناسب خیال نہ کی اور خود بھی اقرار کیا کہ آپ کی مشاورت اور تجاویز سے ملک اور ہماری حکومت کو یقیناً بہت سے فائدے پہنچیں گے۔ پاکستان کو درپیش سیکیورٹی کے بے پناہ مسائل اور توانائی کے سنگین بحران دو ایسے پہاڑ ہیں جنہوں نے واقعی معنوں میں پاکستان کی صنعتی ترقی اور معاشی خوشحالی کا راستہ روک رکھا ہے۔ جس ملک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں تقریباً ساٹھ ہزار معصوم افراد قتل کر دیے جائیں، وہاں نئی صنعتوں کا دروازہ کیونکر کھلے گا؟ اور جس ملک میں توانائی بحران کے اژدھے نے کئی ملکی صنعتوں کو نگل لیا ہو، وہاں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار کیوں قدم رکھے گا؟
یہی چِنتا کی بات نواز شریف نے خود، اپنے وفاقی وزراء (شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف اور محمد اسحٰق ڈار) اور اپنے معاونِ خصوصی ڈاکٹر مصدق ملک کے توسط سے سامعین کو سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ بجلی اور گیس بحران کے حل کے لیے خود بھی بے چین ہیں اور اپنے متعلقہ وزراء کو بھی چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے۔ اُن کی مساعی کا نتیجہ تو مستقبل قریب میں ہی نکلے گا لیکن وہ دوڑ دھوپ کرتے نظر تو آ رہے ہیں۔ جنابِ وزیرِ اعظم جب یہ کہتے ہیں کہ بجلی نہیں تو کچھ بھی نہیں تو سب کو اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ وہ نئی بجلی پیدا کرنے، موجود بجلی کی بچت اور بجلی چوروں کو سخت سزائیں دینے کے لیے جس سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، امید تو یہی کی جانی چاہیے کہ اِن تلخ فیصلوں کا ثمر شیریں ہی ہو گا لیکن ایک ذرا سا صبر۔ وہ جب بجلی اور گیس چوروں کا ذکر کرتے ہیں تو افسردگی کا ایک غیر مرئی سا غبار اُن کے چہرے پر چھا جاتا ہے۔ وہ غفلتوں اور نالائقی کا ذکر بھی کرتے ہوئے سنائی دیے۔ انھوں نے نہایت درد مندی سے یہ انکشاف کیا کہ تھرکول سے اگر بھارت (اپنے علاقے میں) بے پناہ بجلی پیدا کر رہا ہے تو ہم سندھ میں اپنے حصے کے تھرکول سے استفادہ کیوں نہ کر سکے؟
تیسری بار وزیرِ اعظم بننے والے نواز شریف صاحب کے بارے میں گزشتہ دنوں ایک اخبار نے خبر شایع کی کہ جب سے میاں صاحب وزیرِ اعظم بنے ہیں، ہنسنا مسکرانا بھول گئے ہیں لیکن ہم نے 23 جولائی کے مکالمے کے دوران اِس کے برعکس مشاہدہ کیا۔ بجلی کی بچت کے طریقے بتاتے ہوئے جناب وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر مصدق ملک صاحب نے جب یہ کہا کہ تاجر اور دکاندار حضرات اگر شام آٹھ بجے دکانیں اور اسٹور بند کر کے اپنے بال بچوں کے پاس گھر چلے جایا کریں تو ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی بچت ہو سکتی ہے تو کسی طرف سے آواز آئی: پھر آبادی میں اضافے کا مزید بوجھ بھی برداشت کرنا ہو گا، اِس پر ہر طرف سے قہقہے بلند ہوئے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف صاحب بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکے۔