مسلم امہ کا انتشار اسرائیل کا شکار
خلافت کے خاتمے پر دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں میں زبردست مایوسی پھیل گئی۔
SUKKUR:
گزشتہ 600 برسوں سے مسلم امہ میں کوئی ایسا عالمی رہنما نہ پیدا ہوا جو نہ صرف مسلمانوں کا رہنما ہو بلکہ پورے عالم پر ہو وہ چھایا ہوا۔ایک دور ، دور خلافت تھا جب کہ سلاطین ترکی کی خلافت مشرق سے مغرب تک محیط تھی، پورا عالم عرب اور مغرب کا ایک بڑا حصہ ان کے زیر تسلط تھا مگر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد عالم اسلام میں فرقہ پرستی کی لہر استعمار نے دوڑائی اور اسلام میں صہیونی قوت اور ان کے حواریوں نے اس کو عام کیا لہٰذا حجاز چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا۔ مصر، شام، اردن، ایران بھی اس تقسیم کے عمل سے نہ بچ سکے۔
خلافت کے خاتمے پر دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں میں زبردست مایوسی پھیل گئی اور مغربی دانشوروں اور فوجی جرنیلوں نے مل کر مسلمانوں کو نکیل دی اور وہ چند لقموں پر قناعت کر بیٹھے۔ عربستان میں چھوٹے چھوٹے ممالک اور حکمراں پیدا ہوئے جو محض اپنی قومیت اور اپنے عقائد کے حصار میں آگے نہ بڑھے دوسری جنگ عظیم میں مغرب کی فتح ہوئی مگر جنگ کے نتیجے میں مغرب اپنی استعداد کھو بیٹھا تھا اور اس کا استبداد ہو چکا تھا، اس لیے برصغیر میں بھی آزادی کی لہر دوڑی اور مسلمان قیادت نے اس کی رہنمائی کی اور اس طرح کی کہ ہندو بھی اس قیادت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر کر رہے تھے یہاں تک کہ گاندھی جی بھی خلافت موومنٹ سے متاثر ہوئے اور بی اماں جو محمد علی اور شوکت علی کی والدہ گرامی تھیں ان کا ترانہ غیر منقسم ہندوستان کے ہر لب پر تھا:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دینا
مولانا محمد علی جوہر کی یہ خوبی تھی کہ نہ صرف وہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کو ایک مقام پر لاکر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ ہندوؤں کو بھی قیام خلافت پر راضی کرلیا۔ وہ الگ اور ایک طویل بحث ہے کہ بھارت میں خلافت کیوں قائم نہ ہوئی اور محمد علی جوہر اپنے عظیم خیال کو عملی جامہ کیوں نہ پہنا سکے، ظاہر ہے یہ واضح تھا کہ اگر انگریز نے مسلمانوں کی قیادت کو توڑا اور ہندوستان کو لوٹا تو انھیں عملاً اپنی حکمرانی مسلمانوں کے سپرد کرنا پڑتی وہاں ان کو ایک فرد ایک ووٹ کا فلسفہ یاد آگیا اور پھر بھارت پر مسلم امہ کا تسلط جاتا رہا لہٰذا مسلمانان ہند کو اپنی ایک حکومت مجبوراً قائم کرنی پڑی جس کی قیادت محمد علی جناحؒ نے کی۔ ظاہر ہے برطانوی سامراج نے بھارت میں ہندو مسلم نفاق کی بنیاد رکھی بلکہ مسلم امہ کو بھی اس نے تقسیم کرنے کی کوشش کی مگر ان دنوں بھارت جید عالموں اور وسیع النظر قیادت کے سپرد تھا لہٰذا امت مسلمہ کو تقسیم در تقسیم کرنے کی تحریک دم توڑ گئی اور ہر طرف مسلمانوں میں قیام پاکستان کی تحریک بنگال سے پنجاب تک زور پکڑتی گئی اور یہ آواز نگر نگر، خیاباں خیاباں اٹھتی رہی ''ملت کا رہنما ہے محمد علی جناح''۔
بالآخر وہ دن آ ہی گیا کہ عالمی پیمانے پر بھارت کو تقسیم کرنے پر عالم متفق ہوگیا۔ امریکا اور روس دونوں نے جو دو مختلف مکتب فکر رکھتے تھے انھوں نے حامی بھری روس کے صدر جو سوویت یونین کے سربراہ تھے انھوں نے بھی تقسیم کو ہندو مسلم فساد کا حل جانا اور آخر کار جوزف اسٹالین نے بھی امریکا کے ساتھ اس کو جلد تسلیم کرلیا اور پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو پہلا تاریخی ماسکو آنے کا دعوت نامہ بھیجا۔ غرض مسلم امہ اپنے اتحاد اور یکجہتی کی بدولت مملکت خداداد لینے میں کامیاب ہوگئی، یہ تقسیم آگ اور خون کی ہولی تھی، بڑی مشقت سے یہ ملک حاصل ہوا، دنیا میں ایک مقام رکھنے والا ملک جو 24 برس تک ایک خوبصورت ستارے کی طرح جگمگاتا رہا پھر بدقسمتی سے ایسے سیاسی رہنما سامنے آئے اور حالات پیدا ہوئے 1970 سے پاکستان میں پہلا سیاسی نفاقی دور شروع ہوگیا۔ پیپلز پارٹی ایک جانب دوسری جانب شیخ مجیب اور نیشنل عوامی پارٹی آخر کار جس کا نتیجہ قلب پاکستان میں چھرا گھونپ دیا گیا اور علامہ کا یہ شعر:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
کیا نگاہ تھی علامہ کی کہ اس دور میں گلگت سے ملے ہوئے شہر کاشغر تک نظر تھی مگر صد افسوس ہر شخص نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی ہے اور خود کو صحیح اسلامی اصولوں کا پاسدار سمجھتا ہے۔ ایک مسلم کو دوسرے مسلم کا اللہ تعالیٰ نے بھائی بنایا، دکھ درد میں خوشی اور مفادات میں، مگر یہود نے نصاریٰ کو ملاکر تفریق کے ایسے بیج بو دیے جو کبھی نہ تھے جس کی وجہ سے سرزمین افغانستان لہو لہان ہے ہزاروں لاکھوں کوس دور رہنے والے افغان عوام کی امنگوں کے دعویدار بن چکے ہیں اور گفتگو کا دائرہ امن ادھر ہی گھومے گا جہاں نیٹو گھمائے گا گویا امن، سلامتی، اخوت، بھائی چارے کا نسخہ نیٹو کے پاس ہے جب کہ افغان مسئلہ اور ان کے اختلافات کا حل پڑوسی ممالک کو نکالنا چاہیے اور خاص طور پر ان ممالک کو ویٹو پاور ہونی چاہیے، یہ معاملہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور افغان عوام کی خواہشات کے مطابق طے ہونا چاہیے۔
گزشتہ دنوں پاکستان سے سرتاج عزیز صاحب نے افغانستان کا ایک روزہ دورہ کیا مگر وہ بھی خالی ہاتھ واپس آگئے۔ کوئی مستند لائحہ عمل بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ درحقیقت استعمار کی یہی خواہش ہے کہ مسلمان ممالک کے گلی کوچے انتشار کا شکار ہوجائیں، ظاہر ہے جس کے گھر میں خود آگ لگی ہوگی وہ پڑوسی کے گھر کی آگ بجھانے کی تدبیر کیا کرسکے گا۔ عقیدے کے اعتبار سے مسلمان، عیسائی مذہب کے قریب تر ہیں ماسوائے عقیدہ تثلیث کے کیونکہ یہودی تو حضرت عیسیٰ کو نہیں مانتے مگر وہ پھر بھی نصاریٰ کے قریب ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرکے کشت و خون کرا رہے ہیں اور پھر پشت پناہی اور امن کا فلسفہ بھی وہی لائیں گے، پاکستان اور مسلم دنیا اس انتشار میں مبتلا ہے اور اس طرح اسرائیل ان کا شکار کررہا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے خود متحد ہوتے اور مقاصد کے حصول کے بعد اپنے فروعی اختلافات پر مذہبی عالموں کی کانفرنس میں ایک عالمی امن کانفرنس بلائی جاتی تاکہ مصر، لیبا اور شام میں مسلم امہ جس طرح تباہ ہورہی ہے مسلم ممالک کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنانے کے لیے تیار ہوں۔
میرے شاہین میرے شہپر
سنان و تیخ کے پیکر
ہر اک بستی ہے اک نعرہ
ہر اک وادی ہے ایک خنجر
(کاوش رضوی)