منچھر جھیل کو بچائیے…
منچھر جھیل 18 کلو میٹر سیہون شریف سے دور ہے جو جھانگارہ سے شاہ حسن بوبک تک پھیلی ہوئی ہے
اس دھرتی پر 72 فیصد پانی ہے اور باقی حصے میں پہاڑ، میدان اور صحرا وغیرہ آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کے جسم میں بھی 72 فیصد پانی ہوتا ہے۔ پانی کو آب حیات کہا جاتا ہے اگر زمین میں پانی نہ ہو تو یہاں رہنے والے سارے جاندار مرجائیں۔ رب پاک نے پاکستان کو بھی پانی کی نعمت سے نوازا ہے مگر ہم لوگ اتنے ناشکرے ہیں کہ خدا کی طرف سے اس نعمت کا خیال نہیں رکھتے۔ خاص طور پر سندھ میں سمندر ہے، دریا، نہریں اور کئی جھیلیں ہیں جن سے صدیوں سے یہاں کے بسنے والے لوگ فائدہ اٹھاتے آئے ہیں اور نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اتنی جھیلیں نہیں ہیں جتنی سندھ میں ہیں۔ منچھر جھیل تازہ پانی کی جھیل ہے جس کو زہریلے پانی نے تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے اور ہم خاموش تماشائی کی طرح اس کی بربادی دیکھ رہے ہیں۔ اس کی تباہی میں سب سے بڑا ہاتھ ان کارخانے داروں کا ہے جو کارخانوں سے نکلنے والے زہر کو نہروں میں بہا دیتے ہیں اور یہ زہر چلتے چلتے اس جھیل تک پہنچ جاتا ہے اور اس میں رہنے والی آبی مخلوق موت کا شکار ہوجاتی ہے۔ مچھلیاں، پرندے اور دوسری آبی مخلوقات مرجاتی ہیں جس کا اثر وہاں پر رہنے والے مچھیروں سے لے کر دوسروں کی معیشت تک کو دھچکا دیتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ منچھر جھیل میں 400 اقسام کی مچھلیاں رہتی تھیں جو اب زہریلے پانی کی وجہ سے 40 اقسام تک کم ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ باہر سے آنے والے پرندوں نے بھی یہاں آنا کم کردیا ہے کیونکہ ان کو ملنے والی خوراک مچھلی اور دوسرے آبی گھاس پھوس بھی ختم ہوگئے ہیں۔ اس سے وہاں پر رہنے والے مچھیروں کی مالی حالت اس حد تک گر چکی ہے کہ وہ فاقے کاٹ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس جھیل کے چاروں طرف 2 لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے تھے جس میں سے 80 فیصد یہ علاقہ چھوڑ چکے ہیں اور انھوں نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دوسرے علاقوں میں ڈیرہ ڈال دیا ہے۔
کیونکہ ان مچھیروں کا زیادہ تر کمانے کا ذریعہ مچھلیاں تھیں اور اس کے علاوہ یہ لوگ کھیتی باڑی بھی کرتے تھے مگر اس آلودہ پانی کی وجہ سے ان کی زمینیں بھی بنجر ہوگئی ہیں اب تقریباً 30 ہزار کے لگ بھگ لوگ رہتے ہوں گے جن کی حالت بڑی خستہ ہے کیونکہ وہ جو مچھلی پکڑتے ہیں انھیں ایجنٹ کم قیمت میں خریدتا ہے اور خود بازار میں چار گنا زیادہ ریٹ پر بیچتا ہے۔ ان مچھیروں کے پاس ایک تو کوئی سواری نہیں ہے کہ وہ اپنی مچھلیاں خود جاکر مارکیٹ میں دے آئیں، دوسرا یہ کہ منچھر سے دادو اور سیہون جانے والا راستہ کافی لمبا ہوجاتا ہے اور ڈیزل کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ پہلے سائبیریا سے جو پرندے آتے تھے انھیں بیچ کر بھی کچھ گزارہ ہوجاتا تھا مگر اب تو وہ بھی کم کم آتے ہیں اور اس کے علاوہ آس پاس کے زمینداروں نے سردی کے موسم میں پرندوں کی وجہ سے مچھلیوں کے شکار پر بھی پابندی لگادی ہے اور ان کے لوگ ہتھیار لے کر پہرہ دیتے ہیں اور اگر مچھیروں میں سے کوئی غلطی سے کچھ کر بیٹھے تو اسے کڑی سزا ملتی ہے۔ اس لیے اب اس موسم میں وہ بھوکے مرتے ہیں۔
مچھیرے جن کے مستقل گھر ان کی کشتیاں ہوتی ہیں اور وہ وہاں پر ہی کھانا پکاتے ہیں، کپڑے دھوتے ہیں، سوتے ہیں اور مچھلی کا شکار کرتے ہیں ان میں سے بہت ساروں نے جھیل کے کنارے پر اپنے گھر جھونپڑیوں کی طرح بنائے ہیں۔ مگر ان کی زندگی میں میٹھے پانی کا ہونا ایک بڑا خواب ہے حالانکہ سپریم کورٹ کے حکم پر 10 فلٹر پلانٹ لگا کر دیے گئے تھے اور وہ بھی صرف کچھ عرصے میں جن کی حالت اب خراب ہوگئی ہے۔ جھیل کا زہریلا پانی پینے سے مچھیرے اور ان کے بچے پیٹ کی بیماریوں سے جکڑے ہوئے ہیں۔ ایک تو ان کے پاس پیسہ نہیں ہے اور دوسرا ڈاکٹر دور ہیں اور دوائیاں خریدنا ان کے لیے بہت دشوار ہے۔ اس لیے وہ ٹھیکیداروں سے ادھار لیتے ہیں جو پورا سال اس قرض کو ادا کرنے میں گزر جاتا ہے۔
منچھر جھیل 18 کلو میٹر سیہون شریف سے دور ہے جو جھانگارہ سے شاہ حسن بوبک تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ 100 اسکوائر میل تک گھومتی ہے اور اس کے دامن میں ایک طرف پہاڑ ہیں اور دوسری طرف دریائے سندھ ہے۔ اس میں پانی بلوچستان سے جڑے ہوئے پہاڑی سلسلے میں سے آتا ہے۔ دریائے سندھ سے پانی ملتا ہے مگر جب پانی ایم این وی ڈرین سے آتا ہے تو اس میں نمکیات اور کارخانوں کا زہریلا پانی بھی شامل ہوتا ہے جس سے یہ جھیل آلودہ ہوگئی ہے۔ اس کو روکنے کے لیے RBOD کی اسکیم شروع کی گئی تھی تاکہ یہ آلودہ پانی RBOD کے ذریعے سمندر میں پھینکا جائے مگر یہ اسکیم اب تک مکمل نہیں ہوسکی ہے، جو بڑا المیہ ہے کیونکہ اس کے مکمل نہ ہونے سے جب دریائے سندھ میں سیلاب آتا ہے تو اس کا پانی اس میں آجاتا ہے جو گاؤں کے گاؤں تباہ کردیتا ہے۔
منچھر جھیل کی خوبصورتی کی وجہ سے کئی ملکی اور غیرملکی سیاح یہاں پر گھومنے آتے تھے اور فریش واٹر کی مچھلی کھاکر، کشتیوں میں سیر کرکے اور مچھیروں کی زندگی کا ڈھنگ دیکھ کر خوش ہوتے تھے جس سے وہاں پر مچھیروں کو بھی کچھ آمدنی ہوتی تھی جو اب بند ہوچکی ہے۔ ایک تو امن وامان کا مسئلہ اور دوسرا جھیل کی زندگی میں تباہی کا منظر نظر آنے لگا ہے۔ اس جھیل سے پاکستان کی معیشت بھی جڑی ہوئی ہے کیونکہ یہ پاکستان کا حصہ ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایشیا کی سب سے بڑی فریش واٹر جھیل ہے۔ یہاں پر تو بااثر لوگ صرف اپنے مزے کے لیے پرندوں کا شکار کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس عمل کے ساتھ وہ کئی غریب فیملیز کی معیشت کا بھی شکار کرتے ہیں جس سے بچے بڑے ، بوڑھے اور عورتیں غربت کا شکار ہوتے ہیں جب کہ ہماری قدرت کی طرف سے دی گئی نعمت منچھر کے شکل میں تباہی ہورہی ہے وہاں پر پلنے والے آبی مخلوق جس میں مچھلی، پرندے اور ان کی خوراک بھی ختم ہورہی ہے جو ہمارا قومی نقصان ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں پر رہنے والے انسانوں کے لیے نہ تو کوئی صحیح تعلیم، صحت، راستوں اور پینے کے پانی کی سہولت ہے جو 20 ویں صدی کا المیہ ہے۔ یہ لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ منچھر جھیل جیسی نعمت ان کے پاس ہے جو اب آہستہ آہستہ خاتمے کی طرف جارہی ہے۔سپریم کورٹ کے حکم سے کچھ تھوڑا افاقہ ہوا مگر وہ امید بھی ٹمٹماتی نظر آئی اور پھر اوجھل ہوگئی۔ لوگ اب بھی کنویں کا آلودہ پانی پی رہے ہیں، سیاح روٹھ گئے ہیں، مچھلیاں، پرندے اور دوسری آبی مخلوق آہستہ آہستہ خدا حافظ کہہ رہی ہیں۔ ادارے جھیل کی تباہی کی ذمے داری ایک دوسرے پر اچھال رہے ہیں، سیاستدان خاموش اور بے خبر ہیں صرف ووٹ لینے کے وقت بڑے وعدے اور دعوے کرتے ہیں اور پھر یہ سب کچھ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔
بس ایک میڈیا اور دوسری این جی اوز کبھی کبھی آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور وہ بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے صحرا میں نقارہ کی آواز ہو۔ اس بے حسی اور نا اہلی کی وجہ سے ہزاروں خاندان بھوک، بیماری اور افلاس کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومتیں صرف اپنے اقتدار کو بچانے میں لگی رہتی ہیں، کارخانے دار اپنی مستی میں گم ہیں، انھیں انسانوں اور انسانیت سے کیا لینا دینا۔ آلودگی کے خلاف جو محکمے اور کورٹس بنائی گئی ہیں انھیں اپنی تنخواہیں مل رہی ہیں اور وہ نیند سے کیوں جاگیں۔ یہ لوگ تو نہیں جانتے کہ بھوک کیا ہوتی ہے، غربت کی اذیت کیسی ہوتی ہے۔ میں اس پلیٹ فارم سے سب اداروں کو اپیل کرتا ہوں کہ خدارا! اپنی اپنی ذمے داری نبھائیں اور منچھر جھیل کو اصلی حالت میں لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں وہ قومیں زندہ اور غیرت مند ہوتی ہیں جو اپنی ملکیت، زمین، کلچر اور اثاثوں کی حفاظت کرتی ہیں۔