تیسری لہر

یہ کہانی فرضی سہی، بلوچستان میں قبائلی دشمنی کی ایسی کہانیاں عام ہیں۔


عابد میر July 25, 2013
[email protected]

کہانی یوں ہے کہ سردار نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور دیگر سرداروں پر اپنی دھاک بٹھانے اور انھیں خاک میں ملانے کے لیے کچھ غنڈے پال لیے۔ سردار کی پشت پناہی میں ان ڈاکوؤں نے اردگرد کے علاقوں میں خوب لوٹ مار مچائی۔ ہوتے ہوتے یہ اس قدر طاقت ور ہوگئے کہ ایک گاؤں پہ اپنی حکومت قائم کر کے اپنے ہی طے کردہ قوانین لاگوکردیے۔ ان کے لاگوکردہ قوانین ان کے پیداکردہ سردارکے لیے دردِ سر بننے لگے تو سردار نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان پہ چڑھائی کر دی۔ پہلے تو یہ دُم دبا کے بھاگے او ر پھر چھپ چھپ کے حملے کرنے لگے۔ سردار نے حکم دیا کہ انھیں مارنے میں جو ہمارے ساتھ نہیں، وہ ان کے ساتھ سمجھا جائے گا۔

یہ کہانی فرضی سہی، بلوچستان میں قبائلی دشمنی کی ایسی کہانیاں عام ہیں۔

سوویت نظام کے انہدام کے لیے امریکا کی جانب سے طالبان نامی مخلوق کے جنم اور ان کے حالیہ کردار اور باہمی کشمکش کو نظر میں رکھیں تو یہ کہانی اتنی فرضی بھی نہیں رہ جاتی۔

عین اسی طرح جیسے نائن الیون کے بعد امریکا نے دنیا بھرکو یہ منافقانہ اور دھمکی آمیز پیغام دیا تھا کہ یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن کے ساتھ؟ آج پاکستان میں طالبان سے متعلق عین وہی صورتِ حال پیدا کر دی گئی ہے کہ یا تو آپ طالبان کے حق میں ہوں یا مغرب کے حق میں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ انسانی فلاح ان دونوں کی حمایت میں ممکن نہیں۔ دونوں کا سابقہ ریکارڈ اور تجربہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں کی مخاصمت عارضی اور مفادات کی بنیاد پر ہے نہ کہ نظریات کی بنیاد پر۔ ان دونوں کو جب بھی، جہاں بھی انسانی معاشرے میں اقتدار ملا، دونوں نے انسانوں کا استحصال کیا۔ سماجی استحصال کے لیے ایک مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے تو دوسرا روشن خیالی اور امن کا داعی بن کر جنگوں کا اہتمام کرتا ہے۔ دونوں جھوٹے، دونوں منافق، دونوں انسان دشمن...فرق ہے توبس اتنا کہ ایک کا ظلم ہمیں واضح نظر آتا ہے ، دوسرے نے دنیا بھر میںعلم کے پھیلائو کی کوششوں، جمہوریت پسندی ،انسانیت نوازی کی چادر میں سب کچھ چھپا رکھا ہے۔ بین الاقوامی کارپوریٹ میڈیا اور دانشوروں کے ذریعے خود کو کیموفلاج کیے ہوئے ہے۔

یہ سو فسطائی دانشور اور میڈیا ناولوں اور فلموں سے لے کر ملالہ کی علامت کے ذریعے ہمیں مذہبی بنیادپرستوں کے مظالم کی داستانیں تو سناتے ہیں لیکن ہمیں کوئی یہ نہیں بتاتا کہ دنیا میں اسلحے کے وسیع کارخانے اور ذخائر کس کے پاس ہیں؟ کون ہے جو انسان کش ہتھیاروں کی فیکٹریاں بنانے میں سب سے آگے ہے؟چین کو سامراج کہنے والے کبھی بتائیں کہ ہتھیاروں کے زور پر تو ایک طرف ،کبھی اس نے کسی ملک کا اگر اقتصادی استحصال بھی کیا ہو تو اس کی کوئی مثال بتا دیں۔ روزمرہ استعمال کی اشیا سے لے کر بچوں کے کھلونے بنانے والا یہ ملک اپنی اشیا کے لیے اگر مارکیٹ کی توسیع کا انتظام کرے تو یہ سامراج بن جاتا ہے، دوسری طرف ایک ملک وسیع پیمانے پر انسانیت کش ہتھیار بنائے اور ان کی مارکیٹ کے لیے بے بنیاد جنگوں کا جواز پیدا کرے، خود مختار ممالک کے اندر گھس کر ان پر حملہ آور ہو، طاقت کے زور پر وہاں کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کرے، اپنے دفاع کے نام پر انسانوں کے چیتھڑے اڑاتا پھرے ، اور اس سب کے باوجود انسانی حقوق کا علم بردار بھی ٹھہرے، انسانی اقدار کا امین بھی کہلائے، جمہوری روایات کا پاسدار بھی بنے، تو اس کھلے جھوٹ کو ، ذہن کی لوٹ کو ،جالب ؔ کا ہمراہی کوئی باغی تو ماننے سے رہا۔اسی چین کا ادیب اپنے ملک پر تنقید کرے تو نوبل انعام کا حقدار قرار پائے،لیکن امریکی پالیسیوں پر انگلی اٹھانے والے نوم چومسکی کو دیوار سے لگا دیا جائے۔

طالبان کو اینٹی سامراج کہنے والوں کی عقل پہ اگر ماتم کیا جائے تو انھیں کیا کہا جائے جنہوں نے روشن خیالی اور انسانی حقوق کی علم برداری کا ٹھیکہ امریکا بہادر کو دے رکھا ہے۔ جن کا خیال ہے کہ یورپ نے سائنس کی صورت میں انسانی سماج کو اس قدر وسیع سرمایہ دیا ہے کہ اُس کے تمام غیر انسانی جرائم کی پردہ پوشی کی جانی چاہیے۔اس عالمی درندے کے خلاف بولنے پر ہم تیار نہیں، اس کے سبھی جرائم پر ہم مہربہ لب ہیں کیونکہ طاقت ور میڈیا کے ذریعے ہمیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ اس وقت امریکا بہادرکے خلاف بولنے کا مطلب روشن فکری کی مخالفت ہے۔ عالمی دانشور ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ آج امریکا کی مخالفت کا مطلب طالبان کی حمایت ہے۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہیے۔

یہ ذہنی تشدد کی ایک نئی قسم ہے۔ خود ہی ایک قسم کی مصنوعی لکیر کھینچ کر لوگوں کو لکیر کے ایک طرف ہونے کا فتویٰ دیا جا رہا ہے۔ یہ انسانی فہم، ادراک اور سماجی دانش کی توہین کے مترادف ہے۔ فیصلے کے سبھی آپشنز عالمی اسٹیبشلمنٹ خود طے کر رہی ہے۔ ہاں اور نہیں کے بیچ کوئی تیسرا آپشن نہیں ۔دنیا کے انسانوں کو اِدھریا ادُھرکی بے معنی تفہیم میں الجھایا جا رہا ہے۔ اک طرف اُس کا گھر، اک طرف مے کدہ، گویا کوئی تیسری راہ موجود ہی نہیں۔

لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسری راہ موجود ہے...ہمیں پتہ ہے کہ انسانی فلاح کا راستہ ان دونوں قوتوں کے پاس موجود نہیں ہے۔ یہ دونوں انسانوں کی اکثریت کے حقوق کی قیمت پر چند طبقات کے حقوق کی پاسداری کے لیے باہم برسرپیکار ہیں۔ انھیں نہ انسانی سماج کی مجموعی فلاح سے غرض ہے، نہ ہی یہ ان کے بنیادی مقاصد کا حصہ ہے۔ یہ دونوں لکیر کی دائیں طرف کھڑی ہوئی قوتیں ہیں، جب کہ انسانی فلاح کا راستہ تو لکیر کے بائیں طرف ہے۔ یہی وہ تیسری لہر ہے، جو ان دونوں کو بہا لے جائے گی۔ محض اسی تیسری لہر کو روکنے کے لیے دائیں بازو کی ان دونوں طاقتوں نے ایک مصنوعی لکیر کھینچ کے مصنوعی جنگوں کا اہتمام کر رکھا ہے، دنیا کے معصوم انسان مسلسل جس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔یہ تقسیم محض فریبِ نظر ہے، دھوکا ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ کل تک طالبان کو مجاہدینِ اسلام اور آج انسانیت کا دشمن قرار دینے والا امریکا اور یورپ، وقت پڑنے پہ کل انھیں پھر گلے لگا سکتا ہے تاکہ بائیں بازو کی کوئی لہر کہیں نہ اُٹھ سکے۔

کیا ہی عجب ہو کہ دنیا کو اینٹی امریکا اور پرو امریکا، اور پرو طالبان اور اینٹی طالبان میں تقسیم کرنے والوں کو آپشن دیا جائے کہ عالمی سیاست یا تو دائیں بازو کے نظریات کے ساتھ ہے یا بائیں بازو کے نظریات کے ساتھ؟ بتائو تم کس کے ساتھ ہو؟!...یہ تقسیم بالآخر ہو کے رہنی ہے، اور یہی حتمی تقسیم ہوگی، تب کون کہاں کھڑا ہوگا، ہم دیکھیں گے...لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!

تب تک ہم انسانیت کے دشمن دائیں بازو کے ان دونوں مصنوعی دشمنوں کے کسی پروپیگنڈے میں نہ آئیں گے۔ عالمی سپر پاور کا تاج سر پہ سجائے دنیا کا عالمی غنڈہ امریکا اور اپنے خودساختہ انسانیت کش قوانین طاقت کے ذریعے انسانوں پہ تھوپنے والے طالبان ، دونوں رجعت پسند قوتیں ہیں، دونوں میں سے کسی ایک کی طرف داری انسانیت کی مخالفت کے مترادف ہے،بات کم یا زیادہ ظالم کی نہیں، حقیقی ظالم اور مظلوم قوتوںکی نشاندہی ہے ...اور یہ بات ہمیں کسی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے بغیر ایک ہی سانس میں دہرانی ہے ... دہراتے رہنی ہے۔ آپس میں تفرقہ نہیں ڈالنا اور اُس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے جو انسانی فلاح کی ضامن ہے، جو انسانوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ اُسی صراطِ مستقیم پہ چلتے رہنا ہے جو علم کی راہ ہے، عمل کی راہ ہے، امن کی راہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں