دائرے کی وسعت…

وڈیرے اور جاگیردار ایوانوں کی نشستوں پر اپنا حق سمجھتے تھے۔


Khalidah Ateeb July 25, 2013

ابتدائی طور پر جب کوئی تحریک جنم لیتی ہے تو اس کے پس منظر میں اطراف میں پائی جانے والی بے چینی اور حق تلفی ہوتی ہے، لیکن جوں جوں تحریکی عمل آگے بڑھتا ہے تو کئی دوسرے بھیانک حقائق سامنے آتے ہیں کہ استحصالی قوتیں صرف کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کی جڑیں سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔

تعلیمی ادارے سے جنم لینے والی ایک اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن جو کہ اے پی ایم ایس او کے نام سے بنی، جب اُس پر جامعہ کراچی میں زندگی تنگ کردی گئی تو یہ بے سروسامان نوجوان کراچی اور حیدر آباد کے گلی کوچوں میں پھیل گئے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں حق اور سچ کی یہ آواز کیا گونجی، ایسا لگا گویا کسی نے صحرا میں بارش کی نوید سنا دی ہو۔ 98 فیصد مظلوم الطاف حسین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایم کیو ایم کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ غریب اور متوسط طبقے کی نمایندہ جماعت بن کر ایم کیو ایم نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی جہت کو روشناس کرایا۔ اس سے پہلے سیاست پر نامی گرامی خاندانوں، دولت مند اور اعلیٰ حسب نسب سے تعلق رکھنے والوں کی اجارہ داری تھی۔

وڈیرے اور جاگیردار ایوانوں کی نشستوں پر اپنا حق سمجھتے تھے۔ الطاف حسین نے اس ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر مار کر ارتعاش پیدا کردیا تھا۔ اُردو بولنے والوں کی نمایندہ جماعت کی حیثیت سے ایم کیو ایم نے اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دلخراش حقیقت آشکارا ہوئی کہ حق تلفی کا سلسلہ صرف کراچی اور حیدر آباد یا سندھ کے شہری علاقوں تک محدود نہیں، بلکہ وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں اور خانوں نے ہر سطح پر مظلوم کو اپنا محکوم بنایا ہوا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ تھا کہ اس تحریک کو وسعت دے کر سارے معاشرے میں پھیلایا جائے تاکہ استحصالی قوتوں کے خلاف مظلوم کی آواز کو طاقت بخشی جائے اور تمام ملک کے مظلوم ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہو کر اپنے حقوق کی بازیابی کی جنگ لڑیں۔

غرض کہ 11 جون 1978 کو اے پی ایم ایس او وجود میں آئی ، جس نے 18مارچ 1984 کو مہاجر قومی موومنٹ کو جنم دیا، پھر سارے ملک کے مظلوموں کی آواز بننے کے لیے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ کا نام دے کر 26جولائی 1997 کو پورے پاکستان میں کام شروع کرنے کا عزم کیا گیا۔ جدوجہد کی یہ داستان بہت خون رنگ ہے، کیونکہ بہت سی قوتیں یہ نہیں چاہتی تھیں کہ عام لوگوں کا شعور بیدار ہو اور وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہوسکیں کیونکہ 2 فیصد طبقے نے 98فیصد عوام کو اپنا محکوم بنا کر صرف فرائض کے بارے میں بتایا تھا۔ حقوق سے آگاہی میں انھیں اپنی موت نظر آرہی تھی۔ انتہائی نامساعد حالات میں الطاف حسین نے حق اور سچ کی آواز بلند کی۔ سر اُٹھا کر جینے کا شعوردیااور98فیصد عوام کو یہ باور کرایا کہ خاموشی سے ظلم سہنا گویا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے ایسی طاغوتی قوتوں کے خلاف مکمل اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یقینا یہ کانٹوں بھرا راستہ تھا۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ نظام بڑے تواتر کے ساتھ جاری تھا، مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اس نظام کے خلاف آواز بلند کر سکتا، لیکن جواں ہمت اور پر عزم الطاف حسین نے یہ کٹھن کام انجام دینے کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر ڈال لی۔ آگ اور خون کے دریا عبور کیے۔ اپنے پیاروں کو لہو رنگ ہوتے دیکھا۔ اعصاب شکن حالات کا مقابلہ کیا، لیکن اپنی جدوجہد سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ حق پرستی کی گونج سندھ کے شہری علاقوں کی سرحدیں عبور کرتی ہوئی دیہی سندھ اور پھر پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ سے آگے بڑھ کر گلگت، بلتستان اور کشمیر کی وادیوں تک پہنچ گئی۔ یہ جذبوں کی سچائی ہی تھی کہ انتہائی کٹھن اور نامساعد حالات میں بھی تحریکی عمل اپنے قائد جناب الطاف حسین کی رہبری اور رہنمائی میں جاری رہا۔ کامیابیوں کا یہ سفر قربانیوں سے عبارت ہے۔ اپنے کل کی بہتری کے لیے اپنے آج کو قربان کرنے کا یہ عمل قائد تحریک کے دیے ہوئے درس کا حصہ ہے۔ گو کہ حق تلفی اور معاشرتی ناہمواریوں کا سلسلہ دراز ہے، لیکن وقت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سچے جذبے اور مقصد کے حصول کی لگن اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہے۔

مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک کا یہ سفر جاری و ساری ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین بھائی کی ذات ہمارے لیے صحرا کی تپتی دھوپ میں ابر رحمت ہے جنہوں نے مشکلات اور مصائب میں گھرے عوام کی اشک شوئی کی۔ ہمارے ارادوں کو استحکام بخشا۔ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو اسمبلیوں کی نشستوں پر براجمان کیا۔ وڈیروں اور جاگیرداروں کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ گئے۔ ہزاروں کارکنان کی شہادت کا دکھ جھیلا۔ باپ جیسے بڑے بھائی اور جواں سال بھتیجے کی شہادت کا کرب سہا۔ جلا وطنی کی زندگی گزاری، لیکن استحصالی قوتوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے۔ آج بھی حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ حوصلوں کو توڑنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جار ہے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم صرف ایک تحریک اور سیاسی جماعت نہیں، بلکہ جذبوں کی شدت اور حوصلوں کی پختگی کا نام ہے۔ یقینا ہمیشہ کی طرح اللہ ربّ العزت ایم کیو ایم کو اپنے قائد اور رہبر و رہنما جناب الطاف حسین کی سربراہی میں کامیابیوں سے نوازے گا۔ وہی کامیابی جو منزل کا نشان دیتی ہے، یقینا انقلاب کا راستہ استوار ہو رہا ہے۔ سوچ میں تبدیلی کا انقلاب اور نظام کو بدلنے کا انقلاب ۔ وقت قریب ہے لیکن راستہ کٹھن اور دشوار۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے قائد کی حفاظت فرمائے اور انھیں تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے، تاکہ ہم جلد متحدہ قومی موومنٹ کی سالگرہ اپنے قائد کے ساتھ مل کر منائیں (آمین)۔

(متحدہ قومی موومنٹ کے یومِ تاسیس 26جولائی کی مناسبت سے تحریر کیا گیا خصوصی مضمون)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں