اک دیا تھا جو بجھ گیا…
علم کی فضیلت اور اس کے وقار کو توانا کرنے میں برصغیر کا اودھ یعنی لکھنو کا غفران مآب کا وہ گھرانہ ہمیشہ باوقار رہا
جگنو گو کہ بہت چھوٹا اور نظروں سے اوجھل ہونے والا وہ کیڑا تصورکیا جاتا ہے ،جسے عموماً معاشرے خاطر میں نہیں لاتے ،مگر جگنو خاموشی اور وقار کے ساتھ اپنے وجود میں فیض پہنچانے والی صلاحیتوں کے ذریعے وہ برقی طاقت لیے ہوئے ہوتا ہے جو اندھیارے جگ کو روشن کرنے کے لیے ایک نور کی مانند ہوتا ہے اور پھر جب جگنو اپنے جوبن کی مستی میں سرشار مکمل طاقت سے اپنی برقی روشنی بکھیرتا ہے تو گھپ اندھیرے میں بھی سوئی تلاش کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا،یہی کچھ تو اس دیار بے کراں میں قبلہ محسن صاحب نے کیا کہ جن کے نقش پا کو پانے میں خاموش سپاہی کی مانند محمد حسین جتے رہے ،کہتے ہیں کہ علم اور روشنی کا تعلق سماج کا وہ ناتارہاہے جس کی بدولت ہم سماج کی سماجی،سیاسی،اور مذہبی پرتوں کو بہتر طور سے استعمال کر کے ایک انصاف بر مبنی معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ معاشرے کی تعمیر کے لیے وہ کونسے خواص ہیں جن کی بدولت ہم بکھرے ہوئے معاشرے کی گتھی کو سلجھانے کا فریضہ انجام دیں، اہل فکر و دانش نے معاشرتی مسائل کی جانب جب بھی رجوع کرنے کی کوشش کی تو علم ہی اسے وہ سخن ملا جس کے ذریعے عام فرد کی زندگی بہتر خطوط پر استوار کی جا سکتی ہے، حصول علم کے لیے خاک بسر ہونا ہی دراصل علم کی تحقیق اور جستجو کو آگے کرنے کا وہ ذریعہ رہی جس نے عرب کے ریگزار میں علم کو سوا نیزے پر رکھا اور دنیا کے وجود کی وجہ محمد ﷺکی صورت فصیح و بلیغ اور دانا ہستی کائنات کو مرحمت کی،علم و حکمت کا یہ سیل رواں اپنی طاقت اور شرافت کے ساتھ منتقلی کی منزل طے کرکے آخر کار جب یہ اودھ میں داخل ہوا تو اس نے اپنا بسیرا غفران مآب کی ان کٹھیاؤں میں کیا جہاںغربت غرور اور علم پہناوے کی مانند تھا ۔
علم کی فضیلت اور اس کے وقار کو توانا کرنے میں برصغیر کا اودھ یعنی لکھنو کا غفران مآب کا وہ گھرانہ ہمیشہ باوقار رہا کہ جس نے اپنے سینے میں تندہی سے علم و حکمت کے چراغ جلانے کا کام کیا۔وہ لمحہ کسی طور نہیں بھلایا جا سکتا ہے جب دل یہ سن کر دھک سے رہ گیا کہ غفران مآب گھرانے کی آٹھویں پشت کے صاحب علم و بصیرت ،شرافت کی علامت اور قناعت کے چراغ مولانا محمد حسین ہم سب کو روشنی دیتے ہوئے خود بجھ گئے،اس لمحے وجود ماتم کدہ اور زبان گنگ ہو گئی جب اس خبر کی تصدیق پروفیسر مسعودالحسن کے فرزند نے کی،اس غیر متوقع خبر سے سماعتیں سن اور ذہن منتشر ہو گیا،ایسا گمان ہوا کہ ہر سو اندھیارے اپنے پر پھیلانے پر سرشار ہیں اور حقوق شرعیہ ٹرسٹ کے زیر سرپرستی چلنے والے یتیم خانے کے یتیم درے یتیم ہوگئے،یہ وہ یتیم ہیں جن سے اسلحے کی طاقت سے ان کے سر سے نہ صرف سایہ چھینا بلکہ انھیں بے سرو ساماں بھی کیا۔
میرے ارد گرد وہ مناظر گھوم گئے جب یتیم اور مساکین کی داد رسی کے لیے محمد حسین کے والد محمد محسن مجتہد نے پاکستان کی تاریخ کے پہلے یتیم خانے کی بنیاد ڈالی۔معلوم تاریخ جانتی ہے کہ اس محسن مجتہد نے اس یتیم خانے کے لیے 60کی دہائی میں در در کی خاک چھانی اور اہل اقتدار کو اس بات پر قائل کیا کہ یتیم و مساکین کے لیے ایک قطعہ اراضی تفویض کی جائے تاکہ یتیم و بے سہارا افراد کی ذہنی، جسمانی اور سماجی ساخت اور اعلی تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے،اس کٹھن کام میں کن کن دشواریوںسے محسن صاحب گذرے ہوں گے،یہ بات نہ ملت جانتی ہے اور نہ ہی المحسن کی قطعہ اراضی پر قبضہ کرنے والوں کو اس کا ادراک ہوگا۔ محمد حسین نے والد گرامی کے اس قیمتی سماجی اور فلاحی فرض کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہوئے جب اس یتیم خانے کا انتظام و انصرام سنبھالا تو کراچی کو تجارتی بنیادوں پر دیکھنے والوں کی رالیں ٹپک گئیں اور ایک روز تاریکی میں شب خون مارتے ہوئے مولانا محمد حسین کی شرافت پر وار کیا۔
یہ باوقار محمد حسین کی شناخت تھی کہ وہ بد تہذیبی کو صبر کی قبا میں لپیٹے گھر کو سدھارے،اور یتیم و مساکین کی داد رسی کرتے ہوئے بھی اس فلاحی ادارے کے قانونی امور آخر دم تک ادا کرتے رہے مگر نہ کسی سے شکوہ کیا اور نہ ہی شکایت کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ لالچ اور طمع میں انھیں شرافت کی وہ دہلیز چھوڑنا ہوگی جو ان کے خاندان اجتہاد کا شعار ہے لہذا ان کی رگوں میں شرافت اور دیانت کے دوڑنے والے خون نے اجازت نہ دی کہ وہ بدتہذیبی کو سر عام کریں،اسی گھٹن اور کوفت نے انھیں بستر علالت دکھائی مگر انھوں نے وہ بد اخلاقی اور بد تہذیبی نہ اپنائی جو کے قابضین ان سے کروانا چاہتے تھے،یہ کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ محمد حسین آخر وقت تک المحسن میں مدفن اپنے والد کی قبر تک نہ جا پائے، گو آج بھی قانونی اور شرعی طور سے المحسن ھال کے انتظام و انصرام ان کا خانوادہ شرافت اور صبر کے دائرے میں خاموشی سے کر رہا ہے۔
یہی علم و آگہی کی وہ منزل ہے جس سے مولانا محمد حسین بخوبی واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ ان کا منصب سماج کی علمی اور تہذیبی تربیت ہے نہ کہ یزیدی طاقت کا غرور،مولانانے علم کی منزل صبر اور قناعت ہی جانی اور اپنے خاندانی وقار کو بلند ہی رکھا،یہی وہ تربیت تھی جو کہ انھیں غفرا ن مآب گھرانے کے اہل علم و فضل نے دی ۔مولانا محمد حسین کردار و عمل کے غازی کے طور پر نہ صرف اپنے دور کے مجتہد بلکہ جدید علوم پر دسترس رکھنے کے ساتھ طب یونانی پر مکمل عبور رکھتے تھے،مولانا کے دادا محمد مہدی اور نانا آیت اللہ حیدر عباس کا شمار عراق کے اعلی صفات علما میںتھا،مولانا کے والد محمد محسن کلمہ حق کہنے میں جابر اور آمر کے سامنے بھی نہ جھکے، قبلہ محسن صاحب کا زکوۃ کے موضوع پر فتوی آج بھی روشنی کا استعارہ ہے،علم کے پیاسوں کے لیے مولانا محمد حسین کی تقاریر علمی خزینے کی مانند ہیں،جن میں مولانا علی نقوی نقن کا رنگ جا بجا ملے گا،مولانا کی تقاریر اچھوتے اور منفرد موضوع کو چھوتی تھیں کہ جن پر عقل دنگ رہ جائے،مولانا صاحب عالم تقوی کے ساتھ ایک مخلص،ہمدرد اور صاحب ظرف فرد تھے کہ جن کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی میں تمام سماجی اور علمی امور جھلکتے تھے۔
ہر سوال کا مدلل اور پختہ جواب ان کا شیوہ تھا،مولانا محمد حسین نے نو سال عراق و ایران میں تحصیل علم کے لیے صرف کیے اور اپنی صلاحیتوں سے علم کے اعلی درجات کو پایا،مولانا بیک وقت علم، منطق، فقہہ، فلسفہ،تہذیب،ادب اور تاریخ پر مکمل عبور رکھتے تھے ،مولانا کے ہم درس میں علامہ عقیل ترابی اور مولانا رضی جعفر سر فہرست ہیں،مولانا دوستوں کے لیے شجر سایہ کی مانند تھے ، ان کے شاگرد ان سے کسب علم لینے میں ایک طمانیت محسوس کرتے تھے،مولانا گو ہم میں نہیں،مگر ان کی علمیت،شرافت،بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کے ساتھ صبر کی تلقین وہ قیمتی باتیں ہیں جن پہ عمل ہی ہم سب کے لیے مولانا کو خراج پیش کرنے کا اہم ذریعہ ہیں، مولانا کی رحلت پر اہل علم و دانش اور علما کی جانب سے دلجوئی یقیناً ان کے علمی کام کو آگے بڑھانے میں ایک نشان ثانیہ ہوگی، مگراس کے لیے یتیم خانے کے ان یتیموں کو نہ بھولنا بھی ہمارا فرض ہے جو اب تک المحسن ہال میں قابضین کے زیر عتاب ہیں۔