عوام اس مہنگائی کے ہاتھوں مر چلے
ابھی تو حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ تک نہیں کیا تو پہلے ہوشربا مہنگائی نے عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔
حکومت نے گزشتہ چھ ماہ میں اشیائے خورونوش اورضروریات زندگی کی اشیا میں 20 سے40 فیصد اضافہ کرکے عوام کا جینا مزید مشکل کردیا ہے۔اس وقت گھی، دال، چاول اور سبزیوں کی قیمتوں میں گزشتہ چھ ماہ میں تیس فیصد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے، وہ جو '' تبدیلی '' کا ترانہ گاتے ہوئے برسراقتدار آئے انھوں نے مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ جو منتظر فرداہیں وہ تاریک راہوں میں مارے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب خبرآئی ہے حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی مزید مہنگی کرنے سے انکارکر دیا ہے۔ پاکستان نے موقف اختیارکیا ہے کہ وہ فوری طور پر بجلی کے نرخوں اور ٹیکسوں میں اضافے اور مالیاتی پالیسی کو سخت بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ چکنی چپڑی باتیںکرکے ووٹ لینا اور بلند بانگ دعوے کرنے آسان ہوتا ہے، لیکن عملی طور پر پاکستان کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔
معزز وزراء ذرا لاہور شہر کے کسی '' بچت بازار'' کا چکر لگا کر دیکھ لیں تو لگ پتہ جائے گا۔ یہی حال پورے پاکستان کے بازاروں کا ہوچکا ہے ۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ گزشتہ ماہ حکومت نے ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں نو سے پندرہ فی صد تک اضافہ کر دیا تھا ۔ پیٹرول ، گیس اور بجلی کے نرخ پہلے ہی بڑھائے جاچکے ہیں، ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا نظام زمین بوس ہونے جا رہا ہے لیکن حکومت اب بھی عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
حقائق کے مطابق تحریک انصاف کے پانچ ماہ کے دور حکومت میں آلو، پیاز، لہسن سمیت پانچ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے حکومتی دعوؤں میں کھلا تضاد سامنے آگیا ہے، وزیراطلاعات ونشریات نے دعویٰ کیا تھا کہ ن لیگ کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد سے تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے پانچ ماہ کے دوران چکن ، چنے لہسن اور پیاز کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور آلو سستا ہوا ہے.
تاہم وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ان پانچ ماہ کے دوران پیاز اکاون روپے کی بجائے صرف 75 پیسے اور آلو صرف چار روپے فی کلوگرام سستا ہوا۔ البتہ چنے پندرہ روپے سستے ہونے کی بجائے بارہ روپے فی کلوگرام مہنگے ہوئے اور لہسن تین روپے فی کلو سستا ہونے کی بجائے پینتیس روپے فی کلوگرام مہنگا ہوا ہے۔
ابھی تو حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ تک نہیں کیا تو پہلے ہوشربا مہنگائی نے عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے اور اگر معاہدہ ہوجاتا ہے تو اس بارعوام کا دم ہی نکل جائے گا ۔ مہنگائی کوکنٹرول کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومتی ذمے داری ہے، مہنگائی کوکنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں ، ایسا نہ ہوکہ مہنگائی کے ستائے عوام سڑکوں پر نکل آئیں اور مظلوم عوام کے سونامی میں سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے۔
دوسری جانب خبرآئی ہے حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی مزید مہنگی کرنے سے انکارکر دیا ہے۔ پاکستان نے موقف اختیارکیا ہے کہ وہ فوری طور پر بجلی کے نرخوں اور ٹیکسوں میں اضافے اور مالیاتی پالیسی کو سخت بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ چکنی چپڑی باتیںکرکے ووٹ لینا اور بلند بانگ دعوے کرنے آسان ہوتا ہے، لیکن عملی طور پر پاکستان کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔
معزز وزراء ذرا لاہور شہر کے کسی '' بچت بازار'' کا چکر لگا کر دیکھ لیں تو لگ پتہ جائے گا۔ یہی حال پورے پاکستان کے بازاروں کا ہوچکا ہے ۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ گزشتہ ماہ حکومت نے ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں نو سے پندرہ فی صد تک اضافہ کر دیا تھا ۔ پیٹرول ، گیس اور بجلی کے نرخ پہلے ہی بڑھائے جاچکے ہیں، ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا نظام زمین بوس ہونے جا رہا ہے لیکن حکومت اب بھی عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
حقائق کے مطابق تحریک انصاف کے پانچ ماہ کے دور حکومت میں آلو، پیاز، لہسن سمیت پانچ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے حکومتی دعوؤں میں کھلا تضاد سامنے آگیا ہے، وزیراطلاعات ونشریات نے دعویٰ کیا تھا کہ ن لیگ کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد سے تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے پانچ ماہ کے دوران چکن ، چنے لہسن اور پیاز کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور آلو سستا ہوا ہے.
تاہم وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ان پانچ ماہ کے دوران پیاز اکاون روپے کی بجائے صرف 75 پیسے اور آلو صرف چار روپے فی کلوگرام سستا ہوا۔ البتہ چنے پندرہ روپے سستے ہونے کی بجائے بارہ روپے فی کلوگرام مہنگے ہوئے اور لہسن تین روپے فی کلو سستا ہونے کی بجائے پینتیس روپے فی کلوگرام مہنگا ہوا ہے۔
ابھی تو حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ تک نہیں کیا تو پہلے ہوشربا مہنگائی نے عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے اور اگر معاہدہ ہوجاتا ہے تو اس بارعوام کا دم ہی نکل جائے گا ۔ مہنگائی کوکنٹرول کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومتی ذمے داری ہے، مہنگائی کوکنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں ، ایسا نہ ہوکہ مہنگائی کے ستائے عوام سڑکوں پر نکل آئیں اور مظلوم عوام کے سونامی میں سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے۔