دنیا بچانے کے لیے سرگرم گریٹا تھنبرگ
ماحول بچانے کی خواہش میں سڑکوں پرگریٹا اب تنہا نہیں بلکہ ہزاروں بچے ہر جمعے کو گریٹا کے ساتھ آبیٹھتے ہیں۔
CAIRO:
ماحولیات کا موضوع جتنا بڑا ہے ، اس سے زیادہ بڑی وہ بے اعتنائی ہے جو پوری دنیا میں اس حوالے سے برتی جا رہی ہے۔ ایک ایسا دور جب دنیا کے بڑے بڑے ٹھیکے دار ماحولیاتی مسائل کی جانب سے چُپ کی چادر تانے پڑے ہیں، ایسے میں ایک سولہ سالہ بچی کا ماحول کے تحفظ اور بقا کے لیے سرگرم ہونا کم ازکم میرے لیے بڑے اچھنبے کی بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ دنوں اسے، ورلڈ اکنامک فارم جیسے بڑے پلیٹ فارم پر دنیا کے رہنمائوں کوگہری نیند سے جھنجھوڑتے ہوئے دیکھا تو رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی ۔
سویڈن جیسے مہذب اور قانون پسند ملک میں گریٹا تھنبرگ نے گزشتہ سال پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے ماحولیات کے تحفظ کے لیے احتجاج کیا شروع کیا، اس کے بعد یہ موضوع سویڈن میں لوگوں کی عام گفتگوکا حصہ بن گیا۔ کم عمرگریٹا ماحولیات جیسے اہم عنوان کو سیاست کی غلام گردشوں سے نکال کر سڑکوں اور چوراہوں میں لے آئی اور یوں گریٹا ہماری دنیا بچانے کے لیے تنہا میدان میں کودنے والی دنیا کی واحد بچی بن گئی ۔
پچھلے سال سویڈن کی پارلیمنٹ کے انتخابات سے تین ہفتے قبل اس نے اپنے اسکول،کتابوں اور علم کی لگن کی قربانی دی اور اسکول کا دورانیہ وہ بلاناغہ اسٹاک ہوم میں واقع پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے احتجاج میں گزارنے لگی۔ پارلیمنٹ کے انتخابات کے بعد بھی اس نے اپنی ہڑتال ختم نہ کی بلکہ اب وہ ہفتے میں چار دن تو اسکول جاتی ہے لیکن جمعے کو اسکول سے ناغہ کر کے ہڑتال پر بیٹھ جاتی ہے۔ آخرگریٹا چاہتی کیا ہے؟
علوم و فنون کی ترقی کے اس عروج میں وہ ساری توجہ پڑھائی پر مرکوزکیوں نہیں کرتی؟ اپنا بچپن اور بے فکری کا یہ سنہرا دور وہ سڑکوں پر چیختے چلاتے زنگ آلود کیوں کررہی ہے؟کیا اسے دنیا کے دیگر بچوں کی طرح اپنا مستقبل عزیز نہیں؟
اس بارے میں گریٹا کا کہنا ہے کہ اب لازمی ہوگیا ہے کہ حکومت ماحولیات کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرے۔ وہ چاہتی ہے کہ تمام اراکینِ پارلیمنٹ اس بڑے مقصد کی تکمیل میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں ، لیکن ممبران کا کہنا یہ ہے کہ گریٹا کے لیے سب سے اچھی جگہ اسکول ہے اور اسے وہاں ہونا چاہیے نہ کہ سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے۔گریٹا کے والدین بھی احتجاج کی ابتدا میں دنیا کے ہر والدین کی طرح یہی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی اس گھن چکر سے نکل کر صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ دے، لیکن رفتہ رفتہ وہ گریٹا کے اس مقصد میں ساتھی بن گئے۔گریٹا فخر سے کہتی ہے کہ میں جانتی ہوں کہ اسکول بے حد اہم ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ کام ہے جو میں کررہی ہوں۔
سویڈن کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کو اپنی ماحولیاتی پالیسیوں پر ناز ہے۔ پچھلے چند سال سے ایسی پالیسیاں تشکیل دی جارہی ہیں جن کا مقصد سویڈن کو 2045ء تک دنیا کی پہلی فوسل فری ویلفئیر اسٹیٹ بنانا ہے، لیکن گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ماحولیاتی پالیسیوں پر بہت کم بات کی گئی، حتی کہ جولائی میں جب سویڈن میں جدید تاریخ کی سب سے خطرناک آگ بھڑکی اور سویڈن ہیٹ ویوزکی شدید لپیٹ میں آیا، اس کے بعد بھی حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا موضوع نظرانداز کیا گیا۔
ایسے میں گریٹا اپنا بستہ لپیٹ کر اس راستے پر آبیٹھی جو پارلیمنٹ کے ارکان اور دیگر اہم شخصیات کی گزرگاہ تھا۔اس کا کہنا ہے کہ ہمارا مستقبل اسکول نہیں بلکہ یہ دنیا اور اس کا ماحول ہے۔ ساتھ ہی اس نے ماحول کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر ہونے والی تمام کوششوں کو ناکافی اور سست رفتار قرار دیتے ہوئے کہا کہ 2045ء تک تو بہت دیر ہوجائے گی ، وقت ہاتھوں سے نکل جائے گا اورکچھ نہیں بچے گا۔
گریٹا کے والد ایک اداکار اور والدہ سویڈن کی ایک مشہورگلوکارہ ہے۔کچھ عرصے قبل اس کی ماں نے ایک اپنی گھریلو زندگی پر ایک کتاب لکھی، جس میں اس نے انکشاف کیا کہ اس کی دونوں بیٹیاں یعنی گریٹا تھنبرگ اور اور اس کی چھوٹی بہن آٹزم کی بیماری کا شکار ہیں۔ آٹزم بچوں کے لیے ایک پریشان کُن ذہنی کیفیت ہے۔گریٹا کہتی ہے کہ اس مرض کا شکار لوگ عموماً کسی ایک دل چسپی کو اپنا محور بنا لیتے ہیں اور میری دلچسپی کا محور ماحولیات کا تحفظ ہے۔ گویا ایک طرف وہ پوری دنیا سے تو دوسری جانب خود اپنے سے بیک وقت حالتِ جنگ میں ہے۔ نو سال کی عمر سے گریٹا نے ماحولیات جیسے موضوع پر سوچنا اورکام کرنا شروع کردیا تھا ۔ چھ سال اس نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق میں صَرف کیے۔
اس دوران وہ خود کو ایسے طرزِزندگی میں ڈھالتی چلی گئی جو ماحول کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ غیرضروری طور پر لائٹوں اور پانی کے استعمال اور کھانا ضایع کرنے سے گریز کرتی، رفتہ رفتہ اس نے گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا اور بازار سے غیرضروری چیزیں خریدنا بھی، یہاں تک کہ2015ء میں اس نے جہاز کا سفرکرنا چھوڑ دیا، اس کی فیملی کے پاس صرف ایک الیکٹرک کار ہے جس کا استعمال انتہائی ضرورت کے وقت کیا جاتا ہے۔ سالوں کی مسلسل تحقیق اور طرز ِزندگی میں حیرت انگیز تبدیلیوں کے بعد آخر گریٹا نے خود کو اس قابل بنا ہی لیاکہ وہ حکمرانوں کو للکار سکے ، سو وہ ماحول کو بچانے کے لیے سڑکوں پر آگئی۔
گزشتہ دنوں، ٹرین سے بتیس گھنٹے کا سفر طے کرکے گریٹا ڈیوس پہنچی، جہاں ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس ہر سال کی طرح اس سال بھی شہرکی رونقیں بڑھا رہا تھا ۔ اس اجلاس میں گریٹا نے ایک پُراثر تقریرکی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے اب تک کیے جانے والے اقدامات پر دنیا کے رہنمائوں کو آئینہ دکھایا۔گریٹا نے کہا کہ '' ہمارا گھر جل رہا ہے۔ بارہ سال بعد ہم اس بڑی غلطی کو سدھارنے کے قابل بھی نہیں ہوں گے۔ ہم اس معاملے میں اگرچہ ناکام ہوچکے ہیں لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم اس غلطی کو ٹھیک کرلیں۔''
گریٹا نے کہا کہ''اب نرمی سے اس معاملے پر سوچ بچارکا وقت نہیں کہ کیا ہوسکتا ہے اورکیا نہیں، بلکہ وقت آگیا ہے کہ دوٹوک بات کی جائے۔ ہرکوئی کہتا ہے کہ ہم ماحولیات کے مسئلے پر متحرک نہ ہوں بلکہ یہ کام سیاستدانوں کوکرنے دیں، لیکن کیا کریں جب اس کے حل کے لیے کوئی سیاسی امنگ اور جذبہ ہی دکھائی نہ دے رہا ہو۔'' گریٹا کی طویل اور پر اثر تقریرکو پوری دنیا کے میڈیا میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اور اس کے جوش اور جذبے کو سراہا گیا۔
سوشل میڈیا پر اس وقت گریٹا کے کئی ملین فالوورز موجود ہیں۔ ماحول بچانے کی خواہش میں سڑکوں پرگریٹا اب تنہا نہیں بلکہ ہزاروں بچے ہر جمعے کو گریٹا کے ساتھ آبیٹھتے ہیں اور جوگریٹا سے دور ہیں وہ اپنے اپنے اسکولوں کے باہر ہڑتال پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان بچوں کا کہنا ہے کہ جب دنیا کو ہی بقا کا خطرہ لاحق ہو ایسے میں اسکول جاکرکرنا بھی کیا ہے۔ ان بچوں کی بات سے انکار بھلا کیسے ممکن ہے، تعلیم سے مستقبل تو وہ قومیں روشن کرتی ہیں جن کو جینے کا یقین نہیں توکم ازکم امید ہی ہو۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھنور نے تو ساری خوش کن امیدوں کا دم گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔
دنیا کے سارے بچے اپنے بستے اگر ایک طرف نہیں بھی رکھتے توکم ازکم اس میں ایک مضمون کا اور اضافہ توکر ہی سکتے ہیں اور وہ ہے ماحول کا تحفظ ۔کیا بعید کہ اگر بچے اپنے ماحول کی حفاظت کے لیے مچل جائیں تو بڑے اپنی ضد اور انا چھوڑ کر ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔
ماحولیات کا موضوع جتنا بڑا ہے ، اس سے زیادہ بڑی وہ بے اعتنائی ہے جو پوری دنیا میں اس حوالے سے برتی جا رہی ہے۔ ایک ایسا دور جب دنیا کے بڑے بڑے ٹھیکے دار ماحولیاتی مسائل کی جانب سے چُپ کی چادر تانے پڑے ہیں، ایسے میں ایک سولہ سالہ بچی کا ماحول کے تحفظ اور بقا کے لیے سرگرم ہونا کم ازکم میرے لیے بڑے اچھنبے کی بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ دنوں اسے، ورلڈ اکنامک فارم جیسے بڑے پلیٹ فارم پر دنیا کے رہنمائوں کوگہری نیند سے جھنجھوڑتے ہوئے دیکھا تو رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی ۔
سویڈن جیسے مہذب اور قانون پسند ملک میں گریٹا تھنبرگ نے گزشتہ سال پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے ماحولیات کے تحفظ کے لیے احتجاج کیا شروع کیا، اس کے بعد یہ موضوع سویڈن میں لوگوں کی عام گفتگوکا حصہ بن گیا۔ کم عمرگریٹا ماحولیات جیسے اہم عنوان کو سیاست کی غلام گردشوں سے نکال کر سڑکوں اور چوراہوں میں لے آئی اور یوں گریٹا ہماری دنیا بچانے کے لیے تنہا میدان میں کودنے والی دنیا کی واحد بچی بن گئی ۔
پچھلے سال سویڈن کی پارلیمنٹ کے انتخابات سے تین ہفتے قبل اس نے اپنے اسکول،کتابوں اور علم کی لگن کی قربانی دی اور اسکول کا دورانیہ وہ بلاناغہ اسٹاک ہوم میں واقع پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے احتجاج میں گزارنے لگی۔ پارلیمنٹ کے انتخابات کے بعد بھی اس نے اپنی ہڑتال ختم نہ کی بلکہ اب وہ ہفتے میں چار دن تو اسکول جاتی ہے لیکن جمعے کو اسکول سے ناغہ کر کے ہڑتال پر بیٹھ جاتی ہے۔ آخرگریٹا چاہتی کیا ہے؟
علوم و فنون کی ترقی کے اس عروج میں وہ ساری توجہ پڑھائی پر مرکوزکیوں نہیں کرتی؟ اپنا بچپن اور بے فکری کا یہ سنہرا دور وہ سڑکوں پر چیختے چلاتے زنگ آلود کیوں کررہی ہے؟کیا اسے دنیا کے دیگر بچوں کی طرح اپنا مستقبل عزیز نہیں؟
اس بارے میں گریٹا کا کہنا ہے کہ اب لازمی ہوگیا ہے کہ حکومت ماحولیات کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرے۔ وہ چاہتی ہے کہ تمام اراکینِ پارلیمنٹ اس بڑے مقصد کی تکمیل میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں ، لیکن ممبران کا کہنا یہ ہے کہ گریٹا کے لیے سب سے اچھی جگہ اسکول ہے اور اسے وہاں ہونا چاہیے نہ کہ سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے۔گریٹا کے والدین بھی احتجاج کی ابتدا میں دنیا کے ہر والدین کی طرح یہی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی اس گھن چکر سے نکل کر صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ دے، لیکن رفتہ رفتہ وہ گریٹا کے اس مقصد میں ساتھی بن گئے۔گریٹا فخر سے کہتی ہے کہ میں جانتی ہوں کہ اسکول بے حد اہم ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ کام ہے جو میں کررہی ہوں۔
سویڈن کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کو اپنی ماحولیاتی پالیسیوں پر ناز ہے۔ پچھلے چند سال سے ایسی پالیسیاں تشکیل دی جارہی ہیں جن کا مقصد سویڈن کو 2045ء تک دنیا کی پہلی فوسل فری ویلفئیر اسٹیٹ بنانا ہے، لیکن گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ماحولیاتی پالیسیوں پر بہت کم بات کی گئی، حتی کہ جولائی میں جب سویڈن میں جدید تاریخ کی سب سے خطرناک آگ بھڑکی اور سویڈن ہیٹ ویوزکی شدید لپیٹ میں آیا، اس کے بعد بھی حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا موضوع نظرانداز کیا گیا۔
ایسے میں گریٹا اپنا بستہ لپیٹ کر اس راستے پر آبیٹھی جو پارلیمنٹ کے ارکان اور دیگر اہم شخصیات کی گزرگاہ تھا۔اس کا کہنا ہے کہ ہمارا مستقبل اسکول نہیں بلکہ یہ دنیا اور اس کا ماحول ہے۔ ساتھ ہی اس نے ماحول کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر ہونے والی تمام کوششوں کو ناکافی اور سست رفتار قرار دیتے ہوئے کہا کہ 2045ء تک تو بہت دیر ہوجائے گی ، وقت ہاتھوں سے نکل جائے گا اورکچھ نہیں بچے گا۔
گریٹا کے والد ایک اداکار اور والدہ سویڈن کی ایک مشہورگلوکارہ ہے۔کچھ عرصے قبل اس کی ماں نے ایک اپنی گھریلو زندگی پر ایک کتاب لکھی، جس میں اس نے انکشاف کیا کہ اس کی دونوں بیٹیاں یعنی گریٹا تھنبرگ اور اور اس کی چھوٹی بہن آٹزم کی بیماری کا شکار ہیں۔ آٹزم بچوں کے لیے ایک پریشان کُن ذہنی کیفیت ہے۔گریٹا کہتی ہے کہ اس مرض کا شکار لوگ عموماً کسی ایک دل چسپی کو اپنا محور بنا لیتے ہیں اور میری دلچسپی کا محور ماحولیات کا تحفظ ہے۔ گویا ایک طرف وہ پوری دنیا سے تو دوسری جانب خود اپنے سے بیک وقت حالتِ جنگ میں ہے۔ نو سال کی عمر سے گریٹا نے ماحولیات جیسے موضوع پر سوچنا اورکام کرنا شروع کردیا تھا ۔ چھ سال اس نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق میں صَرف کیے۔
اس دوران وہ خود کو ایسے طرزِزندگی میں ڈھالتی چلی گئی جو ماحول کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ غیرضروری طور پر لائٹوں اور پانی کے استعمال اور کھانا ضایع کرنے سے گریز کرتی، رفتہ رفتہ اس نے گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا اور بازار سے غیرضروری چیزیں خریدنا بھی، یہاں تک کہ2015ء میں اس نے جہاز کا سفرکرنا چھوڑ دیا، اس کی فیملی کے پاس صرف ایک الیکٹرک کار ہے جس کا استعمال انتہائی ضرورت کے وقت کیا جاتا ہے۔ سالوں کی مسلسل تحقیق اور طرز ِزندگی میں حیرت انگیز تبدیلیوں کے بعد آخر گریٹا نے خود کو اس قابل بنا ہی لیاکہ وہ حکمرانوں کو للکار سکے ، سو وہ ماحول کو بچانے کے لیے سڑکوں پر آگئی۔
گزشتہ دنوں، ٹرین سے بتیس گھنٹے کا سفر طے کرکے گریٹا ڈیوس پہنچی، جہاں ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس ہر سال کی طرح اس سال بھی شہرکی رونقیں بڑھا رہا تھا ۔ اس اجلاس میں گریٹا نے ایک پُراثر تقریرکی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے اب تک کیے جانے والے اقدامات پر دنیا کے رہنمائوں کو آئینہ دکھایا۔گریٹا نے کہا کہ '' ہمارا گھر جل رہا ہے۔ بارہ سال بعد ہم اس بڑی غلطی کو سدھارنے کے قابل بھی نہیں ہوں گے۔ ہم اس معاملے میں اگرچہ ناکام ہوچکے ہیں لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم اس غلطی کو ٹھیک کرلیں۔''
گریٹا نے کہا کہ''اب نرمی سے اس معاملے پر سوچ بچارکا وقت نہیں کہ کیا ہوسکتا ہے اورکیا نہیں، بلکہ وقت آگیا ہے کہ دوٹوک بات کی جائے۔ ہرکوئی کہتا ہے کہ ہم ماحولیات کے مسئلے پر متحرک نہ ہوں بلکہ یہ کام سیاستدانوں کوکرنے دیں، لیکن کیا کریں جب اس کے حل کے لیے کوئی سیاسی امنگ اور جذبہ ہی دکھائی نہ دے رہا ہو۔'' گریٹا کی طویل اور پر اثر تقریرکو پوری دنیا کے میڈیا میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اور اس کے جوش اور جذبے کو سراہا گیا۔
سوشل میڈیا پر اس وقت گریٹا کے کئی ملین فالوورز موجود ہیں۔ ماحول بچانے کی خواہش میں سڑکوں پرگریٹا اب تنہا نہیں بلکہ ہزاروں بچے ہر جمعے کو گریٹا کے ساتھ آبیٹھتے ہیں اور جوگریٹا سے دور ہیں وہ اپنے اپنے اسکولوں کے باہر ہڑتال پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان بچوں کا کہنا ہے کہ جب دنیا کو ہی بقا کا خطرہ لاحق ہو ایسے میں اسکول جاکرکرنا بھی کیا ہے۔ ان بچوں کی بات سے انکار بھلا کیسے ممکن ہے، تعلیم سے مستقبل تو وہ قومیں روشن کرتی ہیں جن کو جینے کا یقین نہیں توکم ازکم امید ہی ہو۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھنور نے تو ساری خوش کن امیدوں کا دم گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔
دنیا کے سارے بچے اپنے بستے اگر ایک طرف نہیں بھی رکھتے توکم ازکم اس میں ایک مضمون کا اور اضافہ توکر ہی سکتے ہیں اور وہ ہے ماحول کا تحفظ ۔کیا بعید کہ اگر بچے اپنے ماحول کی حفاظت کے لیے مچل جائیں تو بڑے اپنی ضد اور انا چھوڑ کر ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔