افغانستان اچانک امریکی انخلا خطرناک ہوگا

امریکا اور طالبان میں مذاکرات کا ٹرننگ پوائنٹ خاصا ڈرامائی ہوگیا ہے۔


Editorial February 09, 2019
امریکا اور طالبان میں مذاکرات کا ٹرننگ پوائنٹ خاصا ڈرامائی ہوگیا ہے۔ فوٹو: فائل

افغانستان میں امن عمل، قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا طالبان مذاکرات اور پاکستان کے اس پورے معاملہ میں کلیدی کردار پر صورتحال بڑی دلچسپ اور فیصلہ کن رخ اختیار کرچکی ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مسئلہ کے حل کے لیے سیاسی بندوبست ضروری ہے۔ افغانستان سے اچانک امریکی انخلا خطرناک ہوسکتا ہے، بی بی سی ورلڈ سروس کو انٹرویودیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات درست سمت میں ہیں۔

پروگرام کے میزبان نے افغان امن عمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پوچھا کہ موجودہ صورتحال میں آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ جب طالبان اقتدار میں آئیں گے تو کیا وہ القاعدہ کی حمایت کریں گے؟

شاہ محمود قریشی نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے، وہ ذہین لوگ ہیں اور اپنے ملک کو دوبارہ سے بنانا چاہتے ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان صدراشرف غنی کے پشتونوں کے حوالے سے ایک ٹوئٹ کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جوابی ٹویٹ میں اسے غیر ذمے دارانہ اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قراردیا ہے۔

انھوں نے افغان صدر سے کہا ہے کہ افغان قیادت کو اپنے معاملات اور لوگوں کے حل طلب مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ حقیقت میں افغان طالبان اس بات کی وضاحت پہلے اپنے بیان میں کرچکے ہیں کہ وہ پورے افغانستان پر اپنی موناپلی قائم رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، تاہم طالبان کی جانب سے افغان آئین میں تبدیلی اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے بات چیت جاری ہے مگر کب معاہدہ ہوگا کچھ پتا نہیں، وہ امریکا اور طالبان دونوں کے جنگ سے تھک جانے کا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔

ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک مرتبہ پھر بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کی صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ بات صرف وزیر اعظم عمران خان ہی نہیں اقوام متحدہ اور برطانوی دارالعوام کی جانب سے بنائے گئے آل پارٹیز پارلیمانی گروپ سمیت سب یہی کہہ رہے ہیں۔ بھارت کے اندر لوگ بھی اپنی فوج کی ناکامی پر بات کر رہے ہیں کہ کس طرح وہ کشمیریوں کو تنہائی کا شکار کر رہی ہے۔ وہاں فوجی کارروائی کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ۔ ہم اس مسئلہ پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کو تیار ہیں۔

یہ بات انھوں نے برطانوی ٹی وی سکائی نیوز کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کہی ، میزبان ڈومینک ویگھورن نے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ کیا پاکستان کشمیر کو آزاد کرانے کا ارادہ رکھتا ہے؟

تو شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس پر رائے شماری کرا لیتے ہیں۔ لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں یہی وعدہ کیا ہے۔کشمیری جو بھی فیصلہ کریں گے پاکستان اسے قبول کرے گا۔

اس موقع پر پروگرام ورلڈ ویو کے میزبان نے کہا کہ کئی کشمیری پاکستان کی شرائط پر آزادی نہیں چاہتے جس پر وزیر خارجہ نے بھارتی قیادت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پروگرام کے توسط سے میں بھارت کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ آیئے بیٹھیے اور بات کیجیے، میں تیار ہوں، کیا وہ تیار ہیں؟

دریں اثناء امریکا نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان تنازع کے حل کے سلسلے میں مستقبل میں افغانستان میں کسی بھی قسم کا معاہدہ ہونے کی صورت میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

یہ خوش خبری امریکی جنرل جوزف ووٹل نے سنائی ہے، رواں ہفتے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں جنرل جوزف ووٹل نے مزید کہا کہ امریکی فوج کی جنوبی ایشیا میں حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ افغانستان میں مستقبل میں ہونے والے کسی بھی معاہدے میں پاکستان کے 'مفادات' کو تسلیم اور ان کا خیال رکھا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی سیکیورٹی معاونت ختم کیے جانے کے باوجود پاکستان اور امریکا کے درمیان 'چند فوجی تعاون کی سرگرمیاں' جاری ہیں۔

جوزف ووٹل کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں امریکی محکمہ خارجہ میں موجود لوگوں کی حمایت بھی شامل ہے کیونکہ یہ افغانستان میں تنازع کے خاتمے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ مل کر سفارتی حل کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان، امریکا سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے کہ اس جنگ کے اختتام پر کابل کو خصوصاً بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے، ساتھ ہی امریکی ماہرین کا یہ دعویٰ ہے کہ اسی خدشے کے پیش نظر پاکستان نے طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کیے ہیں۔البتہ جنرل ووٹل نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے جس کی وجہ صرف افغان تنازع نہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکا نے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'پاکستان، امریکا کے لیے ہمیشہ ایک اہم ملک رہے گا کیونکہ یہ جوہری ہتھیار کی حامل ایک ایسی ریاست ہے جو روس، چین، بھارت، ایران سے منسلک اور امریکا کے جیو پولیٹیکل مفادات کی حامل ہے'۔امریکی جنرل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے انعقاد میں پاکستانی کوششوں کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ یہ تعاون جاری رہے گا۔

انھوں نے افغانستان کو خطے میں خود مختار ریاست بنانے کو امریکی حکمت عملی کا اہم جزو قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرے اندازے کے مطابق پاکستان نے اس مقصد کے حصول کے لیے زیادہ مددگار اور تعمیری کردار ادا کیا۔ تاہم ساتھ ہی انھوں نے اس بات کی بھی شکایت کی کہ پاکستان کے اقدامات افغانستان میں امریکا کی علاقائی کوششوں میں 'اکثر تناؤ' کا سبب بنتے تھے۔

جنرل ووٹل نے مزید کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں مفاہمت کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی معاونت کے لیے مثبت اقدامات کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات میں معاونت کی۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے مفاہمتی عمل میں مدد نہ کرنے والے طالبان رہنماؤں کو گرفتار یا ملک بدر کرنے کے لیے کوئی ٹھوس یا ناقابل تنسیخ اقدامات بھی نہیں کیے۔

یاد رہے ماسکو کانفرنس کا اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا ہے جس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا پر اتفاق کرتے ہوئے یقین دلایا گیا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ روس کے دارالحکومت ماسکو میں مسئلہ افغانستان پر دو روز تک امن مذاکرات ہوئے جن میں افغانستان کی سیاسی جماعتوں، سابق صدر حامد کرزئی سمیت نمایاں سیاست دانوں اور طالبان کے نمائندوں نے شرکت کی تاہم کابل حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا۔

امریکا اور طالبان میں مذاکرات کا ٹرننگ پوائنٹ خاصا ڈرامائی ہوگیا ہے، مبصرین خطے میں امن طلوع ہوتا دیکھتے ہیں مگر صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ ہمارے بغیر کوئی بریک تھرو نہیں ہوگا، ہمیں نظر انداز نہ کیا جائے۔

ادھر کچھ تجزیہ کاروں کا استدلال ہے کہ افغان ایشو کے تصفیے میں کابل حکومت کو ''ہملٹ'' کے ڈرامہ میں ہملٹ کے مرکزی کردار کی حیثیت حاصل ہے ،اس لیے افغان مسئلہ کے مسلط کردہ حل کی امید میں سارا کھیل انتشار کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ امن کا روڈ میپ بالکل واضح ہونا چاہیے۔ افغانستان کا رویہ بھی مصالحانہ ہونا چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں