فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں
جمہوریت میں فراہم کردہ بنیادی حقوق دہشت گردی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
آرمی پبلک اسکول میں140 ہلاکتوں(جن میں زیادہ تر تعداد بچوں کی تھی) کے بعد 2015 میں نواز شریف حکومت کے دوران فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ دہشت گردی کے مقدمات میں فوجی عدالتیں تیز عدالتی عمل کرتی ہیں اوردہشت گردی کے خلاف مدافعت کا کام کرتی ہیں۔
ایسا اس لیے کیا گیا تھا کہ پاکستان کا عدالتی نظام مؤثر نہیں ہے۔ تمام ثبوتوں کے ہوتے ہوئے بھی قانون کا نفاذ ممکن نہیں ہوپاتا، یہاں تک کہ خطرناک دہشت گردوں کو سزا دینے تک کے معاملے میں بھی قوانین معاون نہیں ہوپاتے۔ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان عدالتوں کے قیام کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ شہریوں کی زندگی اور آزادی کی حفاظت منتخب نمائندوں کی ذمے داری ہے۔ قوانین کے نفاذ کو سیاسی عزم کی کمی مزید پیچیدہ بنادیتی ہے۔
جمہوریت میں فراہم کردہ بنیادی حقوق دہشت گردی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ دنیا میں کوئی جمہوریت اس وقت تک دہشت گردی سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوسکتی جب تک مقامی حکومتوں وغیرہ کے ذریعے حکمرانی میں شہریوں کی شراکت داری نہ ہو۔ قانون سازی اور اصلاحات میں وقت لگتا ہے، بدقسمتی سے دہشت گرد پہلے ہی یہاں تباہی اور قتل و غارت پر آمادہ ہیں۔
حزب اختلاف میں سے کچھ حلقوں نے فوجی عدالتوں میں کسی بھی توسیع کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصور کے خلاف ہے۔ کیا فوجی عدالتوں کے ناقدین اے پی ایس کے بچوں کے انسانی حقوق کاحساب دے سکتے ہیں؟ مغربی ممالک کو بھی غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے نئی سخت گیر قانون سازی کرنا پڑی، امریکا کے ''پیڑیاٹ ایکٹ'' پر غور کریں۔
کتنی ہی مرتبہ خطرناک دہشت گرد پورے کروفر سے کراچی کے پولیس اسٹیشنوں سے بحفاظت نکل آئے اور صرف اس لیے کہ اس وقت کی حکمران جماعتوں کا سیاسی مفاد اسی سے وابستہ تھا۔ یہاں تک کہ انصاف کے کٹہرے تک تو پہنچے، لیکن موجودہ ''قوانین شہادت'' اور گواہوں کو جان کی دھکمیوں کے باعث، انھیں سزائیں نہیں دی جاسکیں۔ سیاسی چالوں کے ساتھ سیاسی عزم و ارادے کی کمی کا امتزاج نہ صرف بیزار کن ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے بھی پست کرتا ہے۔ ان اداروں کے اہلکاروں کے انسانی حقوق کے بارے میں کیا فرمائیے گا جو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں اپنی جانیں قربان کر گئے؟
انسداد دہشت گردی میں ان کی افادیت کو دیکھتے ہوئے،2017 میں فوجی عدالتوں کو مزید دو سال کی توسیع دی گئی۔ چار برس میں 546 مقدمات میں717 کو سزائے موت اور 234 کو قید کی سزا سنائی گئی جب کہ 310 کو سزائے موت دے دے گئی۔ دہشت گردی سے لڑنا ایک قومی مقصد ہے جو جماعتوں کے مفاد اور جماعتی سیاست سے بالاتر ہے۔ دہشت گردی قابو میں توآئی ہے مگر ختم نہیں ہوسکی۔
اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کی ضرورت ہے مگر ایسا حزب اختلاف جماعتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ پارٹی کے بعض بزرج مہروں کے موقف کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ دہشت گردی پر قابو پانے میں فوجی عدالتوں نے معاون کردار ادا کیا ہے، نیز یہ کہ ان کی جماعت ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت کرے گی۔
پیپلزپارٹی کے بعض رہنماؤں نے فوجی عدالتوں کے بارے میں منفی بیانات جاری کیے۔ جب حالات کا تقاضا تھا تو زرداری کی پیپلزپارٹی کی حکومت اور بعد میں نوازشریف کی مسلم لیگ (ن) حکومت، دونوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل رہے۔ اے پی ایس کے سانحے کے بعد قائم ہونے والے سیاسی اتفاق رائے میں دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان بھی شامل تھا۔ سوات اور فاٹا کی آبادی پاکستان میں کسی اور علاقے کے رہنے والے کی طرح ہی اس ملک کے شہری ہیں۔ مگر کیا انھیں باقاعدہ قانونی عمل یا عدالت کے سامنے پیشی یا اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملتا تھا؟
لہٰذا فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والے دراصل مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ تاہم زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے رابطہ ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی توسیع پر غورکرے گی۔ زرداری کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور پاکستان میں منی لانڈرنگ کے جرم میں سزا پانے کی صورت میں بیرون ملک تمام اثاثے اور ای سی ڈی قوانین کے تحت ضبط ہونے کے پیش نظر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زرداری فوجی عدالتوں کی توسیع کی حمایت کرنے کے بدلے میں کیا چاہیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کو قومی سیاسی ایجنڈے میں شریک کرنے کی سیاسی مہارت نہیں رکھتی۔ کرپشن کے خلاف جنگ پاکستان کے مفاد میں تمام دھڑوں کے اتحاد کی راہ کی رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ نااہلی کے باوجود جہانگیر ترین کو اپنی جماعت اور قومی مفاد کے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہیے (ان کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے)۔
سوات، فاٹا اور کراچی میں دہشت گردی کا خاتمہ قانونی عمل کے بغیر ہوا اور یہی صورت حال کا تقاضا تھا۔ کراچی کی وہ تین تاریک دہائیاں یاد کریں جو ہم نے الطاف حسین کی تقاریر سن کر گزاریں، اس کی ایماء اور مفاد کے تحت شہر کی مکمل بندش بھی کل کی ہی بات ہے۔
فوجی عدالتیں جمہوریت سے متصادم نہیں ہیں۔ ہماری عدلیہ اور قانونی نظام کی اصلاح لازماً ہونی چاہیے تاکہ دہشت گردی سے عام عدالتوں میں نمٹا جاسکے۔ تاہم اس دورانیے میں دہشت گردی کے ناسور کو دوبارہ جڑ پکڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس کے خاتمے کے لیے غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی ذرائع ہی بروئے کار لانا ہوں گے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
ایسا اس لیے کیا گیا تھا کہ پاکستان کا عدالتی نظام مؤثر نہیں ہے۔ تمام ثبوتوں کے ہوتے ہوئے بھی قانون کا نفاذ ممکن نہیں ہوپاتا، یہاں تک کہ خطرناک دہشت گردوں کو سزا دینے تک کے معاملے میں بھی قوانین معاون نہیں ہوپاتے۔ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان عدالتوں کے قیام کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ شہریوں کی زندگی اور آزادی کی حفاظت منتخب نمائندوں کی ذمے داری ہے۔ قوانین کے نفاذ کو سیاسی عزم کی کمی مزید پیچیدہ بنادیتی ہے۔
جمہوریت میں فراہم کردہ بنیادی حقوق دہشت گردی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ دنیا میں کوئی جمہوریت اس وقت تک دہشت گردی سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوسکتی جب تک مقامی حکومتوں وغیرہ کے ذریعے حکمرانی میں شہریوں کی شراکت داری نہ ہو۔ قانون سازی اور اصلاحات میں وقت لگتا ہے، بدقسمتی سے دہشت گرد پہلے ہی یہاں تباہی اور قتل و غارت پر آمادہ ہیں۔
حزب اختلاف میں سے کچھ حلقوں نے فوجی عدالتوں میں کسی بھی توسیع کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصور کے خلاف ہے۔ کیا فوجی عدالتوں کے ناقدین اے پی ایس کے بچوں کے انسانی حقوق کاحساب دے سکتے ہیں؟ مغربی ممالک کو بھی غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے نئی سخت گیر قانون سازی کرنا پڑی، امریکا کے ''پیڑیاٹ ایکٹ'' پر غور کریں۔
کتنی ہی مرتبہ خطرناک دہشت گرد پورے کروفر سے کراچی کے پولیس اسٹیشنوں سے بحفاظت نکل آئے اور صرف اس لیے کہ اس وقت کی حکمران جماعتوں کا سیاسی مفاد اسی سے وابستہ تھا۔ یہاں تک کہ انصاف کے کٹہرے تک تو پہنچے، لیکن موجودہ ''قوانین شہادت'' اور گواہوں کو جان کی دھکمیوں کے باعث، انھیں سزائیں نہیں دی جاسکیں۔ سیاسی چالوں کے ساتھ سیاسی عزم و ارادے کی کمی کا امتزاج نہ صرف بیزار کن ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے بھی پست کرتا ہے۔ ان اداروں کے اہلکاروں کے انسانی حقوق کے بارے میں کیا فرمائیے گا جو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں اپنی جانیں قربان کر گئے؟
انسداد دہشت گردی میں ان کی افادیت کو دیکھتے ہوئے،2017 میں فوجی عدالتوں کو مزید دو سال کی توسیع دی گئی۔ چار برس میں 546 مقدمات میں717 کو سزائے موت اور 234 کو قید کی سزا سنائی گئی جب کہ 310 کو سزائے موت دے دے گئی۔ دہشت گردی سے لڑنا ایک قومی مقصد ہے جو جماعتوں کے مفاد اور جماعتی سیاست سے بالاتر ہے۔ دہشت گردی قابو میں توآئی ہے مگر ختم نہیں ہوسکی۔
اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کی ضرورت ہے مگر ایسا حزب اختلاف جماعتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ پارٹی کے بعض بزرج مہروں کے موقف کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ دہشت گردی پر قابو پانے میں فوجی عدالتوں نے معاون کردار ادا کیا ہے، نیز یہ کہ ان کی جماعت ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت کرے گی۔
پیپلزپارٹی کے بعض رہنماؤں نے فوجی عدالتوں کے بارے میں منفی بیانات جاری کیے۔ جب حالات کا تقاضا تھا تو زرداری کی پیپلزپارٹی کی حکومت اور بعد میں نوازشریف کی مسلم لیگ (ن) حکومت، دونوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل رہے۔ اے پی ایس کے سانحے کے بعد قائم ہونے والے سیاسی اتفاق رائے میں دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان بھی شامل تھا۔ سوات اور فاٹا کی آبادی پاکستان میں کسی اور علاقے کے رہنے والے کی طرح ہی اس ملک کے شہری ہیں۔ مگر کیا انھیں باقاعدہ قانونی عمل یا عدالت کے سامنے پیشی یا اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملتا تھا؟
لہٰذا فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والے دراصل مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ تاہم زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے رابطہ ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی توسیع پر غورکرے گی۔ زرداری کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور پاکستان میں منی لانڈرنگ کے جرم میں سزا پانے کی صورت میں بیرون ملک تمام اثاثے اور ای سی ڈی قوانین کے تحت ضبط ہونے کے پیش نظر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زرداری فوجی عدالتوں کی توسیع کی حمایت کرنے کے بدلے میں کیا چاہیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کو قومی سیاسی ایجنڈے میں شریک کرنے کی سیاسی مہارت نہیں رکھتی۔ کرپشن کے خلاف جنگ پاکستان کے مفاد میں تمام دھڑوں کے اتحاد کی راہ کی رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ نااہلی کے باوجود جہانگیر ترین کو اپنی جماعت اور قومی مفاد کے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہیے (ان کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے)۔
سوات، فاٹا اور کراچی میں دہشت گردی کا خاتمہ قانونی عمل کے بغیر ہوا اور یہی صورت حال کا تقاضا تھا۔ کراچی کی وہ تین تاریک دہائیاں یاد کریں جو ہم نے الطاف حسین کی تقاریر سن کر گزاریں، اس کی ایماء اور مفاد کے تحت شہر کی مکمل بندش بھی کل کی ہی بات ہے۔
فوجی عدالتیں جمہوریت سے متصادم نہیں ہیں۔ ہماری عدلیہ اور قانونی نظام کی اصلاح لازماً ہونی چاہیے تاکہ دہشت گردی سے عام عدالتوں میں نمٹا جاسکے۔ تاہم اس دورانیے میں دہشت گردی کے ناسور کو دوبارہ جڑ پکڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس کے خاتمے کے لیے غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی ذرائع ہی بروئے کار لانا ہوں گے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)