صحت کارڈ 

صحت کارڈ کے اجرا سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوجاتی ہے کہ ہمارے ملک میں علاج کا جو نظام ہے وہ صرف ایک دھوکہ تھا۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے، پاکستان میں 50 فیصد آبادی غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ایسے پسماندہ ترین ملک میں جہاں کی 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور عام آدمی کو دو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہے، تعلیم اور علاج کی بات کرنا احمقانہ ہی لگتا ہے، عوام علاج کے بغیر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہوں اور حاملہ عورتوں کو زچگی کے لیے سہولتیں ناپید ہوں۔

اگر کوئی حکومت آبادی کے ایک معقول حصے کو طبی سہولتیں مفت فراہم کرنے جا رہی ہے تو ہماری پیشہ ورانہ اپوزیشن اگر بے جا اور غیر منطقی تنقید کرتی ہے تو اسے تنقید نہیں سیاسی دشمنی ہی سمجھا جاسکتا ہے۔اکہتر سالوں کے دوران کئی '' عوام دوست '' حکومتیں آئیں اور چلی گئیں ، لیکن اس المیے کوکیا کہیں کہ آج تک اس ملک کے عوام علاج کی ابتدائی اور لازمی ضرورت سے محروم ہیں۔

ایسی صورتحال میں اگرکوئی حکومت عوام کو مفت علاج کے لیے ''صحت کارڈ'' کے نام سے طبی سہولتیں فراہم کرتی ہے تو اس کو سراہا جانا چاہیے، اس کی برائی نہیں کی جاسکتی۔ پی ٹی آئی حکومت شہریوں کو جو صحت کارڈ دے رہی ہے اس کے ذریعے 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک صحت کارڈ رکھنے والوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔ اس مفت علاج میں بائی پاس، انجیو پلاسٹی، کینسر، جل جانے، حادثات سے متاثر ہونے والوں، ذیا بیطس وغیرہ کے مریضوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ واضح رہے کہ مفت علاج کے زمرے میں آنے والی ایسی بیماریاں بھی ہیں جن پر لاکھوں روپے خرچ آتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''ان کی حکومت بہت جلد غربت ختم کرنے کے لیے ایک موثر اور مربوط نظام لا رہی ہے۔'' وزیر اعظم کا یہ اعلان بہت دلکش اور دل خوش کن ہے لیکن ہمارے ملک کی سابقہ حکومتوں کی مہربانی سے معیشت کا جو حال ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ سابقہ حکومتیں عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں سے جو اربوں روپے لے کر ڈکار گئے ہیں اس کی ذمے داری اور بوجھ عمران حکومت پر آگیا ہے اتنے بھاری بوجھ کی موجودگی میں ہر خاندان کے لیے 7 لاکھ 20 ہزار روپے کی علاجی سہولتیں فراہم کرنا آسان ہوگا، یہ ایسا سوال ہے جس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ اعلان کے مطابق عوام کو یہ لاکھوں روپوں کی مفت سہولتیں فراہم نہ کی جاسکیں تو نہ صرف حکومت سے عوام کا اعتبار اٹھ جائے گا بلکہ نام نہاد اپوزیشن کو بھی حکومت کو بدنام کرنے اور حکومت کے خلاف تحریکیں چلانے کا موقع ہاتھ آئے گا۔

صحت کارڈ کے اجرا سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوجاتی ہے کہ ہمارے ملک میں علاج کا جو نظام ہے وہ صرف ایک دھوکہ تھا۔ اس حوالے سے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے نام پر جو اسپتال موجود ہیں ان کو اربوں روپے دیے جاتے رہے جو حکومتی اکابرین اور ان کے ہمنواؤں کی نذر ہوتے رہے۔ حالیہ احتساب میں اس قسم کی جعل سازیوں کے سیکڑوں کیس سامنے آئے ہیں۔


یہ درست ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام کے لیے صحت کارڈ کے نام سے عوام کو مفت علاج فراہم کرنے کی جو اسکیم شروع کی جا رہی ہے، اس سے لاکھوں شہریوں کو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اس اسکیم کو چلانے والی مشینری ایماندار اور عوام دوست ہو۔ یہ بات اس لیے کہی جا رہی ہے کہ ماضی میں عوامی بھلائی کی بہت ساری اسکیمیں لائی گئیں اور ان پر اربوں روپے بھی خرچ کیے گئے لیکن یہ اربوں روپے عوام پر خرچ نہیں کیے گئے بلکہ اسے کرپٹ انتظامی مشینری کھا گئی۔

اس کرپٹ انتظامی مشینری کے کئی حکما کرپشن کے الزامات میں زیر حراست ہیں لیکن اب بھی 70 فیصد کرپٹ انتظامی مشینری سابقہ حکومتوں کے دور کی ہے اور کرپشن میں پی ایچ ڈی ہے۔ اس پس منظر میں اگر غیر معمولی احتیاط نہ کی گئی تو ان اسکیموں کا بھی وہی حشر ہوگا جو سابقہ حکومتوں کی اسکیموں کا ہوتا رہا ہے۔

کرپشن اور جمہوریت کو ایک سکے کے دو رخ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ جو لوگ کرپشن سے پاک جمہوریت کے لیے کوششیں کر رہے ہیں انھیں ہمارے کرپشن کے بادشاہ جمہوریت دشمنی کے تمغے بانٹ رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایسا من گھڑت پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ جمہوریت کے حامی بھی پچھلے 10 سالوں کی جمہوری کارکردگی کو دیکھے بغیر جمہوریت کے حامی مجاہدین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر حکومت کی راہ میں کانٹے بچھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہمارے دیہی علاقوں میں رہنے والے عوام کا حال یہ ہے کہ اگر کسی گاؤں میں کسی بندے کو سانپ کاٹ لیتا ہے تو اس گاؤں میں اس کی ویکسین دستیاب نہیں ۔ مریض کو چارپائی پر ڈال کر اسے شہر لے جایا جاتا ہے جہاں ویکسین میسر ہو چونکہ ہمارے دیہی علاقے عملاً ابھی تک جاگیرداروں اور وڈیروں کے کنٹرول میں ہیں لہٰذا ان علاقوں کے سیاہ و سفید کے مالک ابھی تک وڈیرے اور جاگیردار ہی ہیں۔ صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سال پر محیط اس نظام کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انھیں اکھاڑنا آسان نہیں۔

اس حوالے سے ایک المیہ یہ ہے کہ دیہی عوام اب تک ان وڈیروں اور جاگیرداروں کے فسوں سے باہر نہ آسکے ہیں۔ خاندانی اقدار ہماری نئی جمہوریت کا پیش لفظ بنا ہوا ہے ،عوام کی اس نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وڈیرے اور جاگیردار انتخابات میں ہاریوں کسانوں اور دیہی آبادی کے ووٹ لے کر آسانی سے جمہوری بادشاہ بن رہے ہیں۔ شاہی نظام اب اپنی جون بدل کر جمہوری نظام بن گیا ہے۔

71 سال گزر گئے ابھی تک اس نظام سے عوام کی جان نہیں چھوٹی۔ عمران حکومت عوام کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کے جو ارادے باندھ رہی ہے اس کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ عمران حکومت میں ایسے اہل دانش موجود ہیں یا نہیں لیکن اگر عمران حکومت حقائق کا ادراک کیے بغیر آنکھ بند کرکے قدم بڑھاتی رہی تو اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Load Next Story