پولیس اسٹیٹ
ساہیوال کے بعد لورالائی کا سانحہ ایک خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔
لورا لائی بلوچستان کا پسماندہ ضلع ہے۔ اس ضلع میں اکثریت پختونوں کی ہے، اس علاقے کے پختونوں کی غربت کی سطح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اس علاقے میں لوگوں کے روزگارکا انحصار زراعت اور غلہ بانی سے ہے۔ یہاں کے نوجوان روزگار کے لیے کوئٹہ ، لاہور ، اسلام آباد اورکراچی میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ کچھ نوجوان کوئلے کی کانوں میں بھی کام کرتے ہیں۔
کوئلہ کی کانوں میں قدیم طریقہ سے کام ہوتا ہے، یوں حادثات کی شرح زیادہ ہے۔ کانوں میں کام کرنے سے مزدوروں میں دمہ ، ٹی بی،کینسر اور پیٹ کی بیماریاں عام ہیں ۔ لورا لائی کے گاؤں وڑانگہ لوئی میں تین عشرے قبل ایک نوجوان ارمان لوئی پیدا ہوا۔ ارمان کو ابتدائی عمر میں روزگارکی تلاش میں کوئلہ کی کان میں کام کرنا پڑا ۔ کوئلہ کی کان میں کام کرنا ایک سخت اور مشکل کام ہے۔
ارمان کے پاس منشی بننے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا مگر ارمان نے رسمی تعلیم سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ ارمان نے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ پشتو سے پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے لیکچرر مقرر ہوا ۔ ارمان پہلے کوئٹہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتا تھا پھر اس کا تبادلہ لورا لائی میں ہوگیا ۔ ارمان پشتو ادب کا شیدائی تھا۔ اس نے پشتون قبائلی فرسودہ روایات کو مسترد کیا ۔ اپنی بہن کو اعلیٰ تعلیم دلائی ۔
آج ارمان کی بہن اس کے انتقال کے بعد لوگوں کو امن ، دوستی اور جدوجہد کا درس دے رہی ہے۔ ساہیوال میں ایک شہری خلیل کے خاندان کے ماورائے عدالت قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ یہ خاندان اپنے ایک رشتے دارکی شادی کے لیے ساہیوال جا رہا تھا۔ انسداد دہشت گردی کے یونٹ کو ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر ایک ایمرجنسی آپریشن ترتیب دیا گیا تھا۔
اس آپریشن میں خلیل کے خاندان کی گاڑی چلانے والے ڈرائیور ذیشان کو دہشت گرد سمجھا گیا تھا، یوں سیکیورٹی اہلکاروں نے بغیر تصدیق کے اندھا دھند فائرنگ کی، ذیشان، خلیل، ان کی اہلیہ اور ایک 10 سالہ بچی جاں بحق ہوئے۔ پولیس نے کار سے دو بچوں کو نکال کر پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا تھا، اگرچہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے مرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے ہی دیا تھا مگر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جانے والی وڈیو سے چھپے حقائق سامنے آگئے ۔ حکومت پنجاب کو اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انٹرو گیشن ٹیم (J.I.T) قائم کرنی پڑی۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے دعویٰ کیا تھا کہ 48 گھنٹوں میں ملزموں کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا مگر پھر منظرنامہ تبدیل ہونے لگا۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات بار بار فرمانے لگے کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہوگا۔ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے جے آئی ٹی میں بیانات قلم بند ہوئے۔ ان اہلکاروں نے خلیل کے خاندان پر فائرنگ کرنے سے انکارکیا اور کہا کہ یہ فائرنگ ملزمان کے موٹر سائیکلوں پر سوار ملزمان ساتھیوں نے کی جو آسانی سے فرار ہوگئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں ایک جلسے میں ہدایت کی کہ مرنے والے افرادکے لواحقین کے اطمینان کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے گا، مگر اب خبریں آئی ہیں کہ لواحقین کی جے آئی ٹی کے اراکین سے ملاقات کرائی گئی ہے۔ ایک انگریزی کے اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ خلیل کے خاندان کے ایک فیملی ڈاکٹر نے لواحقین کو مشورہ دیا کہ وہ زیادہ سخت رویہ اختیار نہ کریں۔
خلیل کے لواحقین کو صدر اور سینیٹ کے چیئرمین سے ملاقات کے نام پر سخت سردی میں اسلام آباد لے جایا گیا اور گھنٹوں اسلام آباد کی سڑکوں پر گھمانے کے بعد واپس لاہور بھیج دیا گیا۔ اس دن صدر عارف علوی اور سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اسلام آباد میں موجود نہیں تھے۔
اس برے رویے پر وفاق اور پنجاب حکومت کے کسی نمائندے نے معذرت تک نہیں کی۔ جب دو سال قبل کراچی ایسٹ پولیس کے سربراہ راؤ انوار کی قیادت میں ایک اسپیشل اسکواڈ نے سپر ہائی وے پر آپریشن کیا اور محسود قبیلے کے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کو اٹھایا گیا تو بعد میں کراچی ایسٹ پولیس نے ایک پریس نوٹ میں اعلان کیا کہ ایک کامیاب آپریشن میں ایک دہشت گرد نقیب اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کردیا گیا۔
نقیب اللہ کے والدین نے الزام لگایا کہ ان کا بیٹا بے گناہ تھا ، وہ کبھی بھی دہشت گردی کی کسی کارروائی میں شریک نہیں رہا۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے جانے والے مواد سے ثابت ہوا کہ نقیب اللہ بے گناہ تھا۔ اس واقعے پر نوجوانوں نے سپر ہائی وے پر دھرنا دینا شروع کیا۔سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اتوار کو بھی عدالت چلاتے تھے۔ سابق چیف جسٹس نے نقیب اللہ کیس کا ازخود نوٹس لیا۔ ایس ایس پی راؤ انوار کو عدالت میں طلب کیا گیا مگر وہ لاپتہ ہوگئے۔ پھر مہینوں بعد ان کا خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا گیا۔
راؤ انوار نے اس خط میں نقیب اللہ کیس میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہونے کا ارادہ ظاہر کیا، یوں راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت مل گئی۔ راؤ انوار کراچی ملیر کینٹ میں اپنے گھر میں مقید ہوئے۔ حکومت سندھ نے ان کے گھر کو سب جیل قرار دیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جب نقیب اللہ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پبلک پراسیکیوٹر نے تاریخی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
راؤ انوار کے خلاف گواہ پیش نہ ہوئے، یوں راؤ انوار کے بری ہونے کے امکانات بڑھ گئے۔ اگرچہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں ایس ایس پی راؤ انوار کو قتل کا براہِ راست ذمے دار قرار دیا گیا ہے مگر قانونی پیچیدگیاں سمجھنے والے کوئی اور کہانی سنارہے ہیں۔ جب ثاقب نثار چیف جسٹس تھے تو انھوں نے ازخود کارروائی نوٹس کے ذریعے انسانی حقوق کے مقدمات کی سماعت شروع کی تھی، یوں نقیب اللہ کیس سپریم کورٹ تک پہنچا تھا اور پولیس کو ان کا ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنا پڑا تھا۔
سپریم کورٹ کی اس کارروائی سے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے کام کے طریقہ کار اور فیصلہ کرنے والی اتھارٹی کے ناقص فیصلوں کا ذکر ہوتا تھا۔ متعلقہ حکام کو جسٹس ثاقب نثار کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کارروائی کرنا پڑتی تھی مگر جسٹس ثاقب نثارکی ریٹائرمنٹ کے بعد بنے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ازخود نوٹس کے ذریعے انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کے بجائے عدلیہ کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دیں گے اور زیر التواء مقدمات کو نمٹائیں گے۔
17 جنوری کے بعد اعلیٰ عدالت کی انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کا سلسلہ موقوف ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اچھی طرز حکومت ، انصاف کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا۔ وہ پنجاب میں پولیس اور انتظامی اصلاحات پر کام کررہے ہیں مگر ان کی زیر انتظام انتظامیہ اور ماضی کی انتظامیہ میں ابھی تک کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں آپریشن کے ذریعے امن و امان کو قابو میں رکھنا چاہتی ہیں مگر امن و امان بہتر ہونے کے بجائے ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔
ساہیوال کے بعد لورالائی کا سانحہ ایک خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔ امریکا میں قائم ایک غیر سرکاری ادارہ فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے 69 ممالک میں شامل ہے جہاں آزادیوں پر قدغن لگائی جارہی ہے۔ ملک میں سیاسی اور شہری آزادیوں میں کمی ہوئی ہے۔ ہر ماہ ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں میں اضافہ اور سرکاری اہلکاروں کے احتساب نہ ہونے سے محسوس ہورہا ہے کہ ملک پولیس اسٹیٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پولیس اسٹیٹ انسانی حقوق کی پامالی پر کھڑی ہوتی ہے اور ایسی ریاست کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی ہیں ۔