نالائقی کا سمندر
موجودہ منفی پروپیگنڈے کوختم کرنے کی حکمتِ عملی صرف دن رات محنت ہے۔جواس وقت خان کررہا ہے۔
مختلف وجوہات کی بنا پرتحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ایک مربوط اورحددرجہ منظم مہم چلائی جارہی ہے۔ایسے لگ رہاہے کہ پاکستان بننے سے لے کراب تک عمران خان ناکام ترین وزیراعظم ہے۔اس کی ٹیم حددرجہ نالائق ہے۔کسی قسم کاکوئی کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اس طرح کے مختلف الزامات یکسوئی کے ساتھ تواترسے سننے میں آرہے ہیں۔اس منفی پروپیگنڈے کی بدولت عام لوگوں میں کافی حدتک مایوسی کے جذبات پھیل رہے ہیں۔جن افرادکے پاس کم معلومات ہیں،یاجوبات کی تہہ تک جانے کی کوشش نہیں کرتے،لازم ہے کہ اس طرح کی یکطرفہ معلوماتی مہم کے سامنے بے بس سے نظر آرہے ہیں۔ مگر مکمل طورپر غیرتعصب طریقے سے معاملات کوپرکھیں تو صورتحال یکسر مختلف ہے۔
ہاں،ایک اوربات،کہ عمران خان، سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں۔ایک خاص ادارے نے اپنی سہولت کے مدِنظر،خان کو وزیراعظم بنوایاہے۔اسطرح کے الزامات اورگردکو پھیلایا جارہاہے۔دراصل تمام صورتحال کی آڑمیں چندسیاسی اکابرین،اپنی رہائی اورہجرت کی راہ ہموار کرنے میں مشغول ہیں۔
اس اَمرکے ناقابل تردیدثبوت موجود ہیں کہ مسلم لیگ ن کے قائدین،اپنے حددرجہ معاشی جرائم کوچھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مقصد چند اکابرین کاپروپیگنڈے کی اسموک اسکرین قائم کرکے اپنی جان خلاصی کرواناہے۔اس حکمتِ عملی میں میڈیاکے چند افراد،ایک حالیہ قائم شدہ میڈیاسیل اورچنداخبارات ہر اول دستے کاکام سرانجام دے رہے ہیں۔
متوازن نظریہ تویہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت میں آنے کے بعدسوفیصدمسائل حل نہیں کر سکتی۔ دنیاکے کسی بھی سیاسی نظام کودیکھ لیجیے۔آج تک کسی بھی ملک میں کوئی بھی ایسی حکومت نہیں آپائی جوعوامی سطح کے تمام مسائل کوحل کرسکتی ہو۔چین، امریکا، فرانس، یو کے، کہیںپربھی ہرطریقے سے معاملات کوحل کرنے کی استطاعت کسی بھی سیاستدان کے پاس نہیں ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک میں مروجہ انتظامی نظام کیاہے اورسیاسی فیصلوں کوتکمیل تک پہنچانے کی کتنی اہلیت رکھتا ہے۔ یو کے،سویڈن یاناروے میں انتظامی ڈھانچہ موجودہے جو کسی بھی سیاستدان کوالیکشن کے دعوے پورے کرنے میں بخوبی مددکرتاہے۔مگرپاکستان میں یہ انتظامی نظام مکمل طور پر مفلوج ہوچکاہے۔کیونکہ ہم معاملات کوحقیقت کی عینک سے دیکھنے سے محروم ہیں۔لہٰذاکوئی بھی یہ بات نہیں کرتا کہ پرویزمشرف نے انتہائی نادانی کامظاہرہ کرتے ہوئے تحصیل اورضلع کی حدتک صدیوں سے مستندشدہ نظام کو بہیک جنبش قلم بربادکرڈالا۔
تحصیل،ضلع اورڈویژن کی حدتک کوئی مرکزی افسرموجود نہیں ہے،جومکمل اختیار رکھتا ہوکہ حکومتی پالیسی کوعملی جامہ پہناسکے۔ڈپٹی کمشنراورایس ڈی ایم کے عہدوں کوغیرفعال کردیاگیا۔بڑی چیزوں کو چھوڑ دیجیے۔روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول کرنے کا اختیار تک انتظامیہ سے لے لیاگیا۔تجاوزات کوہٹانے اوراس طرح کے دیگرانتہائی اہم مقامی معاملات کودیکھنے کے لیے کوئی سرکاری اہلکاریاادارہ موجودنہیں ہے۔
عدلیہ کے سول ججوں کویہ اختیارتفویض کرنے سے معاملات بگڑگئے ۔ کوئی بھی عدالتی رُکن بازارمیں جاکرمختلف نوعیت کے اہم مقامی مسائل کودیکھنے پرآمادہ نہیں ہے ۔ عدلیہ کی تربیت میں عوامی رابطہ کا عنصرمفقودہے۔نتیجہ یہ کہ ایک غیرفعال نظام وجودمیں آگیاجوکسی بھی کام کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔عمران خان کاسب سے گھمبیرمسئلہ یہ ہے کہ اپنے اعلانات کوعوامی بہبودکی فلاح کے لیے استعمال کرنے کے لیے کس مشینری یامقامی نظام کی طرف جائے۔
اگروہ پرانے انتظامی ڈھانچے کی طرف جاتاہے تولازم ہے کہ عدلیہ کسی بھی قیمت پریہ کام نہیں ہونے دیگی۔پارلیمنٹ میں جائے توحزبِ اختلاف کسی قسم کے مثبت تعاون کااظہار نہیں کریگی۔یہ ایک ایسامسئلہ ہے جس پرسنجیدہ حلقوں میں کوئی بحث نہیں ہوتی۔انتظامی افسرکے طورپر جانتا ہوں کہ تحصیل،ضلع اورڈویژن کی حدتک افسران کوانتظامی اختیارات دیے بغیرکوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی۔
مقامی عدلیہ کے پاس اختیارات آگئے ہیں۔مگراس ذمے داری کوپورا کرنے کاکوئی عملی قدم کم ازکم طالبعلم کی نظر سے نہیں گزرا۔پہلامشورہ یہ ہے کہ تمام جماعتیں،یکسوئی سے بیٹھ کراس صورتحال کومناسب قانون سازی سے حل کریں ۔ عدلیہ کوبھی اپنی مشکلات کے معاملے میں اعتبار میں لیں ۔ مثال دیتاہوں۔تجاوزات،ہٹانے کاکام بہت اچھا ہے ۔ مگرکیایہ واقعی عدالتی حکم پر ہونا چاہیے۔
پرویز مشرف سے پہلے،یہ کام مقامی سطح پرایک مجسٹریٹ کیا کرتا تھا اور خوب کرتاتھا۔بہرحال عمران خان کوایک بااختیار انتظامیہ کی حددرجہ ضرورت ہے۔اس لیے بھی،کہ اس کے الیکشن میں دعوے اوراعلانات غیرمعمولی نوعیت کے ہیں۔ مضبوط انتظامیہ کے بغیران میں سے اکثراعلانات کوپایہ تکمیل تک پہنچانامشکل ہوجائیگا۔مناسب سیاسی حکمتِ عملی سے ابھی بھی تمام کام احسن طریقے سے کیاجاسکتاہے۔
مثال کے طور پرمہنگائی کے جن کوبوتل میں واپس بندکرنے کاکام صرف اورصرف بااختیارمقامی انتظامیہ ہی کرسکتی ہے۔ مثلاً مارکیٹوں میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں پرہروقت کڑی نظررکھنا، زیادہ قیمت وصول کرنے پرسزادینا،یہ معمولی نظرآنے والے کام،ہرگزہرگزمعمولی نہیں ہیں۔خان صاحب اور ان کی ٹیم کواس جانب ، جلدیابدیر سوچنا پڑیگا۔
فعال انتظامی نظام کی عدم موجودگی اور میڈیا میں معاشی معاملات نے وہ منفی فضاپیداکردی،جس سے ہارے ہوئے سیاستدانوں کونئی زندگی مل گئی۔ خاندانِ شریف اور خاندانِ زردار،کی کرپشن پوری دنیامیں ضرب المثل ہے۔ ان کاہرپروجیکٹ پیسہ کمانے کی ترکیب تھی۔ سی پیک کے منصوبوںمیں بھی خود فرمائش کرکے رازداری کی شق رکھوائی۔ لاہورشہرکی اربوں روپے کی سبسڈی ، ترکی کی جس کمپنی کو اداکی جارہی ہے اس میں ہمارے اور ترکی کے حکمرانوں کے فرنٹ مین مبینہ طورپرشامل ہیں ۔
عوام کوسہولت دینے کے بہانے،اربوں روپے،دونوں ہاتھوں سے سمیٹے جارہے تھے۔اگرموجودہ حکومت اسکو بند کرتی ہے،توایک طوفان کھڑاکردیاجائیگا،کہ دیکھیے ہم نے عوام کوسستی ٹرانسپورٹ کی سہولت دی تھی،تحریک انصاف کی حکومت عوام دشمن ہے۔یہ حددرجہ مشکل صورتحال ہے۔جسکوحل کرنے کے لیے حددرجہ محنت بلکہ ریاضت کی ضرورت ہے۔
اب آپ موجودہ احتساب کی طرف آئیے۔ابھی تک طاقتوراحتساب شروع نہیں ہوا۔آل شریف کے خلاف مقدمات اورانکوائریاں ان کے حکومتی دورمیں شروع ہوئیں۔ رعونت اورتکبرکااندازہ لگائیے کہ جب ایک سابقہ چیئرمین نادرانے ووٹوں کی گنتی کو ''جہاں پناہ''کی مرضی کے مطابق کرنے سے انکارکردیا،تونہ صرف انھیں نوکری سے برخاست کردیاگیا۔بلکہ ان کے اہل خانہ کوبھی دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔اس شریف آدمی کوزندگی اورعزت بچانے کے لیے ملک چھوڑناپڑا۔
احتساب کوبے رحم ہوناچاہیے۔اس کی آگ سے معاشی دہشت گردوں کی روحیں تک جلنی چاہئیں۔ مگر آپ ادنیٰ نظام کے کرشمے دیکھیے۔ کہ ''بڑابھائی'' لندن علاج کے لیے راہ ہموارکررہا ہے۔ اور''چھوٹا بھائی'' منسٹر کالونی کے ایک محل میں مساج کروارہاہے۔کیایہ ''آرام دہ احتساب''امریکا ،فرانس، لندن یاسائوتھ کوریامیں ممکن ہے؟ برادرخورد،پی اے سی کی پہلی میٹنگ میں نیب کے عمال کو حکماء بلواکر،دبائومیں لانے کی بھرپورکوشش کرتے رہے۔ گھنٹوں پارلیمنٹ میں اپنی صفائیاں پیش کرتے رہے۔ دھیلے کی کرپشن نہ کرنے کی لاحاصل بحث کو جِلابخشتے رہے ۔ یہ سب کچھ ہمارے نظام کی کمزوریوں کی بدولت ممکن ہے ۔ خیراس پربحث کسی اوروقت۔
معیشت کی زبوں حالی کاگیت اَلاپ کرایک پریشان کن صورتحال پیداکی گئی ہے۔ کیا روس، قطر، سعودی عرب اوردیگرممالک کے تاجران اتنے بھولے ہیں،کہ وہ ایک مردہ معیشت والے ملک میں،اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کررہے ہیں؟عمران خان کوجس صورتحال میں معیشت ملی تھی،صرف پانچ ماہ،میں وہ حددرجہ بہترہوئی ہے۔ مہنگائی ضروربڑھی ہے مگراس کی وجوہات سابقہ حکومت کی ہولناک قرضے کی پالیسی تھی جسکوواپس کرناتقریباًناممکن تھا۔مگرخان جزوی طورپراس میں کامیاب ہوچکا ہے۔
موجودہ منفی پروپیگنڈے کوختم کرنے کی حکمتِ عملی صرف دن رات محنت ہے۔جواس وقت خان کررہا ہے۔ بھٹو کے بعد،سولہ سولہ گھنٹے کام کرنے والایہ دوسراوزیراعظم ہے۔ورنہ سابق''جہاں پناہ''نے تواپنے دورِاقتدارمیں ایک فائل بھی نہیں پڑھی تھی۔یقین نہ آئے توکسی باخبر انسان سے پوچھ لیجیے۔نالائقی کے بحرالکاہل کی گہرائی کا آپ کوبھی پتہ چل جائیگا؟المیہ یہ ہے کہ آج ہم سابقہ مصنوعی قائدین کی بدولت اسی نالائقی کے سمندرمیں ڈوب رہے ہیں!اوربچانے والے کونااہل قراردے رہے ہیں۔
اس طرح کے مختلف الزامات یکسوئی کے ساتھ تواترسے سننے میں آرہے ہیں۔اس منفی پروپیگنڈے کی بدولت عام لوگوں میں کافی حدتک مایوسی کے جذبات پھیل رہے ہیں۔جن افرادکے پاس کم معلومات ہیں،یاجوبات کی تہہ تک جانے کی کوشش نہیں کرتے،لازم ہے کہ اس طرح کی یکطرفہ معلوماتی مہم کے سامنے بے بس سے نظر آرہے ہیں۔ مگر مکمل طورپر غیرتعصب طریقے سے معاملات کوپرکھیں تو صورتحال یکسر مختلف ہے۔
ہاں،ایک اوربات،کہ عمران خان، سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں۔ایک خاص ادارے نے اپنی سہولت کے مدِنظر،خان کو وزیراعظم بنوایاہے۔اسطرح کے الزامات اورگردکو پھیلایا جارہاہے۔دراصل تمام صورتحال کی آڑمیں چندسیاسی اکابرین،اپنی رہائی اورہجرت کی راہ ہموار کرنے میں مشغول ہیں۔
اس اَمرکے ناقابل تردیدثبوت موجود ہیں کہ مسلم لیگ ن کے قائدین،اپنے حددرجہ معاشی جرائم کوچھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مقصد چند اکابرین کاپروپیگنڈے کی اسموک اسکرین قائم کرکے اپنی جان خلاصی کرواناہے۔اس حکمتِ عملی میں میڈیاکے چند افراد،ایک حالیہ قائم شدہ میڈیاسیل اورچنداخبارات ہر اول دستے کاکام سرانجام دے رہے ہیں۔
متوازن نظریہ تویہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت میں آنے کے بعدسوفیصدمسائل حل نہیں کر سکتی۔ دنیاکے کسی بھی سیاسی نظام کودیکھ لیجیے۔آج تک کسی بھی ملک میں کوئی بھی ایسی حکومت نہیں آپائی جوعوامی سطح کے تمام مسائل کوحل کرسکتی ہو۔چین، امریکا، فرانس، یو کے، کہیںپربھی ہرطریقے سے معاملات کوحل کرنے کی استطاعت کسی بھی سیاستدان کے پاس نہیں ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک میں مروجہ انتظامی نظام کیاہے اورسیاسی فیصلوں کوتکمیل تک پہنچانے کی کتنی اہلیت رکھتا ہے۔ یو کے،سویڈن یاناروے میں انتظامی ڈھانچہ موجودہے جو کسی بھی سیاستدان کوالیکشن کے دعوے پورے کرنے میں بخوبی مددکرتاہے۔مگرپاکستان میں یہ انتظامی نظام مکمل طور پر مفلوج ہوچکاہے۔کیونکہ ہم معاملات کوحقیقت کی عینک سے دیکھنے سے محروم ہیں۔لہٰذاکوئی بھی یہ بات نہیں کرتا کہ پرویزمشرف نے انتہائی نادانی کامظاہرہ کرتے ہوئے تحصیل اورضلع کی حدتک صدیوں سے مستندشدہ نظام کو بہیک جنبش قلم بربادکرڈالا۔
تحصیل،ضلع اورڈویژن کی حدتک کوئی مرکزی افسرموجود نہیں ہے،جومکمل اختیار رکھتا ہوکہ حکومتی پالیسی کوعملی جامہ پہناسکے۔ڈپٹی کمشنراورایس ڈی ایم کے عہدوں کوغیرفعال کردیاگیا۔بڑی چیزوں کو چھوڑ دیجیے۔روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول کرنے کا اختیار تک انتظامیہ سے لے لیاگیا۔تجاوزات کوہٹانے اوراس طرح کے دیگرانتہائی اہم مقامی معاملات کودیکھنے کے لیے کوئی سرکاری اہلکاریاادارہ موجودنہیں ہے۔
عدلیہ کے سول ججوں کویہ اختیارتفویض کرنے سے معاملات بگڑگئے ۔ کوئی بھی عدالتی رُکن بازارمیں جاکرمختلف نوعیت کے اہم مقامی مسائل کودیکھنے پرآمادہ نہیں ہے ۔ عدلیہ کی تربیت میں عوامی رابطہ کا عنصرمفقودہے۔نتیجہ یہ کہ ایک غیرفعال نظام وجودمیں آگیاجوکسی بھی کام کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔عمران خان کاسب سے گھمبیرمسئلہ یہ ہے کہ اپنے اعلانات کوعوامی بہبودکی فلاح کے لیے استعمال کرنے کے لیے کس مشینری یامقامی نظام کی طرف جائے۔
اگروہ پرانے انتظامی ڈھانچے کی طرف جاتاہے تولازم ہے کہ عدلیہ کسی بھی قیمت پریہ کام نہیں ہونے دیگی۔پارلیمنٹ میں جائے توحزبِ اختلاف کسی قسم کے مثبت تعاون کااظہار نہیں کریگی۔یہ ایک ایسامسئلہ ہے جس پرسنجیدہ حلقوں میں کوئی بحث نہیں ہوتی۔انتظامی افسرکے طورپر جانتا ہوں کہ تحصیل،ضلع اورڈویژن کی حدتک افسران کوانتظامی اختیارات دیے بغیرکوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی۔
مقامی عدلیہ کے پاس اختیارات آگئے ہیں۔مگراس ذمے داری کوپورا کرنے کاکوئی عملی قدم کم ازکم طالبعلم کی نظر سے نہیں گزرا۔پہلامشورہ یہ ہے کہ تمام جماعتیں،یکسوئی سے بیٹھ کراس صورتحال کومناسب قانون سازی سے حل کریں ۔ عدلیہ کوبھی اپنی مشکلات کے معاملے میں اعتبار میں لیں ۔ مثال دیتاہوں۔تجاوزات،ہٹانے کاکام بہت اچھا ہے ۔ مگرکیایہ واقعی عدالتی حکم پر ہونا چاہیے۔
پرویز مشرف سے پہلے،یہ کام مقامی سطح پرایک مجسٹریٹ کیا کرتا تھا اور خوب کرتاتھا۔بہرحال عمران خان کوایک بااختیار انتظامیہ کی حددرجہ ضرورت ہے۔اس لیے بھی،کہ اس کے الیکشن میں دعوے اوراعلانات غیرمعمولی نوعیت کے ہیں۔ مضبوط انتظامیہ کے بغیران میں سے اکثراعلانات کوپایہ تکمیل تک پہنچانامشکل ہوجائیگا۔مناسب سیاسی حکمتِ عملی سے ابھی بھی تمام کام احسن طریقے سے کیاجاسکتاہے۔
مثال کے طور پرمہنگائی کے جن کوبوتل میں واپس بندکرنے کاکام صرف اورصرف بااختیارمقامی انتظامیہ ہی کرسکتی ہے۔ مثلاً مارکیٹوں میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں پرہروقت کڑی نظررکھنا، زیادہ قیمت وصول کرنے پرسزادینا،یہ معمولی نظرآنے والے کام،ہرگزہرگزمعمولی نہیں ہیں۔خان صاحب اور ان کی ٹیم کواس جانب ، جلدیابدیر سوچنا پڑیگا۔
فعال انتظامی نظام کی عدم موجودگی اور میڈیا میں معاشی معاملات نے وہ منفی فضاپیداکردی،جس سے ہارے ہوئے سیاستدانوں کونئی زندگی مل گئی۔ خاندانِ شریف اور خاندانِ زردار،کی کرپشن پوری دنیامیں ضرب المثل ہے۔ ان کاہرپروجیکٹ پیسہ کمانے کی ترکیب تھی۔ سی پیک کے منصوبوںمیں بھی خود فرمائش کرکے رازداری کی شق رکھوائی۔ لاہورشہرکی اربوں روپے کی سبسڈی ، ترکی کی جس کمپنی کو اداکی جارہی ہے اس میں ہمارے اور ترکی کے حکمرانوں کے فرنٹ مین مبینہ طورپرشامل ہیں ۔
عوام کوسہولت دینے کے بہانے،اربوں روپے،دونوں ہاتھوں سے سمیٹے جارہے تھے۔اگرموجودہ حکومت اسکو بند کرتی ہے،توایک طوفان کھڑاکردیاجائیگا،کہ دیکھیے ہم نے عوام کوسستی ٹرانسپورٹ کی سہولت دی تھی،تحریک انصاف کی حکومت عوام دشمن ہے۔یہ حددرجہ مشکل صورتحال ہے۔جسکوحل کرنے کے لیے حددرجہ محنت بلکہ ریاضت کی ضرورت ہے۔
اب آپ موجودہ احتساب کی طرف آئیے۔ابھی تک طاقتوراحتساب شروع نہیں ہوا۔آل شریف کے خلاف مقدمات اورانکوائریاں ان کے حکومتی دورمیں شروع ہوئیں۔ رعونت اورتکبرکااندازہ لگائیے کہ جب ایک سابقہ چیئرمین نادرانے ووٹوں کی گنتی کو ''جہاں پناہ''کی مرضی کے مطابق کرنے سے انکارکردیا،تونہ صرف انھیں نوکری سے برخاست کردیاگیا۔بلکہ ان کے اہل خانہ کوبھی دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔اس شریف آدمی کوزندگی اورعزت بچانے کے لیے ملک چھوڑناپڑا۔
احتساب کوبے رحم ہوناچاہیے۔اس کی آگ سے معاشی دہشت گردوں کی روحیں تک جلنی چاہئیں۔ مگر آپ ادنیٰ نظام کے کرشمے دیکھیے۔ کہ ''بڑابھائی'' لندن علاج کے لیے راہ ہموارکررہا ہے۔ اور''چھوٹا بھائی'' منسٹر کالونی کے ایک محل میں مساج کروارہاہے۔کیایہ ''آرام دہ احتساب''امریکا ،فرانس، لندن یاسائوتھ کوریامیں ممکن ہے؟ برادرخورد،پی اے سی کی پہلی میٹنگ میں نیب کے عمال کو حکماء بلواکر،دبائومیں لانے کی بھرپورکوشش کرتے رہے۔ گھنٹوں پارلیمنٹ میں اپنی صفائیاں پیش کرتے رہے۔ دھیلے کی کرپشن نہ کرنے کی لاحاصل بحث کو جِلابخشتے رہے ۔ یہ سب کچھ ہمارے نظام کی کمزوریوں کی بدولت ممکن ہے ۔ خیراس پربحث کسی اوروقت۔
معیشت کی زبوں حالی کاگیت اَلاپ کرایک پریشان کن صورتحال پیداکی گئی ہے۔ کیا روس، قطر، سعودی عرب اوردیگرممالک کے تاجران اتنے بھولے ہیں،کہ وہ ایک مردہ معیشت والے ملک میں،اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کررہے ہیں؟عمران خان کوجس صورتحال میں معیشت ملی تھی،صرف پانچ ماہ،میں وہ حددرجہ بہترہوئی ہے۔ مہنگائی ضروربڑھی ہے مگراس کی وجوہات سابقہ حکومت کی ہولناک قرضے کی پالیسی تھی جسکوواپس کرناتقریباًناممکن تھا۔مگرخان جزوی طورپراس میں کامیاب ہوچکا ہے۔
موجودہ منفی پروپیگنڈے کوختم کرنے کی حکمتِ عملی صرف دن رات محنت ہے۔جواس وقت خان کررہا ہے۔ بھٹو کے بعد،سولہ سولہ گھنٹے کام کرنے والایہ دوسراوزیراعظم ہے۔ورنہ سابق''جہاں پناہ''نے تواپنے دورِاقتدارمیں ایک فائل بھی نہیں پڑھی تھی۔یقین نہ آئے توکسی باخبر انسان سے پوچھ لیجیے۔نالائقی کے بحرالکاہل کی گہرائی کا آپ کوبھی پتہ چل جائیگا؟المیہ یہ ہے کہ آج ہم سابقہ مصنوعی قائدین کی بدولت اسی نالائقی کے سمندرمیں ڈوب رہے ہیں!اوربچانے والے کونااہل قراردے رہے ہیں۔