افغانستان میں قیام امن کے اشارے
معاملہ خواہ کچھ بھی پاکستان کو اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر نئی پالیسی کے خدوخال تیار کرلینے چاہیے۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں، ماضی میں اس قسم کی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آئیں، اب امریکا اس معاملے میں بہت سنجیدہ کوشش کررہا ہے اور پاکستان بھی اپنا انتہائی اہم کردار ادا کررہا ہے ، روس بھی اب طالبان کو منانے کے لیے سرگرم ہے جب کہ چین بھی اہم کردار ادا کررہا ہے ، ماسکو میں گزشتہ دنوں ایک اہم کانفرنس بھی ہوئی تھی ، یوں دیکھا جائے تو افغانستان میں امن قائم ہوتا نظر آرہا ہے تاہم ابھی حمتی حل سامنے نہیں آیا ہے۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی اگلے روز کہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ بات چیت بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ جولائی سے پہلے امن معاہدہ ہو جائے۔
امریکی دار الحکومت واشنگٹن میں یو ایس اے انسٹیٹیوٹ آف پیس میں جمعہ کی رات خطاب کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ایک لمبے سفر کے آغاز کے ابھی دو تین قدم ہی اٹھائے ہیں۔ امریکا کے خصوصی ایلچی کے مطابق طالبان فوری طور پر جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح افغانستان کے صدر اشرف غنی کو جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بطور امید وار فائدہ ہو گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ایلیانس فرانسوا پریس (اے ایف پی) کے مطابق زلمے خلیل زاد کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کے لیے مزید کردار ادا کرے۔ ان کے بقول پاکستان نے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کی ہے کیونکہ پاکستان انٹرا افغان ڈائیلاگ کے حق میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا پیغام پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہتر کرنے میں بھی معاون ہو گا۔امریکی ایلچی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے بہتر تعلقات اور خطے میں امن سے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔
زلمے خلیل زاد خود بھی افغان نژاد ہیں ، اس لیے وہ افغانستان کو بخوبی سمجھتے ہیں، ان کے افغانستان کے تمام اسٹیک ہولدڑز کے ساتھ رابطے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ تقریباً ایک مہینے کے دوران افغان طالبان کے نمائندوں سے تین مرتبہ ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے دورے بھی کیے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تومعاملات خاصے آگے بڑھے ہیں۔ خطے کی قوتیں بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے سنجیدگی سے کام کررہی ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اگلے روز بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا جس کے لیے پاکستان نے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور ہم اب بھی یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے خیال میں طالبان کو افغان حکومت سے بات کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان میں انٹرا مذاکرات کے بغیر مصالحت نہیں ہو سکتی۔
ادھر گزشتہ چھ روز دوحہ (قطر) میں افغان طالبان سے مذاکرت میں شریک امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے مذاکرت میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے لیکن اب بھی کچھ معاملات حل طلب ہیں۔ البتہ طالبان ذرائع نے کہا ہے کہ امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا جس کے تحت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی۔
افغان طالبان کے ذرائع کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد اب امن کے اس مسودے کے بارے میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بریفنگ دیں گے ۔ افغانستان میں قیام امن کے معاہدہ کے بارے میں مزید تفصیلات کچھ روز میں سامنے آ سکتی ہیں، اب تک جو پیش رفت سامنے آ رہی ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ افغانستان کے بحران کا حل قریب آ رہا ہے کیونکہ فریقین پہلی بار تسلیم کر رہے ہیں کہ انہو نے اہم معاملات پر خاطرخواہ پیش رفت کی ہے۔
امریکا کے صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی اگر کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کے امریکا کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں تاہم افغانستان اور اس کے اردگرد کے ممالک بھی نئی صورتحال سے متاثر ہوں گے۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے تاکہ یہاں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم ہوجائیں۔پاکستان کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر افغانستان میں کسی سمجھوتے کے تحت امریکا اور نیٹو کی فوجیں واپس چلی جاتی ہیں تو وہاں کے حالات کیا ہوں گے۔
اگر نیا سیٹ افغانستان پر کنٹرول کرلیتا ہے اور وہاں امن قائم ہوجاتا ہے تو پھر پاکستان کے ساتھ وہ کس قسم کے تعلقات قائم کرتا ہے۔معاملہ خواہ کچھ بھی پاکستان کو اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر نئی پالیسی کے خدوخال تیار کرلینے چاہیے اور پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ حتمی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی اگلے روز کہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ بات چیت بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ جولائی سے پہلے امن معاہدہ ہو جائے۔
امریکی دار الحکومت واشنگٹن میں یو ایس اے انسٹیٹیوٹ آف پیس میں جمعہ کی رات خطاب کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ایک لمبے سفر کے آغاز کے ابھی دو تین قدم ہی اٹھائے ہیں۔ امریکا کے خصوصی ایلچی کے مطابق طالبان فوری طور پر جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح افغانستان کے صدر اشرف غنی کو جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بطور امید وار فائدہ ہو گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ایلیانس فرانسوا پریس (اے ایف پی) کے مطابق زلمے خلیل زاد کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کے لیے مزید کردار ادا کرے۔ ان کے بقول پاکستان نے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کی ہے کیونکہ پاکستان انٹرا افغان ڈائیلاگ کے حق میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا پیغام پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہتر کرنے میں بھی معاون ہو گا۔امریکی ایلچی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے بہتر تعلقات اور خطے میں امن سے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔
زلمے خلیل زاد خود بھی افغان نژاد ہیں ، اس لیے وہ افغانستان کو بخوبی سمجھتے ہیں، ان کے افغانستان کے تمام اسٹیک ہولدڑز کے ساتھ رابطے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ تقریباً ایک مہینے کے دوران افغان طالبان کے نمائندوں سے تین مرتبہ ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے دورے بھی کیے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تومعاملات خاصے آگے بڑھے ہیں۔ خطے کی قوتیں بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے سنجیدگی سے کام کررہی ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اگلے روز بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا جس کے لیے پاکستان نے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور ہم اب بھی یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے خیال میں طالبان کو افغان حکومت سے بات کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان میں انٹرا مذاکرات کے بغیر مصالحت نہیں ہو سکتی۔
ادھر گزشتہ چھ روز دوحہ (قطر) میں افغان طالبان سے مذاکرت میں شریک امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے مذاکرت میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے لیکن اب بھی کچھ معاملات حل طلب ہیں۔ البتہ طالبان ذرائع نے کہا ہے کہ امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا جس کے تحت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی۔
افغان طالبان کے ذرائع کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد اب امن کے اس مسودے کے بارے میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بریفنگ دیں گے ۔ افغانستان میں قیام امن کے معاہدہ کے بارے میں مزید تفصیلات کچھ روز میں سامنے آ سکتی ہیں، اب تک جو پیش رفت سامنے آ رہی ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ افغانستان کے بحران کا حل قریب آ رہا ہے کیونکہ فریقین پہلی بار تسلیم کر رہے ہیں کہ انہو نے اہم معاملات پر خاطرخواہ پیش رفت کی ہے۔
امریکا کے صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی اگر کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کے امریکا کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں تاہم افغانستان اور اس کے اردگرد کے ممالک بھی نئی صورتحال سے متاثر ہوں گے۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے تاکہ یہاں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم ہوجائیں۔پاکستان کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر افغانستان میں کسی سمجھوتے کے تحت امریکا اور نیٹو کی فوجیں واپس چلی جاتی ہیں تو وہاں کے حالات کیا ہوں گے۔
اگر نیا سیٹ افغانستان پر کنٹرول کرلیتا ہے اور وہاں امن قائم ہوجاتا ہے تو پھر پاکستان کے ساتھ وہ کس قسم کے تعلقات قائم کرتا ہے۔معاملہ خواہ کچھ بھی پاکستان کو اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر نئی پالیسی کے خدوخال تیار کرلینے چاہیے اور پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ حتمی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔