پاک بھارت مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت

پاکستان کی طرف سے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کئی بار کی جا چکی ہے۔

پاکستان کی طرف سے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کئی بار کی جا چکی ہے۔ فوٹو:فائل

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور بارڈر کھولنے کی تفصیلات طے کرنے کے حوالے سے برف پگھلتی نظر آرہی ہے۔ دونوں ملک تفصیلات طے کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ہاں وزٹ پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ یہ وزٹ سلسلہ وار ہوں گے تاکہ باہمی اختلافات کو دور کیا جاسکے۔

کہا جارہا ہے کہ بات چیت کا آغاز مارچ کے مہینے میں ہونے کا امکان ہے۔ اس مقصد کے لیے امن پسند عناصر کو اکٹھا کیاجائے گا تاکہ بات چیت کے دوران زیادہ وقت پیش نہ آئے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہر دو جانب جہاں آپس میں حالات کو معمول پر لانے کی خواہش رکھنے والے بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ عناصر بھی کمزور نہیں جنھیں عقابی انداز رکھنے والے کہا جاتا ہے جوامن کی فاختہ کو نوچنے کھسوٹنے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔

پاکستان اپنے پڑوسی کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے اصول پر حالات کو سازگار بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن اسے دوسری جانب سے حسب الخواہ جواب نہیں ملتا بلکہ بہانے بہانے سے حالات کو خراب سے خراب تر کردیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مقبوضہ کشمیر اور دیگر قدیمی جھگڑوں سے قطع نظر اگر اب بھارت کی طرف سے پاکستان کے دریائی پانی پر ناجائز قبضے کی کوششوں کو دیکھا جائے تو پاکستان کا مضطرب ہونا بالکل بجا اور جائز ہے کیونکہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی ممکنہ حد تک خلاف ورزیوں پر مصر ہے اور اس کی ازلی خواہش پاکستان کو پیاسا مارنے کی ہے۔

اس حوالے سے پاکستان عالمی عدالت انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹاتا رہا ہے مگر وہاں بھی بھارتی لابی اس قدر مضبوط ہے کہ پاکستان کی صحیح معنوں میں شنوائی ہی نہیں ہوتی۔ سندھ طاس معاہدہ بھارت کی طرف سے پنڈت نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان کے درمیان ہوا تھا جس کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے تین دریا مکمل طور پر خرید لیے تھے۔ لیکن بعد میں پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بھی ڈیم تعمیر کرنے شروع کردیئے۔

پاکستان کی طرف سے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف کی چوکھٹ پر لے جایا گیا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت مقبوضہ وادی کشمیر میں ''RULE OF TERROR'' یعنی دہشت کی حکمرانی عاری کرچکا ہے جہاں کشمیری مسلمانوں کی آئے دن کی ہلاکتیں وہاں پر شہدا کے قبرستانوں میں اضافہ کررہی ہیں جب کہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے والے بھارت کو کوئی احساس نہیں کہ اس کی مقبوضہ ریاستوں میں انسانی حقوق کو کس بری طرح پامال کیا جارہا ہے۔


غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندرا مودی کی حکومت کا وجود ہی پاکستان دشمنی پر قائم ہے اور اب چونکہ وہاں پھر الیکشن ہونے والے ہیں لہٰذا بھارت اپنی پاکستان دشمنی کی پالیسی میں ذرہ برابر بھی رودبدل نہیں کرنا چاہتا۔ بہرحال اگر کرتار پور کے معاملہ پر کوئی پیش رفت ہورہی ہے تو یہ خوش آئندہ ہے اور اس کے اثرات جامع مذاکرات کے انعقاد کی راہ بھی ہموار کرسکتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی بریک تھرو ہونا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ کرتارپور بارڈر کے حوالے سے دونوں ملک اگر مذاکرات پر تیار ہوتے ہیں اور اس منصوبے پر کام کا آغاز ہو جاتا ہے تو یہ بڑا بریک تھرو ہو گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان جلدازجلد جامع مذاکرات کا ٹوٹا ہوا سلسلہ بھی بحال ہونا چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ آج کا دور جنگوں کا دور نہیں ہے، اب اقتصادی زبان میں ہی بات چیت ہو گی۔

پاکستان کی طرف سے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کئی بار کی جا چکی ہے۔ بھارت کے پالیسی سازوں کو بھی حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے۔ موجودہ حالات میں جب کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں، امریکا اس میں بہت سنجیدہ ہے، اسی طرح بھارت کو بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو تنازعات موجود ہیں، بھارت کے پالیسی سازوں کو ان کا پوری طرح پتہ ہے۔ اگر بھارت کی قیادت چاہے تو تنازعات کے حل کی جانب سفر کا آغاز ہو سکتا ہے۔

جنگوں سے یہ مسئلہ پہلے حل ہوا ہے نہ آج ہو گا۔ بی جے پی اگر اپنی سیاست کو بچانے کے لیے بھارت میں پاکستان دشمنی کی فضا کو برقرار رکھتی ہے تو اس کا یہ اقدام دراصل اس پورے خطے کے مفادات کے خلاف ہے۔ پاکستان میں 2018ء کے الیکشن میں کسی جماعت نے بھارت دشمنی کی بنیاد پر الیکشن نہیں لڑا، اس لیے پاکستان میں جو بھی حکومت برسراقتدار آئی ہے اس نے بھارت کی جانب دوستی کا ہی ہاتھ بڑھایا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت بھی حالات کی سنگینی کو سمجھے اور گروہی مفادات کے لیے انتہاپسندی کی سیاست کو ترک کر دے۔

 
Load Next Story