مودی کی چاپلوسی کام نہ آئی
اب تو مودی کا چاہ بہار بندرگاہ سے فائدہ اٹھانے کا خواب بھی چکنا چور ہوکر رہ گیا ہے۔
ISLAMABAD:
افغانستان میں جلد امن قائم ہونے کے امکان کو اگرچہ پوری دنیا میں ایک خوش خبری کے طور پر لیا جا رہا ہے مگر بھارت میں اس خبر نے صف ماتم بچھا دی ہے۔ نریندر مودی جو امریکی صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کر رہے تھے اب بجھے بجھے سے نظر آرہے ہیں ۔ پہلے وہ ٹرمپ سے جہاں بھی ملتے وہ انھیں سینے سے لگا کر ایسی زوردار جپھی مارتے کہ اردگرد موجود رہنما بھی ان کی اس بے وقوفی یا جی حضوری پر مسکرا کر رہ جاتے۔
خود بھارتی عوام ان کی اس غیر معمولی حرکت کا مذاق اڑا رہے تھے۔ مودی سمجھتے تھے کہ وہ اوباما کی طرح ٹرمپ کو بھی پٹا لیں گے اور ان سے افغانستان میں بھارت کے مفاد میں فیصلے کراتے رہیں گے مگر ٹرمپ اوباما اور جونیئر بش سے بہت مختلف ثابت ہوئے ہیں دراصل وہ سیاستدان کم اور تاجر زیادہ ہیں ۔
وہ مودی کی چالاکی کو بھانپ چکے تھے کہ وہ ان کی چاپلوسی کیوں کر رہے ہیں مگر وہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے بھارت نواز مشوروں کی وجہ سے مودی کو برداشت کرتے رہے اور پاکستان کے گرد روز بہ روز گھیرا تنگ کرتے رہے انھیں ان کی کابینہ کے مودی نواز ریٹائرڈ فوجی وزرا بھارت کے افغانستان میں جاری نام نہاد فلاحی منصوبوں کا ذکر کرتے رہے اور مودی کی امریکا کے لیے مخلصی اور خیر خواہی کے جذبات کا اظہار کرکے صدر ٹرمپ کو خوش کرتے رہے مگر وہ بھول گئے تھے کہ ٹرمپ ایک جہاں دیدہ زیرک انسان ہیں۔
وہ سیاستدانوں کی سیاست اور ان کی درپردہ سازشوں سے غافل رہنے والے شخص نہیں ہیں۔ وہ اپنے وزیروں کی بھارت کی جانب ضرورت سے زیادہ جھکاؤ اور مودی کی طرفداری سے اندازہ کرچکے تھے کہ ضرور دال میں کالا ہے اور پھر وہ ہوا کہ جس نے بھارت نواز وزیروں خاص طور پر وزیر دفاع جنرل میئس اور وزیر خارجہ پومیو سمیت افغانستان میں متعین امریکی جنرلز، اشرف غنی اور کرزئی کی جان نکال دی۔
صدر ٹرمپ نے اچانک افغانستان سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے کا اعلان کردیا۔ وہ دراصل اب افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کی ٹھان چکے تھے۔ ان کے اس فیصلے سے یقینا امریکی عوام نے سکون کا سانس لیا کیونکہ اس طرح نہ صرف امریکا رسوائی سے بچ سکے گا بلکہ وہ اربوں ڈالر جو افغان جنگ میں امریکی حکومت بلاوجہ ضایع کر رہی ہے وہ اب ان کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکیں گے۔
اس فیصلے سے امریکا میں بھاری معاوضے پر بھارت کے مفاد میں کام کرنے والی لابیوں کو زبردست دھچکا پہنچا۔ ادھر امریکی حکومت کے اندر بھارت کے لیے کام کرنے والی ٹیم بھی حیرت زدہ رہ گئی کیونکہ وہ اپنی لاکھ کوشش کے باوجود بھی ٹرمپ کو افغانستان میں فوجیں برقرار رکھنے کے لیے قائل نہ کرسکی۔ اب امریکی فوجوں کی واپسی بھارت کے لیے ایک بڑا المیہ بن گئی ہے۔
مودی کی پاکستان مخالف ساری محنت، بھاگ دوڑ اور سرمایہ کاری بے سود ثابت ہوئی ہے امریکی وزیر دفاع اور بلکہ وزیر خارجہ بھی بھارت کی طرف داری میں اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو مطعون کرتے اور افغانستان میں امریکی فوج کی ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے۔ وہ پاکستان میں طالبان کے خفیہ ٹھکانوں کی موجودگی کا بڑی ڈھٹائی سے واویلا کرتے۔ اس پروپیگنڈے کو مزید ہوا دینے کے لیے افغان کٹھ پتلی صدر اور کرزئی پیش پیش رہتے صدر ٹرمپ نے پاکستان کو کچھ عرصہ قبل یہ کہہ کر ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ امریکی اربوں ڈالر لے کر بھی امریکی مفادات کے خلاف کام کرتا رہا۔ اسے اب کوئی امداد نہیں دی جائے گی۔
ٹرمپ کو اس بدکلامی پر اکسانے میں بھارت نواز امریکی وزرا اور افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کا اہم کردار تھا۔ افغان جنگ کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ابتدا جونیئر بش کی بے وقوفی سے ہوئی بعد میں بھارت نے پاکستان دشمنی میں بش انتظامیہ اور افغان کٹھ پتلی حکومت سے گٹھ جوڑ کرکے اسے لامتناہی بنانے کا پروگرام بنالیا تھا۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ جنگ طویل سے طویل ہوتی رہے تاکہ وہ سکون سے وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرا کے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی اسے سزا دے سکے بھارتی ''را'' تو وہاں ایک زمانے سے ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔
بھارت وہاں جونیئر بش کی مہربانی سے پاکستانی سرحد سے ملحق کئی شہروں میں اپنے نام نہاد قونصل خانے بنا چکا ہے جہاں اصل میں پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے افغانوں نے اور منحرف بلوچوں کو باقاعدہ دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ حال ہی میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر کیے گئے حملے میں ملوث دہشت گردوں کو بھی افغانستان میں ہی تربیت دی گئی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت محض پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کا خواہاں ہے مگر لگتا ہے ٹرمپ کے کچھ ایسے مشیر بھی ہیں جنھوں نے ٹرمپ کو بھارت کی اس سازش میں شریک امریکی وزرا کے کردار کا بھانڈا پھوڑ دیا اور ان کے پاکستان مخالف رویے کی وجہ بھی کھول کر ان کے سامنے رکھ دی تو ٹرمپ اصل صورتحال سمجھ گئے کہ افغان جنگ کو جاری رکھنے کے سلسلے میں ان کے وزرا اور فوجی کمانڈرکیوں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں جب کہ افغانستان امریکی فوجیوں کے لیے جہنم کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ وہ پھر بھارت پر پھٹ پڑے۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں مودی کی چالاکی کی پول کھولتے ہوئے کہا ''مودی نے افغانستان میں ایک لائبریری بنانے کی خبر دی ہے۔
یہ اچھی خبر ہے مگر کیا بھارت اتنا خرچ کر رہا ہے جتنا ہم وہاں کر رہے ہیں؟ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں اس کے منصوبوں پر ہم اس کا شکریہ ادا کریں۔ مودی بہت اسمارٹ ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے تمام منصوبوں کا خرچ امریکی خرچ کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔'' مودی جو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ٹرمپ کو شیشے میں اتار چکے ہیں اور ان کی چاپلوسی سے ٹرمپ پانی پانی ہوچکے ہیں لہٰذا انھیں افغانستان میں کامیابیوں کو سمیٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ ہمیشہ ہی افغانستان میں موجود رہیں گے اور پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو پورا کرتے رہیں گے ساتھ ہی افغانستان میں اپنی تجارت کو وسیع سے وسیع تر کرتے رہیں گے۔
اب تو مودی کا چاہ بہار بندرگاہ سے فائدہ اٹھانے کا خواب بھی چکنا چور ہوکر رہ گیا ہے۔ ٹرمپ کے ہاتھوں بے عزتی پر بھارتی دانشوروں اور میڈیا نے مودی کی خوب خبر لی اور ان کی اسمارٹ خارجہ پالیسی کو ناکام قرار دیا ہے۔ اندرونی طور پر مودی پہلے ہی ناکام سیاستدان ثابت ہوچکے ہیں وہ ملک میں نام کمانے کے بجائے رافیل لڑاکا طیاروں کی خریداری میں کمیشن لینے کا داغ بھی اپنے اوپر لگا بیٹھے ہیں۔
اب طالبان کا اصلی امتحان بھی شروع ہونے والا ہے کہ وہ اب معاملات کو کیسے چلاتے ہیں۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ وہ اب اپنی پرانی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں ان کے لیے اندرونی طور پر امن قائم کرنے کا مرحلہ بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
بھارت طالبان کی حکومت بننے کے بعد بھی خاموشی سے نہیں بیٹھے گا وہ شمالی اتحاد والوں کو بھڑکا کر مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔ وہاں موجود داعش اور بھارت نواز دہشت گردوں کا صفایا بھی ضروری ہے۔ اب پاکستان کو بھی افغانستان کے بارے میں نئی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی امید ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی زیر نگرانی یہ کام بخیر و خوبی انجام پا جائے گا۔
افغانستان میں جلد امن قائم ہونے کے امکان کو اگرچہ پوری دنیا میں ایک خوش خبری کے طور پر لیا جا رہا ہے مگر بھارت میں اس خبر نے صف ماتم بچھا دی ہے۔ نریندر مودی جو امریکی صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کر رہے تھے اب بجھے بجھے سے نظر آرہے ہیں ۔ پہلے وہ ٹرمپ سے جہاں بھی ملتے وہ انھیں سینے سے لگا کر ایسی زوردار جپھی مارتے کہ اردگرد موجود رہنما بھی ان کی اس بے وقوفی یا جی حضوری پر مسکرا کر رہ جاتے۔
خود بھارتی عوام ان کی اس غیر معمولی حرکت کا مذاق اڑا رہے تھے۔ مودی سمجھتے تھے کہ وہ اوباما کی طرح ٹرمپ کو بھی پٹا لیں گے اور ان سے افغانستان میں بھارت کے مفاد میں فیصلے کراتے رہیں گے مگر ٹرمپ اوباما اور جونیئر بش سے بہت مختلف ثابت ہوئے ہیں دراصل وہ سیاستدان کم اور تاجر زیادہ ہیں ۔
وہ مودی کی چالاکی کو بھانپ چکے تھے کہ وہ ان کی چاپلوسی کیوں کر رہے ہیں مگر وہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے بھارت نواز مشوروں کی وجہ سے مودی کو برداشت کرتے رہے اور پاکستان کے گرد روز بہ روز گھیرا تنگ کرتے رہے انھیں ان کی کابینہ کے مودی نواز ریٹائرڈ فوجی وزرا بھارت کے افغانستان میں جاری نام نہاد فلاحی منصوبوں کا ذکر کرتے رہے اور مودی کی امریکا کے لیے مخلصی اور خیر خواہی کے جذبات کا اظہار کرکے صدر ٹرمپ کو خوش کرتے رہے مگر وہ بھول گئے تھے کہ ٹرمپ ایک جہاں دیدہ زیرک انسان ہیں۔
وہ سیاستدانوں کی سیاست اور ان کی درپردہ سازشوں سے غافل رہنے والے شخص نہیں ہیں۔ وہ اپنے وزیروں کی بھارت کی جانب ضرورت سے زیادہ جھکاؤ اور مودی کی طرفداری سے اندازہ کرچکے تھے کہ ضرور دال میں کالا ہے اور پھر وہ ہوا کہ جس نے بھارت نواز وزیروں خاص طور پر وزیر دفاع جنرل میئس اور وزیر خارجہ پومیو سمیت افغانستان میں متعین امریکی جنرلز، اشرف غنی اور کرزئی کی جان نکال دی۔
صدر ٹرمپ نے اچانک افغانستان سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے کا اعلان کردیا۔ وہ دراصل اب افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کی ٹھان چکے تھے۔ ان کے اس فیصلے سے یقینا امریکی عوام نے سکون کا سانس لیا کیونکہ اس طرح نہ صرف امریکا رسوائی سے بچ سکے گا بلکہ وہ اربوں ڈالر جو افغان جنگ میں امریکی حکومت بلاوجہ ضایع کر رہی ہے وہ اب ان کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکیں گے۔
اس فیصلے سے امریکا میں بھاری معاوضے پر بھارت کے مفاد میں کام کرنے والی لابیوں کو زبردست دھچکا پہنچا۔ ادھر امریکی حکومت کے اندر بھارت کے لیے کام کرنے والی ٹیم بھی حیرت زدہ رہ گئی کیونکہ وہ اپنی لاکھ کوشش کے باوجود بھی ٹرمپ کو افغانستان میں فوجیں برقرار رکھنے کے لیے قائل نہ کرسکی۔ اب امریکی فوجوں کی واپسی بھارت کے لیے ایک بڑا المیہ بن گئی ہے۔
مودی کی پاکستان مخالف ساری محنت، بھاگ دوڑ اور سرمایہ کاری بے سود ثابت ہوئی ہے امریکی وزیر دفاع اور بلکہ وزیر خارجہ بھی بھارت کی طرف داری میں اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو مطعون کرتے اور افغانستان میں امریکی فوج کی ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے۔ وہ پاکستان میں طالبان کے خفیہ ٹھکانوں کی موجودگی کا بڑی ڈھٹائی سے واویلا کرتے۔ اس پروپیگنڈے کو مزید ہوا دینے کے لیے افغان کٹھ پتلی صدر اور کرزئی پیش پیش رہتے صدر ٹرمپ نے پاکستان کو کچھ عرصہ قبل یہ کہہ کر ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ امریکی اربوں ڈالر لے کر بھی امریکی مفادات کے خلاف کام کرتا رہا۔ اسے اب کوئی امداد نہیں دی جائے گی۔
ٹرمپ کو اس بدکلامی پر اکسانے میں بھارت نواز امریکی وزرا اور افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کا اہم کردار تھا۔ افغان جنگ کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ابتدا جونیئر بش کی بے وقوفی سے ہوئی بعد میں بھارت نے پاکستان دشمنی میں بش انتظامیہ اور افغان کٹھ پتلی حکومت سے گٹھ جوڑ کرکے اسے لامتناہی بنانے کا پروگرام بنالیا تھا۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ جنگ طویل سے طویل ہوتی رہے تاکہ وہ سکون سے وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرا کے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی اسے سزا دے سکے بھارتی ''را'' تو وہاں ایک زمانے سے ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔
بھارت وہاں جونیئر بش کی مہربانی سے پاکستانی سرحد سے ملحق کئی شہروں میں اپنے نام نہاد قونصل خانے بنا چکا ہے جہاں اصل میں پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے افغانوں نے اور منحرف بلوچوں کو باقاعدہ دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ حال ہی میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر کیے گئے حملے میں ملوث دہشت گردوں کو بھی افغانستان میں ہی تربیت دی گئی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت محض پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کا خواہاں ہے مگر لگتا ہے ٹرمپ کے کچھ ایسے مشیر بھی ہیں جنھوں نے ٹرمپ کو بھارت کی اس سازش میں شریک امریکی وزرا کے کردار کا بھانڈا پھوڑ دیا اور ان کے پاکستان مخالف رویے کی وجہ بھی کھول کر ان کے سامنے رکھ دی تو ٹرمپ اصل صورتحال سمجھ گئے کہ افغان جنگ کو جاری رکھنے کے سلسلے میں ان کے وزرا اور فوجی کمانڈرکیوں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں جب کہ افغانستان امریکی فوجیوں کے لیے جہنم کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ وہ پھر بھارت پر پھٹ پڑے۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں مودی کی چالاکی کی پول کھولتے ہوئے کہا ''مودی نے افغانستان میں ایک لائبریری بنانے کی خبر دی ہے۔
یہ اچھی خبر ہے مگر کیا بھارت اتنا خرچ کر رہا ہے جتنا ہم وہاں کر رہے ہیں؟ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں اس کے منصوبوں پر ہم اس کا شکریہ ادا کریں۔ مودی بہت اسمارٹ ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے تمام منصوبوں کا خرچ امریکی خرچ کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔'' مودی جو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ٹرمپ کو شیشے میں اتار چکے ہیں اور ان کی چاپلوسی سے ٹرمپ پانی پانی ہوچکے ہیں لہٰذا انھیں افغانستان میں کامیابیوں کو سمیٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ ہمیشہ ہی افغانستان میں موجود رہیں گے اور پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو پورا کرتے رہیں گے ساتھ ہی افغانستان میں اپنی تجارت کو وسیع سے وسیع تر کرتے رہیں گے۔
اب تو مودی کا چاہ بہار بندرگاہ سے فائدہ اٹھانے کا خواب بھی چکنا چور ہوکر رہ گیا ہے۔ ٹرمپ کے ہاتھوں بے عزتی پر بھارتی دانشوروں اور میڈیا نے مودی کی خوب خبر لی اور ان کی اسمارٹ خارجہ پالیسی کو ناکام قرار دیا ہے۔ اندرونی طور پر مودی پہلے ہی ناکام سیاستدان ثابت ہوچکے ہیں وہ ملک میں نام کمانے کے بجائے رافیل لڑاکا طیاروں کی خریداری میں کمیشن لینے کا داغ بھی اپنے اوپر لگا بیٹھے ہیں۔
اب طالبان کا اصلی امتحان بھی شروع ہونے والا ہے کہ وہ اب معاملات کو کیسے چلاتے ہیں۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ وہ اب اپنی پرانی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں ان کے لیے اندرونی طور پر امن قائم کرنے کا مرحلہ بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
بھارت طالبان کی حکومت بننے کے بعد بھی خاموشی سے نہیں بیٹھے گا وہ شمالی اتحاد والوں کو بھڑکا کر مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔ وہاں موجود داعش اور بھارت نواز دہشت گردوں کا صفایا بھی ضروری ہے۔ اب پاکستان کو بھی افغانستان کے بارے میں نئی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی امید ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی زیر نگرانی یہ کام بخیر و خوبی انجام پا جائے گا۔