گمشدہ کتابیں

فاطمہ حسن نے اپنے مضمون میں کئی شعری مجموعوں کا تعارف کرایا ہے اور اشعار کا انتخاب بھی لاجواب ہے۔

nasim.anjum27@gmail.com

آج میرا ان کتابوں پر خامہ فرسائی کا ارادہ ہے جو گم ہوگئی تھیں یا کتابوں کے ڈھیر تلے دب گئی تھیں اور ایسی کتابوں کی تلاش بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں سو چھٹی والے دن ہم نے یہ معرکہ انجام دے ڈالا اور ان پر لکھنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو اس کا سبب یہی تھا تو جناب! ''دامنِ صد چاک'' سے ابتدا کرتے ہیں۔ یہ شعری مجموعہ ہے اور شاعر اکرم کنجاہی ہیں جوکہ پرچہ بعنوان ''غنیمت'' پابندی سے شایع کرتے ہیں۔

''دامنِ صد چاک'' کے بارے میں انور شعور لکھتے ہیں کہ ''اردو دنیا کے وہ لوگ جو پاکستان کی عصری مطبوعات سے دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لیے اکرم کنجاہی کی شخصیت اجنبی ہے، نہ تحریر۔ وہ شعر و ادب کا ایک مقبول رسالہ مرتب کرتے ہیں اور نظم و نثرکی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ایک طرف گھریلو اور منصبی ذمے داریاں ہیں دوسری طرف علمی مصروفیات، وہ دونوں میں کامیاب ہیں۔''

ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے خیال کے مطابق اکرم کنجاہی کا کلام پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاعری کے اس معیار پر پورا اترتا ہے جس کا تعین فراق نے کیا تھا، موضوع، اسلوب اور زبان کے اعتبار سے یہ عام شاعرانہ تکلفات سے عاری ہے، اس کی سادگی، تازگی اور پرکاری اس امر کی غماز ہے کہ ان کے مزاج اور تصور میں آج بھی وسعت صحرا موجود ہے، ایسے ہی بگولہ صفت کچھ کر جانے کا حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں۔ کتاب میں ڈاکٹر انور سدید کی تحریر اور جان کاشمیری کا ایک خوبصورت مضمون بھی شامل ہے۔

اکرم کنجاہی کی 9 کتابیں اشاعت کے مرحلے سے گزر چکی ہیں جن میں چار شعری مجموعے شامل ہیں۔ مذکورہ مجموعہ غزلوں اور نظموں سے مرصع ہے۔ بہت ہی موثر انداز میں انھوں نے اپنی سوچ اور فکر کو شعری قالب میں ڈھالا ہے جس کی دل کشی قاری کو تادیر اپنے ساتھ رکھتی ہے۔

دو شعر:

بھری دنیا میں خیمہ زن خزائیں دیکھ کر مولیٰ

عنا دل سب مدینے کے گلِ گلزار تک پہنچے

......

کوئی بھی راز تیرے دو جہاں میں پا نہیں سکتا

خدا چاہے جسے وہی ترے اسرار تک پہنچے

ایک اور کتاب جو میری نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی وہ اب اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے ''جو دیکھا لکھا'' یہ سائنسی مضامین پر مشتمل ہے ۔کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری ہیں، تمام مضامین مصنف نے مقرر کی حیثیت سے پڑھے اور رسائل، خصوصاً ''سائنس ڈائجسٹ'' میں چھپ چکے ہیں دوران مطالعہ ایک ہی مضمون ''چھپر چھاؤں'' (میرے والد صاحب) کے عنوان سے ضرور میری نگاہ کا مرکز بنا ہے جس پر کسی رسالے یا تقریب کا لیبل چسپاں نہیں ہے۔ کتاب کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے قاری کے لیے آسانیاں پیدا کردی ہیں وہ اپنی پسند اور ذوق کے مطابق تحریر کا چناؤکرسکتا ہے ۔کتاب میں سائنسی مضامین، شخصیات، ادبی مضامین اور متفرق مضامین شامل ہیں ۔

شمس الغنی نے مجھے 2013 میں اپنی شاعری کا مجموعہ ''سانپوں کا نگر'' عنایت کیا تھا وہ بھی گم گشتہ کتب سے برآمد ہوا، شاعری پڑھی تو یہ احساس جاگزیں ہوا کہ یہ کتاب تو عشق مجازی کی تلخ و شیریں یادوں سے وابستہ ہے لیکن یہ خیال جلد ہی باطل ہو گیا کہ شمس الغنی کی نگاہ بصیرت معاشرتی دکھوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ''تیسری دنیا'' کے عنوان سے لکھتے ہیں:


یہ کیسی بستیاں ہیں کون ہیں جو ان میں بستے ہیں

جہاں ہر چیز مہنگی ہے فقط انسان سستے ہیں

جس طرح شمس الغنی کی غزلیات انفرادیت اور صداقت کے رنگوں سے دمک رہی ہیں، اسی طرح ان کی نظموں میں بھی جرأت اظہار کا عکس نمایاں ہے۔ سماج کی ناانصافی اور تلخیوں کو انھوں نے لفظوں کا دل کش روپ عطا کیا ہے۔ انھی نظموں میں چند کلیاں، اچھا بچہ، اک ستارہ، سوزنی کے سائے اور قطعات و متفرقات کے حوالے سے بھی شاعری کا جادو بول رہا ہے۔

نمونے کے طور پر دو شعر:

سحر طاری ہے سماعت پہ صنم بولتا ہے

جیسے کانوں میں کوئی حرف اذاں گھولتا ہے

بعد تیرے یادوں نے قیامت کی ہے

شعلے خاموش ہوئے تو دھواں بولتا ہے

سال سوا سال کا عرصہ گزرا ہوگا جب مرحومہ شاعرہ عابدہ کرامت کے تین شعری مجموعے سیدین رضوی نے مجھے عنایت کیے تھے۔ سیدین رضوی معتبر شاعرہ کے برادرم محترم ہیں کئی دفعہ سوچا کہ کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں گی۔ تعارف ہی سہی عابدہ کرامت کی شاعری پڑھتے ہوئے اس بات کا بھی غم تھا کہ جس شاعرہ کا کلام میں پڑھ رہی ہوں، وہ اب اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئی ہیں لیکن اپنی تحریروں کے حوالے سے اپنے چاہنے والوں اور قارئین کے دلوں میں زندہ ہیں۔

کافی عرصے بعد لکھنے کے لیے یہ کتابیں بعنوانات دورکی آواز، دوپٹے میں کہاں تک جذب کرتی، حاصل آگہی میرے مطالعے میں دوبارہ آگئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں عابدہ کرامت اپنی شاعری اور علم و ہنر کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں، ان کی شاعری پر سکہ بند ادبیوں نے آرا لکھی ہیں جنھیں پڑھ کر اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھوں نے اپنے لہو سے شاعری کے دیے روشن کیے ہیں۔

فاطمہ حسن نے اپنے مضمون میں کئی شعری مجموعوں کا تعارف کرایا ہے اور اشعار کا انتخاب بھی لاجواب ہے۔ عابدہ کرامت کے شوہر کرامت اللہ غوری کا مضمون ''میری عابدہ میری کرامت'' قابل توجہ ہے۔ انھوں نے عابدہ کرامت کے فن پر تو روشنی ڈالی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات سے محبت کی داستان کو بھی آنسوؤں کی لڑیوں میں پرو کر ان کی جدائی کا نوحہ رقم کیا ہے۔ اللہ انھیں صبر اور عابدہ کرامت کی مغفرت فرمائے۔

''بالکونی میں کھڑی عورت'' ممتاز قلم کار رومانہ رومی کے افسانوں کا مجموعہ ہے اس سے قبل رومانہ کے دو شعری مجموعے ساحل دکھائی دیتا ہے، دل مسافر ہے شایع ہوچکے ہیں۔ اس طرح وہ شعر و سخن کے حوالے سے اپنی پہچان بنا چکی ہیں اور اب حال میں ہی ان کی افسانوں کی کتاب بھی آگئی ہے۔ کتاب میں 30 افسانے شامل ہیں اور یہ تمام افسانے معاشرتی مسائل اور دکھوں و غموں کی غمازی کرتے ہیں انھوں نے جو دیکھا اور محسوس کیا وہی کرب ان کی تحریر میں در آیا ہے، کتاب کا پہلا افسانہ آٹھوں دروازہ ہے جو بنت اور کردار نگاری کے اعتبار سے بہترین افسانہ ہے۔

مصنفہ نے خواتین پر ہونے والے مظالم اور ناانصافی کا پردہ سلیقے کے ساتھ چاک کیا ہے لفظوں کی بازی گری اور سچائی کی روشنی نے افسانے کے خدوخال کو خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کئی افسانے ایسے ہیں جن سے قاری متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا ہے۔ رومانہ رومی افسانے لکھنے کے فن سے واقف ہیں اور ان کی اپنے ماحول پر گہری نگاہ ہے اس وجہ سے انھوں نے مختلف موضوعات پر دل کش افسانے تخلیق کیے ہیں۔ ہماری دعا ہے وہ اسی طرح لکھتی رہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
Load Next Story