قطار … ایک بنیادی اصول ہے

افسوس تو تب ہوتا ہے جب ہمارے ہاں کے لوگ خود کسی بنیادی قاعدے قانون کی پاس داری نہیں کرتے۔

Shireenhaider65@hotmail.com

صبیحہ گوکن ائیر پورٹ استنبول کے دو بڑے ائیر پورٹس میں سے ایک ہے۔ 1913 میں ترکی کے شہر برسہ میں پیدا ہونے والی صبیحہ کو ، ترکی کے عظیم لیڈر اورپہلے صدر کمال اتا ترک (جو کہ خود بے اولاد تھے) ، نے1925میں برسہ کے دورے کے دوران ، اپنی لے پالک بیٹی بنا لیا تھا کیونکہ صبیحہ کے والدین وفات پا چکے تھے۔ صبیحہ کو وہ اپنے ساتھ انقرہ لے گئے اور اسے قانونی طور پر اپنا خاندانی سر نیم بھی دیا۔ صبیحہ دنیا کی پہلی فائٹر پائلٹ خاتون تھی۔ اسی کے نام پر اس ائیر پورٹ کا نام رکھا گیا ، جہاں پراس وقت ہم اسی ائیر پورٹ پر انتالیہ کے لیے پرواز لینے کو کھڑے تھے۔

اس ائیر پورٹ سے عموما اندرون ملک کی پروازیں جاتی ہیں جب کہ اتا ترک ائیر پورٹ بین الاقوامی پروازوں کے لیے ہے۔ صبح سویرے کی پرواز تھی اور ہم جو سمجھ بیٹھے تھے کہ اس وقت ائیر پورٹ پر الو بول رہے ہوں گے، کار سے اترتے ہی ہماری حیرت کو ایک جھٹکا لگا۔ پروازوں کی روانگی کے گیٹ سے اندر داخل ہونے کے لیے، ڈراپ لین سے شروع ہونے والی ایک طویل قطار نظر آئی، یعنی ائیر پورٹ کی عمارت کے باہر سے ہی۔ ہمارے پاس چونکہ وقت کافی تھا تو میں نے ارد گرد جائزہ لینا شروع کر دیا کہ اس وقت سفر کرنے والے کون لوگ ہیں ۔

کوئی مخصوص طبقہ نہیں تھا، نوجوان طالب علموں سے لے کر ملازمتیں کرنے والے... خوش پوش کاروباری، دوستوں کے تفریحی گروپ، سیاح، ہنستے کھیلتے بچوں کے ساتھ ان کے ماں باپ۔ بچے ، بوڑھے ، ملکی اور غیر ملکی... غرض ہر نوعیت کا مسافر اس وقت قطار میں لگا تھا۔ قطار سرک رہی تھی اور ہم اس کے ساتھ سرکتے ہوئے گیٹ پر پہنچ گئے، اب اندر ہونے والی اناؤنسمنٹ واضع ہو رہی تھی۔ کسی سلطان نام کے آدمی کو بار بار پکارا جا رہا تھا... پہلے ترکی زبان میں اعلان ہوا اور پھر انگریزی میں کہ مذکورہ مسافر فلاں گیٹ پر فورا پہنچ جائے کہ جہاز کا دروازہ بند ہوا چاہتا ہے۔

'' ایکسکیوز می!! '' عقب سے ہلکے سے دھکے کے ساتھ شائستہ آواز آئی، مڑ کر دیکھا تو ایک پریشان حال سا نوجوان، کندھے پر رک سیک ڈالے... '' یہ میرا نام بار بار پکارا جا رہا ہے، مجھے ایک اہم میٹنگ کے لیے جانا ہے، ائیر پورٹ آتے ہوئے راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تو مجھے دیر ہو گئی ہے، میں آن لائن چیک ان کر چکا ہوں، قطار میں کھڑے ہونے کا مجھے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرے پاس کوئی سامان بھی نہیں ہے...'' میں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی، '' اگر آپ مجھے گزر جانے دیں ؟ '' اس کے چہرے پر اتنی یتیمی برس رہی تھی، اوپر سے وہ ایک غیر ملکی نوجوان اور پھر اتنی شستہ انگریزی بولتا ہوا، انکار کا کوئی جواز نہ تھا، سو ہٹ کر اسے جانے دیا۔

ہمیں بائی پاس کر کے اس نے اپنی کہانی ہم سے اگلے لوگوں کے ساتھ دہرانا شروع کی اور ان سے گزر جانے کا سگنل لیا۔ مگر اسے اندازہ ہوا کہ اس طرح اپنی کہانی سنانے لگا تو شام تک یہیں کہانی سناتا رہے گا۔ اس نے ائیر پورٹ کے اسٹاف میں سے کسی ایک سے ایک طرف ہٹ کر بات کی اور اس کے بعد قریبی اسپیکر پر آواز گونجی کہ اس مذکورہ نوجوان کو گزر جانے کا راستہ دے دیں کیونکہ اس کے نام کی بار بار اناؤنسمنٹ ہو رہی ہے۔ اس کی مدد کریں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی لوگوںکی پرواز میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اس اعلان کے بعد اسے صاف راستہ مل گیا اور وہ ہر قدم پر شکریہ کہتا ہوا قطار میں سے نکلتا چلا گیا۔ میرے لیے یہ عام سا نظارہ اتنا متاثر کن اور یادگار ہے کہ میں اب تک کئی لوگوں کو اس کے بارے میں بتا چکی تھی۔

اگلے دن اپنے گاؤں سے واپسی پر کسی کام سے کھاریاں میں بر لب سڑک ایک جنرل اسٹور میںرکے اور ہم بھی کافی جلدی میں تھے کہ اسلام آبادپہنچ کر ایک تقریب میں بھی شرکت کرنا تھی۔ اسٹور کے سارے کیش کاؤنٹر بند تھے، صرف ایک کاؤنٹر کھلا تھا جس پر چھ سات افراد کی قطار تھی۔ ایک بار تو سوچا کہ اس نوجوان کی طرح سب سے باری باری درخواست کروں کہ مجھے کہیں پہنچنے میں تاخیر ہو رہی ہے مگر پھر سوچا کہ کوئی بات نہیں، یوں راستے میں اس اسٹور پر رکنے والا ہر شخص ہی جلدی میں ہو گا۔ اس ترک نوجوان والا واقعہ بار بار نظروں کے سامنے فلم کی طرح چلتا رہا اور میں سوچتی رہی کہ اگر میں اپنے سے آگے کھڑی خاتون سے درخواست کروں تو وہ کیا کہے گی... اس سے اگلے باریش بزرگ کیا رد عمل دکھائیں گے۔

یہاں تک کہ سوچتے سوچتے میرے آگے قطار میں صرف ایک خاتون رہ گئیں۔ چلو خیر ہے، میں نے سوچا ۔ حالانکہ اب تک کے حساب کتاب کے مطابق ہم اگلی تقریب سے پچیس منٹ لیٹ ہو چکے تھے۔ مجھ سے اگلی خاتون کا سامان لفافوں میں ڈال کر اٹھایا گیا اور اس سے پہلے کہ میں اپنا سامان کاؤنٹر پر رکھتی۔ کسی غیبی طاقت کی طرح ایک توانا سی خاتون، ہانپتی کانپتی ہوئی آئیں اور مجھے بائی پاس کر کے بلکہ تقریبا دھکیل کر اپنا سامان اپنے ہاتھوں سے کاؤنٹر پر منتقل کر دیا۔

'' ایکسیوز می!! '' میں نے نرمی سے کہا، انھوں نے سنی ان سنی کر دی۔ '' بات سنیں خاتون!! ''

'' جی؟؟ '' وہ چتون چڑھا کر مڑی، '' فرمائیے ؟؟ ''


'' میں کافی دیر سے قطار میں کھڑی ہوں... آپ پیچھے دیکھئے، ایک طویل قطار بنی ہوئی ہے اور آپ ہم سب کو بائی پاس کرکے! ''

'' ہاں ہاں ... جی ہاں '' جیسی کئی تائیدی آوازیں عقب سے گزریں ، کیونکہ میرے پیچھے بھی کافی لوگ کافی دیر سے صبر کے ساتھ کھڑے تھے۔

'' اچھا... '' انھوں نے کندھے اچکائے، '' میں نے نہیں دیکھی کوئی قطار، اصل میں میں جلدی میں ہوں نا!!'' انھوں نے اپنے فقرے کا دوسرا حصہ ہم سب کو اور غالبا سب سے زیادہ کیش کاؤنٹر والے کو متاثر کرنے کے لیے انگریزی میں کہا تھا۔

'' اگر آپ کو جلدی میں قطار نظر نہیں آئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ قطار ہے ہی نہیں!! '' کیش کاؤنٹر والے کو اس خاتون کے الفاظ سے متاثر ہوتے دیکھ کر میں بھی اپنی پٹاری سے انگریزی نکالے بغیر نہ رہ سکی۔ '' قطار ایک اصول ہے، جس لہجے میں آپ بات کر رہی ہیں، اس سے تو لگتا ہے کہ آپ کسی ترقی یافتہ ملک کی باسی ہیں، آپ کو قطار کیوں نظر نہیں آئی؟ '' میں نے کہا ۔ ' جانور تک جب چنتے ہیں تو قطار بنالیتے ہیں ! ' میں نے دل میں سوچا، کہا نہیں کہ...

'' اصل میں اس سے پہلے پاکستان میں کبھی قطار دیکھی نہیں نا میں نے!! '' اس نے طنز سے یہ فقرہ کہا جو کہ میرے گال پر تھپڑ کی طرح لگا۔ دل میں سوچا کہ بہتر تھا کہ میں اپنے دل میں سوچی گئی بات کہہ دیتی جو میں نے کہی نہیں ۔

'' اب آپ کو میں نے بتا دیا ہے تو آپ پلیز اپنا سامان اٹھالیں اور قطار کے آخری سرے پر چلی جائیں !! '' میںنے لہجے میں اترنے والے غصے کو بھی شائستگی میں لپیٹ کر اس کی طرف پھینکا ۔

'' چلیں آپ مجھ سے پہلے جا کر گولڈ میڈل لے لیں !! '' اس نے اپنا سامان اٹھانے کو ہاتھ بڑھایا تھا ، '' یہ اتنا بڑا اسٹور ہے اور کریانے کی دکان کی طرح ایک کاؤنٹر کھلا ہوا ہے۔ جب ایک ہی کاؤنٹر پر کام ہونا ہے تو اتنے کاؤنٹر بنائے ہوئے کیوں ہیں ؟ ''

'' میڈم اصل میں اس وقت نماز کا وقفہ ہے ورنہ اتنی دیر نہیں لگتی، آپ ایک منٹ ٹھہریں! '' کہہ کر کیش کاؤنٹر والے نے فورا اس کا سامان اٹھا کر ایک لڑکے کو پکڑایا اور اسے کہا کہ ساتھ والے کاؤنٹر پر رکھ کر ان کا بل تیار کر دیں ۔ وہ مڑیں اور اٹھلا کر مجھے اور میرے پیچھے کھڑے ان تمام بے وقوفوں کو دیکھا جو اب تک قطار میں کھڑے تھے اور انھوں نے کوئی جلدی کا شور نہ مچایا تھا، نہ ہی ان کے لیے بالخصوص کوئی کاؤنٹر عارضی طور پر کھول کر ان کا بل بنایا گیا تھا۔ ان کا پورا منہ اس وقت V بنا ہوا تھا اور ان کی فتح کی غمازی کر رہا تھا۔

'' might is right '' میرے منہ سے نکلا۔ جتنا چیخ چیخ کر وہ بول رہی تھیں ، اسٹور والوں کو خطرہ پڑ گیا تھا کہ کہیں وہ ان کا سامان ہی نہ توڑ ڈالیں ، گالی گلوچ شروع کر دیں ... یا جیسے لوگوں نے قطار بنا کر کوئی ایسا غیر قانونی کام کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ خاتون ان کا اسٹور ہی بند نہ کروا دیں ۔ یہ تو پھر باہر سے آئی ہوئی خاتون تھیں جنھیں کم ہی توفیق ہوتی ہے کہ اس ملک کے بارے میں کوئی مثبت بات کریں جہاں سے ان کا خمیر اٹھا تھا یا جہاں ان کی جڑیں ہیں۔ اپنے یا اپنے آباؤاجداد کے ملک کے بارے میں منفی باتیں کرنے والے یوں ہی ہیں اسی تھالی میں سوراخ کرتے ہیں جس میں وہ کھا رہے ہوتے ہیں۔

افسوس تو تب ہوتا ہے جب ہمارے ہاں کے لوگ خود کسی بنیادی قاعدے قانون کی پاس داری نہیں کرتے اور توقع کرتے ہیں کہ سارے کا سارا بگڑا ہوا آوا حکومت ہی درست کرے۔ آپ دیکھیں کہ صرف ایک قطار بنا لینے سے اپنے اور دوسروں کے لیے کتنی آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں، خواہ ہم سڑک پر گاڑی میں ہوں، کسی اسٹیشن، اڈے، ائیر پورٹ، اسپتال، بینک یا کسی بھی ایسی جگہ جہاں داخلے کے لیے دھکم پیل ہو رہی ہو۔ بنیادی اصول، قاعدے اور فرائض تو ہمیں خود معلوم ہونا چاہئیں اور ان پر عمل کر کے نہ صرف ہم اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔
Load Next Story