جنوبی ایشیا کے بدلتے حالات اور پاکستان
جنوبی ایشیا میں تبدیلی کی ہوائیں واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔
اِس وقت چند سوالات غور طلب ہیں۔
یہ وہ سوالات ہیں جو ہماری قومی صورتِ حال اور اُس کے مستقبل کے مسائل و امکانات سے بحث کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اس طرح کے ''تھنک ٹینکس'' تو نہیں ہیں، جیسے امریکا اور یورپ میں پائے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں ان تھنک ٹینکس کی ضرورت، افادیت اور اہمیت کا شعور دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی محسوس کیا جانے لگا تھا اور لگ بھگ چھے سات دہائیوں کے عرصے میں یہ نہ صرف قائم ہوئے، بلکہ اپنا کردار بھی فعال اور مؤثر طریقے سے اپنے ممالک میں ادا کرنے لگے۔ ان کی اہمیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنے قومی، سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی سوالات اور مسائل پر غور کرتے ہیں، وقت کے دھارے کو پیش بینی کے ساتھ دیکھنے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ اپنی رائے کے ذریعے عوامی مزاج اور حکومتی اقدامات پر بھی اثرانداز ہونے کی اکثر کام یاب کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں ظاہر ہے کہ صورتِ حال یہ نہیں ہے۔ اوّل تو ویسے تھنک ٹینکس نہیں۔ دوم یہ کہ وہ جو چھوٹے موٹے ادارے یا پھر انفرادی کوششوں کے بل بوتے پر چلنے والے ایسے کچھ ادارے اگر کہیں ہیں بھی تو وہ بھلا حکومتِ وقت پر اثرانداز ہونے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ اس کے باجود ہمارے یہاں تھوڑی بہت اور اِکادُکا جو آوازیں اٹھتی ہیں، ان کو رائگاں نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے کہ عصری سماجی منظرنامے پر کسی نہ کسی سطح پر ان آوازوں کے سنے جانے کا ثبوت بہرحال ملتا ہے۔ جس طرح کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات میں ہمارے ملک کی اکثریت جی رہی ہے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ بات پوری ذمے داری اور وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ آوازیں ہمارے یہاں اجتماعی شعور کی تبدیلی کے عمل کی شروعات کا اعلامیہ ہیں۔ باقی سب کچھ وقت کی رَو میں ہوتا رہے گا۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ آوازیں زندہ رہیں۔
اس وقت ایک نہیں، کئی ایک عوامل اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ مستقبلِ قریب میں جنوبی ایشیا کے حالات اور معاملات بڑی حد تک تبدیل ہوجائیں گے۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سرِ دست قومی سطح پر ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خطے میں ہونے والی یہ تبدیلی پاکستان کے سماجی و معاشی حالات اور امنِ عامہ کی صورتِ حال پر کس حد تک اثر انداز ہوگی؟ اس سوال پر اس لیے بھی غور ضروری ہے کہ تبدیلی کے جو آثار پورے مشرقِ وسطیٰ اور خاص طو سے ہمارے خطے میں دکھائی دے رہے ہیں، وہ محض یہیں تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہوگا اور اس دائرے میں عالمی طاقتیں بھی سمٹتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
تبدیلی عناصر کی اس کائنات کا ناگزیر تقاضا ہے۔ ہر زندہ شے لازمی طور سے تغیر کے عمل سے گزرتی ہے۔ یہ ازلی و ابدی قانون ہے۔ البتہ تبدیلی کا عمل اگلے وقتوں میں اپنا اظہار علاقائی یا مقامی سطح پر کیا کرتا تھا، جب کہ عالم گیریت کے اس دور میں تبدیلی چاہے ایک خاص خطے میں اور کسی مخصوص حوالے سے آئے، لیکن اس کے پیدا کردہ ارتعاش کا اثر ایک بڑے دائرے میں پھیلتا ہے۔ اس لیے اب کوئی تبدیلی علاقائی ہوتے ہوئے محض علاقائی نہیں ہوسکتی۔
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تغیرات کی جو علامتیں ہم مخصوص علاقوں اور قوموں کی سطح پر دیکھتے ہیں، ان کے پس منظر میں جو محرکات کارفرما ہوتے ہیں، وہ ضروری نہیں کہ علاقائی ہوں، بلکہ وہ عام طور سے بڑی اور خارجی قوتوں کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ یہ وہی خارجی قوتیں ہوتی ہیں جو اپنے علاقوں سے باہر اپنا اثرونفوذ قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ تہذیبوں کی تاریخ کے پرانے اور سادہ زمانے میں ان کی نوعیت کچھ اور تھی، لیکن اب یہ سارے اقدامات براہِ راست کم اور بالواسطہ طور پر زیادہ ہیں۔ پہلے عام طور سے کسی سیاسی فلسفے یا اخلاقی و معاشی نظریے کی آڑ میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ یہ آڑ اس انداز سے لی جاتی تھی کہ ایک بڑا عوامی طبقہ اس کو مفادِ عامہ کے طور پر قبول کرلیتا تھا۔ اب نقشہ بدل چکا ہے۔ اب کسی بھی شے یا معاملے کی حقیقت بہت دیر تک پردے میں نہیں رہ سکتی۔ سب کچھ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ علاقائی تبدیلیوں کے عقب میں ڈوریاں ہلانے والی عالمی طاقتیں بھی اسی طرح جلد بے نقاب ہوجاتی ہیں۔ اس لیے تبدیلی کی محرک قوتیں اب امنِ عالم یا انسانیت کی اقدام کو بنیاد بنا کر سارا کھیل کھیلتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس کی اصلیت بھی جلد ہی کھل جاتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں جن تبدیلیوں کے آثار واضح ہورہے ہیں، ان کے لیے کام کرنے والی قوتیں بھی اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ان میں امریکا کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ گذشتہ دو تین دہائیوں میں پروان چڑھنے والی نئی نسل کے لوگ ممکن ہے، اس حقیقت کا زیادہ شعور نہ رکھتے ہوں کہ بیس ویں صدی کے آخری عشرے اور اکیس ویں صدی کی ان دو دہائیوں میں جنوبی ایشیا کے کروڑوں لوگوں نے جن حالات کا سامنا کیا ہے، جن مسائل سے دوچار رہے ہیں، جو تکلیفیں اٹھائی ہیں اور جو قربانیاں دی ہیں، وہ سب ان کے اپنے پیدا کردہ نہیں تھے۔
وہی امریکا جو اس وقت جنوبی ایشیا کے ان حالات کی تبدیلی پر مصر ہے اور اُس کے لیے ہر ممکن اقدام کے لیے کوشاں، لگ بھگ بیالیس سال پہلے حالات کی یہ بساط بھی اُسی نے بچھائی تھی۔ اس بساط پر کھیل کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے پاکستان، افغانستان اور عراق میں اس نے اپنے مہرے جمائے تھے جو اس کی طے کی ہوئی چال چلتے اور اُس کے لیے ایک کے بعد دوسری کامیابی کو یقینی بناتے رہے۔
وہی طالبان جو گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں کہ جس کو اُگلے بنتی ہے اور نہ ہی نگلے، سو اب اُن کے ساتھ آج امریکا اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوا ہے، کل تک وہ اُس کے ہاتھ میں مہرے کی طرح تھے اور سب سے زیادہ چال اسی مہرے کو چلائی گئی تھی اور اسی کے ذریعے خطے میں بڑی بڑی فتوحات سمیٹی گئی تھیں۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں تبدیلی کے جو بڑے اشارے ہیں، ان میں سے ایک یہی امریکا طالبان مذاکرات بھی ہیں۔
عراق اور افغانستان پر امریکا نے باری باری جنگ مسلط کرنے کے بعد اپنے اہداف تو بڑی حد تک حاصل کرلیے، لیکن بعد ازاں اس کے لیے جنگ کے میدان سے نکلنا بھی ضرور مشکل ہوگیا۔ جنگ اس کے لیے ایک ایسی ذمے داری بن گئی کہ جس کو نبھانا بھی گزرتے وقت کے ساتھ دشوار سے دشوار تر ہوگیا۔ اس ایڈونچر کی جو قیمت اب وہ چکا رہا ہے، اس کو جاری رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ان حالات میں اُس کے پاس طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سوا اور کوئی چارۂ کار باقی نہیں۔
جنوبی ایشیا کے وار تھیٹر میں اب امریکی دل چسپی اور کردار دونوں ختم ہوچکے ہیں، اس حقیقت کا احساس براک اوباما کے دور میں ہی امریکی کانگریس نے کرلیا تھا۔ خصوصاً اوباما کے اقتدار کے دوسرے دور میں یہ بات کھلے لفظوں میں تسلیم بھی کرلی گئی تھی، اقتدار اور اقتدار سے باہر دونوں حلقوں میں۔ تاہم اہداف حاصل کرنے اور کام یابیاں سمیٹنے کے بعد امریکا یک لخت میدانِ جنگ کو چھوڑ کر نہیں نکل سکتا تھا۔ یک قطبی دنیا میں یہ اُس کی ساکھ کے لیے ہی ضروری نہیں تھا، بلکہ اسے آئندہ کے لیے بھی صورتِ حال کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات کرنے تھے۔
9/11 کے بعد کی دنیا میں بلاشرکتِ غیرے اپنے وسیع و عریض اقتدار کی سرحدوں کی نشان دہی کے لیے بھی لازمی تھا۔ یوں بھی جنگ کے شعلے ٹھنڈا ہونے میں وقت لیتے ہیں، سب سے زیادہ وہ جو تہذیب کے ملبے میں دبے ہوئے ہوں اور خاص طور سے وہ جو اجتماعی ضمیر اور قومی شعور کو راکھ میں تبدیل کرنے کے لیے بھڑکائے گئے ہوں۔ یہ آگ کسی وجہ سے اگر اپنا ہدف حاصل نہ کرسکے تو بھڑکانے والے کے دامن کو کبھی نہیں بھولتی، جس طرح بھی ممکن ہو، اس کی طرف لپکتی ہے۔ امریکا کے ساتھ یہی ہوا ہے۔
آج اگر یہ بات شرم ناک یا افسوس ناک ہے تو اس پر ہمیں ندامت کا اظہار کرنا چاہیے، لیکن ہم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ جنوبی ایشیا کے اس وار تھیٹر میں پاکستان کا کردار بہت اہم تھا۔ اُس دور کے عام سپاہی نہیں بہت سے اعلیٰ عہدے کے فوجی افسران اسے مقصدی جنگ سمجھتے تھے، یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بہرحال پراکسی وار تھی۔ اگر سچ پوچھیے تو اس جنگ میں جو ایک زمانے میں تو بے شک پراکسی وار تھی، لیکن بعد ازاں خود ہمارے لیے دہشت گردی کے خلاف بقا کی جنگ بن گئی۔ آج یہ بات عام آدمی بھی جان چکا ہے کہ پاکستان نے اس جنگ کی واقعی ایک بڑی قیمت چکائی ہے، لیکن اپنے حکومتی ڈائی لیما کی وجہ سے۔ اس لیے کہ یکے بعد دیگرے پاکستان کے حکمران اپنے قومی مفاد کے حق میں دو ٹوک فیصلہ کرنے کے بجائے تذبذب اور مصلحت کا شکار ہوتے رہے۔
اس جنگ میں عالمی قوتوں کا حلیف بن کر پاکستان نے جو کچھ فائدے حاصل کیے، ان کی حیثیت اونٹ کی ڈاڑھ میں زیرے جیسی تھی، لیکن قیمت یہ چکائی کہ ایک طرف تو اسی کا معاشی و سماجی اسٹرکچر تباہ ہوکر رہ گیا اور دوسری طرف قومی سالمیت تک داؤ پر لگ گئی۔ اس مسئلے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان اور ایران جیسے پڑوسی اب اس کے لیے سنجیدہ تحفظات رکھتے ہیں اور دوسرا پہلو یہ کہ امریکا جیسا اتحادی جس کے لیے یہ سارا عذاب اپنے سر لیا گیا، آج اس کی خدمات کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے، یعنی خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔
حالات بتا رہے ہیں کہ امریکا کو اب افغانستان سے نکلنا ہے اور وہ اسی ٹرمپ حکومت کے دور میں نکلنا چاہتا ہے، اور نکل بھی جائے گا۔ اس کے بعد نہیں، بلکہ اس سے پہلے ہی خطے کی صورتِ حال میں تبدیلی نمایاں ہوگی وہ یہاں ممالک کے باہمی تعلقات پر بھی واضح طور پر اثرانداز ہوگی۔ امریکا کے ساتھ طالبان کو مذاکرات کے لیے بٹھانے میں بھی پاکستان کا ایک کردار ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ملک کے لیے اقتداری حکمتِ عملی بنانے والے سب افراد اور ادارے نہ صرف امریکا کی خواہشات کے جواز، بلکہ اپنے خطے کی صورتِ حال کا بھی مکمل شعور رکھتے ہوئے اب اپنے ملکی مفاد کو پوری طرح سامنے رکھ کر اپنے کردار کا تعین کررہے ہوں گے، یہی نہیں، بلکہ اب اپنے عملی اقدامات میں بھی کسی پس و پیش سے دوچار نہیں ہوں گے۔
تاہم اپنی گزشتہ حکومتوں کے تجربات ہمیں پوری طرح اطمینان حاصل کرنے نہیں دیتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ سب لوگ اور ذرائع (پرنٹ، الیکٹرونک، سوشل میڈیا، اہلِ دانش اور عوامی رائے سازی کی اہلیت رکھنے والے افراد) اس ضمن میں وہ کردار ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں جو ترقی یافتہ ممالک میں تھنک ٹینکس کرتے ہیں، تاکہ جس طور بھی ممکن ہو اُن کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچے اور ملکی استحکام اور قومی مفادات کے لیے ہر ممکن اقدام کے حوالے سے ان کا کردار مؤثر ثابت ہو۔
حالیہ عرصے میں تبدیلی کا جو منظرنامہ مشرقِ وسطیٰ میں ابھرا ہے، وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دوستی دشمنی کی پرانی بنیادیں اب قائم نہیں ہیں۔ حالات اور حقائق نے بہت کچھ بدل دیا۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے اور اپنے ساتھ بہت سے تصورات اور تحفظات بھی بہاکر لے جاچکا ہے۔ سیاست میں یوں بھی کوئی حرف کسی مرحلے پر حرفِ آخر نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح کوئی دوستی اور دشمنی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس عرصے میں چین نے دنیا میں گیم چینجر کی حیثیت سے خود کو پوری طرح نمایاں کیا ہے۔ اسی حیثیت میں وہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کے لیے کام کررہا ہے۔ پاکستان میں سی پیک اس کا بہت ٹھوس اقدام ہے جو ایک بڑے خطے میں اس کے نفوذ کی راہ ہموار کررہا ہے۔ دوسری طرف ایرانی ایٹمی منصوبے پر امریکی اختلاف اور اقتصادی پابندیاں امریکی طاقت اور جارحیت کا اظہار تو بے شک کرتی ہیں، لیکن روس اور چین نے جس طرح اُن کو رد کرتے ہوئے ایران کے لیے نرم رویہ اختیار کیا ہے، وہ بھی صاف طور سے اس امر کی غمازی کررہا ہے، امریکی اختیار کا دائرہ اب اس خطے میں سمٹنا شروع ہوگیا ہے اور آنے والے دنوں میں یہاں ہوا کا رخ بدل جائے گا۔
اس صورتِ حال میں پاکستان کو اپنی بقا اور استحکام کے مسئلے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے اسے اپنے پڑوسی ملکوں سے اپنے سفارتی تعلقات کا ازسرِ نو جائزہ لے کر نئی سفارتی حکمتِ عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے سفارتی رویے کے ساتھ اسے پڑوسیوں سے تعلقات کی بحالی کے لیے پیش قدمی کرنی چاہیے جو برابری کی سطح پر تعلقات اور پرامن بقائے باہمی کی مظہر ہو، اور اس میں ہمسایہ داری کو ترجیح حاصل ہو، اور جو باہمی اتحاد کے فروغ میں پاکستان کی خواہشات کی غمازی بھی کرتی ہو۔ اس میں یہ بات پوری طرح واضح ہو کہ پاکستان اب کسی طاقت کا آرگن نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں سے دل چسپی رکھتا ہے۔
ساتھ یہ بھی کہ وہ اپنے دفاع اور استحکام سے ہرگز غافل نہیں، لیکن جارحیت اس کا مطمحِ نظر قطعاً نہیں ہے۔ وہ ایٹمی طاقت اور اسلحے کا خریدار ضرور ہے، لیکن صرف اور صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت اور امنِ عامہ کے لیے۔ وہ اپنے سارے پڑوسیوں سے خیرسگالی اور اعتماد کے تعلقات کا خواہاں ہے اور اب یہ نکتہ اس کی سفارتی ترجیحات میں سرِ فہرست ہے۔ وہ مذہبی یا معاشی بنیاد پر کوئی جنگی عزائم نہیں رکھتا۔ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر خطے میں امن اور معاشی ترقی کے ہر ممکن اقدامات کا خواہاں ہے۔
پاکستان کے اس وقت ایران اور افغانستان دونوں سے تعلقات کی سطح ویسی نہیں ہے، جیسی کبھی اچھے دنوں میں ہوا کرتی تھی۔ ہماری گذشتہ حکومتوں نے اس ضمن میں مجرمانہ حد کو پہنچی ہوئی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس غفلت کی تلافی لمحوں یا دنوں میں تو نہیں ہوپائے گی۔ تاہم اس سمت میں ایک بار کام شروع ہوگا تو پھر جاکر بحالی کا عمل ممکن ہوگا۔ موجودہ حکومت اس وقت ساری توجہ معاشی مسئلے سے نمٹنے پر دے رہی ہے، اور وہ ہے کہ ابھی قابو میں آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حکومتیں اور ممالک بیرونی امداد پر نہ چلتے ہیں اور نہ ہی باقی رہ سکتے ہیں۔ ان کی بقا کا ایک ہی رستہ ہوتا ہے، اپنے وسائل اور ذرائع پر انحصار۔ پاکستان کے لیے یہ اسی وقت ممکن ہے، جب اس خطے میں امن ہو اور پڑوسیوں سے اس کے بہتر تعلقات ہوں۔ اسی صورتِ حال میں وہ اپنی ایکسپورٹ بڑھا کر، اور ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات اور سیر و سیاحت کی انڈسٹری کی بحالی کے ذریعے اپنی معاشی صورتِ حال کو درست کرسکتا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وقت کے تقاضوں، خطے کی صورتِ حال اور دنیا کے منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک جامع حکمتِ عملی مرتب کرے اور اُن سب پہلوؤں پر بہ یک وقت توجہ دے جو اس سب حقائق سے متعلق ہیں۔ جنوبی ایشیا میں تبدیلی کی ہوائیں واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے اقدامات طے کرنے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بدلتے ہوئے حالات ڈوبنے ابھرنے، دونوں کے امکانات لاتے ہیں، لیکن ہر ملک اُن میں سے اپنا انتخاب خود کرتا ہے۔
یہ وہ سوالات ہیں جو ہماری قومی صورتِ حال اور اُس کے مستقبل کے مسائل و امکانات سے بحث کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اس طرح کے ''تھنک ٹینکس'' تو نہیں ہیں، جیسے امریکا اور یورپ میں پائے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں ان تھنک ٹینکس کی ضرورت، افادیت اور اہمیت کا شعور دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی محسوس کیا جانے لگا تھا اور لگ بھگ چھے سات دہائیوں کے عرصے میں یہ نہ صرف قائم ہوئے، بلکہ اپنا کردار بھی فعال اور مؤثر طریقے سے اپنے ممالک میں ادا کرنے لگے۔ ان کی اہمیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنے قومی، سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی سوالات اور مسائل پر غور کرتے ہیں، وقت کے دھارے کو پیش بینی کے ساتھ دیکھنے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ اپنی رائے کے ذریعے عوامی مزاج اور حکومتی اقدامات پر بھی اثرانداز ہونے کی اکثر کام یاب کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں ظاہر ہے کہ صورتِ حال یہ نہیں ہے۔ اوّل تو ویسے تھنک ٹینکس نہیں۔ دوم یہ کہ وہ جو چھوٹے موٹے ادارے یا پھر انفرادی کوششوں کے بل بوتے پر چلنے والے ایسے کچھ ادارے اگر کہیں ہیں بھی تو وہ بھلا حکومتِ وقت پر اثرانداز ہونے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ اس کے باجود ہمارے یہاں تھوڑی بہت اور اِکادُکا جو آوازیں اٹھتی ہیں، ان کو رائگاں نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے کہ عصری سماجی منظرنامے پر کسی نہ کسی سطح پر ان آوازوں کے سنے جانے کا ثبوت بہرحال ملتا ہے۔ جس طرح کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات میں ہمارے ملک کی اکثریت جی رہی ہے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ بات پوری ذمے داری اور وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ آوازیں ہمارے یہاں اجتماعی شعور کی تبدیلی کے عمل کی شروعات کا اعلامیہ ہیں۔ باقی سب کچھ وقت کی رَو میں ہوتا رہے گا۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ آوازیں زندہ رہیں۔
اس وقت ایک نہیں، کئی ایک عوامل اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ مستقبلِ قریب میں جنوبی ایشیا کے حالات اور معاملات بڑی حد تک تبدیل ہوجائیں گے۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سرِ دست قومی سطح پر ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خطے میں ہونے والی یہ تبدیلی پاکستان کے سماجی و معاشی حالات اور امنِ عامہ کی صورتِ حال پر کس حد تک اثر انداز ہوگی؟ اس سوال پر اس لیے بھی غور ضروری ہے کہ تبدیلی کے جو آثار پورے مشرقِ وسطیٰ اور خاص طو سے ہمارے خطے میں دکھائی دے رہے ہیں، وہ محض یہیں تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہوگا اور اس دائرے میں عالمی طاقتیں بھی سمٹتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
تبدیلی عناصر کی اس کائنات کا ناگزیر تقاضا ہے۔ ہر زندہ شے لازمی طور سے تغیر کے عمل سے گزرتی ہے۔ یہ ازلی و ابدی قانون ہے۔ البتہ تبدیلی کا عمل اگلے وقتوں میں اپنا اظہار علاقائی یا مقامی سطح پر کیا کرتا تھا، جب کہ عالم گیریت کے اس دور میں تبدیلی چاہے ایک خاص خطے میں اور کسی مخصوص حوالے سے آئے، لیکن اس کے پیدا کردہ ارتعاش کا اثر ایک بڑے دائرے میں پھیلتا ہے۔ اس لیے اب کوئی تبدیلی علاقائی ہوتے ہوئے محض علاقائی نہیں ہوسکتی۔
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تغیرات کی جو علامتیں ہم مخصوص علاقوں اور قوموں کی سطح پر دیکھتے ہیں، ان کے پس منظر میں جو محرکات کارفرما ہوتے ہیں، وہ ضروری نہیں کہ علاقائی ہوں، بلکہ وہ عام طور سے بڑی اور خارجی قوتوں کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ یہ وہی خارجی قوتیں ہوتی ہیں جو اپنے علاقوں سے باہر اپنا اثرونفوذ قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ تہذیبوں کی تاریخ کے پرانے اور سادہ زمانے میں ان کی نوعیت کچھ اور تھی، لیکن اب یہ سارے اقدامات براہِ راست کم اور بالواسطہ طور پر زیادہ ہیں۔ پہلے عام طور سے کسی سیاسی فلسفے یا اخلاقی و معاشی نظریے کی آڑ میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ یہ آڑ اس انداز سے لی جاتی تھی کہ ایک بڑا عوامی طبقہ اس کو مفادِ عامہ کے طور پر قبول کرلیتا تھا۔ اب نقشہ بدل چکا ہے۔ اب کسی بھی شے یا معاملے کی حقیقت بہت دیر تک پردے میں نہیں رہ سکتی۔ سب کچھ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ علاقائی تبدیلیوں کے عقب میں ڈوریاں ہلانے والی عالمی طاقتیں بھی اسی طرح جلد بے نقاب ہوجاتی ہیں۔ اس لیے تبدیلی کی محرک قوتیں اب امنِ عالم یا انسانیت کی اقدام کو بنیاد بنا کر سارا کھیل کھیلتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس کی اصلیت بھی جلد ہی کھل جاتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں جن تبدیلیوں کے آثار واضح ہورہے ہیں، ان کے لیے کام کرنے والی قوتیں بھی اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ان میں امریکا کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ گذشتہ دو تین دہائیوں میں پروان چڑھنے والی نئی نسل کے لوگ ممکن ہے، اس حقیقت کا زیادہ شعور نہ رکھتے ہوں کہ بیس ویں صدی کے آخری عشرے اور اکیس ویں صدی کی ان دو دہائیوں میں جنوبی ایشیا کے کروڑوں لوگوں نے جن حالات کا سامنا کیا ہے، جن مسائل سے دوچار رہے ہیں، جو تکلیفیں اٹھائی ہیں اور جو قربانیاں دی ہیں، وہ سب ان کے اپنے پیدا کردہ نہیں تھے۔
وہی امریکا جو اس وقت جنوبی ایشیا کے ان حالات کی تبدیلی پر مصر ہے اور اُس کے لیے ہر ممکن اقدام کے لیے کوشاں، لگ بھگ بیالیس سال پہلے حالات کی یہ بساط بھی اُسی نے بچھائی تھی۔ اس بساط پر کھیل کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے پاکستان، افغانستان اور عراق میں اس نے اپنے مہرے جمائے تھے جو اس کی طے کی ہوئی چال چلتے اور اُس کے لیے ایک کے بعد دوسری کامیابی کو یقینی بناتے رہے۔
وہی طالبان جو گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں کہ جس کو اُگلے بنتی ہے اور نہ ہی نگلے، سو اب اُن کے ساتھ آج امریکا اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوا ہے، کل تک وہ اُس کے ہاتھ میں مہرے کی طرح تھے اور سب سے زیادہ چال اسی مہرے کو چلائی گئی تھی اور اسی کے ذریعے خطے میں بڑی بڑی فتوحات سمیٹی گئی تھیں۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں تبدیلی کے جو بڑے اشارے ہیں، ان میں سے ایک یہی امریکا طالبان مذاکرات بھی ہیں۔
عراق اور افغانستان پر امریکا نے باری باری جنگ مسلط کرنے کے بعد اپنے اہداف تو بڑی حد تک حاصل کرلیے، لیکن بعد ازاں اس کے لیے جنگ کے میدان سے نکلنا بھی ضرور مشکل ہوگیا۔ جنگ اس کے لیے ایک ایسی ذمے داری بن گئی کہ جس کو نبھانا بھی گزرتے وقت کے ساتھ دشوار سے دشوار تر ہوگیا۔ اس ایڈونچر کی جو قیمت اب وہ چکا رہا ہے، اس کو جاری رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ان حالات میں اُس کے پاس طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سوا اور کوئی چارۂ کار باقی نہیں۔
جنوبی ایشیا کے وار تھیٹر میں اب امریکی دل چسپی اور کردار دونوں ختم ہوچکے ہیں، اس حقیقت کا احساس براک اوباما کے دور میں ہی امریکی کانگریس نے کرلیا تھا۔ خصوصاً اوباما کے اقتدار کے دوسرے دور میں یہ بات کھلے لفظوں میں تسلیم بھی کرلی گئی تھی، اقتدار اور اقتدار سے باہر دونوں حلقوں میں۔ تاہم اہداف حاصل کرنے اور کام یابیاں سمیٹنے کے بعد امریکا یک لخت میدانِ جنگ کو چھوڑ کر نہیں نکل سکتا تھا۔ یک قطبی دنیا میں یہ اُس کی ساکھ کے لیے ہی ضروری نہیں تھا، بلکہ اسے آئندہ کے لیے بھی صورتِ حال کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات کرنے تھے۔
9/11 کے بعد کی دنیا میں بلاشرکتِ غیرے اپنے وسیع و عریض اقتدار کی سرحدوں کی نشان دہی کے لیے بھی لازمی تھا۔ یوں بھی جنگ کے شعلے ٹھنڈا ہونے میں وقت لیتے ہیں، سب سے زیادہ وہ جو تہذیب کے ملبے میں دبے ہوئے ہوں اور خاص طور سے وہ جو اجتماعی ضمیر اور قومی شعور کو راکھ میں تبدیل کرنے کے لیے بھڑکائے گئے ہوں۔ یہ آگ کسی وجہ سے اگر اپنا ہدف حاصل نہ کرسکے تو بھڑکانے والے کے دامن کو کبھی نہیں بھولتی، جس طرح بھی ممکن ہو، اس کی طرف لپکتی ہے۔ امریکا کے ساتھ یہی ہوا ہے۔
آج اگر یہ بات شرم ناک یا افسوس ناک ہے تو اس پر ہمیں ندامت کا اظہار کرنا چاہیے، لیکن ہم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ جنوبی ایشیا کے اس وار تھیٹر میں پاکستان کا کردار بہت اہم تھا۔ اُس دور کے عام سپاہی نہیں بہت سے اعلیٰ عہدے کے فوجی افسران اسے مقصدی جنگ سمجھتے تھے، یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بہرحال پراکسی وار تھی۔ اگر سچ پوچھیے تو اس جنگ میں جو ایک زمانے میں تو بے شک پراکسی وار تھی، لیکن بعد ازاں خود ہمارے لیے دہشت گردی کے خلاف بقا کی جنگ بن گئی۔ آج یہ بات عام آدمی بھی جان چکا ہے کہ پاکستان نے اس جنگ کی واقعی ایک بڑی قیمت چکائی ہے، لیکن اپنے حکومتی ڈائی لیما کی وجہ سے۔ اس لیے کہ یکے بعد دیگرے پاکستان کے حکمران اپنے قومی مفاد کے حق میں دو ٹوک فیصلہ کرنے کے بجائے تذبذب اور مصلحت کا شکار ہوتے رہے۔
اس جنگ میں عالمی قوتوں کا حلیف بن کر پاکستان نے جو کچھ فائدے حاصل کیے، ان کی حیثیت اونٹ کی ڈاڑھ میں زیرے جیسی تھی، لیکن قیمت یہ چکائی کہ ایک طرف تو اسی کا معاشی و سماجی اسٹرکچر تباہ ہوکر رہ گیا اور دوسری طرف قومی سالمیت تک داؤ پر لگ گئی۔ اس مسئلے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان اور ایران جیسے پڑوسی اب اس کے لیے سنجیدہ تحفظات رکھتے ہیں اور دوسرا پہلو یہ کہ امریکا جیسا اتحادی جس کے لیے یہ سارا عذاب اپنے سر لیا گیا، آج اس کی خدمات کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے، یعنی خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔
حالات بتا رہے ہیں کہ امریکا کو اب افغانستان سے نکلنا ہے اور وہ اسی ٹرمپ حکومت کے دور میں نکلنا چاہتا ہے، اور نکل بھی جائے گا۔ اس کے بعد نہیں، بلکہ اس سے پہلے ہی خطے کی صورتِ حال میں تبدیلی نمایاں ہوگی وہ یہاں ممالک کے باہمی تعلقات پر بھی واضح طور پر اثرانداز ہوگی۔ امریکا کے ساتھ طالبان کو مذاکرات کے لیے بٹھانے میں بھی پاکستان کا ایک کردار ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ملک کے لیے اقتداری حکمتِ عملی بنانے والے سب افراد اور ادارے نہ صرف امریکا کی خواہشات کے جواز، بلکہ اپنے خطے کی صورتِ حال کا بھی مکمل شعور رکھتے ہوئے اب اپنے ملکی مفاد کو پوری طرح سامنے رکھ کر اپنے کردار کا تعین کررہے ہوں گے، یہی نہیں، بلکہ اب اپنے عملی اقدامات میں بھی کسی پس و پیش سے دوچار نہیں ہوں گے۔
تاہم اپنی گزشتہ حکومتوں کے تجربات ہمیں پوری طرح اطمینان حاصل کرنے نہیں دیتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ سب لوگ اور ذرائع (پرنٹ، الیکٹرونک، سوشل میڈیا، اہلِ دانش اور عوامی رائے سازی کی اہلیت رکھنے والے افراد) اس ضمن میں وہ کردار ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں جو ترقی یافتہ ممالک میں تھنک ٹینکس کرتے ہیں، تاکہ جس طور بھی ممکن ہو اُن کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچے اور ملکی استحکام اور قومی مفادات کے لیے ہر ممکن اقدام کے حوالے سے ان کا کردار مؤثر ثابت ہو۔
حالیہ عرصے میں تبدیلی کا جو منظرنامہ مشرقِ وسطیٰ میں ابھرا ہے، وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دوستی دشمنی کی پرانی بنیادیں اب قائم نہیں ہیں۔ حالات اور حقائق نے بہت کچھ بدل دیا۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے اور اپنے ساتھ بہت سے تصورات اور تحفظات بھی بہاکر لے جاچکا ہے۔ سیاست میں یوں بھی کوئی حرف کسی مرحلے پر حرفِ آخر نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح کوئی دوستی اور دشمنی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس عرصے میں چین نے دنیا میں گیم چینجر کی حیثیت سے خود کو پوری طرح نمایاں کیا ہے۔ اسی حیثیت میں وہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کے لیے کام کررہا ہے۔ پاکستان میں سی پیک اس کا بہت ٹھوس اقدام ہے جو ایک بڑے خطے میں اس کے نفوذ کی راہ ہموار کررہا ہے۔ دوسری طرف ایرانی ایٹمی منصوبے پر امریکی اختلاف اور اقتصادی پابندیاں امریکی طاقت اور جارحیت کا اظہار تو بے شک کرتی ہیں، لیکن روس اور چین نے جس طرح اُن کو رد کرتے ہوئے ایران کے لیے نرم رویہ اختیار کیا ہے، وہ بھی صاف طور سے اس امر کی غمازی کررہا ہے، امریکی اختیار کا دائرہ اب اس خطے میں سمٹنا شروع ہوگیا ہے اور آنے والے دنوں میں یہاں ہوا کا رخ بدل جائے گا۔
اس صورتِ حال میں پاکستان کو اپنی بقا اور استحکام کے مسئلے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے اسے اپنے پڑوسی ملکوں سے اپنے سفارتی تعلقات کا ازسرِ نو جائزہ لے کر نئی سفارتی حکمتِ عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے سفارتی رویے کے ساتھ اسے پڑوسیوں سے تعلقات کی بحالی کے لیے پیش قدمی کرنی چاہیے جو برابری کی سطح پر تعلقات اور پرامن بقائے باہمی کی مظہر ہو، اور اس میں ہمسایہ داری کو ترجیح حاصل ہو، اور جو باہمی اتحاد کے فروغ میں پاکستان کی خواہشات کی غمازی بھی کرتی ہو۔ اس میں یہ بات پوری طرح واضح ہو کہ پاکستان اب کسی طاقت کا آرگن نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں سے دل چسپی رکھتا ہے۔
ساتھ یہ بھی کہ وہ اپنے دفاع اور استحکام سے ہرگز غافل نہیں، لیکن جارحیت اس کا مطمحِ نظر قطعاً نہیں ہے۔ وہ ایٹمی طاقت اور اسلحے کا خریدار ضرور ہے، لیکن صرف اور صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت اور امنِ عامہ کے لیے۔ وہ اپنے سارے پڑوسیوں سے خیرسگالی اور اعتماد کے تعلقات کا خواہاں ہے اور اب یہ نکتہ اس کی سفارتی ترجیحات میں سرِ فہرست ہے۔ وہ مذہبی یا معاشی بنیاد پر کوئی جنگی عزائم نہیں رکھتا۔ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر خطے میں امن اور معاشی ترقی کے ہر ممکن اقدامات کا خواہاں ہے۔
پاکستان کے اس وقت ایران اور افغانستان دونوں سے تعلقات کی سطح ویسی نہیں ہے، جیسی کبھی اچھے دنوں میں ہوا کرتی تھی۔ ہماری گذشتہ حکومتوں نے اس ضمن میں مجرمانہ حد کو پہنچی ہوئی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس غفلت کی تلافی لمحوں یا دنوں میں تو نہیں ہوپائے گی۔ تاہم اس سمت میں ایک بار کام شروع ہوگا تو پھر جاکر بحالی کا عمل ممکن ہوگا۔ موجودہ حکومت اس وقت ساری توجہ معاشی مسئلے سے نمٹنے پر دے رہی ہے، اور وہ ہے کہ ابھی قابو میں آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حکومتیں اور ممالک بیرونی امداد پر نہ چلتے ہیں اور نہ ہی باقی رہ سکتے ہیں۔ ان کی بقا کا ایک ہی رستہ ہوتا ہے، اپنے وسائل اور ذرائع پر انحصار۔ پاکستان کے لیے یہ اسی وقت ممکن ہے، جب اس خطے میں امن ہو اور پڑوسیوں سے اس کے بہتر تعلقات ہوں۔ اسی صورتِ حال میں وہ اپنی ایکسپورٹ بڑھا کر، اور ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات اور سیر و سیاحت کی انڈسٹری کی بحالی کے ذریعے اپنی معاشی صورتِ حال کو درست کرسکتا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وقت کے تقاضوں، خطے کی صورتِ حال اور دنیا کے منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک جامع حکمتِ عملی مرتب کرے اور اُن سب پہلوؤں پر بہ یک وقت توجہ دے جو اس سب حقائق سے متعلق ہیں۔ جنوبی ایشیا میں تبدیلی کی ہوائیں واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے اقدامات طے کرنے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بدلتے ہوئے حالات ڈوبنے ابھرنے، دونوں کے امکانات لاتے ہیں، لیکن ہر ملک اُن میں سے اپنا انتخاب خود کرتا ہے۔