قطبی اور شمالی میدان اب سرد اور منجمد نہیں رہیں گے
یہاں موسم سرما میں بھی جما دینے والی سردی نہیں پڑے گی
حال ہی میں ہماری دنیا کے قطب شمالی کے دو اہم مقامات کے اعداد و شمار کے مطالعے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہاں کی چند ایک surface layersیا بالائی سطحوں کی تہیں اب موسم کے اعتبار سے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہیں کہ نہ تو یہ سردی کے باعث جمتی ہیں اور نہ ہی نہایت یا یخ بستہ سرد رہتی ہیں۔
اگر ماحولیات اور موسم کی تبدیلی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اس کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ permafrost یا زیر سطحی زمین جو مستقل طور پر منجمد رہتی ہے، اس کے باعث کرۂ ارض پر ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ جائے گا جو موسم اور آب و ہوا میں نہایت تیز اور شدید تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ روس اور سائبیریا کے تحقیقی مطالعے سے بھی یہ نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ ان علاقوں میں شمالی الاسکا اور روس کے کچھ علاقے مستقبل میں سرد اور منجمد نہیں ہوا کریں گے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہاں کا موسم معتدل ہونے لگے اور جس کے باعث یہ علاقے اپنے روایتی برفانی حسن سے محروم ہوجائیں اور یہاں کی روایتی سردی کے باعث یہاں جانے والے سیاح ان ملکوں اور ان علاقوں کی سیاحت کرنا بند یا کم کردیں۔
اس حوالے سے 16جنوری 2019کو Nature Communications نامی ایک عالمی میگزین میں جو تحقیقی مطالعہ شائع ہوا ہے، اس کے نتیجے میں اس انکشاف کی بھی توثیق ہوئی ہے کہ دنیا کے بیش تر علاقوں میں پرما فراسٹ کی سطحیں نہایت تیزی کے ساتھ پگھل رہی ہیں اور ان کی وجہ سے روایتی برف اور دائمی سردی یا ٹھنڈک غائب ہونے لگی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2007اور 2016کے درمیان پرما فراسٹ کا درجۂ حرارت عالمی سطح پر 0.29?±?0.12 تک بڑھ چکا ہے جس میں سب سے زیادہ درجۂ حرارت سائبیریا کے مختلف علاقوں میں بڑھا ہے اور یہ کم و بیش 0.93?°C تک جا پہنچا ہے جو خاصا قابل غور ہے۔ اس کے علاوہ سرد بر اعظم انٹارکٹیکا میں بھی اہم وارمنگ یا گرمی مشاہدہ کی گئی ہے جہاں ہمیشہ سے دائمی سردی اور برف کا راج تھا، وہاں اب صورت حال خاصی بدل چکی ہے جب کہ پہاڑی خطوں میں یہ چیز کم رہی اور وہاں کا درجۂ حرارت اس کے مقابلے میں اچھا خاصا کم تھا۔
قطبی یا شمالی میدانوں کے اکثر خطوں میں زمینی درجۂ حرارت اس لیے بھی بہت زیادہ بڑھ چکا ہے ، کیوں کہ وہاں بڑھتے ہوئے اوسط ہوائی درجۂ حرارت میں بھی اضافہ ہوا تھا، جب کہ کچھ علاقوں میں برف کی موٹائی یا thickness میں اضافے کی وجہ زیرزمین گرمی کو قرار دیا گیا جو اس ساری صورت حال کے باعث اندر ہی پھنس کر یا قید ہوکر رہ گئی تھی۔
شمالی سائبیریا میں Cherskiy, RussiaNikita Zimov طلبہ کو ماحولیاتی فیلڈ ورک پڑھا رہا تھا جب وہ ایک ایسے اہم سراغ پر پہنچ کر الجھ گیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ منجمد زمین توقع اور امید سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ Sergey Zimov وہ عالمی سائنسی سائنس داں ہے جو شمال مشرقی سائنس اسٹیشن کے پاس تعینات ہے اور وہ پرمافراسٹ لیولز کی پیمائش کرتا تھا جس کی بنیاد Cherskiy, Russia میں دریائے کولیما کے ساتھ ساتھ رکھی گئی تھی۔ Zimov اپنے والد Sergey Zimov کی طرح متعدد برس ایک ریسرچ اسٹیشن قائم کرنے میں بھی فرائض ادا کرچکا ہے اور یہ اسٹیشن روسی مشرق بعید میں آب و ہوا میں تیزی سے ہونے والی تبدیلی پر نظر رکھتا ہے اور اس ضمن میں ماہرین کو اعداد و شمار فراہم کرتا ہے اور نئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا پتا چلاتا ہے، اس لیے جب طلبہ و طالبات نے یہاں کی سطح کا تحقیقی مطالعہ کیا اور کائی جیسی مٹی کے جنگلات کے نمونے بھی حاصل کیے اور پہاڑی خطوں کی زمین کا مطالعہ بھی کیا جو وہاں قطبی گھیرے سے کوئی دو سو میل دور واقع تھا تو انہیں یہ خیال ہوا کہ یہاں بعض معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور کوئی نہ کوئی اہم ارضیاتی تبدیلی آسکتی ہے اور آنے والی ہے۔
اپریل میں اس نے ورکرز کی ایک ٹیم وہاں ہیوی ڈرلنگ کرنے کے لیے بھیجی جنھوں نے مٹی میں چند فٹ کی گہرائی تک ڈرلنگ کی تو اس کے بعد انہیں انہیں گاڑھی اور چکنی مٹی کے جو نمونے ملے، ان کا مطالعہ کرنے کے بعد Zimov نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ ایسا قطعی طور پر ممکن نہیں تھا۔ اس کے خیال میں تو یہ جگہ منجمد ہونی چاہیے تھی، مگر اب چیرسکی اور اس کی برادری کے تین ہزار افراد جو دریائے کولیما کے کنارے کنارے آباد ہیں، اور اس وقت یہ مقام کرۂ ارض پر سب سے سرد ترین مقام ہے، یہاں تو موسم بہار کے اواخر میں بھی زیر زمین سطح ٹھوس اور منجمد ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ موسم اس خطے کا صدیوں سے مزاج تھا جس میں تبدیلی نہایت حیران کن ہے۔
قطب شمالی کے خطے میں ہر موسم سرما میں زمینی مٹی کی اوپری سطح (چند انچ یا چند فیٹ تک) بہت زرخیز ہے جو اسے بالکل منجمد کردیتی ہے، مگر موسم گرما شروع ہوتے ہی دوبارہ سب کچھ پگھلنے لگتا ہے۔ زمین کی متحرک اور فعال تہہ کے نیچے جو سیکڑوں فیٹ کی گہرائی تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے، یہ منجمد یا فروزن زمین ہوتی ہے جس کو ہم permafrost کہتے ہیں، یہ وہ سطح ہے جو ہزاروں برس سے مستقل طور پر منجمد رہتی چلی آرہی ہے۔
لیکن Zimovs کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ایسے خطے میں جہاں درجۂ حرارت صفر فارن ہائیٹ سے 40 درجے تک ہوسکتا ہے، وہاں اس سال بہت زبردست برف پیدا ہوئی اور یہ اتنی بڑی مقدار میں تھی کہ اس برف نے پورے خطے کو کسی کمبل کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کی وجہ سے فالتو یا زائد گرمی اندر زمین میں ہی پھنس کر یا قید ہوکر رہ گئی، گویا اس گرمی کو زمین کی پنہائیوں نے اپنے اندر قید کرلیا۔ ایسا اس سال بہت زیادہ وقوع پذیر ہوا ہے۔ انہیں30 انچ کی گہرائی تک مختلف سیکشن ملے جن کی تفصیل کچھ یوں تھی:
پہلی سطح وہ مٹی تھی جو پیچیدہ طور پر کرسمس سے پہلے ہی جم گئی تھی، جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ وہ مٹی تھی جو پورے موسم سرما کے دوران تھوڑی سی مرطوب اور دلدلی تھی۔ اور اس کے بعد وہ مٹی تھی جو اب تک کے ریکارڈ کے مطابق پہلی بار ایسا ہو کہ انتہائی قطبی یا شمالی پرمافراسٹ موسم سرما میں منجمد نہیں ہوئی تھی۔
اس حوالے سے ایک قطبی سائنس داں میکس ہومز کہتا ہے:
''یہ نہایت حیران کن ہے، کیوں کہ Nikita Zimov کا فوٹو گرافر ووڈز ہومز جو میسوچیسٹس میں کام کرتا ہے، اس نے پرمافراسٹ کی جھیل میں میتھین گیس کی وجہ سے بلبلے بنتے دیکھے تھے جو ان سب کے لیے ایک ناقابل یقین منظر تھا اور اس بات کا بین ثبوت تھا کہ یہاں دوسری گیسیں داخل ہورہی ہیں اور جن کی وجہ سے یہ بلبلے فروغ پارہے ہیں۔''
مذکورہ بالا بیان اور اس حوالے سے ہونے والے انکشاف سے یہ بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری بحث کا سیدھا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اس خطے میں منجمد برف جو نہ جانے کب سے یعنی نامعلوم وقتوں سے جمی چلی آرہی ہے، وہ اب کچھ ایسی ارضیاتی تبدیلیوں کے باعث پگھلاؤ کی طرف آگئی ہے جو اپنے روایتی حسن سے محروم ہونے لگی ہے اور جس کی وجہ سے ان علاقوں کی تہذیب و ثقافت میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
اس ساری بحث کے بعد ہمارے ماہرین اور سائنس داں حضرات نے ایک پریشان کن سوال بھی اٹھادیا ہے، وہ یہ کہ کیا قطب شمالی کے سرد ترین خطوں میں پرمافراسٹ کا پگھلا ہوا مادہ ان متوقع دہائیوں سے کہیں پہلے پگھلنا شروع ہوگیا تھا؟ اور کیا یہ سارا کام کاربن سے خوب مالامال خطوں میں بہت بڑی تعداد میں ہوا تھا؟ اور کیا اس سارے سائنسی اور ارضیاتی عمل کے باعث گرین ہاؤس گیسیں بھی تیزی سے خارج ہونا شروع ہوئی تھیں اور ان کی تیز ریلیز کے باعث ہمارے کرۂ ارض پر ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ریکارڈ کے مطابق ہماری دنیا کے گذشتہ چار برس گرم ترین گزرے ہیں جن میں 2018 گرم ترین تھا اور قطب جنوبی و شمالی بھی مسلسل گرم ہوتے چلے جارہے ہیں، یہاں تک کہ قطبی گھیرے یا آرکٹک سرکل کے 300میل کے احاطے میں واقع ناروے میں گذشتہ سال جولائی میں درجۂ حرارت 90 فارن ہائیٹ تک جا پہنچا تھا۔ اگر ہمارے کرۂ ارض پر واقع پرمافراسٹ کی قابل ذکر مقدار قبل از وقت اور تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئی تو یہ صورت حال ہمارے کرۂ ارض کے لیے نہایت سنگین نتائج کاباعث نہ ہوجائے۔
اس ساری صورت حال پر شمالی ایری زونا یونی ورسٹی کے پرما فراسٹ ایکسپرٹ Ted Schuur کا کہنا ہے کہ پرما فراسٹ کی انوکھی اور حیرت انگیز دنیا میں یہ انکشاف نہایت حیران کن ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس طرح تو ہماری زمین پر اور ہمارے کرۂ ہوائی میں کاربن بڑی مقدار میں پھیلنے لگے گی جس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔
شمالی نصف کرے کی زمین کا لگ بھگ ایک چوتھائی حصہ ایسا ہے جو سارا کا سارا پرما فراسٹ پر واقع ہے۔ اس کی پھنسی ہوئی یا قید منجمد مٹی اور نباتات پورے atmosphere میں پائی جانے والی کاربن سے تعداد میں لگ بھگ دگنی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ فوسل فیول یا رکازی ایندھن کے جلنے سے زمین گرم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے منجمد علاقے بھی پگھلنے لگتے ہیں اور اسی باعث microbes یا جرثومے بھی مدفون نامیاتی مادوں کو استعمال یا consume کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھ جاتا ہے اور میتھین گیس کی کمی واقع ہونے لگتی ہے جو ہماری دنیا کے لیے گرین ہاؤس گیس اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی طرح ضروری ہے۔
ٹنڈرا کی گھاس اس مقام پر جہاں دریائے کولیما بحر منجمد شمالی سے ملتا ہے، اپنی نمی یا موائسچر کے پگھلاؤ کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے۔ پھر نئی تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ آرکٹک الاسکا اور روس میں بعض زمینیں ایسی ہیں جو آنے والے وقتوں میں بالکل بھی منجمد نہیں ہوں گی۔ گویا یہاں سے سردی اور برف کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ تو کیا ہم نے اس ساری صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی ہے؟ کیا ہم اپنے کرۂ ارض سے مٹتی ہوئی برف اور یخ بستہ سردیوں کے متبادل کے طور پر کچھ نیا تلاش کررہے ہیں؟ ہمارے ارضیاتی ماہرین اور سائنس داں انہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں مسلسل مصروف ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب قدرتی عوامل ہیں اور ان کی ڈوریں قدرت نے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھی ہوئی ہیں۔ آنے والے وقتوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہماری زمین پر کیا کیا بدلے گا اور کیسی کیسی حیران کن تبدیلیاں آئیں گی، ان سب کے جوابات آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔
اگر ماحولیات اور موسم کی تبدیلی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اس کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ permafrost یا زیر سطحی زمین جو مستقل طور پر منجمد رہتی ہے، اس کے باعث کرۂ ارض پر ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ جائے گا جو موسم اور آب و ہوا میں نہایت تیز اور شدید تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ روس اور سائبیریا کے تحقیقی مطالعے سے بھی یہ نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ ان علاقوں میں شمالی الاسکا اور روس کے کچھ علاقے مستقبل میں سرد اور منجمد نہیں ہوا کریں گے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہاں کا موسم معتدل ہونے لگے اور جس کے باعث یہ علاقے اپنے روایتی برفانی حسن سے محروم ہوجائیں اور یہاں کی روایتی سردی کے باعث یہاں جانے والے سیاح ان ملکوں اور ان علاقوں کی سیاحت کرنا بند یا کم کردیں۔
اس حوالے سے 16جنوری 2019کو Nature Communications نامی ایک عالمی میگزین میں جو تحقیقی مطالعہ شائع ہوا ہے، اس کے نتیجے میں اس انکشاف کی بھی توثیق ہوئی ہے کہ دنیا کے بیش تر علاقوں میں پرما فراسٹ کی سطحیں نہایت تیزی کے ساتھ پگھل رہی ہیں اور ان کی وجہ سے روایتی برف اور دائمی سردی یا ٹھنڈک غائب ہونے لگی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2007اور 2016کے درمیان پرما فراسٹ کا درجۂ حرارت عالمی سطح پر 0.29?±?0.12 تک بڑھ چکا ہے جس میں سب سے زیادہ درجۂ حرارت سائبیریا کے مختلف علاقوں میں بڑھا ہے اور یہ کم و بیش 0.93?°C تک جا پہنچا ہے جو خاصا قابل غور ہے۔ اس کے علاوہ سرد بر اعظم انٹارکٹیکا میں بھی اہم وارمنگ یا گرمی مشاہدہ کی گئی ہے جہاں ہمیشہ سے دائمی سردی اور برف کا راج تھا، وہاں اب صورت حال خاصی بدل چکی ہے جب کہ پہاڑی خطوں میں یہ چیز کم رہی اور وہاں کا درجۂ حرارت اس کے مقابلے میں اچھا خاصا کم تھا۔
قطبی یا شمالی میدانوں کے اکثر خطوں میں زمینی درجۂ حرارت اس لیے بھی بہت زیادہ بڑھ چکا ہے ، کیوں کہ وہاں بڑھتے ہوئے اوسط ہوائی درجۂ حرارت میں بھی اضافہ ہوا تھا، جب کہ کچھ علاقوں میں برف کی موٹائی یا thickness میں اضافے کی وجہ زیرزمین گرمی کو قرار دیا گیا جو اس ساری صورت حال کے باعث اندر ہی پھنس کر یا قید ہوکر رہ گئی تھی۔
شمالی سائبیریا میں Cherskiy, RussiaNikita Zimov طلبہ کو ماحولیاتی فیلڈ ورک پڑھا رہا تھا جب وہ ایک ایسے اہم سراغ پر پہنچ کر الجھ گیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ منجمد زمین توقع اور امید سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ Sergey Zimov وہ عالمی سائنسی سائنس داں ہے جو شمال مشرقی سائنس اسٹیشن کے پاس تعینات ہے اور وہ پرمافراسٹ لیولز کی پیمائش کرتا تھا جس کی بنیاد Cherskiy, Russia میں دریائے کولیما کے ساتھ ساتھ رکھی گئی تھی۔ Zimov اپنے والد Sergey Zimov کی طرح متعدد برس ایک ریسرچ اسٹیشن قائم کرنے میں بھی فرائض ادا کرچکا ہے اور یہ اسٹیشن روسی مشرق بعید میں آب و ہوا میں تیزی سے ہونے والی تبدیلی پر نظر رکھتا ہے اور اس ضمن میں ماہرین کو اعداد و شمار فراہم کرتا ہے اور نئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا پتا چلاتا ہے، اس لیے جب طلبہ و طالبات نے یہاں کی سطح کا تحقیقی مطالعہ کیا اور کائی جیسی مٹی کے جنگلات کے نمونے بھی حاصل کیے اور پہاڑی خطوں کی زمین کا مطالعہ بھی کیا جو وہاں قطبی گھیرے سے کوئی دو سو میل دور واقع تھا تو انہیں یہ خیال ہوا کہ یہاں بعض معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور کوئی نہ کوئی اہم ارضیاتی تبدیلی آسکتی ہے اور آنے والی ہے۔
اپریل میں اس نے ورکرز کی ایک ٹیم وہاں ہیوی ڈرلنگ کرنے کے لیے بھیجی جنھوں نے مٹی میں چند فٹ کی گہرائی تک ڈرلنگ کی تو اس کے بعد انہیں انہیں گاڑھی اور چکنی مٹی کے جو نمونے ملے، ان کا مطالعہ کرنے کے بعد Zimov نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ ایسا قطعی طور پر ممکن نہیں تھا۔ اس کے خیال میں تو یہ جگہ منجمد ہونی چاہیے تھی، مگر اب چیرسکی اور اس کی برادری کے تین ہزار افراد جو دریائے کولیما کے کنارے کنارے آباد ہیں، اور اس وقت یہ مقام کرۂ ارض پر سب سے سرد ترین مقام ہے، یہاں تو موسم بہار کے اواخر میں بھی زیر زمین سطح ٹھوس اور منجمد ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ موسم اس خطے کا صدیوں سے مزاج تھا جس میں تبدیلی نہایت حیران کن ہے۔
قطب شمالی کے خطے میں ہر موسم سرما میں زمینی مٹی کی اوپری سطح (چند انچ یا چند فیٹ تک) بہت زرخیز ہے جو اسے بالکل منجمد کردیتی ہے، مگر موسم گرما شروع ہوتے ہی دوبارہ سب کچھ پگھلنے لگتا ہے۔ زمین کی متحرک اور فعال تہہ کے نیچے جو سیکڑوں فیٹ کی گہرائی تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے، یہ منجمد یا فروزن زمین ہوتی ہے جس کو ہم permafrost کہتے ہیں، یہ وہ سطح ہے جو ہزاروں برس سے مستقل طور پر منجمد رہتی چلی آرہی ہے۔
لیکن Zimovs کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ایسے خطے میں جہاں درجۂ حرارت صفر فارن ہائیٹ سے 40 درجے تک ہوسکتا ہے، وہاں اس سال بہت زبردست برف پیدا ہوئی اور یہ اتنی بڑی مقدار میں تھی کہ اس برف نے پورے خطے کو کسی کمبل کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کی وجہ سے فالتو یا زائد گرمی اندر زمین میں ہی پھنس کر یا قید ہوکر رہ گئی، گویا اس گرمی کو زمین کی پنہائیوں نے اپنے اندر قید کرلیا۔ ایسا اس سال بہت زیادہ وقوع پذیر ہوا ہے۔ انہیں30 انچ کی گہرائی تک مختلف سیکشن ملے جن کی تفصیل کچھ یوں تھی:
پہلی سطح وہ مٹی تھی جو پیچیدہ طور پر کرسمس سے پہلے ہی جم گئی تھی، جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ وہ مٹی تھی جو پورے موسم سرما کے دوران تھوڑی سی مرطوب اور دلدلی تھی۔ اور اس کے بعد وہ مٹی تھی جو اب تک کے ریکارڈ کے مطابق پہلی بار ایسا ہو کہ انتہائی قطبی یا شمالی پرمافراسٹ موسم سرما میں منجمد نہیں ہوئی تھی۔
اس حوالے سے ایک قطبی سائنس داں میکس ہومز کہتا ہے:
''یہ نہایت حیران کن ہے، کیوں کہ Nikita Zimov کا فوٹو گرافر ووڈز ہومز جو میسوچیسٹس میں کام کرتا ہے، اس نے پرمافراسٹ کی جھیل میں میتھین گیس کی وجہ سے بلبلے بنتے دیکھے تھے جو ان سب کے لیے ایک ناقابل یقین منظر تھا اور اس بات کا بین ثبوت تھا کہ یہاں دوسری گیسیں داخل ہورہی ہیں اور جن کی وجہ سے یہ بلبلے فروغ پارہے ہیں۔''
مذکورہ بالا بیان اور اس حوالے سے ہونے والے انکشاف سے یہ بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری بحث کا سیدھا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اس خطے میں منجمد برف جو نہ جانے کب سے یعنی نامعلوم وقتوں سے جمی چلی آرہی ہے، وہ اب کچھ ایسی ارضیاتی تبدیلیوں کے باعث پگھلاؤ کی طرف آگئی ہے جو اپنے روایتی حسن سے محروم ہونے لگی ہے اور جس کی وجہ سے ان علاقوں کی تہذیب و ثقافت میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
اس ساری بحث کے بعد ہمارے ماہرین اور سائنس داں حضرات نے ایک پریشان کن سوال بھی اٹھادیا ہے، وہ یہ کہ کیا قطب شمالی کے سرد ترین خطوں میں پرمافراسٹ کا پگھلا ہوا مادہ ان متوقع دہائیوں سے کہیں پہلے پگھلنا شروع ہوگیا تھا؟ اور کیا یہ سارا کام کاربن سے خوب مالامال خطوں میں بہت بڑی تعداد میں ہوا تھا؟ اور کیا اس سارے سائنسی اور ارضیاتی عمل کے باعث گرین ہاؤس گیسیں بھی تیزی سے خارج ہونا شروع ہوئی تھیں اور ان کی تیز ریلیز کے باعث ہمارے کرۂ ارض پر ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ریکارڈ کے مطابق ہماری دنیا کے گذشتہ چار برس گرم ترین گزرے ہیں جن میں 2018 گرم ترین تھا اور قطب جنوبی و شمالی بھی مسلسل گرم ہوتے چلے جارہے ہیں، یہاں تک کہ قطبی گھیرے یا آرکٹک سرکل کے 300میل کے احاطے میں واقع ناروے میں گذشتہ سال جولائی میں درجۂ حرارت 90 فارن ہائیٹ تک جا پہنچا تھا۔ اگر ہمارے کرۂ ارض پر واقع پرمافراسٹ کی قابل ذکر مقدار قبل از وقت اور تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئی تو یہ صورت حال ہمارے کرۂ ارض کے لیے نہایت سنگین نتائج کاباعث نہ ہوجائے۔
اس ساری صورت حال پر شمالی ایری زونا یونی ورسٹی کے پرما فراسٹ ایکسپرٹ Ted Schuur کا کہنا ہے کہ پرما فراسٹ کی انوکھی اور حیرت انگیز دنیا میں یہ انکشاف نہایت حیران کن ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس طرح تو ہماری زمین پر اور ہمارے کرۂ ہوائی میں کاربن بڑی مقدار میں پھیلنے لگے گی جس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔
شمالی نصف کرے کی زمین کا لگ بھگ ایک چوتھائی حصہ ایسا ہے جو سارا کا سارا پرما فراسٹ پر واقع ہے۔ اس کی پھنسی ہوئی یا قید منجمد مٹی اور نباتات پورے atmosphere میں پائی جانے والی کاربن سے تعداد میں لگ بھگ دگنی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ فوسل فیول یا رکازی ایندھن کے جلنے سے زمین گرم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے منجمد علاقے بھی پگھلنے لگتے ہیں اور اسی باعث microbes یا جرثومے بھی مدفون نامیاتی مادوں کو استعمال یا consume کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھ جاتا ہے اور میتھین گیس کی کمی واقع ہونے لگتی ہے جو ہماری دنیا کے لیے گرین ہاؤس گیس اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی طرح ضروری ہے۔
ٹنڈرا کی گھاس اس مقام پر جہاں دریائے کولیما بحر منجمد شمالی سے ملتا ہے، اپنی نمی یا موائسچر کے پگھلاؤ کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے۔ پھر نئی تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ آرکٹک الاسکا اور روس میں بعض زمینیں ایسی ہیں جو آنے والے وقتوں میں بالکل بھی منجمد نہیں ہوں گی۔ گویا یہاں سے سردی اور برف کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ تو کیا ہم نے اس ساری صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی ہے؟ کیا ہم اپنے کرۂ ارض سے مٹتی ہوئی برف اور یخ بستہ سردیوں کے متبادل کے طور پر کچھ نیا تلاش کررہے ہیں؟ ہمارے ارضیاتی ماہرین اور سائنس داں انہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں مسلسل مصروف ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب قدرتی عوامل ہیں اور ان کی ڈوریں قدرت نے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھی ہوئی ہیں۔ آنے والے وقتوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہماری زمین پر کیا کیا بدلے گا اور کیسی کیسی حیران کن تبدیلیاں آئیں گی، ان سب کے جوابات آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔