ہاتھ سے چمڑے کے جوتے بنانے کا فن ناپید ہونے لگا
انچولی کے کارخانے میں عمر رسیدہ کاریگروں کی لکڑی کے فرمے پر چمڑے کو منڈھاتے ہوئے ہاتھ اورپیروں کی گرفت آج بھی مضبوط ہے
80 سالہ اعجاز ماہر ڈیزائنر ہیں، ہزاروں جوتے تیار کر چکے۔ فوٹو: ایکسپریس
فیڈرل بی ایریا کے علاقے انچولی میں ایک کارخانے میں عمررسیدہ کاریگر چمڑے کے جوتے بنانے میں مصروف ہیں جب کہ تمام کاریگر عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکے ہیں لیکن لکڑی کے فرمے پر چمڑے کو منڈھاتے ہوئے ان کے ہاتھ اور پیروں کی گرفت آج بھی مضبوط ہے، ان بزرگ کاری گروں کی رہنمائی بھی ایک بزرگ کاری گر اعجاز حسین کر رہے ہیں جو زندگی کی 80 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔
اعجاز حسین نے بچپن سے یہ ہنر سیکھا،10 سال کی عمر میں علی گڑھ سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے اور لاڑکانہ سے کام کا آغاز کیا، اعجاز حسین کا تعلق ہنرمندوں کی اس پیڑھی سے ہے جنھوں نے ساری زندگی محنت کی اور اپنے پیشے کے ساتھ مخلص رہے اور عمر کے آخری حصے میں بھی ہاتھ سے کام کرکے روزی کمانے کو ترجیح دیتے ہیں، اعجاز حسین جوتوں کے ماہر ڈیزائنر ہیں جدید یا کلاسک ہر طرح کے ڈیزائن ایک نظر میں دیکھ کر ہوبہو تیار کردیتے ہیں۔
چمڑہ کاٹنے کا کتیہ ان کی انگلیوں کے اشارے سمجھتا ہے اور بزرگی کے باوجود کئی گھنٹے کھڑے ہوکر جوتوں کے اوپری حصے کے لیے چمڑے کو ڈیزائن کے مطابق کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں ،اعجاز حسین اب تک ہزاروں کی تعداد میں جوتے تیار کرچکے ہیں ان کے بنائے ہوئے جوتے انگلش بوٹ ہاؤس پر فروخت کیے جاتے رہے اور اب بھی معروف دکانیں ان سے آرڈر پر خصوصی جوتے بنواتی ہیں۔
اعجاز حسین کے صاحبزادے سجاد حسین نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے فن اور تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کارخانے اور کاروبار کی بنیاد رکھی جس کی نگرانی ان کے والد اعجاز حسین کرتے ہیں، ہاتھ سے چمڑے کے جوتے بنانے کا فن اب ناپید ہورہا ہے، مصنوعی چمڑے اور ریگزین سمیت نت نئے میٹریل سے بنے جوتے اور جاگرز بازار میں آنے کے باوجود چمڑے کے جوتے پہننے کا رجحان آج بھی برقرار ہے اس فن کے معدوم ہونے کی بنیادی وجہ کاریگروں کی کمی ہے۔
اعجاز حسین نے بتایا کہ اس وقت اچھے کاریگروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، کراچی میں ہاتھ سے اعلیٰ معیار کے چمڑے کے جوتے بنانے والے کارخانوں کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے۔
اعجاز حسین کے مطابق اجرت اچھی ملنے کے باوجود اب کاریگر اس کام کی جانب راغب نہیں ہیں نئے کاریگروں کی بڑی تعداد یا تو یہ پیشہ ترک کرچکی یا پنجاب منتقل ہوگئی، کراچی میں تین دہائیوں تک جاری بدامنی نے بھی اس پیشہ کو نقصان پہنچایا اچھے کاروباریوں نے کراچی سے اپنا کاروبار سمیٹ کر لاہور اور دیگر شہروں کا رخ کرلیا۔
خود اعجاز حسین کے صاحبزادے سجاد حسین کو 3 بار ڈکیتیوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں 35 لاکھ روپے سے محروم کردئے گئے اور ایک بار فائرنگ کا سامنا کیا اور مشکل سے جان بچائی اس شدید مالی نقصان نے سجاد حسین کی کمرتوڑ دی لیکن انھوں نے کاروبار جاری رکھا اور جمع پونجی لگاکر دوبارہ کارخانہ قائم کیا۔
پہلے کاریگرملازمین سے اچھی زندگی بسر کرتے تھے
ہمارے زمانے میں تین پیشوں سے وابستہ افراد کو اچھی اجرت ملتی تھی جو اس وقت 5 روپے ہفتہ ہوتی تھی اس رقم میں آرام سے گزربسر ہوتی تھی اس زمانے میں زیادہ تر افراد درزی، جوتا سازی کا کام سیکھتے اور اسے روزگار کا ذریعہ بناتے یا پھر واجبی تعلیم حاصل کرکے ڈاک خانے میں ملازمت کرلیتے یہ بات ماہر کاری گر اعجاز حسین نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ ان کے بڑے بھائی نے خود ٹیلرنگ (درزی) کا پیشہ اختیار کیا اور اعجاز حسین کو جوتا سازی کا کام سکھلایا۔
اس وقت صنعتوں کا زمانہ نہیں تھا کاریگر ملازمت پیشہ افراد سے زیادہ اچھی زندگی بسر کرتے تھے روز کماتے روز خرچ کرتے تھے پرانے وقتوں میں بینک مالیاتی ادارے اور صنعتیں نہیں تھیں ہاتھ سے روزگار کمانے کا رواج تھا کاریگروں کی آمدن زیادہ اور ملازمت پیشہ افراد کی آمدن کم ہوتی تھی آج ملازمتوں کے مواقع بڑھ گئے اور کاری گری معدوم ہورہی ہے نوجوان کوئی ہنر سیکھنے کے بجائے ملازمت کو ترجیح دینے لگے جس کی وجہ سے کاریگروں کی کمی ہوگئی۔
اعجاز حسین اپنے کام کے لیے بھی ستر کی دہائی تک کے زمانے کو بہترین دور قرار دیتے ہیں اعجاز حسین کے مطابق اس زمانے میں آج سے زیادہ کام تھا فرصت نہیں ملتی تھی اس زمانے میں لوگوں کی نیت میں بھی کھوٹ نہ تھا اب نیتیں بدل گئی ہیں، ایوب خان اور بھٹو تک کا وقت بہترین تھا۔
چمڑے کے جوتے موسم سرما میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے رہتے ہیں
کراچی کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی گاہک چمڑے کے جوتے آرڈر پر بنواتے ہیں جوتوں کی قیمت ڈیزائن، چمڑے اور سول کے معیار کے لحاظ سے وصول کی جاتی ہے تاہم یہ قیمت دکانوں کے مقابلے میں 30 فیصد تک کم ہوتی ہے اور معیار بہت اعلیٰ ہوتا ہے، سجاد حسین کے مطابق ان کے تیار کردہ جوتے بآسانی 5 سال تک قابل استعمال رہتے ہیں۔
چمڑے کے جوتوں کی سب سے خاص بات ہے کہ موسم سرما میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے رہتے ہیں اور انسانی جلد پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑتا سجاد حسین نے بتایا کہ مارکیٹ میں سستے جوتوں کی یلغار سے چمڑے کے جوتوں کی طلب بڑھی ہے کیونکہ چینی لیدر شوز مصنوعی لیدر سے بنائے جاتے کیں جبکہ حرام جانوروں کے چمڑے کا بھی استعمال کیا جاتا ہے حرام چمڑے کے استعمال سے پیروں میں خارش اور فنگس کی شکایات بھی بڑھ رہی ہیں۔
نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ اس فن کی تکنیکی تربیت دی جائے
سجاد حسین کا کہنا ہے کہ اگر چمڑے کے جوتوں کی صنعت کی سرکاری سرپرستی کی جائے تو یہ روزگار اور زرمبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ ثابت ہوگی تاہم افرادی قوت کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے خود ان کے کارخانے میں 3 دہائیوں کے دوران 17 کاریگر یکے بعد دیگرے رخصت ہوچکے تاہم ان کا خلا آج تک پر نہیں ہوسکا نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ اس فن کی تکنیکی تربیت دی جائے تو کاریگروں کی کمی کے مسئلے کا بھی خاتمہ ہوگا اور اس شعبہ کو جدید رجحانات سے بھی ہم آہنگ کیا جا سکے گا۔
چمڑے کے جوتے کی ایک جوڑی 7 دن میں بنتی ہے، جوتے کا اوپری حصہ گائے کی کھال سے بنایا جاتا ہے
سجاد حسین کے مطابق کارخانے سے ایسے بھی افراد چمڑے کے جوتے خرید سکتے ہیں جن کی قوت خرید کم ہوتی ہے ایسے افراد کیلیے خصوصی رعایت کی جاتی ہے، جوتے کی تیاری کے 4 مراحل ہیں ڈیزائن کے مطابق چمڑے کی کٹنگ کے بعد اوپری حصہ تیار کیا جاتا ہے دوسری جانب نچلے حصہ جسے باٹم کہتے ہیں تیار ہوتا ہے سول یعنی باٹم پر اوپری حصہ فرمے کی مدد سے منڈھا جاتا ہے ایک جوتا 6 کاری گروں کے ہاتھ سے گزرتا ہے سول اور اپر کو جوڑنے کے کیے سلائی کا کام بھی ہاتھ سے ہوتا ہے۔
ایک جوڑا ایک ہفتہ میں تیار ہوتا ہے بھینس کے مقابلے میں گائے کی کھال کا چمڑہ بہتر ہوتا ہے جوتے کا اوپری حصہ گائے کی کھال سے بنایا جاتا ہے جبکہ بھینس کی کھال کا چمڑہ جوتوں کے سول بنانے کے کام آتا ہے، خریدار کیٹلاگ میں سے ڈیزائن پسند کرسکتے ہیں اور خود اپنے ہمراہ کوئی بھی ڈیزائن لاسکتے ہیں جو 99 فیصد تک ڈیزائن کے مطابق تیار کیا جاسکتا ہے۔
ذوالفقاربھٹونے بھی اعجاز حسین کے ہاتھ سے بنا جوتا پہنا تھا
اعجاز حسین نے بتایا کہ وہ صدر میں ایک کارخانے میں کام کرتے تھے جہاں انگلش بوٹ ہاؤس کیلیے جوتے بنتے تھے لیاقت علی خان ذوالفقارعلی بھٹو اور اہم شخصیات کے لیے خاص آرڈر پر جوتے تیار کیے جاتے تھے ان میں سے کئی شخصیات سے انھیں ملاقات کا بھی موقع ملا، اعجاز حسین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو انتہائی باوقار اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے اور خوش لباسی میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اعجاز حسین کے ہاتھ سے بنا جوتا پہنا۔
بڑی کمپنیاں ہم سے جوتے تیار کرواتی ہیں، سجاد حسین
اعجاز حسین کے صاحبزادے سجاد حسین اپنے والد کی مہارت اور تجربے کو آگے بڑھا رہے ہیں1988 میں اپنا کارخانہ قائم کیا اور شو ڈاٹ کام کے نام سے انفرادی آرڈرز کے لیے ہاتھ سے تیار شدہ لیدر کے جوتے کارخانے سے ہی فروخت کررہے ہیں، چمڑے کے جوتوں کی بڑی برانڈز کمپنیاں بھی ان سے جوتے بنواتی ہیں جبکہ خلیجی ریاستوں دبئی بھارت سے آنے والے بھی ان سے آرڈر پر چمڑے کے جوتے بنواتے ہیں۔
سجاد حسین کے مطابق پاکستان میں اعلیٰ معیار کا چمڑا پایا جاتا ہے اور خوش قسمتی سے ابھی ان کے والد جیسے کاریگر بھی موجود ہیں جو کاریگروں کی نئی نسل کو تربیت فراہم کر سکتے ہیں چمڑے کے جوتوں کی ایکسپورٹ سے زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے لیکن اس شعبہ کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔
انھوں نے بتایا کہ کچھ نوجوان ان سے مال تیار کرواکر انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن فروخت کررہے ہیں جس سے ظاگر ہوتا ہے کہ ماہر کاری گروں کے تجربہ اور نئے رجحانات کو ملاکر چمڑے کے جوتوں کی تیاری کے کام کو صنعت کی شکل دی جاسکتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس فن میں جدید رجحانات کے فقدان کی وجہ سے بھی اس ہنر کو نقصان پہنچ رہا ہے ان کے کارخانے میں 99 فیصد کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے کاری گر اپنے کام کے انداز کو بدلنے پر تیار نہیں اٹلی، میکسیکو، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور برازیل نے اس کام کو جدید رجحانات سے ہم آہنگ کرکے صنعت کا درجہ دیا ان کے کاری گر مشینوں کی مدد سے ٹیبلوں پر کھڑے ہوکر کام کرتے ہیں جبکہ پاکستانی کاریگر زمین پر پتھر کی سلیں رکھ کر اس پر کام کرنے کے عادی ہیں۔