ایوان میں شائستگی کے فروغ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں

ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

قاسم خان سوری قومی اسمبلی کے نو منتخب ڈپٹی اسپیکر ہیں اور آپ کا تعلق خلجی قبیلے کی ممتاز شاخ سوری سے ہے۔

آپ جنوری 1969ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اسلامیہ اسکول سے حاصل کی جبکہ تعمیر نو سکول کوئٹہ سے میٹرک کیا۔ 1988ء میں فیڈرل گورنمنٹ کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا۔بعدازاں جامعہ بلوچستان سے 1990ء میں سیاسیات میں بی اے اور اسی ادارے سے 1992ء میں بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

قاسم خان سوری نے 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 2007ء میں جماعت کے عہدیدار منتخب ہوئے۔ آپ جماعت کے واحد رکن ہیں جنہیں تحریک انصاف بلوچستان کا دو بار صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پہلی مرتبہ 2009 جبکہ دوسری مرتبہ 2013ء میں منتخب ہوئے۔ آپ تحریک انصاف کے ایک فعال رکن کے طور پر کام کر رہے ہیں اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی بنیادیں مضبوط کرنے میں آپ کا کلیدی کردار ہے۔

2013ء کے عام انتخابات میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حلقہ این 259 (کوئٹہ) سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر انہوں نے الیکشن لڑا۔ اس مرتبہ حلقہ این 256 (کوئٹہ2-) سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔

عام انتخابات میں کامیابی کے بعد، پاکستان تحریک انصاف نے انہیں 13 اگست 2018ء کو قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر نامزد کیا۔ 15 اگست 2018ء کو قاسم خان سوری 183ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے جس کے بعد سے اب تک وہ بطور ڈپٹی اسپیکر اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے گزشتہ دنوں خصوصی دعوت پر ''ایکسپریس فورم'' میں شرکت کی جہاں ان سے اہم معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے۔

قاسم خان سوری (ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)

پاکستان تحریک انصاف اپنی 22 سالہ طویل جدوجہد کے بعد 2018ء کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ پاکستان کے عوام نے عمران خان پر بھروسہ کرکے انہیں وزیراعظم منتخب کیا۔عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کیلئے تندہی سے کام کر رہے ہیں جو سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے عوامی توقعات کے مطابق کابینہ تشکیل دی اور حکومت سازی کے تمام مراحل بخوبی مکمل کیے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہمیں اقتصادی بحران و دیگر مسائل ورثہ میں ملے ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک30 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے جس کے سود کی ادائیگی کیلئے بھی ہمیں بھاری رقم دینا پڑ رہی ہے جبکہ اصل قرض اتارنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنی پوری ٹیم پر چیک اینڈ بیلنس رکھا ہے جو بہترین مثال ہے۔ اس سے سب کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم نے نہ صرف 100 روزہ پلان دیا بلکہ اپنی پوری ٹیم سے اس حوالے سے رپورٹ بھی طلب کی جس کے بعد تمام وزراء نے اپنی اپنی 100 روزہ کارکردگی انہیں بتائی۔ وزیراعظم عمران خان نے سادگی اور میرٹ کا پیغام دیا۔ کرپشن کا خاتمہ اور میرٹ کا نظام ان کا مشن ہے اور وہ اس پر گامزن ہیں۔ افسوس ہے کہ ماضی کے حکمران کرپشن میں ملوث رہے اور انہوں نے بے دردی سے ملکی خزانہ لوٹا جس کا انجام آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اگرملک کا سربراہ ٹھیک ہو تو اس کا اثر نیچے آتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ہمارے اتحادی اس کرپشن کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچا لہٰذا مجھے یقین ہے کہ اب پاکستان کی تقدیر ضرور بدلے گی۔ وزیراعظم عمران خان کی پوری زندگی سب کے سامنے ہے۔ وہ 17 برس کی عمر سے میڈیا کی نظروں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں عزت، شہرت اور دولت، سب کچھ حاصل کیا ہے۔ ان کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد یہ ہے کہ وہ ملک کو اس کا وقار دوبارہ دلوانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ سے نکل کر خود مختاری کا سفر طے کرے۔

اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو معدنیات، موسم، فصلیں، سمندر، صحراء غرضیکہ بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے مگر حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے آج ملکی صورتحال ابتر ہے۔ جن ممالک کو ہم 5 سالہ منصوبے دیا کرتے تھے، جنہیں ہماری قومی ایئر لائن کا سٹاف تربیت فراہم کرتا تھا، جن کی ایئر لائنز ہماری پی آئی اے نے بنائیں، آج وہ ممالک ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ دوسرے ممالک کے شہزادے ہمارے ملک میں تعلیم کے حصول کے لیے آتے تھے مگر آج ہمارے بچے تعلیم اور روزگار کے حصول کیلئے دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔

افسوس ہے کہ اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے جو ہمارے لیے رسوائی کا باعث ہے مگر یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج وہ شخص ہمارا وزیراعظم ہے جو کرپٹ نہیں بلکہ صادق اور امین ہے۔ جسے اپنے خاندان کی نہیں بلکہ ملک و قوم کی فکر ہے۔ عمران خان نے جب شوکت خانم ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا تو 20 میں سے 19 ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ کینسر ہسپتال نہیں بن سکتا۔ اس وقت عمران خان کے پاس صرف 1 کروڑ روپے تھے جبکہ یہ منصوبہ 70 کروڑ روپے کا تھا۔ اس سب کے باوجود وہ ثابت قدم رہے، انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر بچوں اور بڑوں، سب نے ان کے شانہ بشانہ یہ منصوبہ مکمل کیا۔

عمران خان کے عزم اور جذبے کی وجہ سے شوکت خانم ایک مثال بن چکا ہے۔ جو لاہور کے بعد، پشاور اور کراچی میں جبکہ اب کوئٹہ میں بھی بنایا جائے گا۔ عمران خان کی زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ میرٹ پر فیصلے کیے اور کبھی ہمت نہیں ہاری بلکہ وہ اپنے مشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ آج ملک اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے دوست ممالک کے دورے کیے جنہوں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا لہٰذا ہمیں ان ممالک سے دوستی پر فخر ہے۔ ہم ان ممالک کے تعاون کی وجہ سے مالی خسارے سے نکل رہے ہیں۔ اب اگر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ہم اس کی نہیں بلکہ اپنی شرائط پر جائیں گے۔ ہم وطن عزیز کو خود مختار بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے وزیراعظم اور ان کی پوری ٹیم ہر ممکن کام کر رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اپنے بیرون ملک دوروں میں ان ممالک کے سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم 70 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میںسرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کی پالیسی بنا رہے ہیں تاکہ سب مل کر اس ملک کو عظیم بنائیں۔ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے پاکستان کا دورہ کیا جو کامیاب رہا۔ عرصہ دراز سے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہمارے تعلقات اس سطح پر نہیں تھے جس پر وزیراعظم عمران خان چند ماہ میں لے آئے ہیں۔

شیخ محمد بن زاید کا دورہ سود مند رہا اور ملکی معیشت پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بدقسمتی سے 70 برسوں سے بلوچستان کو پسماندہ رکھا گیا جس کا فائدہ ہمارے دشمن نے اٹھایا۔ ہم نے دیکھا کہ بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ہمارے لوگوں کے جذبات کو ابھارا۔ یہاں شیعہ سنی اور رنگ و نسل کا فساد برپا کیا جس سے ہمیں نقصان ہوا۔ اس کی زندہ مثال بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو ہے جو یہاں سے پکڑا گیا اور پھر اس نے یہ سب تسلیم بھی کیا۔ اس سب کے باوجود تمام پاکستانیوں نے بھارت کی انتشار پھیلانے کی سازشوں کو ناکام بنایا۔

بلوچستان کے لوگوں نے فرنٹ لائن پر رہ کر قربانیاں دیں جبکہ فاٹا میں بھی یہی صورتحال پیدا ہوئی۔ ہمارے عوام ، افواج پاکستان اور سکیورٹی ایجنسیوں نے اپنے بلند حوصلے اور قربانیوں سے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے۔بھارت کی تمام تر کوششوں اور تخریب کاری کے باجود آج بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے اور وہاں کے لوگوں کی سوچ میںبھی تبدیلی آئی ہے۔ عمران خان اور وزیر اعلیٰ جام کمال کو بلوچستان کی صورتحال کا بخوبی ادراک ہے لہٰذا بلوچستان کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہ پسماندہ صوبہ موجودہ حکومت کے اقدامات سے معیشت کا ''گیٹ وے'' بننے جارہا ہے۔

ہم ایسے منصوبے لائیں گے جن سے عام آدمی کو فائدہ ہوجبکہ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی یہاں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جائے گی۔بدقسمتی سے گزشتہ 10 برسوں میں 24 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے گئے جو ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ افسوس ہے کہ جب حکمرانوں کی توجہ اپنی جیبیں بھرنے پر ہو تو ان کی ٹیم بھی یہی کام کرتی ہے جس سے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبے بھی پسماندہ رہ جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے 18 ویں ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ کا فائدہ بلوچستان میں نچلی سطح تک پہنچنے نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے صورتحال سنگین ہے۔ وہاں فیکٹریاں نہیں لگائی جاسکیں، انفراسٹرکچر نہیں بنا اور ایسے معاہدے ہی نہیں کیے گئے جن سے عوام کو فائدہ ہو۔ ماضی میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں اور اپنے لوگوں کو نوازا گیا۔ بلوچستان میں بھی بعض جگہ ایسا ہوا جس کی وجہ سے صوبہ پسماندہ رہ گیا۔ 18 ویں ترمیم سمیت ایسے تمام قوانین جن میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، ترامیم کی جاسکتی ہیں۔ میرے نزدیک پارلیمنٹ کو عوامی مفاد اور حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے موثر قانون سازی کرنی چاہیے اور پہلے سے موجود قانون سازی کو بھی مزید بہتر کرنا چاہیے۔

پارلیمان کو ایسے قوانین لانے چاہئیں جن سے انصاف، تعلیم اور روزگار کی فراہمی میں بہتری آئے اور عوام کو سہولت ملے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے لہٰذا اب موثر قانون سازی پر توجہ دی جائے گی۔ احتساب کے عمل پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے جو درست نہیں۔ اپوزیشن کے تمام کیس پہلے سے موجود ہیں اور موجودہ حکومت نے کسی پر کوئی کیس نہیں بنایا۔ اس وقت تمام ادارے آزاد ہیں اور حکومت کا ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بلاتفریق احتساب کا عمل جاری رہے گا اور اب کوئی بھی کرپٹ قانون سے بچ نہیں سکے گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتاجب تک حکمران طبقہ خود پر قوانین لاگو نہ کرے۔ آج وزیراعظم سمیت پوری ٹیم قانون کے تابع ہے اور عدلیہ و دیگر اداروں پر ہمارا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ جنہیں بھی سزا ہورہی ہے وہ عدالتی حکم پر ہورہی ہے لہٰذا حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ اب ملک میں جزا و سزا کا نظام قائم ہوچکا ہے لہٰذا کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ۔ کرپٹ شخص حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، اس کا بے رحم احتساب کیا جائے گا۔

احتساب کے حوالے سے پارٹی رہنماؤں کے بیانات ذاتی ہیں، کسی کے بیان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی تاہم احتساب کا یہ عمل شفاف ہے۔ جہاں تک ہاؤس کی بات ہے تو میں ہمیشہ بہتر انداز میں ہاؤس چلانے کی کوشش کرتا ہوں اور ایسا رویہ رکھتا ہوں جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو تاہم حکومتی و اپوزیشن بینچوں سے بعض اراکین جذبات میں تلخ باتیں کہہ جاتے ہیں جن پر بعدازاں انہیں بھی احساس ندامت ہوتا ہے۔ہم ایسی باتوں کو ہذف کردیتے ہیں جبکہ اراکین خود بھی معذرت کرلیتے ہیں۔ میرے نزدیک اسمبلی کے فلور سے شائستگی کو فروغ دینا چاہیے۔

گزشتہ 5 برسوں میں تحریک انصاف نے اپوزیشن کا جو کردار ادا کیا وہ تاریخی ہے۔ ہم نے ہر فورم پر عوام کی نمائندگی کی اور ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہم نے مک مکا کی سیاست کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں کوئی مک مکا نہیں ہے جس طرح ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ایوان میں تلخیاں سامنے آتی ہیں تاہم ہم اچھی روایات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ میں اپنی قومی زبان میں ایوان کی کارروائی چلاتا ہوں تاکہ 22کروڑ عوام فخر محسوس کریں۔ عوامی ایشوز پر وزراء ایوان میں اپنی کارکردگی پیش کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے خود بھی اسمبلی میں آکر سوال و جواب کا کہا تھا، وہ جلد اسمبلی میں آ کر اراکین کے سوالات کے جوابات دیا کریں گے جو تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا۔ ہم اس ایوان سے عوام کے مسائل حل کریں گے۔ میاں شہباز شریف کی بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم اور پارٹی کا موقف مختلف تھا۔ چیئرمین کی تعیناتی کیلئے ہمارے سینئر رہنماؤں اور اپوزیشن میں بارہا مشاورت ہوئی مگر یہ معاملہ حل نہ ہوسکا۔ بعدازاں باہم مشاورت سے ان کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ۔

اس حوالے سے جماعت میں دو مختلف آراء موجود ہیں تاہم سب کو اس فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔اس تعیناتی پر شیخ رشید کا عدالت جانے کا فیصلہ ان کا حق ہے، ان کی الگ جماعت ہیں اور وہ اپنے فیصلوں میں خودمختار ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہباز شریف اپنے اور اپنے رفقاء کے خلاف کیس نہیں سن سکیں گے بلکہ اس کے لیے الگ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ پہلے ادوار میں حکومتیں اپوزیشن کے خلاف سیاسی حربے استعمال کرتی تھیں مگر اب انتقامی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ہم ایسی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اپوزیشن اراکین کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کر دیے جاتے ہیں جو ماضی میں نہیں ہوتا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی توجہ ملک کے بڑے مسائل کے حل کی طرف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چھوٹے معاملات میں الجھنے کے بجائے آگے بڑھا جائے تاکہ ملک کی سمت درست کی جا سکے۔ ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری چینل پی ٹی وی کو آزاد کیا جس پر اب حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا موقف بھی دکھایا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انتقامی کارروائیوں کی جانب لگ گئے تو ملکی مسائل سے توجہ ہٹ جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ادارے آزادی سے اپنا کام کریں۔ اگر ایوان کے کسی بھی رکن نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

ہماری پالیسی بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی مجرم ثابت ہوگیا توایوان اس کا ساتھ نہیں دے گا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ ہم ملک میں مساوات، عدل و انصاف اور احتساب کا موثر نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی اپوزیشن کے بارے میں سافٹ کارنر کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں بلکہ وہ ہاؤس کو بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے گزشتہ 5برس خیبر پختونخوا اسمبلی بہترین طریقے سے چلائی۔ وہ ہماری جماعت کے سینئر رہنما اور وزیر اعظم عمران خان کے دیرینہ ساتھیوں میں سے ہیں۔

وزیراعظم کو ان پر مکمل اعتماد ہے لہٰذا ان کے بارے میں جو باتیں گردش کر رہی ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ نیب قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے فی الحال کچھ کہہ نہیں سکتا۔ میرے نزدیک جن قوانین میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے، ان میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ اگر ایوان سمجھتا ہے کہ نیب قوانین میں بہتری آنی چاہیے تو وسیع تر عوامی مفاد میں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے اور باہم مشاورت سے آگے بڑھنا چاہیے۔ چیئرمین سینٹ کی تبدیلی اور حکومت گرانے کے بیانات سیاسی ہیں اور ایسے بیانات اپوزیشن کی جانب سے آتے رہتے ہیں جنہیں سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔

ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ ، بلوچستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہ سب کے سامنے ہے کہ سینیٹ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمارا ساتھ دیا جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے لہٰذا میرے نزدیک چیئرمین کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی کوششوں اور ملاقاتوں سے اب ملکی سیاست یا حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اب عوام با شعور ہیں جس کا کریڈٹ بھی تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ اب عوام سب کچھ سمجھ چکے ہیں اور وہ سب کا ماضی اور حال جانتے ہیں۔

عوام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں لہٰذاجو بھی وعدہ خلافی کرے گا عوام اس کو دوبارہ منتخب نہیں کریں گے۔ اس وقت ملک میں 6 کروڑ افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں جو ہر لمحہ باخبر ہیں۔ انہیں چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی معلوم ہے اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ ایسی آواز ہے جس کو دبایا نہیں جا سکتا بلکہ اس کی روشنی میں بہتر اقدامات کیے جاسکتے ہیں اور جہاں کہیں خرابی کی نشاندہی ہو اسے دور کیا جائے۔ میرے نزدیک اب نوجوان ہی ملک کو لیڈ کریں گے، ماضی کے سیاستدان اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔