اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا شمار مدینے کے ان چند علما میں ہوتا تھا جن کے فتوے پر لوگوں کو کلی اعتماد تھا۔
حضرت عائشہؓ بنت ابوبکرؓ اسلامی تاریخ میں ام المؤمنین اور صاحب ایمان فقیہا کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ آپؓ کا لقب صدیقہ اور حمیرا تھا جب کہ آپ کے بھانجے حضرت عبداﷲ کے حوالے سے آپ کی کنیت ام عبداﷲ تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اسلام کی ان برگزیدہ شخصیات میں سے ہیں جن کے کانوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز نہیں سنی۔ ولادت عائشہ سے چار سال قبل حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام قبول کرچکے تھے۔
ایک مسلمان عورت کے لیے سیرت عائشہؓ میں زندگی کے تمام پہلو شادی، رخصتی، شوہر کی خدمت و اطاعت، سوکن سے تعلقات، بیوگی، غربت، خانہ داری، غرض ہر حالت کے لیے تقلید کے نمونے موجود ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اپنی پوری زندگی عورتوں اور مردوں میں اسلام اور اس کے احکام و قوانین اور اس کے اخلاق و آداب کی تعلیم دینے میں صرف کرکے اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ذریعے سے جتنا علم دین مسلمانوں تک پہنچا اور فقہ اسلامی کی جتنی معلومات لوگوں کو حاصل ہوئیں، عہد نبوتؐ کی عورتیں تو درکنار مرد بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپؓ صرف احادیث روایت کرنے والی ہی نہیں تھیں، بلکہ فقیہا اور مفسرہ اور مجتہدہ بھی تھیں۔ آپؓ کو بالاتفاق مسلمان عورتوں میں سب سے بڑی فقیہا جانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا شمار مدینے کے ان چند علما میں ہوتا تھا جن کے فتوے پر لوگوں کو کلی اعتماد تھا۔ آپ غیر معمولی ذہانت کی مالک تھیں۔بچپن میں آپ کی صلاحیتوں کا علم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہ تھا۔ اس بناء پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی رفاقت کے لیے حضرت عائشہ کا انتخاب خود کیا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے حضرت عائشہ سے ارشاد فرمایا: ''مجھے خواب میں تمھیں دو دفعہ دکھایا گیا اور کہا گیا کہ یہ آپؐ کی زوجہ ہیں۔''
حضورؐ کی کثرت ازواج اور خصوصاً حضرت عائشہؓ کی کم سنی کی شادی میں ایک بڑی حکمت اور مصلحت پوشیدہ تھی۔ اگرچہ حضورؐ کے دائمی فیضان صحبت نے سیکڑوں مردوں کو سعادت کے درجے پر پہنچایا، لیکن فطرتاً یہ موقع عام عورتوں کو میسر نہیں آسکتا تھا۔ صرف ازواج مطہرات ہی اس سے فیض یاب ہوسکتی تھیں اور یہ نور آہستہ آہستہ اپنے ستاروں کے ذریعے سے پوری کائنات نسوانی میں پھیل سکتا تھا۔
حضرت عائشہ کا لڑکپن حضور اکرم ؐ کی صحبت میں گزرا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سارے قریش میں علم الانساب کے ماہر تھے۔ شعر و ادب میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ حضرت عائشہؓ نے بھی اسی باپ کی گود میں پرورش پائی تھی، اس لیے علم الانساب کی واقفیت اور شاعری ان کا خاندانی وصف تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی اولاد کی تربیت میں بہت سخت تھے۔ شادی کے بعد بھی حضرت عائشہؓ پر روک ٹوک کرتے تھے اور انھیں ہدایات سے سرفراز کرتے رہتے تھے۔
حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت کا اصل زمانہ ان کی رسول کریمﷺ سے شادی کے بعد شروع ہوا۔ ام المومنین نے اسی زمانے میں قرآن پڑھنا سیکھا۔ آپؓ کو علوم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب میں بھی مہارت حاصل تھی۔ حضور اکرم ؐ کی تعلیم و ارشادات کی مجلسیں روزانہ مسجد نبویؐ میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسجد، حجرۂ عائشہؓ سے ملحق تھی۔ اس بناء پر آپؓ اپنے حجرے ہی میں بیٹھ کر اس مجلس میں ذہنی طور پر شریک رہتی تھیں۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو بعد میں حضور اکرم ؐ سے دریافت فرما لیتیں۔ آپؓ نے عورتوں کی درخواست پر ہفتے میں ایک دن ان کی تعلیم و تلقین کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ حضرت عائشہؓ کی یہ عادت تھی کہ ہر مسئلہ کو بلاتامل حضورؐ کے سامنے پیش کرتیں اور جب تک تسلی نہ ہو جاتی، سوال کرتی رہتیں۔
وہ فہم مسائل، اجتہاد فکر اور حفظ احکام میں تمام ازواج مطہرات سے ممتاز تھیں۔ حضرت عائشہؓ انسانیت کی تکمیل، اخلاق کے تزکیے، ضروریات دین سے واقفیت، اسرار شریعت کی آگاہی، کلام الٰہی کی معرفت احکام نبویؐ کے علم سے مکمل طور پر بہرہ ور تھیں۔ حضرت عائشہؓ کا گھر مال و اسباب سے خالی تھا۔ مگر آپؓ کو اس کی پروا نہیں تھی۔ آپؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم ؐ نے ہمیں پانچ چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا: ''ریشمی کپڑے، سونے کے زیور، سونے اور چاندی کے برتن، نرم گدے اور کتان آمیز ریشمی کپڑے۔'' چناں چہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے ان چیزوں سے زندگی بھر اجتناب فرمایا۔ آپؓ اپنے شوہر کی محبوب بیوی تھیں۔ شوہر کی زندگی میں اکثر عورتیں اطاعت گزار ہوتی ہیں، لیکن شوہر کے انتقال کے بعد وہ آزاد ہو جاتی ہیں۔
مگر حضرت عائشہ صدیقہ مرتے دم تک اطاعت رسول ؐؐ پر قائم رہیں۔ انھوں نے حضورؐ سے جہاد کی اجازت چاہی تھی۔ اس موقع پر نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ''عورتوں کا جہاد حج ہے۔'' یہ حکم سن آپ اس کی تاحیات پابندی کرتی رہیں، اور آپ کا کوئی سال حج سے خالی نہ گیا۔ حضرت خدیجہؓ حضور اکرم ؐ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت عائشہؓ سے نکاح کے وقت وہ حیات نہیں تھیں، مگر حضور اکرمؐ کے قلب مبارک میں ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ ان پر رشک کرتی تھیں اور فرماتی تھیں: ''جس قدر خدیجہؓ پر مجھے رشک آتا ہے، کسی دوسری بی بی پر نہیں آتا تھا۔''
رسول کریمؐ اپنی محبوب زوجہ حضرت خدیجہؓ کو بہت یاد کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت خدیجہ کی فضیلت اور شرف سے کبھی انکار نہ کیا۔ حضرت عائشہؓ ہر سال حج کے لیے مکہ جاتیں۔ آپؓ کے خیمے میں سائلوں کا ہجوم رہتا۔ جن مسائل میں صحابہ کرام میں اختلاف ہوتا تھا، ان مسائل پر لوگ فیصلے کے لیے ام المومنین سے رجوع کرتے تھے۔ آپ کے زیادہ تر مسائل زن و شوہر کے تعلقات، حضورؐ کی عبادات اور ذاتی اخلاق کے متعلق ہیں۔
ابو مسلم عبدالرحمٰن کا قول ہے: ''رسول کریمؐ کی احادیث و سنن، فقہی آراء، آیات کے شان نزول اور فرائض میں حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کوئی عالم نہ تھا۔''
علمی کمالات، دین کی خدمات اور حضور اکرم ؐ کی تعلیمات و ارشادات کی تبلیغ و اشاعت میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کوئی ثانی نہیں۔
ایک مسلمان عورت کے لیے سیرت عائشہؓ میں زندگی کے تمام پہلو شادی، رخصتی، شوہر کی خدمت و اطاعت، سوکن سے تعلقات، بیوگی، غربت، خانہ داری، غرض ہر حالت کے لیے تقلید کے نمونے موجود ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اپنی پوری زندگی عورتوں اور مردوں میں اسلام اور اس کے احکام و قوانین اور اس کے اخلاق و آداب کی تعلیم دینے میں صرف کرکے اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ذریعے سے جتنا علم دین مسلمانوں تک پہنچا اور فقہ اسلامی کی جتنی معلومات لوگوں کو حاصل ہوئیں، عہد نبوتؐ کی عورتیں تو درکنار مرد بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپؓ صرف احادیث روایت کرنے والی ہی نہیں تھیں، بلکہ فقیہا اور مفسرہ اور مجتہدہ بھی تھیں۔ آپؓ کو بالاتفاق مسلمان عورتوں میں سب سے بڑی فقیہا جانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا شمار مدینے کے ان چند علما میں ہوتا تھا جن کے فتوے پر لوگوں کو کلی اعتماد تھا۔ آپ غیر معمولی ذہانت کی مالک تھیں۔بچپن میں آپ کی صلاحیتوں کا علم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہ تھا۔ اس بناء پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی رفاقت کے لیے حضرت عائشہ کا انتخاب خود کیا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے حضرت عائشہ سے ارشاد فرمایا: ''مجھے خواب میں تمھیں دو دفعہ دکھایا گیا اور کہا گیا کہ یہ آپؐ کی زوجہ ہیں۔''
حضورؐ کی کثرت ازواج اور خصوصاً حضرت عائشہؓ کی کم سنی کی شادی میں ایک بڑی حکمت اور مصلحت پوشیدہ تھی۔ اگرچہ حضورؐ کے دائمی فیضان صحبت نے سیکڑوں مردوں کو سعادت کے درجے پر پہنچایا، لیکن فطرتاً یہ موقع عام عورتوں کو میسر نہیں آسکتا تھا۔ صرف ازواج مطہرات ہی اس سے فیض یاب ہوسکتی تھیں اور یہ نور آہستہ آہستہ اپنے ستاروں کے ذریعے سے پوری کائنات نسوانی میں پھیل سکتا تھا۔
حضرت عائشہ کا لڑکپن حضور اکرم ؐ کی صحبت میں گزرا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سارے قریش میں علم الانساب کے ماہر تھے۔ شعر و ادب میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ حضرت عائشہؓ نے بھی اسی باپ کی گود میں پرورش پائی تھی، اس لیے علم الانساب کی واقفیت اور شاعری ان کا خاندانی وصف تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی اولاد کی تربیت میں بہت سخت تھے۔ شادی کے بعد بھی حضرت عائشہؓ پر روک ٹوک کرتے تھے اور انھیں ہدایات سے سرفراز کرتے رہتے تھے۔
حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت کا اصل زمانہ ان کی رسول کریمﷺ سے شادی کے بعد شروع ہوا۔ ام المومنین نے اسی زمانے میں قرآن پڑھنا سیکھا۔ آپؓ کو علوم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب میں بھی مہارت حاصل تھی۔ حضور اکرم ؐ کی تعلیم و ارشادات کی مجلسیں روزانہ مسجد نبویؐ میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسجد، حجرۂ عائشہؓ سے ملحق تھی۔ اس بناء پر آپؓ اپنے حجرے ہی میں بیٹھ کر اس مجلس میں ذہنی طور پر شریک رہتی تھیں۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو بعد میں حضور اکرم ؐ سے دریافت فرما لیتیں۔ آپؓ نے عورتوں کی درخواست پر ہفتے میں ایک دن ان کی تعلیم و تلقین کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ حضرت عائشہؓ کی یہ عادت تھی کہ ہر مسئلہ کو بلاتامل حضورؐ کے سامنے پیش کرتیں اور جب تک تسلی نہ ہو جاتی، سوال کرتی رہتیں۔
وہ فہم مسائل، اجتہاد فکر اور حفظ احکام میں تمام ازواج مطہرات سے ممتاز تھیں۔ حضرت عائشہؓ انسانیت کی تکمیل، اخلاق کے تزکیے، ضروریات دین سے واقفیت، اسرار شریعت کی آگاہی، کلام الٰہی کی معرفت احکام نبویؐ کے علم سے مکمل طور پر بہرہ ور تھیں۔ حضرت عائشہؓ کا گھر مال و اسباب سے خالی تھا۔ مگر آپؓ کو اس کی پروا نہیں تھی۔ آپؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم ؐ نے ہمیں پانچ چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا: ''ریشمی کپڑے، سونے کے زیور، سونے اور چاندی کے برتن، نرم گدے اور کتان آمیز ریشمی کپڑے۔'' چناں چہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے ان چیزوں سے زندگی بھر اجتناب فرمایا۔ آپؓ اپنے شوہر کی محبوب بیوی تھیں۔ شوہر کی زندگی میں اکثر عورتیں اطاعت گزار ہوتی ہیں، لیکن شوہر کے انتقال کے بعد وہ آزاد ہو جاتی ہیں۔
مگر حضرت عائشہ صدیقہ مرتے دم تک اطاعت رسول ؐؐ پر قائم رہیں۔ انھوں نے حضورؐ سے جہاد کی اجازت چاہی تھی۔ اس موقع پر نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ''عورتوں کا جہاد حج ہے۔'' یہ حکم سن آپ اس کی تاحیات پابندی کرتی رہیں، اور آپ کا کوئی سال حج سے خالی نہ گیا۔ حضرت خدیجہؓ حضور اکرم ؐ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت عائشہؓ سے نکاح کے وقت وہ حیات نہیں تھیں، مگر حضور اکرمؐ کے قلب مبارک میں ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ ان پر رشک کرتی تھیں اور فرماتی تھیں: ''جس قدر خدیجہؓ پر مجھے رشک آتا ہے، کسی دوسری بی بی پر نہیں آتا تھا۔''
رسول کریمؐ اپنی محبوب زوجہ حضرت خدیجہؓ کو بہت یاد کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت خدیجہ کی فضیلت اور شرف سے کبھی انکار نہ کیا۔ حضرت عائشہؓ ہر سال حج کے لیے مکہ جاتیں۔ آپؓ کے خیمے میں سائلوں کا ہجوم رہتا۔ جن مسائل میں صحابہ کرام میں اختلاف ہوتا تھا، ان مسائل پر لوگ فیصلے کے لیے ام المومنین سے رجوع کرتے تھے۔ آپ کے زیادہ تر مسائل زن و شوہر کے تعلقات، حضورؐ کی عبادات اور ذاتی اخلاق کے متعلق ہیں۔
ابو مسلم عبدالرحمٰن کا قول ہے: ''رسول کریمؐ کی احادیث و سنن، فقہی آراء، آیات کے شان نزول اور فرائض میں حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کوئی عالم نہ تھا۔''
علمی کمالات، دین کی خدمات اور حضور اکرم ؐ کی تعلیمات و ارشادات کی تبلیغ و اشاعت میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کوئی ثانی نہیں۔