کولہو کے بیل
اپنی انتخابی شکست سے جی ہار بیٹھی پیپلز پارٹی کی بے خبری چند روز پہلے اس وقت بُری طرح بے نقاب ہوئی۔
11 مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد ایک زمانے تک ''چاروں صوبوں کی زنجیر'' سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی ایک صوبے تک محدود ہو کر ''بیچاری بیچاری'' سی لگنا شروع ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پارٹی سے واقعی مخلص اور خود کو آج بھی ''نظریاتی'' کہلوانے والے لوگ سر جوڑ کر بیٹھتے اور وہ جسے Corporate World میں Re-Branding کہا جاتا ہے جیسے کسی عمل کے لیے سوچ بچار کرنا شروع کر دیتے۔ ایسا ہوتا ہر گز نظر نہیں آرہا اور مجھے شدید خدشات لاحق ہو گئے ہیں کہ آج کل صرف بے چاری نظر آنے والی پارٹی بالآخر ''ایک تھی پیپلز پارٹی'' میں تبدیل نہ ہو جائے۔
اپنی انتخابی شکست سے جی ہار بیٹھی پیپلز پارٹی کی بے خبری چند روز پہلے اس وقت بُری طرح بے نقاب ہوئی جب آزاد کشمیر حکومت کی وزارتوں میں بیٹھے کچھ لوگوں نے استعفیٰ دے کر وہاں کے وزیر اعظم کے خلاف عدم ِاعتماد کی تحریک جمع کرا دی۔ مجھے آزاد کشمیر کی سیاست کاککھ پتہ نہیں۔ ہو سکتا ہے چوہدری مجید اتنے ہی نا اہل اوربدعنوان ہوں جتنا ان کے مخالفین بناکر ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ لیکن انھیں اپنے منصب سے ہٹانے کا سب سے مناسب طریقہ یہ تھا کہ آزاد کشمیر میں صاف، شفاف اور اچھی حکومت کے خواہاں بنے بھل صفائی رضا کار اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد کرانے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے۔
وہاں چوہدری مجید اور ان کے طرز حکومت کے بارے میں کھل کر باتیں ہوتیں اور وہاں کے وزیر اعظم کو اپنا دفاع کرنے کا بھر پور موقعہ دیا جاتا۔ وہ اپنے مخالفین کی تسلی نہ کر پاتے تو شاید خود ہی استعفیٰ دے کر اپنی ہی جماعت سے ایک اور قائدِ ایوان منتخب ہونے کی راہ بنا دیتے۔ بجائے یہ واضح راستہ اختیار کرنے کے چوہدری مجید کے شفاف سیاست کے دعوے دار بنے مخالفین نے ان دفاتر کے طواف شروع کر دیے جنھیں آزاد بنے کشمیر میں حکومتیں بنانے اور گرانے کے معاملے پر حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے جب اپنے تئیں بیرسٹر سلطان محمود کو وزیر اعظم چن لیا تو اپنے لیے ان کا یہ منصب سنبھالنے کے بعد وزارتیں بھی طے کر ڈالیں۔
پیپلز پارٹی کے باغیوں کی تیاریاں مکمل ہو گئیں تو آزاد کشمیر اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے 11 اراکین سے رابطے شروع کر دیے گئے۔ پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ نون کے لوگوں کو بھی ''نئی حکومت''بناتے ہوئے یاد ہی نہ رہاکہ میاں محمد نواز شریف نام کا ایک شخص ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہی نہیں اصلی تے وڈی مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہوتے ہیں۔ نواز شریف سے بالا بالا پیپلز پارٹی کے باغیوں سے مک مکا کرنے کے بعد آزاد کشمیر کی مسلم لیگ نے تحریک عدم ِاعتماد کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ میں آپ کو بڑی ذمے داری کے ساتھ یہ اطلاع دے رہا ہوں کہ آزاد کشمیر کی مسلم لیگ کی طرف سے تحریک عدم ِاعتماد کی حمایت کا اعلان ہو جانے کے بعد وزیر اعظم پاکستان کو آزاد کشمیر میں ان کے نام پر پکائی جانے والی کھچڑی کا علم ہوا۔
باقی سارے کام چھوڑ کر تین گھنٹے سے زیادہ وہ اپنے دفتر میں بند ہوئے بڑی درد مندی سے یہ جاننے کی کوششیں کرتے رہے کہ ان کی جماعت کو انتخابات کے صرف دو ماہ بعد ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک کھلی جنگ برپا کرنے کی طرف کون اور کیوں دھکیل رہا ہے۔ ان کی جگہ خود بیٹھ کر سوچیں تو نواز شریف کی یہ فکر مندی اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے۔ سندھ میں بھی آج کل پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ وہاں کی اسمبلی میں 12 کے قریب ایسے لوگ پیپلز پارٹی کی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جن کے ضمیر ان دنوں بڑے غیر مطمئن ہیں۔ سید قائم علی شاہ کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے مناسب اشاروں کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی کا زمانہ ہوتا تو شاید اب تک ان کا کام بن گیا ہوتا۔ نواز شریف مگر پاکستان کے تیسری مرتبہ 2013ء میں وزیر اعظم بنے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی ریاست کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی ہے۔
اس سے بھی بدتر بجلی کا بحران ہے اور معیشت کی زبوں حالی۔ کوئی بھی حکومت ان حالات میں چند بڑے مشکل اور وقتی طور پر غیر مقبول فیصلے کیے بغیر ہماری خوش حالی تو دور کی بات ہے بحیثیت ایک ریاست برقرار رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ مشکل اور وقتی طور پر غیر مقبول فیصلے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں اور قوتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ انھیں سمجھایا جائے کہ تخت یا تختہ کی لڑائیاں انتخابی مہم کے دوران برپا کی جاتی ہیں۔ انتخابات ہو جائیں تو ان کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کو اپنے منشور پر عملدرآمد کے لیے مناسب وقت دیا جانا چاہیے۔ حکومت پر تنقید حزبِ مخالف میں بیٹھی جماعتوں کا حق ہے۔ اس حق کا استعمال ہی جمہوری عمل کو توانا رکھتا ہے۔ مگر یہ تنقید منتخب ایوانوںاور آزاد میڈیا میں دلائل کے ذریعے ہونا چاہیے۔آزاد کشمیر اور سندھ میں بنی پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو لوٹوں کے ذریعے غیر مستحکم کرنا اس جماعت کے لوگوں کو دیوار سے لگا دے گا اور دیوار سے لگ جانے کے بعد آپ مارنے یا مرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
ہماری بدقسمتی مگر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے راہنمااورپاکستان کے سیاسی حوالے سے بہت ہی باشعور عوام کی اکثریت ان حقائق کا ادراک کرنا سیکھ گئی ہے لیکن تھانے کچہری کی سیاست کے ذریعے اپنے اپنے حلقوں میں چوہدری بنے سیاست باز ابھی تک اپنی ناک سے آگے دیکھنے کو تیار نہیںہو رہے۔ انھیں وزارت چاہیے تا کہ جھنڈے والی کار کے ساتھ اپنے حلقوں میں جا کر اپنی ''ٹہور'' وغیرہ دکھا سکیں۔ مخالفوں کے خلاف جھوٹے پرچے کرائیں اور پسندیدہ ٹھیکے داروں کو ''ترقیاتی کاموں''میں حصے دلوائیں۔ سیاست بازوں کی اس قسم سے جان چھڑانے کے امکان نے ہی تحریک انصاف کو توانائی بخشی تھی۔
آج تک سیاست کو حقارت سے دیکھنے والے طبقات عمران خان کے گرویدہ ہوئے تو صرف اس امکان کے سبب۔ یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ عمران خان اپنی طاقت کے حقیقی سرچشموں کا پوری طرح ادراک نہ کر پائے اور قوم آہستہ آہستہ ایک بار پھر تھانہ کچہری کی سیاست کے ذریعے اپنے اپنے علاقوں میں وار لارڈزبنے چوہدریوں کے نرغے میں آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے بھی یہ وقت تھا کہ وہ بالآخر اب اپنی کوئی ''نظریاتی''پہچان بنا ہی لیتی۔ رضا ربانی کا صدارتی امیدوار بنائے جانا اس منزل کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ مگر راجہ ظفر الحق نے ''سستا اور فوری انصاف'' حاصل کرنے کے بعد یہ سفر بھی روک دیا ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح ہم دائروں میں سفر کرتے رہنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔