بلوچستان کی اندوہ ناک صورتحال

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ان تمام لوگوں کے قتل کی ذمے داری سیکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan July 26, 2013
[email protected]

پروفیسر عبدالرزاق زہری بلوچ اور پروفیسر عبدالحکیم بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ پروفیسر عبدالرزاق بلوچ اور پروفیسر عبدالحکیم ٹیوشن سینٹر میں تدریس کے بعد افطار کے لیے گھر جارہے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار اچانک سڑک پر تیز رفتاری سے آئے، انھوں نے انتہائی قریب سے دونوں اساتذہ پر جدید ہتھیاروں سے گولیوں کی بارش کی۔ پروفیسر عبدالرزاق موقع پر ہی شہید ہوگئے، عبدالحکیم اسپتال میں فوری طبی امداد ملنے پر بچ گئے۔ بلوچستان میں قتل ہونے والے اساتذہ کی تعداد 22 ہوگئی ہے۔ ایک نامعلوم تنظیم نفاذ امن بلوچستان نے ان اساتذہ کے قتل کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔

بلوچستان وہ بدقسمت صوبہ ہے جو تعلیم میں انتہائی پسماندہ ہے، یہاں کی 70 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور خواندگی کی شرح بھی ملک میں سب سے کم ہے، اس کے باوجود اساتذہ اور طلبا کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک قتل ہونے والے اساتذہ میں ڈاکٹر پروفیسر صفدر کیانی، پرووائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی، پروفیسر فضل باری سابق چیئرمین بلوچستان بورڈ، پروفیسر سعید عتیق نقوی شعبہ سماجی بہبود، پروفیسر خورشید اختر انصاری لائبریری سائنس، پروفیسر ناظمہ طالب شعبہ ابلاغ عامہ، دانش لیکچرار کمپیوٹر سائنس، صبا دشتیاری استاد شعبہ اردو قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں 100 سے زیادہ طالب علم قتل ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں قتل ہونے والوں میں بلوچ ہزارہ برادری کے علاوہ پنجاب، سندھ اور پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، ڈاکٹر، سرکاری ملازمین اور طلبا بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ان کے 35 ساتھیوں کے علاوہ تین ممتاز سیاست دان بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ان تمام لوگوں کے قتل کی ذمے داری سیکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے۔

بلوچستان اس صدی کے آغازسے بحران کا شکار ہے۔ بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے دوسرے دور حکومت میں جب نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل کو وزارت اعلیٰ سے بے دخل کیا گیا تو بلوچستان کی صورتحال کی خرابی کی ابتدا ہوئی تھی مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایجنسیوں نے منصوبے کے تحت بلوچستان میں حالات بگاڑنے شروع کیے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس مری کی ٹارگٹ کلنگ ایک نئے مقدمے کی ابتدا تھی پھر اس مقدمے میں مری قبیلے کے بوڑھے سردار نواب خیر بخش مری کو گرفتار کیا گیا، حکومت اور سیاسی قوتوں میں خلیج پیدا ہوئی۔ نواب اکبر بگٹی کو اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی مگر جب نواب اکبر بگٹی کا قافلہ ڈیرہ بگٹی سے سوئی پہنچا تو انھیں بتایا گیا کہ صدر نے انھیں اسلام آباد لے جانے کے لیے خصوصی طیارہ بھیجا تھا مگر موسم کی خرابی کی بنا پر پرواز ممکن نہیں ہے مگر کچھ دیر بعد یہ طیارہ اچانک پرواز کرگیا یوں ایک بلوچ سردار کی سرعام تذلیل کی گئی۔ سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ بگٹی پر بمباری شروع کردی۔ اکبر بگٹی نے حکومت سے بات چیت کی کوشش کی مگر مقتدر حلقوں کی جانب سے سرد مہری کا رویہ اختیار کیا گیا اور وہ وقت آیا کہ نواب اکبر بگٹی نے چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین کو بات چیت کا اختیار دیا مگر جنرل مشرف نے دھمکی دی کہ راکٹ کہاں سے آئے گا کہ پتہ نہیں چلے گا۔

نواب اکبر بگٹی ایک آپریشن میں شہید ہوئے، یوں بلوچستان تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا۔ بلوچ نوجوانوں نے بندوق کو نجات کا ذریعہ سمجھ لیا اور بعض عناصرنے دوسرے صوبوں سے آنے والے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس لڑائی میں اساتذہ، ڈاکٹر، صحافی، پولیس افسر، سرکاری ملازمین، حجام، دکاندار تک نشانہ بنے۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوا اور جو لوگ بچ گئے وہ صوبہ چھوڑ گئے۔ ان اساتذہ نے جو بلوچستان میں تعلیم عام کرنے میں اہم کردار ادا کررہے تھے ان کی ٹارگٹ کلنگ اور پھر زندہ بچنے والوں کی ہجرت کا نقصان طلبا اور صوبہ کو ہوا۔ سیکیورٹی ایجنسیوں نے سیاسی کارکنوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ 2000 سے شروع کیا ہوا تھا مگر 2008 کے بعد سے ان کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملنا شروع ہوئی۔ اس دوران 2008 میں ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ بلوچستان میں قوم پرست تنظیموں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور ایجنسیوں کو اپنے پسندیدہ امیدواروں کو کامیاب کرانے کا موقع ملا۔ نواب اسلم رئیسانی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر وزیراعلیٰ بن گئے اور اپوزیشن ایک رکن تک محدود ہوئی۔

نواب رئیسانی کی حکومت کا کنٹرول صرف کوئٹہ تک محدود رہا۔ وزراء نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے یہ الزام لگایا کہ بعض وزرا اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی نسل کشی ہوتی رہی۔ ہزارہ برادری کی بستیوں اور مساجد تک کو نشانہ بنایا گیا، یونیورسٹیوں کی بسوں پر بھی حملے ہوئے۔ کوئٹہ شہر امن و امان کی بدترین صورتحال کا شکار ہوا۔ الزام لگایا گیا کہ ہزارہ برادری کے قتل عام کی ذمے دار ایک کالعدم تنظیم ہے جس کی سرپرستی بعض بلوچ سردار کرتے ہیں اور کوئٹہ کے مضافاتی پہاڑی علاقے ان کی کمین گاہیں ہیں۔ بلوچستان میں گورنر راج کی نوبت آئی۔ سپریم کورٹ کے بلوچستان بے امنی کیس میں سیاسی کارکنوں کے اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کی ذمے داری فرنٹیئر کانسٹبلری پر عائد کی مگر سپریم کورٹ کے جامع فیصلے نہ ہونے کی بناء پر صورتحال پر فرق نہیں پڑا مگر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار مجروح ہوا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں حقائق کی تصدیق کے لیے ایک کمیشن بھیجا۔ یہ ایک خطرے کی گھنٹی تھی۔ وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کے اس مشن کا خیر مقدم نہیں کیا مگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام نہیں ہوسکی۔ آج بھی کراچی پریس کلب کے سامنے صحافی عبدالرزاق کے رشتے دار اس کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں نیشنل پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں خاطر خواہ نمایندگی ملی مگر اکثریت مسلم لیگ ن کو حاصل ہوئی، وزیراعظم نواز شریف نے جواں سال سیاسی کارکن ڈاکٹر مالک کو وزیراعلیٰ نامزد کیا۔ یہ ایک انتہائی اہم اور مثبت تبدیلی تھی اور حقیقی بلوچ نمایندوں کی پذیرائی کی گئی۔ ڈاکٹر مالک نے واضح کیا کہ سیاسی کارکنوں کا اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ برداشت نہیں کیا جاسکتا اور انھوں نے آزاد بلوچستان کا نعرہ لگانے والے مسلح گروہوں سے امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی اپیل کی۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ بلوچستان میں پولیس، فرنٹیئر کانسٹبلری اور خفیہ ایجنسیاں وزیراعلیٰ کی نگرانی میںکام کریں گی مگر حالات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ اپنی پرانی پالیسی پرکاربندہے۔پروفیسر عبدالرزاق بروہی کا قتل اس کی واضح مثال ہے۔ ڈاکٹر مالک جیسے ہمہ جہت سیاسی کارکن کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر مالک کی ناکامی محض ان کی ذاتی یا ان کی جماعت کی ناکامی نہیں بلکہ وفاق کی بھی ناکامی ہوگی اور اعتدال پسند قوتوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہے گا کہ وہ بلوچستان ری پبلکن پارٹی کی اطاعت پر مجبور ہوں گے۔ فوری طور پر پروفیسر عبدالرزاق زہری بلوچ کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور تمام صورتحال کا جائزہ لے کر تمام سیکیورٹی فورسز کو وزیراعلیٰ کی نگرانی فرائض انجام دینے کا پابند کیا جائے تاکہ بلوچستان میں ایک مستقل امن و امان کی صورتحال قائم ہو اور بلوچ عوام بھی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے اور صوبائی خودمختاری اور آئین پر عملدرآمد ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں