تھاپ
ہٹو بچو ٹائپ پروٹوکول کی مخالف حکومت کے فرزند کو کیا مہنگی ’’ٹور ٹار‘‘ کی اجازت ہے؟
کیا انتخابات میں جیت کی جو ڈفلی بجائی گئی تھی اس کی تھاپ غلط تھی یا اقتدار میں آنے کے بعد حکومت اپنی قانون کی پاسداری اور قانون کی آب یاری کی تھاپ بھول گئی؟ نئی وجود میں آنے والی حکومت سے عوام کو خیر کی بہت سی توقعات وابستہ تھیں لیکن مہینوں میں داخل ہونے والی حکومت کے بطن سے وہی کچھ برآمد ہونے لگا ہے جو سابق حکومت کی ''خراب نامی'' کا باعث تھا۔ رمضان کے نام پر سیاست کی دکان سجانے کے لیے سستے بازار کی مشہوری کے بارے میں عوامی سطح پر پہلے ہی بہت کچھ کہا جارہا ہے، عوام حکومت کی جانب سے سجائے گئے سستے بازاروں کو صرف سیاست اور نام کی مشہوری کا نام دے رہے ہیں کہ گزشتہ دنوں حکومتی اکابر کے فرزند نے سرکاری ہیلی کاپٹر اور مہنگے پروٹوکول کا استعمال کر کے سستے بازار کا جو دورہ کیا اس نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے؟
ہٹو بچو ٹائپ پروٹوکول کی مخالف حکومت کے فرزند کو کیا مہنگی ''ٹور ٹار'' کی اجازت ہے؟ کیا حکومت کے سربراہوں کی اولاد کو سرکاری وسائل پر اور سرکاری وسائل کے استعمال میں کھلی چھٹی دی گئی ہے؟ کیا سستے بازاروں کا دورہ مہنگے پروٹوکول کے بغیر ناممکن تھا؟ ابھی یہ معاملہ میڈیا میں گردش میں ہی ہے کہ بلوچستان میں نجی محافظوں کو بلوچستان اسمبلی میں داخل ہو نے سے روکنے پر بلوچستان کے بااثر وزیر اور سیاسی شخصیت نے ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہل کاروں اور پولیس افسر سے دو دو ہاتھ کردیے اور فرائض کی ادائیگی کے نتیجے میں پولیس افسر کے سینے پر معطلی کا تمغہ سجا دیا گیا۔ معاملہ شاید فرض شناس پولیس افسر کے لیے کڑی سزا کا درجہ پا لیتا مگر بلوچستان ہائی کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لے کر گویا فرض شناس پولیس افسر کی جاں بخشی کرا دی۔
معاشرتی بگاڑ اور حکومتی سطح پر غرقاب ہونے کا ''بین'' عرصہ دراز سے صحافتی حلقوں اور سیاسی اوطاقوں میں جاری ہے۔ ہر کوئی اور ہر ایک کے زبان پر صرف یہی مدعا ہے کہ ملک اور قوم کی بہتری آئین و قانون کی ''تھاپ'' پر چلنے میں ہے لیکن عملی طور پر ہماری ہر حکومت اور حکومت کے ارباب اختیار قانون کی تھاپ پر چلنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں۔ زر بابا اور چالیس چور جیسے جملے الیکشن میں ''مہم'' کے درجے پر فائز تھے۔ غیر ضروری جاہ و جلال کو ختم کرنے کے وعدے کس شان بان آن سے کیے گئے؟ عام طبقات کو سہولتوں کی فراہمی کے دعوے ابھی کل ہی کی بات محسوس ہوتے ہیں، لیکن چند ماہ کی نئی نویلی حکومت کی حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے ایسا کچھ ظاہر ہو رہا ہے؟ عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑا کہ موجودہ حکومت بھی سابق حکومت کی روش پر چلتی محسوس ہورہی ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس ہیں کہ موجودہ حکومت سے عوام کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں لیکن عملی طور پر عوامی توقعات کا خون ہوتا محسوس ہورہا ہے۔
سابق حکومت میں جو قباحتیں ''اوصاف'' کا درجہ پا چکی تھیں، ان میں سے آج تک کسی بھی خرابی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش تک عملی طور پر نظر نہیں آرہی ہے۔ عوامی سطح پر افراتفری اور معاشی نفسانفسی کا جو ماحول تھا بالکل اسی انداز و اطوار میں نئی حکومت میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ کل بھی ملک میں آئی ایم ایف کی پالیسیاں رائج تھیں اور ملک میں عملاً غیر ملکی مالیاتی اداروں کی حکومت تھی اور اب بھی وہی سلسلہ چل رہا ہے۔ بلکہ عوام کی سطح پر عذاب کا سلسلہ گزشتہ حکومت کی نسبت دراز ہوگیا ہے۔ پہلے اگر عوام کو نوکریاں نہیں دی جارہی تھیں تو کم از کم ان سے نوکریاں چھیننے کا سلسلہ بھی نہیں تھا۔ اب یہ ہورہا ہے کہ ''بالائی'' سطح پر تو سب کچھ ٹھیک جارہا ہے لیکن نچلے ملازمین کو مختلف حیلوں بہانوں سے گھر بھیجنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ پی آئی اے کو جب سے سیاست کی نظر بد لگی ہے اس وقت سے پی آئی اے زبوں حالی کی راہ پر گامزن ہے۔
حکمرانوں سے اتنی سی گزارش ہے کہ الیکشن کے دنوں میں آئین اور قانون کی پاسداری کی جس ''تھاپ'' پر عوام سے ووٹ بٹورے تھے اب حکومتی فرائض کی انجام دہی میں بھی اسی ''تھاپ'' کو ملحوظ خاطر رکھیے کہ اس قوم کا کچھ بھلا ہو۔ جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے مگر شرط یہ ہے کہ جمہوریت کے سرخیل بھی اپنے اندر جمہوری روح رکھتے ہوں اور اپنے دلوں میں جمہور کا درد رکھتے ہوں۔ جمہوریت کے لطف و کرم سے جمہور اس وقت تک محروم رہیں گے جب تک حکمرانوں کے دل و دماغ اور ان کے رویوں میں جمہور کا درد نہیں جاگتا۔ کہنے، سننے کو اس قوم نے بہت کچھ سن لیا، اب بات زبان سے لبھانے کی نہیں بلکہ عملی طور پر کچھ کرنے کی ہے۔
ہٹو بچو ٹائپ پروٹوکول کی مخالف حکومت کے فرزند کو کیا مہنگی ''ٹور ٹار'' کی اجازت ہے؟ کیا حکومت کے سربراہوں کی اولاد کو سرکاری وسائل پر اور سرکاری وسائل کے استعمال میں کھلی چھٹی دی گئی ہے؟ کیا سستے بازاروں کا دورہ مہنگے پروٹوکول کے بغیر ناممکن تھا؟ ابھی یہ معاملہ میڈیا میں گردش میں ہی ہے کہ بلوچستان میں نجی محافظوں کو بلوچستان اسمبلی میں داخل ہو نے سے روکنے پر بلوچستان کے بااثر وزیر اور سیاسی شخصیت نے ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہل کاروں اور پولیس افسر سے دو دو ہاتھ کردیے اور فرائض کی ادائیگی کے نتیجے میں پولیس افسر کے سینے پر معطلی کا تمغہ سجا دیا گیا۔ معاملہ شاید فرض شناس پولیس افسر کے لیے کڑی سزا کا درجہ پا لیتا مگر بلوچستان ہائی کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لے کر گویا فرض شناس پولیس افسر کی جاں بخشی کرا دی۔
معاشرتی بگاڑ اور حکومتی سطح پر غرقاب ہونے کا ''بین'' عرصہ دراز سے صحافتی حلقوں اور سیاسی اوطاقوں میں جاری ہے۔ ہر کوئی اور ہر ایک کے زبان پر صرف یہی مدعا ہے کہ ملک اور قوم کی بہتری آئین و قانون کی ''تھاپ'' پر چلنے میں ہے لیکن عملی طور پر ہماری ہر حکومت اور حکومت کے ارباب اختیار قانون کی تھاپ پر چلنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں۔ زر بابا اور چالیس چور جیسے جملے الیکشن میں ''مہم'' کے درجے پر فائز تھے۔ غیر ضروری جاہ و جلال کو ختم کرنے کے وعدے کس شان بان آن سے کیے گئے؟ عام طبقات کو سہولتوں کی فراہمی کے دعوے ابھی کل ہی کی بات محسوس ہوتے ہیں، لیکن چند ماہ کی نئی نویلی حکومت کی حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے ایسا کچھ ظاہر ہو رہا ہے؟ عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑا کہ موجودہ حکومت بھی سابق حکومت کی روش پر چلتی محسوس ہورہی ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس ہیں کہ موجودہ حکومت سے عوام کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں لیکن عملی طور پر عوامی توقعات کا خون ہوتا محسوس ہورہا ہے۔
سابق حکومت میں جو قباحتیں ''اوصاف'' کا درجہ پا چکی تھیں، ان میں سے آج تک کسی بھی خرابی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش تک عملی طور پر نظر نہیں آرہی ہے۔ عوامی سطح پر افراتفری اور معاشی نفسانفسی کا جو ماحول تھا بالکل اسی انداز و اطوار میں نئی حکومت میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ کل بھی ملک میں آئی ایم ایف کی پالیسیاں رائج تھیں اور ملک میں عملاً غیر ملکی مالیاتی اداروں کی حکومت تھی اور اب بھی وہی سلسلہ چل رہا ہے۔ بلکہ عوام کی سطح پر عذاب کا سلسلہ گزشتہ حکومت کی نسبت دراز ہوگیا ہے۔ پہلے اگر عوام کو نوکریاں نہیں دی جارہی تھیں تو کم از کم ان سے نوکریاں چھیننے کا سلسلہ بھی نہیں تھا۔ اب یہ ہورہا ہے کہ ''بالائی'' سطح پر تو سب کچھ ٹھیک جارہا ہے لیکن نچلے ملازمین کو مختلف حیلوں بہانوں سے گھر بھیجنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ پی آئی اے کو جب سے سیاست کی نظر بد لگی ہے اس وقت سے پی آئی اے زبوں حالی کی راہ پر گامزن ہے۔
حکمرانوں سے اتنی سی گزارش ہے کہ الیکشن کے دنوں میں آئین اور قانون کی پاسداری کی جس ''تھاپ'' پر عوام سے ووٹ بٹورے تھے اب حکومتی فرائض کی انجام دہی میں بھی اسی ''تھاپ'' کو ملحوظ خاطر رکھیے کہ اس قوم کا کچھ بھلا ہو۔ جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے مگر شرط یہ ہے کہ جمہوریت کے سرخیل بھی اپنے اندر جمہوری روح رکھتے ہوں اور اپنے دلوں میں جمہور کا درد رکھتے ہوں۔ جمہوریت کے لطف و کرم سے جمہور اس وقت تک محروم رہیں گے جب تک حکمرانوں کے دل و دماغ اور ان کے رویوں میں جمہور کا درد نہیں جاگتا۔ کہنے، سننے کو اس قوم نے بہت کچھ سن لیا، اب بات زبان سے لبھانے کی نہیں بلکہ عملی طور پر کچھ کرنے کی ہے۔