ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیاں
گرین ہائوس گیسوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کے موسم تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔
JAKARTA:
ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی اب دنیا بھر میں تشویش کا ایک بڑا سبب بن چکی ہیں۔ اس سنگین مسئلے کے منفی اثرات اب کرۂ ارض پر مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ آج دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں یہ تبدیلیاں اپنا رنگ نہ دکھا رہی ہوں۔ کہیں شدید ترین بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ کہیں برف باریاں اپنے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہیں۔ دنیا میں صاف پانی کے سب سے بڑے ذخائر گلیشیرز ہیں، جن کے پگھلنے کے عمل میں تیزی آرہی ہے۔ سیلابوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں زرعی اجناس کی فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ان میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں نت نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ آبی حیات سے لے کر جنگلی حیات حتیٰ کہ پودوں تک کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوںنے اپنی ترقی کے لیے کرہ ارض پر موجود قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا اور فضا میں جس بے دردی کے ساتھ گرین ہائوس گیسوں کا اخراج کیا اس نے کرہ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
امریکا میں تحفظ ماحول سے وابستہ سائنسدانوں نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 10 لاکھ میں 400 ذرات تک پہنچ چکی ہے اوریہ گزشتہ 20 لاکھ برسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سب سے زیادہ مقدار ہے۔ واضح رہے کہ 1958 میں یہ مقدار 10 لاکھ میں 85 ذرات تھی۔ رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ متعدد پودے اور جانور اس درجہ حرارت کو برداشت نہیں کرسکیں گے اور متعدد سائنسی آلات کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔ گرین ہائوس گیسوں کی کمی کے لیے کیے جانے والے معاہدے کیوٹو پروٹوکول میں اس بات کا عہد کیا گیا تھا کہ فضا میں موجود گیسوں میں بتدریج کمی کرتے ہوئے اسے 1990 کی سطح پر لایا جائے گا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ چند صنعتی ملکوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 2012 تک اس میں 5 فیصد کمی بھی نہیں ہوسکی۔ نیچر نامی ماحولیاتی جریدے میں شایع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ 2050 تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج سات ارب میٹرک ٹن تک ہوجائے گا۔ جس کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہوجائے گا۔
گرین ہائوس گیسوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کے موسم تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ عالمی حدت میں ہونے والے مسلسل اضافے کی وجہ سے گزشتہ دہائی سے قدرتی آفات میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میںنہیں ملتی۔ ان قدرتی آفات کے باعث اربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ دنیا کی کئی بڑی بڑی انشورنس کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔
دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو شدید مشکلات سے دوچار کرنے والی موسمیاتی تبدیلی آج عالمی منصوبہ سازوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک اس حوالے سے نہ ہی گرین ہائوس گیسوں میں کمی کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرپائے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی و موسمیاتی کانفرنسوں میں جمع ہونے والے بڑے صنعتی ملکوں کے منصوبہ ساز ترقی پذیر اور غریب ملکوں (جن کا گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں معمولی سا حصہ ہے) کو کچھ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں پہلے ہی سے گمبھیر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل موجود ہیں، وہاں موسمیاتی تبدیلیوں پر پالیسیاں بنانا اور ان پر عملدرآمد کرانا ایک انتہائی مشکل امر ہے۔
دنیا کے مختلف خطوں کے عوام میں اس مسئلے کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک امریکی جریدے کے جانب سے 39 ملکوں میں کرائے گئے تازہ ترین سروے میں بتایا گیا ہے کہ لاطینی امریکی ملکوں، یورپ، افریقا اور ایشیا کے لوگ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خاصے پریشان اور فکرمند ہیں۔ لبنان، تیونس اور کینیڈا کے رہنے والے اسے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں جب کہ چین، چیک ریپبلک، اردن، اسرائیل اور مصر کے ساتھ پاکستانی عوام موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی تشویش کا شکار نہیں ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کا شمار ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید طور پر متاثر ہونے والے ملکوں میں پہلے درجہ میں کیا جانے لگا ہے۔
گزشتہ دہائی سے پاکستانی عوام موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کئی قدرتی آفات، جن میں خشک سالی سے لے کر شدید بارشوں اور تباہ کن سیلاب شامل ہیں کا سامنا کرچکے ہیں۔ سب سے بڑی تباہی 2010 کا سیلاب تھی۔ جس کی وجہ سے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے ملک کی جی ڈی پی کا 5 فیصد حصہ خرچ کرنا پڑا تھا۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے یہ تبدیلیاں کسی نہ کسی طرح ہماری زراعت کومتاثر کررہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے چند عشروں میں ہماری اہم فصلوں میں 7 سے 45 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔
عالمی تنظیم برائے خوراک و زراعت سمیت متعدد ادارے ملک میں خوراک کا بحران پیدا ہونے کے خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ پاکستان میں 48 فیصد گھرانے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ شرح آیندہ چند برسوں میں 58 فیصد سے بڑھ کر 63 سے 65 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ ملک میں صاف پانی ایک نایاب شے بنتا جارہا ہے۔ اس وقت ہمارا شمار پانی کی کمی والے ملکوں میں ہورہا ہے اور ہم اس حوالے سے ریڈ زون میں گنے جاتے ہیں، ہماری 1050 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی سطح سمندر میں اضافے کے خطرات سے دوچار ہے۔ کسی بھی سونامی کو روکنے کے لیے قدرتی دیوار یعنی تیمر کے جنگلات کا صفایا کیا جارہا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں خصوصاً خیبرپختوا سے جنگلات کا صفایا کیا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں ہرسال بارشیں کوئی نہ کوئی تباہی لارہی ہیں۔ ملک کو ہرسال 365 ارب روپے کا معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صحت کے حوالے سے بے پناہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے عوام ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل اور اس کے باعث ہونے والے بے پناہ نقصانات اور ان کی وجہ سے عام آدمی پر پڑنے والے اثرات سے واقف ہیں؟ اس کا جواب ہے، نہیں۔ ہمارا عام شہری توکیا ہمارے ملک کے انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی اس حوالے سے کوئی شعور نہیں رکھتے۔ صورتحال اس حد تک دگرگوں ہے کہ بحث مباحثوں اور دنیا بھر کے مسائل پر گفتگو کرنے والے ماحولیاتی مسائل پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کرتے۔ ملک میں کام کرنے والے ماحولیاتی ماہرین کی غالب اکثریت کا تعلق صرف پروجیکٹ کی رپورٹوں تک محدود ہے۔ جس کا تعلق موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات بھگتنے والی قوم سے قطعی نہیں ہے۔ دنیا بھر کی کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے اور پنج ستارہ ہوٹلوں میں ماحولیات پر لیکچر دینے والے اسکولوں، کالجوں، فیکٹریوں، محلوں میں کبھی شعور و آگہی پھیلانے نہیں جاتے۔ 18 ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد سے اب تک صوبائی ماحولیاتی وزارتوں کی کارکردگی صفررہی ہے۔ مرکزی سطح پر قائم اداروں کے افسران کو کانفرنسوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے جو گرین بینچز قائم کی جاچکی ہیں تاحال ان کی کارکردگی بھی عوام کے سامنے نہیں آئی ہے۔ ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کافقدان ہے۔ ان حالات میں ہمارے ملک کے عوام کو ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے حوالے کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ بے قصور ہیں۔
دنیا کے باخبر ملک ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنا روڈ میپ تشکیل دے رہے ہیں اور عوامی سطح پر لوگوں کو ان خطرات سے باخبرکیا جارہا ہے تاکہ وہ اس کے اثرات اور نقصانات کو کم کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمارا المیہ اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پانی سر تک پہنچنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم پاکستان کے لوگوں کو بتائیں کہ موسمیاتی تبدیلی رونماہوچکی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے انھیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں جب سچ چھپانے والے اور سچ نہ جاننے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے اور باقی رہے گا صرف پچھتاوا۔
ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی اب دنیا بھر میں تشویش کا ایک بڑا سبب بن چکی ہیں۔ اس سنگین مسئلے کے منفی اثرات اب کرۂ ارض پر مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ آج دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں یہ تبدیلیاں اپنا رنگ نہ دکھا رہی ہوں۔ کہیں شدید ترین بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ کہیں برف باریاں اپنے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہیں۔ دنیا میں صاف پانی کے سب سے بڑے ذخائر گلیشیرز ہیں، جن کے پگھلنے کے عمل میں تیزی آرہی ہے۔ سیلابوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں زرعی اجناس کی فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ان میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں نت نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ آبی حیات سے لے کر جنگلی حیات حتیٰ کہ پودوں تک کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوںنے اپنی ترقی کے لیے کرہ ارض پر موجود قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا اور فضا میں جس بے دردی کے ساتھ گرین ہائوس گیسوں کا اخراج کیا اس نے کرہ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
امریکا میں تحفظ ماحول سے وابستہ سائنسدانوں نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 10 لاکھ میں 400 ذرات تک پہنچ چکی ہے اوریہ گزشتہ 20 لاکھ برسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سب سے زیادہ مقدار ہے۔ واضح رہے کہ 1958 میں یہ مقدار 10 لاکھ میں 85 ذرات تھی۔ رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ متعدد پودے اور جانور اس درجہ حرارت کو برداشت نہیں کرسکیں گے اور متعدد سائنسی آلات کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔ گرین ہائوس گیسوں کی کمی کے لیے کیے جانے والے معاہدے کیوٹو پروٹوکول میں اس بات کا عہد کیا گیا تھا کہ فضا میں موجود گیسوں میں بتدریج کمی کرتے ہوئے اسے 1990 کی سطح پر لایا جائے گا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ چند صنعتی ملکوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 2012 تک اس میں 5 فیصد کمی بھی نہیں ہوسکی۔ نیچر نامی ماحولیاتی جریدے میں شایع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ 2050 تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج سات ارب میٹرک ٹن تک ہوجائے گا۔ جس کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہوجائے گا۔
گرین ہائوس گیسوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کے موسم تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ عالمی حدت میں ہونے والے مسلسل اضافے کی وجہ سے گزشتہ دہائی سے قدرتی آفات میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میںنہیں ملتی۔ ان قدرتی آفات کے باعث اربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ دنیا کی کئی بڑی بڑی انشورنس کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔
دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو شدید مشکلات سے دوچار کرنے والی موسمیاتی تبدیلی آج عالمی منصوبہ سازوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک اس حوالے سے نہ ہی گرین ہائوس گیسوں میں کمی کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرپائے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی و موسمیاتی کانفرنسوں میں جمع ہونے والے بڑے صنعتی ملکوں کے منصوبہ ساز ترقی پذیر اور غریب ملکوں (جن کا گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں معمولی سا حصہ ہے) کو کچھ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں پہلے ہی سے گمبھیر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل موجود ہیں، وہاں موسمیاتی تبدیلیوں پر پالیسیاں بنانا اور ان پر عملدرآمد کرانا ایک انتہائی مشکل امر ہے۔
دنیا کے مختلف خطوں کے عوام میں اس مسئلے کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک امریکی جریدے کے جانب سے 39 ملکوں میں کرائے گئے تازہ ترین سروے میں بتایا گیا ہے کہ لاطینی امریکی ملکوں، یورپ، افریقا اور ایشیا کے لوگ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خاصے پریشان اور فکرمند ہیں۔ لبنان، تیونس اور کینیڈا کے رہنے والے اسے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں جب کہ چین، چیک ریپبلک، اردن، اسرائیل اور مصر کے ساتھ پاکستانی عوام موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی تشویش کا شکار نہیں ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کا شمار ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید طور پر متاثر ہونے والے ملکوں میں پہلے درجہ میں کیا جانے لگا ہے۔
گزشتہ دہائی سے پاکستانی عوام موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کئی قدرتی آفات، جن میں خشک سالی سے لے کر شدید بارشوں اور تباہ کن سیلاب شامل ہیں کا سامنا کرچکے ہیں۔ سب سے بڑی تباہی 2010 کا سیلاب تھی۔ جس کی وجہ سے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے ملک کی جی ڈی پی کا 5 فیصد حصہ خرچ کرنا پڑا تھا۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے یہ تبدیلیاں کسی نہ کسی طرح ہماری زراعت کومتاثر کررہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے چند عشروں میں ہماری اہم فصلوں میں 7 سے 45 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔
عالمی تنظیم برائے خوراک و زراعت سمیت متعدد ادارے ملک میں خوراک کا بحران پیدا ہونے کے خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ پاکستان میں 48 فیصد گھرانے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ شرح آیندہ چند برسوں میں 58 فیصد سے بڑھ کر 63 سے 65 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ ملک میں صاف پانی ایک نایاب شے بنتا جارہا ہے۔ اس وقت ہمارا شمار پانی کی کمی والے ملکوں میں ہورہا ہے اور ہم اس حوالے سے ریڈ زون میں گنے جاتے ہیں، ہماری 1050 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی سطح سمندر میں اضافے کے خطرات سے دوچار ہے۔ کسی بھی سونامی کو روکنے کے لیے قدرتی دیوار یعنی تیمر کے جنگلات کا صفایا کیا جارہا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں خصوصاً خیبرپختوا سے جنگلات کا صفایا کیا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں ہرسال بارشیں کوئی نہ کوئی تباہی لارہی ہیں۔ ملک کو ہرسال 365 ارب روپے کا معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صحت کے حوالے سے بے پناہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے عوام ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل اور اس کے باعث ہونے والے بے پناہ نقصانات اور ان کی وجہ سے عام آدمی پر پڑنے والے اثرات سے واقف ہیں؟ اس کا جواب ہے، نہیں۔ ہمارا عام شہری توکیا ہمارے ملک کے انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی اس حوالے سے کوئی شعور نہیں رکھتے۔ صورتحال اس حد تک دگرگوں ہے کہ بحث مباحثوں اور دنیا بھر کے مسائل پر گفتگو کرنے والے ماحولیاتی مسائل پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کرتے۔ ملک میں کام کرنے والے ماحولیاتی ماہرین کی غالب اکثریت کا تعلق صرف پروجیکٹ کی رپورٹوں تک محدود ہے۔ جس کا تعلق موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات بھگتنے والی قوم سے قطعی نہیں ہے۔ دنیا بھر کی کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے اور پنج ستارہ ہوٹلوں میں ماحولیات پر لیکچر دینے والے اسکولوں، کالجوں، فیکٹریوں، محلوں میں کبھی شعور و آگہی پھیلانے نہیں جاتے۔ 18 ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد سے اب تک صوبائی ماحولیاتی وزارتوں کی کارکردگی صفررہی ہے۔ مرکزی سطح پر قائم اداروں کے افسران کو کانفرنسوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے جو گرین بینچز قائم کی جاچکی ہیں تاحال ان کی کارکردگی بھی عوام کے سامنے نہیں آئی ہے۔ ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کافقدان ہے۔ ان حالات میں ہمارے ملک کے عوام کو ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے حوالے کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ بے قصور ہیں۔
دنیا کے باخبر ملک ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنا روڈ میپ تشکیل دے رہے ہیں اور عوامی سطح پر لوگوں کو ان خطرات سے باخبرکیا جارہا ہے تاکہ وہ اس کے اثرات اور نقصانات کو کم کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمارا المیہ اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پانی سر تک پہنچنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم پاکستان کے لوگوں کو بتائیں کہ موسمیاتی تبدیلی رونماہوچکی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے انھیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں جب سچ چھپانے والے اور سچ نہ جاننے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے اور باقی رہے گا صرف پچھتاوا۔