لیاری والوں کی ہجرت
کراچی سمندر کے گھیرے میں آباد شہر ہے، سمندر نے اس شہر کو ہر طرح سے شاد و آباد رکھا ہے
میرا شہر کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، یہ شہر کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ اس شہر کی راتیںجاگتی تھیں، پورے شہر کے مختلف علاقوں میں رات رات بھر ہوٹل کھلے رہتے تھے، جہاں کھانا، روٹی، پراٹھے، چائے ملتی تھی۔ لوگ بلا خوف و خطر راتوں میں پیدل یا سواری میں سفر کرتے تھے۔ شہر کا ہر علاقہ سب کے لیے کھلا رہتا تھا، اس شہر میں کوئی ''نوگو ایریا'' نہیں ہوتا تھا، امیر لوگ اپنے حال میں مست رہتے تھے اور غریب اپنی کھال میں، دن رات ملوں اور فیکٹریوں میں معیشتوں کا پہیہ گھومتا تھا، چمنیوں سے دھواں نکلتا تھا، شفٹیں لگتی تھیں، مزدور بستیوں میں گھر گھر چولہے جلتے تھے۔
پورے ملک سے لوگ روزی روٹی کمانے کراچی آتے تھے اور پھر اسی شہر کے ہوکر رہ جاتے تھے، صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے بڑے شہر پشاور سے خیبربنالیا۔ اس شہر کے پہاڑوں میں انھیں اپنائیت اور پیار ملا، شہر میں بڑی بڑی بلڈنگیں بننا شروع ہوئیں تو فولادی جثے والے پٹھانوں نے مہینوں کا کام دنوں میں کرنا شروع کردیا۔ بیس بیس، تیس تیس فٹ گہری کھدائی کے لیے ان کے پاس کھدال اور بیلچے ہوا کرتے تھے، اب تو مشینیں آگئی ہیں، مگر آج بھی زمین کھودنے فلک بوس عمارتوں کی بنیادیں فراہم کرنے مختلف نوعیت کے زیر زمین پائپ ڈالنے جیسے سخت کام ہمارے پٹھان بھائی ہی کررہے ہیں۔
کراچی سمندر کے گھیرے میں آباد شہر ہے، سمندر نے اس شہر کو ہر طرح سے شاد و آباد رکھا ہے، اس شہر کادامن سمندر جیسا ہے، کہتے ہیں کہ اس شہر میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا، یہ خوبی صرف اسی شہر میں ہے، کہتے ہیں یہاں کی مٹی بھی سونا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ یہ شہر کاروباری خاندانوں اور سیلف میڈ لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں کوئی جاگیردار نہیں تھا۔ کوئی وڈیرا نہیں تھا، کوئی خان، سردار نہیں تھا، ہر ایک کو اس کی محنت کا صلہ برابر ملتا تھا، یہی وجہ تھی کہ لوگ جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے عذابوں سے تنگ، اس شہر کی جانب تیزی سے ہجرت کرنے لگے، پورے ملک کے مختلف شہروں سے آنے والوں میں اکثریت غریب ہنرمندوں کی تھی۔ اس شہر نے آنے والوں کو روزگار دیا اور انھیں عزت و آبرو۔ چند لاکھ کا شہر تیزی سے پھیلنے لگا، نئی نئی بستیاں آباد ہونے لگیں، ان بستیوںکے بازاروں میں ہنرمندوں کے بورڈ لگے نظر آنے لگے۔ اس شہر میں صدیوں سے آباد سندھی، پارسی، عیسائی، بوہری، میمن اور سمندر کے بہت قریب آباد لیاری کے رہنے والوں نے بٹوارے کے وقت بھی لاکھوں مہاجرین کو اپنے دامن میں سمیٹا تھا اور بعد کو اپنے ملک کے مختلف شہروں سے آنے والوں کے لیے بھی اپنے سارے دروازے کھلے رکھے۔
1971 میں ملک ٹوٹا تو مشرقی پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں بہاری بھائی آئے اور اورنگی ٹائون بن گیا، غرض کہ سمندر جیسے بڑے ظرف والاکراچی شہر ہجرت کرکے آنے والوں کو اپنے اندر سموتا رہا، اس سیلف میڈ شہر میں آکر آباد ہونے والوں نے محنت کی اور اس کا صلہ بھی پایا۔ ہمارے شہر کے وکلا، ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، اعلیٰ اور درمیانے درجے کے سرکاری افسران اور ملازمین کی بہت بڑی تعداد ''آنے والوں'' ہی کی ہے، جنھوںنے دن میں نوکریاں کیں اور شام کے کالجوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ترقی کے مدارج طے کرتے چلے گئے۔ یہ تھا اس شہر کراچی کا وصف مگر آج اس شہر میں کیا ہورہا ہے کہ اس شہر میں صدیوں سے آباد لیاری کے کچھی مکین ہجرت کر رہے ہیں۔ وہ شہر جو ہجرت کرکے آنے والوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتا تھا، آج اس شہر کے اصل وارث لیاری سے ہجرت کررہے ہیں۔ لیاری کی کچھی آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور کچھی برادری کے ہزاروں لوگ اپنے بھرے پرے گھر یونہی چھوڑ کر اور اپنی جانیں بچاکر بدین، ٹھٹھہ اور دیگر علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں کھلے آسمان تلے یہ ہجرت کرنے والے اپنے بال بچوں کو لیے بیٹھے ہیں۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں۔ اپنی ایک نظم کے دو چار مصرعے لکھتے ہوئے آگے بڑھوںگا۔
اے ہمارے شہر تیری عظمتوں کو کیا ہوا
جو تجھے ظالم سے تھیں ان نفرتوں کو کیا ہوا
تیرے ساحل سے تو آزادی کے افسانے چلے
اور گریبانوں کے پرچم لے کے دیوانے چلے
شمع پر قربان ہو جانے کو پروانے چلے
اے مرے شہر وفا ! یہ کیا ہوا تو ہی بتا
کیوں بنا شہر جفا! یہ ارزانی ہے کیا تو ہی بتا
ہر طرف پھیلی یہ ویرانی ہے کیا ، تو ہی بتا
لیاری تو میرے شہر کراچی کے ماتھے کا جھومر تھا، اچھے اور سچے لوگوں کا علاقہ تھا۔ ہمارے پیارے عظیم شاعر فیض احمد فیض کو بھی لیاری سے پیار تھا۔ اسی پیار کی وجہ سے انھوںنے کھڈہ کالج کا پرنسپل بننا قبول کیا تھا۔ یہ لیاری ہمارے عظیم رہنما میر غوث بخش بزنجو کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ وہ جب بھی کراچی آتے ان کا زیادہ وقت لیاری میں گزرتا تھا۔ میرے رہنما جن سے میں نے اور میرے دوستوں نے بہت سیکھا، ان کے ساتھ کچہریاں ہوئیں، لالہ لعل بخش رند کا تعلق اسی لیاری سے تھا، لیاری کے عوامی ہوٹلوں کی پیٹر والی چائے کو میں کیسے بھول جائوں، وہ راتیں جو میں نے لیاری کے فنکشن میں بتائیں کیسے بھول جائوں۔
اسی لیاری میں یہ ظلم ہورہا ہے کہ یہاں کے باسیوں سے کہا جارہا ہے کہ ''لیاری سے نکل جائو'' اور خوف و ہراس اس قدر ہے کہ لوگ اپنی اور اپنے بال بچوں کی جانیں بچاکر ہجرت کرگئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔مسئلہ ''سیاسی'' ہے تو اہل سیاست اسے فوری حل کیوں نہیں کرتے؟
انحطاط پذیر معاشرے میں لیاری کا یہ حال حالات و واقعات کا جبر ہی کہا جاسکتا ہے۔لیاری آفت زدہ ہے ۔اسے برابدی سے بچائوَ۔ پورا شہر کراچی تباہ و برباد ہوتا چلا جارہا ہے، لیاری جہاں پیار ملتا تھا اب وہاںخوف کے سائے منڈلاتے ہیں، اچانک مجھے لیاری کے ماہر ہڈی جوڑ عبداﷲ کمہار یاد آگئے، اپنے کام کا ایسا ماہر میں نے نہیں دیکھا، خود میرے بیٹے کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تو میں بچے کو لے کر لیاری گیا۔ عبداﷲ کمہار نے کہا ''ایکسرے کروا کر لائیں'' میں ایکسرے کرا کر لے گیا۔ عبداﷲ کمہار نے ماہر ڈاکٹر کی طرح ایکسرے دیکھا اور بچے کے ہاتھ پر مٹی کا لیپ کرکے چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کے ساتھ ہاتھ باندھ دیا، چار مرتبہ لیپ اور پٹی کے بعد ہڈی جڑ گئی اور میرا یہ بچہ آج خود ڈاکٹر ہے۔ اچھے ناموں اور کاموں والوں کا لیاری آج کیا بنادیا گیا ہے مگر شہر بھر کے حالات سب مصنوعی ہیں، بہت جلد ان خود ساختہ حالات کا خاتمہ ہوجائے گا اور میرا شہر کراچی پھر سے شہر وفا بن جائے گا۔ جس دن اس سمندر جیسے شہر نے محض پلک جھپکی سارے ظلم وستم خس وخاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔