بیل آؤٹ پیکیج ضرورت یا مجبوری

بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو فیصلہ کن اقدامات کرنے پڑیں گے۔


Editorial February 12, 2019
بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو فیصلہ کن اقدامات کرنے پڑیں گے۔ فوٹو: آئی ایم ایف ٹوئٹر

میڈیا کی اطلاع کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو فیصلہ کن اقدامات کرنے پڑیں گے ورنہ عالمی ادارہ بیل آؤٹ پیکیج کے حوالے سے اپنے فیصلوں میں کوئی لچک نہیں دکھائے گا۔

ذرایع کے مطابق بیل آؤٹ پیکیج لینے سے بجلی اور گیس مزید مہنگی جب کہ عوام پر ٹیکسز کا مزید بوجھ پڑنے کا خدشہ بھی خارج از امکان نہیں۔ آئی ایم ایف کے دیگر مطالبات بھی پیکیج کا حصہ ہونگے، عالمی ادارہ ایکسچینج ریٹ میں اضافہ اور گردشی قرضوں کا مستقل حل چاہتا ہے۔

یوں حکومت اپنے شدید تحفظات، عوام سے کیے گئے وعدوں ، یقین دہانیوں اور ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر آخر کار آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج پر تبادلہ خیال کے لیے دبئی یاترا پر مجبور ہوگئی،اگرچہ بادی النظر میں وزیراعظم عمران خان کی اپنی ٹیم کے ہمراہ دبئی روانگی ورلڈ گورنمنٹ کانفرنس میں شرکت اور خطاب کے حوالے سے تھی تاہم سائیڈ لائن پر عالمی مالیاتی ادارہ کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات اپنے مضمرات اور فال آؤٹ کے اعتبار سے ملکی سیاست میں ارتعاش کا بنیادی نکتہ بن گئی ہے جب کہ اپوزیشن بھی آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کی پراسراریت کا جائزہ لینے اور مناسب وقت پر اسے پارلیمنٹ میں اٹھانے کا عندیہ دے چکی ہے، ادھر حکومت ، غیر جانبدار اقتصادی ماہرین اور اپوزیشن کے مابین اس پیکیج کے منظور ہونے یا نہ ہونے پر خیالات کے دھارے بھی یکسر مختلف ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اتوارکودبئی میں وزیراعظم عمران خان سے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹائن لیگارڈ نے ملاقات کی جس میں عالمی ادارے کی جانب سے اپنے سخت موقف کا اظہارکیا گیا۔ ایک گھنٹے سے زائد ملاقات میں عالمی ادارے کے مطالبات اور پاکستانی موقف کھل کر پیش کیا گیا۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف حکام بجلی اور گیس کی قیمت میںگزشتہ اضافے سے خوش نہیں اور وہ ٹیرف میں مزید اضافہ چاہتے ہیں۔ ذرایع کے مطابق فریقین نے مستقبل میں بھی ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ مختلف معاملات پر موجود اختلافات کی خلیج کو کم کیا جا سکے۔

وزیراعظم عمران خان کا اتوارکو دبئی میں ورلڈگورنمنٹ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت معاشی اصلاحات لے کر آرہی ہے، غیر ملکی تاجروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا موقع ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ترقی کی بنیاد صرف بہترطرز حکمرانی ہے اورحکومت شفاف ہوئی تو ملک تیزی سے ترقی کرے گا، وزیراعظم عمران خان اورابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد زید بن النہیان کے درمیان ون ٹو ون ملاقات ہوئی، ملاقات میں دوطرفہ امور اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری، وزیر بحری امور علی حیدرزیدی، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، معاون خصوصی ذوالفقار بخاری اور ڈاکٹر عشرت حسین بھی موجود تھے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ بنیادی نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، تکینکی تفصیلات بھی جلد منظر عام پر آ جائیں گی، میڈیا سے گفتگو میں وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے مسئلہ ڈیل کا نہیں ڈیل سے متعلق شرائط کا ہے، پاکستان کسی متفقہ بیل آؤٹ پیکیج کا خواہاں ہے، ایسی شرائط نہیں چاہتے ہیں جن سے پاکستان کے شرح نمو کو نقصان پہنچے۔

اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے حکومتی کوششیں نتیجہ خیز ہونی چاہئیں۔ حکومت دوست ممالک سے رابطہ میں ہے، بعض سے امدادی پیکیج بھی لے چکی ہے، مگر ایک ایسے مرحلہ میں جب حکومت دبئی میں آئی ایم ایف سے معاہدہ پر بات چیت کو حتمی شکل دے رہی ہے۔

وزیر خزانہ اسد عمر کا اس بارے میں میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دینا کہ پاکستان اکیس کروڑ پاکستانیوں کا خوددار اور غیور ملک ہے ، ہم گھٹنے نہیں ٹیکیں گے، سرنڈر نہیں کریں گے، ڈکٹیشن نہیں لیں گے، کسی قسم کی پینک ہمارے درمیان موجود نہیں بلاوجہ کسی داخلی خوف کی غمازی کرتا ہے، اگر حکومت بعد از خرابی ء بسیار ایم ایف سے پیکیج لینے کا پختہ ارادہ کر ہی چکی ہے تو اسے قوم اور اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہیے، مکمل یکسوئی سے کام لیتے ہوئے پیکیج کی کڑی شرائط اور ملکی معاشی صورتحال سمیت عوام کی مشکلات کا ادراک بھی اسے ہونا چاہیے، عوام ، سول سوسائٹی اور اپوزیشن کو حکومتی وزرا اور وزیر اعظم یہ یقین دہانی کئی بار کراچکے ہیں کہ آئی ایم ایف ڈیل پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں، قومی مفاد سے متصادم پیکیج قبول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میڈیا میں ان بیانات کی بازگشت ابھی جاری ہے اس لیے محتاط طرز عمل ہی ملکی مفاد میں ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں