گومی بائی لیڈیز کلب لاڑکانہ
کلب کی عہدیداروں کی جانب سے قیدی خواتین کے لیے دوائیں،کپڑے اور ضرورت کی چیزیں بھی دی جاتی ہیں۔
بچپن سے لیڈیزکلب لاڑکانہ کوکبھی بند اورکبھی کھلا دیکھتا رہا ہوں ، لیکن کچھ عرصہ پہلے جب لاڑکانہ جانا ہوا تو میرے دل میں خیال آیا کہ کچھ معلومات لی جائیں کیونکہ اخبارات میں پڑھتا تھا کہ کسی نے اس پر اپنی ملکیت جتا کر قبضہ کرلیا ہے، روشن خیال لوگوں نے عدالت کے ذریعے قبضہ چھڑوایا ہے۔ اس جدوجہد میں خواتین ، صحافیوں، وکلاء اور شہریوں کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔
میں جناح باغ لاڑکانہ میں واقع کلب کی طرف چل پڑا ، جہاں پر شازیہ جلبانی اور مسز ڈاکٹر امان اللہ سومرو بھی موجود تھیں ، جو کارکردگی مجھے بتائی گئی وہ حیران کن ہے۔ 2010 اور 2011 میں جو بارشیں ہوئی تھیں، ان کے نتیجے میں متعدد گاؤں میں سیلاب آیا اور سیکڑوں لوگ بے گھر ہوئے۔ اس دوران کلب کی خواتین نے سیلاب متاثرین کے لیے راشن کا بندوبست کیا، بیمارعورتوں اور بچوں کے علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کیمپوں میں جاکر بچیوں کو اسلام، صفائی، اخلاقیات وغیرہ کے بارے میں بنیادی معلومات دیتی رہیں، جو ان پڑھ تھیں انھیں لکھنا اور پڑھانا سکھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ دارالامان میں رہنے والی خواتین اور بچوں کے لیے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا اور دوسرے تحائف کے علاوہ واٹرکولر، یو پی ایس بھی دیے گئے۔
کلب کی عہدیداروں کی جانب سے قیدی خواتین کے لیے دوائیں،کپڑے اور ضرورت کی چیزیں بھی دی جاتی ہیں۔ غریب اور نادار بچیوں کے لیے جہیزکا بندوبست کرنا، سلائی مشین، کڑھائی اور سلائی کا سامان دینا بھی ایک معمول میں شامل ہے۔ کلب کی طرف سے مینا بازار بھی لگایا جاتا ہے۔ 14 اگست، 23 مارچ، وومن ڈے بھی کلب میں منایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین ممبران شاعری اور موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتی ہیں۔
تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہندو ڈپٹی کلکٹر لاڑکانہ نے اپنی بہن کی یاد میں اس کلب کی زمین خرید کر اس کا نام گومی بائی کلب رکھا ، جس کا افتتاح 3 جنوری 1934 میں ایک انگریز خاتون نے کیا۔ جس کا نام تھا آرڈی جیسن۔ کلب میں ہندو، انگریز اور مسلمان خواتین آ کر نہ صرف وقت گزارتی تھیں بلکہ سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ کلب کی ممبران دولت مند بیگمات اور بااثر خواتین ہوتی تھیں۔ اس زمانے میں بھی مینا بازار لگائے جاتے تھے جہاں پر صرف سرمایہ دار اور پڑھے لکھے زمینداروں کی خواتین حصہ لیتی تھیں کیونکہ اس وقت تعلیم عام نہیں تھی اور لوگ بھی بہت زیادہ غریب ہوتے تھے، عام گھرانے کی عورتیں اس طرح کے پروگراموں میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ اس کی وجہ سے زیادہ تر ہندو اور انگریز عورتیں ہی کلب کی ممبر ہوتی تھیں۔
پارٹیشن سے پہلے اور بعد میں کچھ مسلمان خواتین ایسی تھیں جنھوں نے شروع سے کلب کی سرگرمیوں میں انتہائی فعال کردار ادا کیا ، جن میں بیگم محمد ایوب کھوڑو، بیگم جمال الدین بخاری ، بیگم عتیق الزماں، بیگم اشرف عباسی جب کہ پاکستان بننے کے بعد بیگم فقیر محمد جعفری اور ڈاکٹر صبیحہ مغل۔ اس کے علاوہ بیگم نصرت بھٹو بھی اس کلب کی اسپیشل ممبر رہی ہیں۔
پاکستان بننے سے پہلے اس کلب میں ممبران کو نیشنل گارڈ کی تربیت بھی دی جاتی تھی، فرسٹ ایڈ کی تربیت بھی لازمی ہوتی تھی جس کے لیے ریٹائرڈ فوجی کو انسٹرکٹر بنایا جاتا تھا، اس کا یونیفارم سفید رنگ کا ہوتا تھا۔ تربیت کے اختتام پر سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب بھی ہوتی تھی جس میں برٹش حکومت کا فوجی اور سویلین اور سیاسی شخصیات بھی شرکت کرتی تھیں۔
1972 میں سندھ میں زبان کی بنیاد پر ہنگامے شروع ہوگئے جسکے نتیجے میں لاڑکانہ سے اردو بولنے والی فیملیاں کراچی شفٹ ہوگئیں ، ایک بار پھرکلب کی زندگی میں ایک وقفہ آگیا اور کلب بند ہوگیا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ایک بلڈر نے میونسپل کمیٹی سے یا پھرکسی اور طریقے سے کلب کے کچھ حصے پر قبضہ کرلیا، لیکن تاریخی ورثے سے پیار کرنے والے لوگوں نے ڈاکٹر صبیحہ مغل سے مل کر وکیل کلپنا دیوی، وکیل امان اللہ شیخ، صحافی ذوالفقار راجپر، فاطمہ بھٹو، راقم الحروف، طارق مسعود، وکیل عبدالستار موریو وغیرہ پر مشتمل ایک سٹیزن ایکشن فورم قائم کیا، جس کا ڈاکٹر صبیحہ مغل کو چیئرمین بنایا گیا ،ایک آرگنائزنگ کمیٹی بھی بنائی گئی جس میں لاڑکانہ کی ایک سماجی شخصیت جمیل گاد کو بھی شامل کیا گیا۔
کلب کے حصے سے ناجائز قبضہ ہٹانے کے لیے احتجاجی جلوس نکالے گئے، بھوک ہڑتال ہوئی اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور یہ جدوجہد رنگ لائی اور قبضہ ختم ہوگیا۔ اس میں تعلقہ ناظم لاڑکانہ نذیر احمد شیخ، ضلع ناظم خورشید احمد جونیجو نے بڑا تعاون کیا اور حصے کوکلب کا حصہ ثابت کرنے میں عدالت میں اصلی کاغذات پیش کیے جب کہ صحافی برادری اور روشن خیال افراد نے بھی ساتھ دیا۔
کلب کا ممبر بننے کے لیے رجسٹریشن فیس 5 ہزار ہے ۔ غیر شادی شدہ لڑکیاں جن کی عمر 20 سال سے اوپر ہے، ان سے رجسٹریشن فیس نہیں وصول کی جائے گی اور انھیں صرف ماہانہ فیس ادا کرنی ہوگی جب کہ ممبر کے لیے تعلیم کی حد کم ازکم میٹرک رکھی گئی ہے۔
کلب کے اپنے فنڈ بہت ہی کم ہیں، اس کے لیے ضلع کونسل ، میونسپل کارپوریشن، ڈپٹی کمشنر اور چیمبر آف کامرس کو ماہانہ یا پھر سالانہ گرانٹ دینی چاہیے۔ اس کے علاوہ حکومت سندھ کو بھی چاہیے کہ اپنی طرف سے عورتوں کے کلب کے لیے گرانٹ دیتی رہے، کیونکہ عورتوں کی تفریح اور ملاقات کا یہ کلب واحد جگہ ہے جس میں وہ عورتوں کی بھلائی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔
دو تین سال پہلے کلب کو ایک نئی بلڈنگ بنا کے دی جا رہی تھی جس میں عورتوں کے لیے جم، ٹی وی، کچن، کینٹین وغیرہ کی سہولتیں ہوں گی ۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس عمارت کا کام دو سال سے بند ہے جسکی وجہ سے کلب کے ممبران میں ایک مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جیساکہ بچیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اور خاص طور پر انگریزی زبان سکھانے کے لیے کلب میں شام کے وقت انگریزی سکھانے کی کلاس شروع کرنے کا ارادہ کیا جا رہا ہے۔ عورتوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں کلب بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے جس کے لیے عورتوں کو سلائی اور کڑاہی سکھانے کے لیے جون اور جولائی کے مہینوں میں دو ماہ کا کورس بھی کروایا جائے گا۔
تعلیم کو فروغ دینے اورکم معاوضے میں لڑکیوں کے لیے کلب ایک اسکول بھی قائم کرے گا تاکہ غریب والدین کی بچیاں بھی ترقی حاصل کرسکیں۔ واک کے لیے کلب کے اندر ایک واکنگ ٹریک بھی بنایا جا رہا ہے کیونکہ شہرکے اندرکہیں بھی عورتیں پرسکون رہ کر واک نہیں کرسکتیں۔
یہ کلب صرف عورتوں کے جمع ہونے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا منشور ہے کہ وہ غریب اور نادار عورتوں کی بھلائی کے لیے کام کریں جس کے لیے ممبران کبھی اپنی جیب سے اورکبھی کچھ مخیر حضرات سے فنڈ لیتے ہیں۔ پروگرام میں جانے اور رکنے کے لیے انھیں ایک وین کی ضرورت ہے جسے صرف حکومت سندھ ہی کام آسکتی ہے یا پھر باہر سے کوئی اچھا خاصا فنڈ مل جائے۔ اس کلب کی ممبران میں سب ہی پڑھی لکھی اور اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں جنھیں تعلیم اور ادب سے بھی بڑا لگاؤ ہے جس کے لیے ایک اچھی سی لائبریری بھی کلب میں قائم ہونی چاہیے۔ اس کلب کی یہ بھی خوبی ہے کہ اس میں سیاست سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔