جب خواب حقیقت بنتے ہیں
جو میں نے دیکھا وہ آنکھوں کی راہ سے قلب پر نقش ہوگیا۔ تاحیات میں اسے فراموش نہیں کرسکتا۔
1980 ستمبرکی 16تاریخ تھی۔ سہ پہرکو راولپنڈی سے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر نیوز خواجہ صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے دو تین دن میں تمہیں ایک ہفتے کے لیے ترکی جانا ہے۔ وہاں فوجی انقلاب کے بعد جو صورتحال ہے اس کی رپورٹنگ کرنا ہے۔ تم فوراً راولپنڈی آنے کی تیاری کرو۔ میں ان دنوں کراچی میں ریڈیو پاکستان کی نیوز آرگنائزیشن کا سربراہ تھا۔
خواجہ صاحب سے یہ سن کر کہ مجھے ترکی جانا ہے میرے بدن میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ترکی جانے کے خواب تو میں نجانے کب سے دیکھ رہا تھا۔ اسکول کے دنوں ہی سے ترکی سے میرا ایک رومانوی تعلق ہوگیا تھا۔ میرے والد نے ترکی کے ہیرو جنرل انور پاشا شہید کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی۔ جب سے میرے گھر میں ترکی کا چرچا تھا۔
ہمارے تائے ابا جو یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، ہم بچوں میں سے کسی کا اردو میں امتحان لیتے تو کہتے لکھو ''قسطنطنیہ''۔ اس امتحان میں مشکل ہی سے کوئی کامیاب ہوتا تھا۔ میں بھی اس امتحان سے گزرا اور جب یہ لفظ صحیح لکھتے میں کامیاب ہوگیا تو بہت خوش ہوا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ میں ایک دن قسطنطنیہ ضرور جاؤں گا۔
ترکی سے میری جذباتی وابستگی عمر کے ساتھ بڑھتی گئی۔ میرا بہت جی چاہتا تھا کہ ترکی جاؤں ۔ رب جلیل کی کارفرمائی دیکھیے میرا خواب کیسے حقیقت بنا۔ میں ایک بار نہیں تین بار ترکی گیا۔ قسطنطنیہ جو اب استنبول ہے میں نے تین بار دیکھا، انقرہ اور ازمیر بھی دیکھا اور سب سے بڑھ کر قوینہ میں مزار رومی ہی نہیں رقص درویش بھی دیکھا ۔ ترکی ہی کے سفر میں مجھے یہ سعادت بھی ملی کہ سرکار دو عالمؐ کے صحابی اور میزبان حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری نصیب ہوئی۔ پھر اس سب کے بعد ایک ایسا شرف حاصل ہوا جو میرے خیال و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا۔ اس کا ذکر میں کروں گا لیکن پہلے ترکی کے سفر کی روداد سنادوں۔
13 ستمبر 1980 صبح پو پھٹنے سے پہلے ترکی میں مسلح افواج کی حکمرانی قائم ہوچکی تھی۔ ترک فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل کنعان ایورن نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ پاکستان میں بھی اس وقت فوج کی حکمرانی تھی۔ کل اقتدار جنرل ضیاالحق کے ہاتھ میں تھا۔ ترکی میں فوج کی تازہ کارروائی کے بعد حالات کیا ہیں۔ فوجی مداخلت پر عوام کا ردعمل کیا ہے۔ اس تبدیلی کا عوام نے خیر مقدم کس طرح کیا ہے اس کی تجزیاتی رپورٹنگ کے لیے ریڈیو سے مجھے اور سرکاری خبر ایجنسی اے پی پی سے محمد خاں نقشبندی کو انقرہ جانے کی ہدایت ہوئی۔
25 ستمبر کو ہم صبح سویرے استنبول پہنچے اور وہاں سے ٹرکش ایئرلائن سے انقرہ۔ یہاں میرا قیام ایک ہفتے رہا۔ اس دوران میں نے ترکی کی پارلیمنٹ، مجلس کبیر ملی میں جنرل ایورن کا پالیسی بیان سنا، ترکی کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات کی، آف دی ریکارڈ باتیں بھی ہوئیں، ممتاز صحافیوں سے تبادلہ خیال ہوا، ترک محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر سے بھی ملاقات رہی۔ ایک شام باسفورس یونیورسٹی کے طلبا سے اتفاقی ملاقات ہوگئی۔ صاف گوئی سے باتیں ہوئیں۔
میری رپورٹیں ہفتہ بھر نشر ہوتی رہیں، ترکی ریڈیو سے بڑی مدد ملی۔ پاکستان کے لیے ترکوں کے بڑے اچھے جذبات ہیں۔ پھر میں نے انقرہ سے واپس ہوتے ہوئے دو دن استنبول میں قیام کیا۔ خوب سیر کی۔ توپ تاپی سرائے، چھتہ بازار، آپا صوفیہ، مسجد سلیمانیہ سب مقامات دیکھے۔ جمعہ کی نماز میں ترکی کے عام لوگوں کی دین سے محبت کے منظر بھی دیکھے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری اور فاتحہ خوانی کی سعادت بھی ملی۔ واپس کراچی پہنچ کر آف دی ریکارڈ باتوں کی رپورٹ بھی بھیج دی جو اوپر تک گئی۔
ترکی کا دوسرا سفر یوں ہوا کہ صدر ضیاالحق جنوری 81 کے آخری ہفتے میں طائف میں ہونے والی اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس میں زیر غور آنے والے مسائل پر برادر اسلامی ملکوں کے حکمرانوں سے صلاح مشورہ کرنا چاہتے اور میں ان کے اس دورہ میں ریڈیو کے نمایندے کی حیثیت سے شامل تھا۔ اس میں ترکی کا دورہ شامل تھا اور یہ سرکاری دورہ تھا۔ ساڑھے چار ماہ سے بھی کم عرصے میں مجھے دوبارہ ترکی جانے پر قدرتی طور پر بڑی خوشی تھی۔ یہ ایک غیر متوقع بات تھی اس لیے خوشی بھی زیادہ ہوئی کہ اگرچہ اس دورے کی نوعیت ایسی تھی سیر و سیاحت کا موقع نہ تھا لیکن میں انقرہ اور استنبول اچھی طرح دیکھ چکا تھا اور مطمئن تھا۔ میرا ترکی کا خواب حقیقت بن چکا تھا۔
ڈھائی سال سے کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ میں ایک بار پھر عازم ترکی تھا۔ ترکی کے اس تیسرے سفر پر روانہ ہوتے وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر درحقیقت میری اس دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے جو میں نے مئی 1981 میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد دربار نبویؐ سے رخصت ہوتے وقت اپنے رب سے مانگی تھی کہ اے پروردگار! یہاں حاضری کی جو سعادت ملی ہے وہ ایک بار پھر عطا ہو۔ میرے رب نے میری یہ دعا ایسی قبول فرمائی کہ مجھے نہ صرف بیت اللہ شریف کی زیارت اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ ایک ایسی نعمت بھی عطا ہوئی جس کا مجھے تصور میں بھی کبھی گمان نہ تھا۔
ترکی کے اس چھ روزہ سفر میں صدر مملکت کو انقرہ اور استنبول کے علاوہ مولانا رومی کی ابدی آرام گاہ قوینہ بھی جانا تھا۔ انقرہ میں جنرل ایورن سے صلاح مشورے کے بعد صدر ضیا الحق ازمیر گئے، پھر قوینہ اور استنبول۔ قوینہ میں ہم مولانا رومی کے مزار پر گئے۔ حضرت شمس تبریز کے مزار پر بھی فاتحہ پڑھی اور مولانا رومی کے مقبرے کے صحن میں رقص درویش بھی دیکھا یہ بھی اپنی جگہ ایک بڑا تجربہ تھا۔
ترکی کے بعد ہماری اگلی منزل سعودی عرب تھا۔ استنبول سے تین گھنٹے کے سفر کے بعد ہمارا ہوائی جہاز شام کے وقت جدہ پہنچا۔ اسی شب عشا کے بعد ہم عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ یہ حج کا زمانہ تھا ذی القعدہ کی 26 تاریخ تھی۔ حرم شریف عازمین حج سے بھرا تھا۔ ہم نے بڑے اطمینان سے عمرہ ادا کیا۔ جدہ سے ہوائی جہاز میں چلے۔ ایک گھنٹے میں مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ یہاں بس چند منٹ کا قیام تھا۔
عشا کے وقت دربار نبویؐ میں حاضری تھی۔ صدر کی معیت میں ہم جب مسجد نبوی پہنچے تو عشا کی نماز ہوئے دیر ہوچکی تھی۔ مسجد نمازیوں سے خالی تھی چونکہ عشا کے بعد مسجد نبوی کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور پھر تہجد کی اذان کے ساتھ کھلتے ہیں۔ ہم نے پہلے ریاض الجنتہ میں نماز عشا باجماعت ادا کی۔ امام حرم نے نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ہم مواجہہ شریف کی طرف بڑھے۔ میں نے دیکھا کہ باب جبریل کی طرف مقصورہ شریف کا جو دروازہ ہے وہ ضیا الحق صاحب کے لیے کھول دیا گیا ہے وہ اندر گئے اور میں بھی ان کے پیچھے لرزاں و ترساں اندر چلا گیا۔
صدر ضیا الحق مواجہہ شریف کی سنہری جالیوں میں اس جگہ جہاں بڑا حلقہ بنا ہے، سرکار دو عالمؐ کے حضور کھڑے ہوکر درود و سلام پیش کرتے رہے۔ مجھ پر مسرت کے ساتھ خوف طاری تھا کہ میں حضورؐ کی آرام گاہ مبارک سے کس قدر قریب آگیا ہوں، مقصورہ شریف میں حضورؐ کے مرقد اور آپؐ کے دو صحابیوں، حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کی قبروں کے چاروں طرف چھت تک اونچی دیوار ہے جو ایک گہرے سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ہے۔
اس سبز غلاف پر اس طرف جدھر حضورؐ کا رخ انور ہے ایک دائرے میں حضورؐ کا اسم مبارک تحریر ہے۔ میں بھی روضہ مبارک کی جالیوں سے پیٹھ لگائے حضورؐ کی خدمت میں سلام پیش کرتا رہا۔ پھر جیسے ہی ضیا الحق سلام پیش کرکے واپس جانے لگے تو میں نے ان کے ہٹتے ہی آگے بڑھ کر اس جگہ پر غلاف کو چوم لیا اور آنکھیں رکھ دیں۔ پھر ہم سب مقصورہ شریف سے باہر آگئے۔
مسجد نبوی سے نکل کر ہم سیدھے ایئرپورٹ آئے۔ چند ساعتوں میں صدر پاکستان کا خصوصی طیارہ حرکت میں آگیا۔ طیارہ فضا میں بلند ہوا میں نے یہ دیکھا کہ مسجد نبوی سے جس کا سبز گنبد اور مینار صاف نظر آرہا تھا، آسمان کی لامتناہی وسعتوں تک نور کی ایک شاہراہ ہے، روشن اور منور جیسے کسی نے ستاروں کو کوٹ کر ایک راستہ بنادیا ہو۔ جمال نبویؐ سے روشن شاید یہ فرشتوں کی راہ گزر ہوگی۔ میں اس منظر کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ جو میں نے دیکھا وہ آنکھوں کی راہ سے قلب پر نقش ہوگیا۔ تاحیات میں اسے فراموش نہیں کرسکتا۔
خواجہ صاحب سے یہ سن کر کہ مجھے ترکی جانا ہے میرے بدن میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ترکی جانے کے خواب تو میں نجانے کب سے دیکھ رہا تھا۔ اسکول کے دنوں ہی سے ترکی سے میرا ایک رومانوی تعلق ہوگیا تھا۔ میرے والد نے ترکی کے ہیرو جنرل انور پاشا شہید کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی۔ جب سے میرے گھر میں ترکی کا چرچا تھا۔
ہمارے تائے ابا جو یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، ہم بچوں میں سے کسی کا اردو میں امتحان لیتے تو کہتے لکھو ''قسطنطنیہ''۔ اس امتحان میں مشکل ہی سے کوئی کامیاب ہوتا تھا۔ میں بھی اس امتحان سے گزرا اور جب یہ لفظ صحیح لکھتے میں کامیاب ہوگیا تو بہت خوش ہوا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ میں ایک دن قسطنطنیہ ضرور جاؤں گا۔
ترکی سے میری جذباتی وابستگی عمر کے ساتھ بڑھتی گئی۔ میرا بہت جی چاہتا تھا کہ ترکی جاؤں ۔ رب جلیل کی کارفرمائی دیکھیے میرا خواب کیسے حقیقت بنا۔ میں ایک بار نہیں تین بار ترکی گیا۔ قسطنطنیہ جو اب استنبول ہے میں نے تین بار دیکھا، انقرہ اور ازمیر بھی دیکھا اور سب سے بڑھ کر قوینہ میں مزار رومی ہی نہیں رقص درویش بھی دیکھا ۔ ترکی ہی کے سفر میں مجھے یہ سعادت بھی ملی کہ سرکار دو عالمؐ کے صحابی اور میزبان حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری نصیب ہوئی۔ پھر اس سب کے بعد ایک ایسا شرف حاصل ہوا جو میرے خیال و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا۔ اس کا ذکر میں کروں گا لیکن پہلے ترکی کے سفر کی روداد سنادوں۔
13 ستمبر 1980 صبح پو پھٹنے سے پہلے ترکی میں مسلح افواج کی حکمرانی قائم ہوچکی تھی۔ ترک فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل کنعان ایورن نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ پاکستان میں بھی اس وقت فوج کی حکمرانی تھی۔ کل اقتدار جنرل ضیاالحق کے ہاتھ میں تھا۔ ترکی میں فوج کی تازہ کارروائی کے بعد حالات کیا ہیں۔ فوجی مداخلت پر عوام کا ردعمل کیا ہے۔ اس تبدیلی کا عوام نے خیر مقدم کس طرح کیا ہے اس کی تجزیاتی رپورٹنگ کے لیے ریڈیو سے مجھے اور سرکاری خبر ایجنسی اے پی پی سے محمد خاں نقشبندی کو انقرہ جانے کی ہدایت ہوئی۔
25 ستمبر کو ہم صبح سویرے استنبول پہنچے اور وہاں سے ٹرکش ایئرلائن سے انقرہ۔ یہاں میرا قیام ایک ہفتے رہا۔ اس دوران میں نے ترکی کی پارلیمنٹ، مجلس کبیر ملی میں جنرل ایورن کا پالیسی بیان سنا، ترکی کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات کی، آف دی ریکارڈ باتیں بھی ہوئیں، ممتاز صحافیوں سے تبادلہ خیال ہوا، ترک محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر سے بھی ملاقات رہی۔ ایک شام باسفورس یونیورسٹی کے طلبا سے اتفاقی ملاقات ہوگئی۔ صاف گوئی سے باتیں ہوئیں۔
میری رپورٹیں ہفتہ بھر نشر ہوتی رہیں، ترکی ریڈیو سے بڑی مدد ملی۔ پاکستان کے لیے ترکوں کے بڑے اچھے جذبات ہیں۔ پھر میں نے انقرہ سے واپس ہوتے ہوئے دو دن استنبول میں قیام کیا۔ خوب سیر کی۔ توپ تاپی سرائے، چھتہ بازار، آپا صوفیہ، مسجد سلیمانیہ سب مقامات دیکھے۔ جمعہ کی نماز میں ترکی کے عام لوگوں کی دین سے محبت کے منظر بھی دیکھے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری اور فاتحہ خوانی کی سعادت بھی ملی۔ واپس کراچی پہنچ کر آف دی ریکارڈ باتوں کی رپورٹ بھی بھیج دی جو اوپر تک گئی۔
ترکی کا دوسرا سفر یوں ہوا کہ صدر ضیاالحق جنوری 81 کے آخری ہفتے میں طائف میں ہونے والی اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس میں زیر غور آنے والے مسائل پر برادر اسلامی ملکوں کے حکمرانوں سے صلاح مشورہ کرنا چاہتے اور میں ان کے اس دورہ میں ریڈیو کے نمایندے کی حیثیت سے شامل تھا۔ اس میں ترکی کا دورہ شامل تھا اور یہ سرکاری دورہ تھا۔ ساڑھے چار ماہ سے بھی کم عرصے میں مجھے دوبارہ ترکی جانے پر قدرتی طور پر بڑی خوشی تھی۔ یہ ایک غیر متوقع بات تھی اس لیے خوشی بھی زیادہ ہوئی کہ اگرچہ اس دورے کی نوعیت ایسی تھی سیر و سیاحت کا موقع نہ تھا لیکن میں انقرہ اور استنبول اچھی طرح دیکھ چکا تھا اور مطمئن تھا۔ میرا ترکی کا خواب حقیقت بن چکا تھا۔
ڈھائی سال سے کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ میں ایک بار پھر عازم ترکی تھا۔ ترکی کے اس تیسرے سفر پر روانہ ہوتے وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر درحقیقت میری اس دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے جو میں نے مئی 1981 میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد دربار نبویؐ سے رخصت ہوتے وقت اپنے رب سے مانگی تھی کہ اے پروردگار! یہاں حاضری کی جو سعادت ملی ہے وہ ایک بار پھر عطا ہو۔ میرے رب نے میری یہ دعا ایسی قبول فرمائی کہ مجھے نہ صرف بیت اللہ شریف کی زیارت اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ ایک ایسی نعمت بھی عطا ہوئی جس کا مجھے تصور میں بھی کبھی گمان نہ تھا۔
ترکی کے اس چھ روزہ سفر میں صدر مملکت کو انقرہ اور استنبول کے علاوہ مولانا رومی کی ابدی آرام گاہ قوینہ بھی جانا تھا۔ انقرہ میں جنرل ایورن سے صلاح مشورے کے بعد صدر ضیا الحق ازمیر گئے، پھر قوینہ اور استنبول۔ قوینہ میں ہم مولانا رومی کے مزار پر گئے۔ حضرت شمس تبریز کے مزار پر بھی فاتحہ پڑھی اور مولانا رومی کے مقبرے کے صحن میں رقص درویش بھی دیکھا یہ بھی اپنی جگہ ایک بڑا تجربہ تھا۔
ترکی کے بعد ہماری اگلی منزل سعودی عرب تھا۔ استنبول سے تین گھنٹے کے سفر کے بعد ہمارا ہوائی جہاز شام کے وقت جدہ پہنچا۔ اسی شب عشا کے بعد ہم عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ یہ حج کا زمانہ تھا ذی القعدہ کی 26 تاریخ تھی۔ حرم شریف عازمین حج سے بھرا تھا۔ ہم نے بڑے اطمینان سے عمرہ ادا کیا۔ جدہ سے ہوائی جہاز میں چلے۔ ایک گھنٹے میں مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ یہاں بس چند منٹ کا قیام تھا۔
عشا کے وقت دربار نبویؐ میں حاضری تھی۔ صدر کی معیت میں ہم جب مسجد نبوی پہنچے تو عشا کی نماز ہوئے دیر ہوچکی تھی۔ مسجد نمازیوں سے خالی تھی چونکہ عشا کے بعد مسجد نبوی کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور پھر تہجد کی اذان کے ساتھ کھلتے ہیں۔ ہم نے پہلے ریاض الجنتہ میں نماز عشا باجماعت ادا کی۔ امام حرم نے نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ہم مواجہہ شریف کی طرف بڑھے۔ میں نے دیکھا کہ باب جبریل کی طرف مقصورہ شریف کا جو دروازہ ہے وہ ضیا الحق صاحب کے لیے کھول دیا گیا ہے وہ اندر گئے اور میں بھی ان کے پیچھے لرزاں و ترساں اندر چلا گیا۔
صدر ضیا الحق مواجہہ شریف کی سنہری جالیوں میں اس جگہ جہاں بڑا حلقہ بنا ہے، سرکار دو عالمؐ کے حضور کھڑے ہوکر درود و سلام پیش کرتے رہے۔ مجھ پر مسرت کے ساتھ خوف طاری تھا کہ میں حضورؐ کی آرام گاہ مبارک سے کس قدر قریب آگیا ہوں، مقصورہ شریف میں حضورؐ کے مرقد اور آپؐ کے دو صحابیوں، حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کی قبروں کے چاروں طرف چھت تک اونچی دیوار ہے جو ایک گہرے سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ہے۔
اس سبز غلاف پر اس طرف جدھر حضورؐ کا رخ انور ہے ایک دائرے میں حضورؐ کا اسم مبارک تحریر ہے۔ میں بھی روضہ مبارک کی جالیوں سے پیٹھ لگائے حضورؐ کی خدمت میں سلام پیش کرتا رہا۔ پھر جیسے ہی ضیا الحق سلام پیش کرکے واپس جانے لگے تو میں نے ان کے ہٹتے ہی آگے بڑھ کر اس جگہ پر غلاف کو چوم لیا اور آنکھیں رکھ دیں۔ پھر ہم سب مقصورہ شریف سے باہر آگئے۔
مسجد نبوی سے نکل کر ہم سیدھے ایئرپورٹ آئے۔ چند ساعتوں میں صدر پاکستان کا خصوصی طیارہ حرکت میں آگیا۔ طیارہ فضا میں بلند ہوا میں نے یہ دیکھا کہ مسجد نبوی سے جس کا سبز گنبد اور مینار صاف نظر آرہا تھا، آسمان کی لامتناہی وسعتوں تک نور کی ایک شاہراہ ہے، روشن اور منور جیسے کسی نے ستاروں کو کوٹ کر ایک راستہ بنادیا ہو۔ جمال نبویؐ سے روشن شاید یہ فرشتوں کی راہ گزر ہوگی۔ میں اس منظر کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ جو میں نے دیکھا وہ آنکھوں کی راہ سے قلب پر نقش ہوگیا۔ تاحیات میں اسے فراموش نہیں کرسکتا۔