نیا پاکستان نیا نظام
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا ماسٹر پلان اس طرح تشکیل دیا جا رہا ہے کہ بنی گالہ کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے۔
ISLAMABAD:
انتہائی روح فرسا خبر ہے کہ کراچی کے علاقے گولیمار کی رہائشی خاتون نے معاشی بد حالی سے عاجز آکر اپنی کمسن بیٹی کو سمندر میں پھینک دیا۔ تنگ آمد بجنگ آمد ۔ بلاشبہ غربت سب سے بری بلا اور سب سے بڑا عذاب ہے۔ معاشی حالات کے جبر سے تنگ آکر انسان کوئی بھی غلط سے غلط قدم اٹھا سکتا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے ٹھیک ہی کہا ہے:
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
جس طرح شراب ام الخبائث ہے اسی طرح غربت بھی بہت سی برائیوں کی جڑ ہے جس میں جسم فروشی سے لے کر ضمیر فروشی تک طرح طرح کی برائیاں اور خرابیاں شامل ہیں۔ غربت آدمی سے وہ کچھ کرا دیتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بے چارے غریب کی ہمارے زر پرست معاشرے میں کوئی قدروقیمت نہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ غریب کی جورو سب کی بھابھی۔ غریب کا کوئی رشتے دار ہوتا ہے نہ کوئی دوست ۔ غریبی میں پرائے تو کیا اپنے بھی ساتھ چھوڑ کر اور رشتے توڑ کر چلے جاتے ہیں۔ بقول شاعر:
برے حالات میں احباب بھی یوں چھوڑ جاتے ہیں
کہ تاریکی میں ہوتا ہے جدا انساں سے سایہ بھی
غربت افلاس کے حوالے سے ہمیں اس وقت حضرت بوم میرٹھی یاد آرہے ہیں جنھوں نے فرمایا تھا:
کبھی اماں کہا کرتی تھیں میرا لاڈلہ لالہ
کبھی جورو کہا کرتی تھی میرا پیارا گھر والا
مگر جب مفلسی کا آن کر گھرکو لگا تالہ
مراد آباد کو اماں گئیں میرٹھ گئیں خالہ
بوقتِ تنگدستی آشنا بیگانہ می گردد
صراحی چوں شود خالی جدا پیمانہ می گردد
چنانچہ مذکورہ بالا المناک خبر غربت کے حوالے سے کوئی انوکھی یا نرالی خبر نہیں ہے۔ اس نوعیت کی مختلف خبریں وقتاً فوقتاً سننے اور پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں اور محض کف افسوس ملنے کے سوائے کسی کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے تو کم و بیش وہ سب کے سب اس معاملے میں اب تک ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ثابت ہوئے ہیں اور ان کا طرز عمل یہی رہا ہے کہ:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
قیام پاکستان سے لے کر آج تک غریبوں سے ہمدردی اور غریبی کو ملک سے مٹانے کے بلند و بانگ دعوے تو اس ملک کے لگ بھگ تمام حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز میں خوب کیے ہیں لیکن عملی طور پر کسی نے کچھ بھی کرکے نہیں دکھایا۔ حد تو یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے دعویداروں نے بھی غریب کے کندھوں پر رکھ کر صرف اپنی بندوق ہی چلائی اور صرف اپنے اقتدار اور سیاست کی دکان ہی چمکائی۔ اس ملک کے غریب طبقے کو تمام حکمرانوں نے محض جھوٹے وعدوں پر ہی ٹرخایا اور اس طبقے کا حال یہ ہے کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
ہماری سب سے بڑی بدقسمتی اور ٹریجڈی یہ رہی ہے کہ وطن عزیز اپنے قیام کے بعد جلدی ہی اپنے مخلص بانیان سے محروم ہوگیا۔ یہ اسی طرح کا سانحہ ہے جیسے کوئی بچہ کمسنی میں اپنے والدین کے سایہ شفقت سے محروم ہوجائے۔ قائد اعظم محمد علی جناح خرابی صحت کی وجہ سے قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد رحلت فرما گئے۔ جب کہ پاکستان دشمن قوتوں نے مکروہ سازش کرکے پاکستان کے بانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو اپنے راستے کا کانٹا سمجھ کر نہایت سفاکی اور بے رحمی کے ساتھ شہید کردیا۔ اس کے بعد توگویا اقتدار کے بھوکے حکمرانوں کے لیے میدان بالکل صاف ہوگیا۔ پھر جو کچھ بھی ہوا اس پر وطن عزیز کی تاریخ نوحہ کناں ہے۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ سیاست دانوں کی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ کر اور طالع آزماؤں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں وطن عزیز کٹ کر اپنے مشرقی بازو سے بھی محروم ہوگیا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہوس پرست اور اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے سقوط مشرقی پاکستان جیسے سانحہ عظیم سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔
بظاہر یہ ایک ملک ہے لیکن تفاوت کے اعتبار سے یہاں دو ملک وجود پذیر ہیں۔ ایک اس طبقے پر مشتمل ہے وہ ملک جہاں دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں اور دوسرا ملک وہ ہے جس کے پالتو کتوں اور بلیوں کے لیے خوراک بیرونی ممالک سے امپورٹ کی جاتی ہے۔ ایک وہ جس کے مریضوں کو درد کی گولی بھی میسر نہیں اور دوسرا وہ جو ہر بیماری کا علاج کرانے کے لیے بیرون ملک کا رخ کرتا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان حائل یہ خلیج وقت گزرنے کے ساتھ تنگ ہونے کے بجائے وسیع سے وسیع تر اور گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے پالیسی سازوں کو سب سے کم دلچسپی اس ملک کے افلاس زدہ اور محروم طبقے سے ہے۔ اس ملک میں ایک طبقہ وہ ہے جو اندرون شہر ایک بس اسٹاپ سے دوسرے بس اسٹاپ تک کا کرایہ بھی بمشکل افورڈ کرسکتا ہے جب کہ اسی ملک کا دوسرا طبقہ وہ بھی ہے جو بزنس کلاس کے ایئر ٹکٹ سے صبح فلائٹ سے دبئی گھومنے جاتا ہے اور دن بھر وہاں مزے اڑا کر شام کی پرواز سے گھر لوٹ آتا ہے۔
ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق ایلیٹ کلاس کے ایک بچے کی تعلیمی فیس اسی اسکول کے چوکیدار کی ماہانہ تنخواہ سے بھی چارگنا زیادہ ہے۔ شہر کراچی کے ایک گھر میں نئے سے نئے ماڈل کی تین چار گاڑیاں موجود ہیں تو دوسری جانب اسی شہر میں دوسرا طبقہ وہ بھی ہے جو کئی کئی کلومیٹرکا فاصلہ پیدل طے کرتا ہے تاکہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سفری اخراجات کی بچت کر سکے۔ ایک طرف غربت کا یہ عالم ہے اور دوسری جانب حکمرانوں کی شاہ خرچیاں ہیں کہ کم نہیں ہو رہیں۔ وزرا کی ایک فوج ظفر موج ہے جس میں اضافے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ کارکنوں کی چھانٹی ہو رہی ہے۔
میڈیا اور بالخصوص پرنٹ میڈیا کے کارکن ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں اور ان بے چاروں کے سروں پر ہر وقت ایک تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ برسوں سے رائج ہمارے استحصالی نظام کی بنیادی خرابی اس کا دہرا معیار اور دوغلا پن ہے جس میں عام آدمی کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیا جاتا ہے اور مراعات یافتہ طبقے کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ثبوت دیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ٹوئن ٹاور (گرینڈ حیات) کو جو وفاقی دارالحکومت میں ہے ''قانونی'' قرار دے دیا ہے۔ عرض ہے کہ اس عمارت میں بااثر طبقے کے اپارٹمنٹس موجود ہیں جن میں وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا ماسٹر پلان اس طرح تشکیل دیا جا رہا ہے کہ بنی گالہ کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے جہاں عمران خان (موجودہ وزیر اعظم) کی ذاتی رہائش گاہ بھی واقع ہے۔ دوسری جانب غریبوں کی بستیاں ''غیرقانونی'' قرار دے کر مسمار کی جا رہی ہیں۔ ''نیا پاکستان'' اور ''تبدیلی'' کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود اصل حقیقت یہ ہے کہ وہی پرانا استحصالی نظام وطن عزیز میں آج تک رائج ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ ''اگرچہ اس مسئلے کا حل عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی صورت میں موجود ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ عدالتوں میں بھی دراصل صرف بااثر اور صاحب ثروت لوگوں ہی کی سنی جاتی ہے یعنی بقول شاعر:
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
وطن عزیز میں اس وقت پرائیویٹ اسکولوں کی 22 چینز (Chains) کام کر رہی ہیں جن میں سے صرف آٹھ چینز (Chains) ایسی ہیں جن میں دی جانے والی تعلیم کو معیاری کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ان اسکولوں کی فیسیں اوسطاً فی طالب علم چالیس ہزار روپے ماہانہ ہیں۔ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک متوسط گھرانے کے سربراہ کی کل ماہانہ تنخواہ بھی اتنی نہیں جتنی ایسے اسکولوں کے کسی طالب علم کی ماہانہ فیس ہے جب کہ بے چارے عام آدمی کی حالت تو یہ ہے کہ ''ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا''۔ ''نیا پاکستان'' کا نعرہ بلند کرنے والی نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ غریب آدمی کی دال روٹی کا یقینی بندوبست کرنے کے بعد اس کے بچوں کی مفت معیاری تعلیم کا اہتمام کرے تاکہ ملک سے استحصالی نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو اور نئے پاکستان میں عدل و انصاف اور مساوات کی بنیاد پر نیا معاشی اور معاشرتی نظام قائم ہوسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے پاکستانی عوام کی بس یہی توقع ہے۔ صوبہ پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر پرانے فرسودہ نظام کی تبدیلی کی جانب ایک اشارہ اور سلطانی جمہور کی آمد کی نوید ہے۔
انتہائی روح فرسا خبر ہے کہ کراچی کے علاقے گولیمار کی رہائشی خاتون نے معاشی بد حالی سے عاجز آکر اپنی کمسن بیٹی کو سمندر میں پھینک دیا۔ تنگ آمد بجنگ آمد ۔ بلاشبہ غربت سب سے بری بلا اور سب سے بڑا عذاب ہے۔ معاشی حالات کے جبر سے تنگ آکر انسان کوئی بھی غلط سے غلط قدم اٹھا سکتا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے ٹھیک ہی کہا ہے:
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
جس طرح شراب ام الخبائث ہے اسی طرح غربت بھی بہت سی برائیوں کی جڑ ہے جس میں جسم فروشی سے لے کر ضمیر فروشی تک طرح طرح کی برائیاں اور خرابیاں شامل ہیں۔ غربت آدمی سے وہ کچھ کرا دیتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بے چارے غریب کی ہمارے زر پرست معاشرے میں کوئی قدروقیمت نہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ غریب کی جورو سب کی بھابھی۔ غریب کا کوئی رشتے دار ہوتا ہے نہ کوئی دوست ۔ غریبی میں پرائے تو کیا اپنے بھی ساتھ چھوڑ کر اور رشتے توڑ کر چلے جاتے ہیں۔ بقول شاعر:
برے حالات میں احباب بھی یوں چھوڑ جاتے ہیں
کہ تاریکی میں ہوتا ہے جدا انساں سے سایہ بھی
غربت افلاس کے حوالے سے ہمیں اس وقت حضرت بوم میرٹھی یاد آرہے ہیں جنھوں نے فرمایا تھا:
کبھی اماں کہا کرتی تھیں میرا لاڈلہ لالہ
کبھی جورو کہا کرتی تھی میرا پیارا گھر والا
مگر جب مفلسی کا آن کر گھرکو لگا تالہ
مراد آباد کو اماں گئیں میرٹھ گئیں خالہ
بوقتِ تنگدستی آشنا بیگانہ می گردد
صراحی چوں شود خالی جدا پیمانہ می گردد
چنانچہ مذکورہ بالا المناک خبر غربت کے حوالے سے کوئی انوکھی یا نرالی خبر نہیں ہے۔ اس نوعیت کی مختلف خبریں وقتاً فوقتاً سننے اور پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں اور محض کف افسوس ملنے کے سوائے کسی کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے تو کم و بیش وہ سب کے سب اس معاملے میں اب تک ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ثابت ہوئے ہیں اور ان کا طرز عمل یہی رہا ہے کہ:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
قیام پاکستان سے لے کر آج تک غریبوں سے ہمدردی اور غریبی کو ملک سے مٹانے کے بلند و بانگ دعوے تو اس ملک کے لگ بھگ تمام حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز میں خوب کیے ہیں لیکن عملی طور پر کسی نے کچھ بھی کرکے نہیں دکھایا۔ حد تو یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے دعویداروں نے بھی غریب کے کندھوں پر رکھ کر صرف اپنی بندوق ہی چلائی اور صرف اپنے اقتدار اور سیاست کی دکان ہی چمکائی۔ اس ملک کے غریب طبقے کو تمام حکمرانوں نے محض جھوٹے وعدوں پر ہی ٹرخایا اور اس طبقے کا حال یہ ہے کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
ہماری سب سے بڑی بدقسمتی اور ٹریجڈی یہ رہی ہے کہ وطن عزیز اپنے قیام کے بعد جلدی ہی اپنے مخلص بانیان سے محروم ہوگیا۔ یہ اسی طرح کا سانحہ ہے جیسے کوئی بچہ کمسنی میں اپنے والدین کے سایہ شفقت سے محروم ہوجائے۔ قائد اعظم محمد علی جناح خرابی صحت کی وجہ سے قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد رحلت فرما گئے۔ جب کہ پاکستان دشمن قوتوں نے مکروہ سازش کرکے پاکستان کے بانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو اپنے راستے کا کانٹا سمجھ کر نہایت سفاکی اور بے رحمی کے ساتھ شہید کردیا۔ اس کے بعد توگویا اقتدار کے بھوکے حکمرانوں کے لیے میدان بالکل صاف ہوگیا۔ پھر جو کچھ بھی ہوا اس پر وطن عزیز کی تاریخ نوحہ کناں ہے۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ سیاست دانوں کی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ کر اور طالع آزماؤں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں وطن عزیز کٹ کر اپنے مشرقی بازو سے بھی محروم ہوگیا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہوس پرست اور اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے سقوط مشرقی پاکستان جیسے سانحہ عظیم سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔
بظاہر یہ ایک ملک ہے لیکن تفاوت کے اعتبار سے یہاں دو ملک وجود پذیر ہیں۔ ایک اس طبقے پر مشتمل ہے وہ ملک جہاں دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں اور دوسرا ملک وہ ہے جس کے پالتو کتوں اور بلیوں کے لیے خوراک بیرونی ممالک سے امپورٹ کی جاتی ہے۔ ایک وہ جس کے مریضوں کو درد کی گولی بھی میسر نہیں اور دوسرا وہ جو ہر بیماری کا علاج کرانے کے لیے بیرون ملک کا رخ کرتا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان حائل یہ خلیج وقت گزرنے کے ساتھ تنگ ہونے کے بجائے وسیع سے وسیع تر اور گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے پالیسی سازوں کو سب سے کم دلچسپی اس ملک کے افلاس زدہ اور محروم طبقے سے ہے۔ اس ملک میں ایک طبقہ وہ ہے جو اندرون شہر ایک بس اسٹاپ سے دوسرے بس اسٹاپ تک کا کرایہ بھی بمشکل افورڈ کرسکتا ہے جب کہ اسی ملک کا دوسرا طبقہ وہ بھی ہے جو بزنس کلاس کے ایئر ٹکٹ سے صبح فلائٹ سے دبئی گھومنے جاتا ہے اور دن بھر وہاں مزے اڑا کر شام کی پرواز سے گھر لوٹ آتا ہے۔
ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق ایلیٹ کلاس کے ایک بچے کی تعلیمی فیس اسی اسکول کے چوکیدار کی ماہانہ تنخواہ سے بھی چارگنا زیادہ ہے۔ شہر کراچی کے ایک گھر میں نئے سے نئے ماڈل کی تین چار گاڑیاں موجود ہیں تو دوسری جانب اسی شہر میں دوسرا طبقہ وہ بھی ہے جو کئی کئی کلومیٹرکا فاصلہ پیدل طے کرتا ہے تاکہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سفری اخراجات کی بچت کر سکے۔ ایک طرف غربت کا یہ عالم ہے اور دوسری جانب حکمرانوں کی شاہ خرچیاں ہیں کہ کم نہیں ہو رہیں۔ وزرا کی ایک فوج ظفر موج ہے جس میں اضافے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ کارکنوں کی چھانٹی ہو رہی ہے۔
میڈیا اور بالخصوص پرنٹ میڈیا کے کارکن ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں اور ان بے چاروں کے سروں پر ہر وقت ایک تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ برسوں سے رائج ہمارے استحصالی نظام کی بنیادی خرابی اس کا دہرا معیار اور دوغلا پن ہے جس میں عام آدمی کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیا جاتا ہے اور مراعات یافتہ طبقے کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ثبوت دیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ٹوئن ٹاور (گرینڈ حیات) کو جو وفاقی دارالحکومت میں ہے ''قانونی'' قرار دے دیا ہے۔ عرض ہے کہ اس عمارت میں بااثر طبقے کے اپارٹمنٹس موجود ہیں جن میں وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا ماسٹر پلان اس طرح تشکیل دیا جا رہا ہے کہ بنی گالہ کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے جہاں عمران خان (موجودہ وزیر اعظم) کی ذاتی رہائش گاہ بھی واقع ہے۔ دوسری جانب غریبوں کی بستیاں ''غیرقانونی'' قرار دے کر مسمار کی جا رہی ہیں۔ ''نیا پاکستان'' اور ''تبدیلی'' کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود اصل حقیقت یہ ہے کہ وہی پرانا استحصالی نظام وطن عزیز میں آج تک رائج ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ ''اگرچہ اس مسئلے کا حل عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی صورت میں موجود ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ عدالتوں میں بھی دراصل صرف بااثر اور صاحب ثروت لوگوں ہی کی سنی جاتی ہے یعنی بقول شاعر:
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
وطن عزیز میں اس وقت پرائیویٹ اسکولوں کی 22 چینز (Chains) کام کر رہی ہیں جن میں سے صرف آٹھ چینز (Chains) ایسی ہیں جن میں دی جانے والی تعلیم کو معیاری کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ان اسکولوں کی فیسیں اوسطاً فی طالب علم چالیس ہزار روپے ماہانہ ہیں۔ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک متوسط گھرانے کے سربراہ کی کل ماہانہ تنخواہ بھی اتنی نہیں جتنی ایسے اسکولوں کے کسی طالب علم کی ماہانہ فیس ہے جب کہ بے چارے عام آدمی کی حالت تو یہ ہے کہ ''ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا''۔ ''نیا پاکستان'' کا نعرہ بلند کرنے والی نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ غریب آدمی کی دال روٹی کا یقینی بندوبست کرنے کے بعد اس کے بچوں کی مفت معیاری تعلیم کا اہتمام کرے تاکہ ملک سے استحصالی نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو اور نئے پاکستان میں عدل و انصاف اور مساوات کی بنیاد پر نیا معاشی اور معاشرتی نظام قائم ہوسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے پاکستانی عوام کی بس یہی توقع ہے۔ صوبہ پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر پرانے فرسودہ نظام کی تبدیلی کی جانب ایک اشارہ اور سلطانی جمہور کی آمد کی نوید ہے۔