سپریم کورٹ کا سوموٹو اختیار آئین کے مطابق استعمال کرنے کا فیصلہ

فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ بارکی طرف سے آرڈرxxv میں ترمیم کی تجویز مسترد


آرٹیکل 184(3) کے اختیارات ریگولرائز کرنیکی تجویز دی تھی،پیرکلیم خورشید۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے سوموٹو مقدمات کی سماعت کے قوانین میں ترمیم کرکے انھیں ریگولرائز کرنے کے بجائے اپنے ازخود نوٹس کے اختیارات کو آئین کے مطابق استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ بارکی طرف سے اپیل کا حق دینے کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔

6 فروری کے فل کورٹ اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرنے کیلیے سپریم کورٹ کے رولز کے تمام پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ان اختیارات کا استعمال آئین کے مطابق کیا جائیگا۔اجلاس میں سپریم کورٹ بارکی طرف سے آرڈرxxv میں ترمیم کی تجویز کو مستردکردیا گیا۔

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر پیرکلیم خورشید نے عوامی مفاد کے مقدمات میں آرٹیکل 184(3)کے اختیارات کو ریگولرائز کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔پیرکلیم خورشید نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ سپریم کورٹ بار کی طرف سے جو ترامیم پیش کی گی تھیں ان میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کو اپنے رولز واضح کردینا چاہئیں کہ وہ عوامی مفاد کے کن مقدمات میں یہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے اور کن میں نہیں۔مزید یہ کہ آرٹیکل 184(3) کے کیسوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا بھی حق دیا جائے۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ ازخود نوٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے جبکہ نظرثانی کی درخواست کا دائرہ بھی محدود ہوتا ہے، عدالت کو اپنے رولز میں ترمیم کرکے اپیل کا حق دینے کی تجویز دی تھی۔

قانون دان فیصل صدیقی نے بتایا کہ اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ آرٹیکل 184(3) پر سپریم کورٹ کے ججز میں اتفاق نہیں پایا جاتا۔موجودہ ججز میں جو کم سے کم اتفاق ہے وہ اس بات پر ہے کہ یہ اختیارات صرف آئین کے تحت ہی استعمال کیے جائیں گے لیکن اس پر بھی ہرجج کی اپنی تشریح اور نکتہ نظر ہے۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر جو سپریم کورٹ کی طرف سے سوموٹو اختیارات کے استعمال کے ناقد رہے ہیں نے بتایا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ سپریم کورٹ ان اختیارات کے تحت آرٹیکل 62(1) کا نفاذ کرکے گڈگورننس برقرار رکھنے کیلیے سیاست کو بھی ریگولرائز کرتی ہے۔آئین یا ججز کے ضابطہ اخلاق میں کہاں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ انتظامیہ کی ناکامی پر گورننس کے معاملات میں بھی مداخلت کریگی۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے اس اختیارکے تحت بہت سے سیاسی لیڈروں ،ججز اور افسروں کو تو نکالا ہے لیکن کورٹ کی اپنی اتھارٹی پر کوئی قدغن نہیں۔

ایک اور وکیل نے بتایا کہ جب اعلیٰ عدلیہ نے وزیراعظم سمیت ایگزیکٹو کے صوابدیدی اختیارات حاصل کرلیے ہیں تو اسے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کے لامحدود اختیارات کو بھی ریگولرائز کرنا چاہیے۔اگر عدلیہ ایسا نہیں کرتی تو پھر پارلیمنٹ کو اس معاملے کو لینا چاہیے لیکن یہ بات اداروں میں تناؤکا سبب بنے گی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کو حاصل سوموٹو اختیارات کی حدودوقیود کا فل کورٹ اجلاس یا عدالتی طریقہ کار کے تحت تعین کرنا چاہیے۔اگر مناسب سمجھا جائے توان اختیارات کے رولز میں ترمیم کرکے انٹراکورٹ اپیل کا جائزہ لینا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ان اختیارات کا استعمال صرف قومی اہمیت کے ایسے کیسوں جن میں آئین یا قانون کے تحت کوئی دوسرا راستہ نظر نہ آتا ہوتو استعمال کرنا چاہیے۔

سینئروکلا کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کیلیے ان اختیارات پر برادز ججز میں اتفاق رائے پیدا کرنا ایک چیلنج ہوگا۔ان اختیارات کا اب تک پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاستدان سب سے بڑا نشانہ بنے ہیں اور انھیں نااہلی کاسامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ اختیارات عوامی مفاد کے مقدمات کیلئے ہیں لیکن اب تک سیاستدان اس کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔آئین کا آرٹیکل 225 توکہتا ہے کہ الیکشن تنازعات الیکشن کمیشن نمٹائے گا لیکن درجنوں سیاستدان عدالت کے ہاتھوں نااہل ہوچکے ہیں۔ ایسے عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل کا بھی کوئی حق نہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔