پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 5 ماہ میں قانون سازی نہ ہونے کے برابر
شراب ممانعت بل بھی منظور نہ ہوسکا، حکومت کو پی اے سی سمیت قائمہ کمیٹیوں کے قیام میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
پی ٹی آئی حکومت کے پہلے پانچ ماہ ایوان میں کورم اور لڑائیوں کی نذر تو ہوئے لیکن خاطر خواہ قانون سازی بھی نہ کی جاسکی۔
شراب ممانعت بل بھی منظور نہ ہوسکا، پہلے پانچ ماہ میں حکومت کو پی اے سی سمیت قائمہ کمیٹیوں کے قیام میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم جہاں وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان کی تائید کرتے نظر آئے تو دوسری طرف وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے اسکو سیاسی بیان قرار دے دیا۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ابھی تک جہاں ایوان بالا کے 6 اجلاس ہوئے وہاں ایوان زیریں کے وسط اگست سے جنوری تک سات اجلاس ہوئے جبکہ 1 مشترکہ اجلاس بھی ہوا، لیکن دونوں ایوانوں میں قانون سازی کی شرح نہ ہونے کے برابر رہی۔
اسپیکراسد قیصر کی کوششوں سے پی اے سی اور قانون انصاف کی قائمہ کمیٹیاں تو بن گئیں لیکن بقیہ کمیٹیاں تاحال التواء کا شکار ہیں،موجودہ پارلیمنٹ میں جہاں حکومت کو ایک مضبوط اپوزیشن کے شدید احتجاج کا سامنا رہا وہیں ایوان میں شائستگی برقرار رکھنے کیلئے قومی اسمبلی میں اخلاقیات کمیٹی کے قیا م کی تحریک بھی متفقہ منظور ہوئی۔جب حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں سے پوچھا گیا کہ پارلیمان کا بنیادی کام قانون سازی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ حکومت پہلے پانچ ماہ میں سینیٹ سے صرف تین اور قومی اسمبلی سے پانچ بل منظور کیے تو سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے ،5 ماہ کی تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیز کا وجود آیا،جب تک قائمہ کمیٹیاں نہیں بنتیں تب تک قانون سازی نہیں ہو سکتی،اپوزیشن قانون سازی اور تعاون کرنے کے لیے تیار ہے لیکن حکومت خود ہی سنجیدہ نہیں ہے، موجودہ حکومت کا نہ تو حکومت پر کنٹرول ہے اور نہ ہی پارلیمان پر یقین رکھتے ہیں۔
پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر پارلیمنٹیرین نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کو ایکسپوز کرنے کی باتیں کرنے والی حکومت خود ایکسپوز ہو رہی ہے،حکومت بتائے کون سا ایسا قانونی مسودہ لے کر آئی ہے جسے اپوزیشن نے ردکیا ہو، وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان پر رضا ربانی نے کہا کہ وزیراعظم آئین سے ناواقف نظر آتے ہیں،آرٹیکل 89 کے مطابق ایک بل سے زائد آڑڈیننس کے ذریعے پاس نہیں کر سکتے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک بولے کہ قانون سازی کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ ہے، جس رفتار سے حکومت چل رہی ہے بمشکل پندرہ سے بیس قانون ہی بنا سکے گی،سابق وزیر داخلہ نہ یہ بھی کہا کہ حکومت کو پارلیمنٹ کے قوائد و ضوابط کے مطابق قانون سازی کرنا ہوگی۔
سابق وزیر اطلاعات پرویز ر شید نے کا کہنا تھاکہ موجودہ حکومت کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے،قانون سازی کے لیے ضروری ہوتا ہے حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں جو پی ٹی آئی کے نہیں ہیں،حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشن شپ ہونے چاہیے،اس حکومت کا اپوزیشن سے گفتگو کا آغاز ہی گالی دینے سے ہوتا ہے، وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان پر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما نےکہا کہ پھر اس پارلیمنٹ کو تالہ لگا دیں، ابھی تک حکومت کیجانب سے کوئی اچھا بل نہیں دیکھا، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے چیئرمین جاوید عباسی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بولے کہ رولز آف بزنس کے مطابق وزیر اعظم کو حلف لینے کے ایک ماہ کے اندر قائمہ کمیٹیوں کو بنانا تھا، اس وقت پارلیمان کا مکمل نہ ہونا بدقسمتی ہے، پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کا کہنے ہوالے وزیر اعظم صرف ایک دفعہ سینیٹ تشریف لائے ہیں، اجلاس میں وزرا کے نہ آنے پر اکثر واک آؤ ٹ کیا جاتا ہے،وزیر خزانہ کو فنانس بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں پیش کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا پی ٹی آئی حکومت نہ آئین سے واقف ہے اور نہ سیکھنا چاہتی ہے،یہ حکومت چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کاوزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان کی تائیدپر ۔
مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے کہا کہ وزیر قانون کیخلاف تحریک استحقاق آنی چاہیے،آرڈیننس کے ذریعہ قانون سازی مضحکہ خیز اور جمہوری روایات کیخلاف ہے،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے حکومتی موقف دیتے ہوئے اس شعر سے آغاز کیا، ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا، بولے کہ پی اے سی کی وجہ سے کام 100 دن سے زائدرکا رہا، ایک ہفتے میں قومی اسمبلی کی تمام کمیٹیز بن جائیں گی ، وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ میں آئیں گے اور قانون سازی بھی ہو گی، ہر اجلاس میں قانون سازی کے لیے بل لائے جائیں گے، وزیر پارلیمانی امور نے حکومت کو آفر کی کہ عوامی مفاد کے لیے اپوزیشن بھی کوئی اچھا بل لاناچاہے تو لائے ،حکومت عوامی مفاد کے لیے اپوزیشن کے بل کو ویلکم کرے گی، حکومت کی نیت بالکل ٹھیک ہے۔
شراب ممانعت بل بھی منظور نہ ہوسکا، پہلے پانچ ماہ میں حکومت کو پی اے سی سمیت قائمہ کمیٹیوں کے قیام میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم جہاں وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان کی تائید کرتے نظر آئے تو دوسری طرف وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے اسکو سیاسی بیان قرار دے دیا۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ابھی تک جہاں ایوان بالا کے 6 اجلاس ہوئے وہاں ایوان زیریں کے وسط اگست سے جنوری تک سات اجلاس ہوئے جبکہ 1 مشترکہ اجلاس بھی ہوا، لیکن دونوں ایوانوں میں قانون سازی کی شرح نہ ہونے کے برابر رہی۔
اسپیکراسد قیصر کی کوششوں سے پی اے سی اور قانون انصاف کی قائمہ کمیٹیاں تو بن گئیں لیکن بقیہ کمیٹیاں تاحال التواء کا شکار ہیں،موجودہ پارلیمنٹ میں جہاں حکومت کو ایک مضبوط اپوزیشن کے شدید احتجاج کا سامنا رہا وہیں ایوان میں شائستگی برقرار رکھنے کیلئے قومی اسمبلی میں اخلاقیات کمیٹی کے قیا م کی تحریک بھی متفقہ منظور ہوئی۔جب حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں سے پوچھا گیا کہ پارلیمان کا بنیادی کام قانون سازی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ حکومت پہلے پانچ ماہ میں سینیٹ سے صرف تین اور قومی اسمبلی سے پانچ بل منظور کیے تو سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے ،5 ماہ کی تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیز کا وجود آیا،جب تک قائمہ کمیٹیاں نہیں بنتیں تب تک قانون سازی نہیں ہو سکتی،اپوزیشن قانون سازی اور تعاون کرنے کے لیے تیار ہے لیکن حکومت خود ہی سنجیدہ نہیں ہے، موجودہ حکومت کا نہ تو حکومت پر کنٹرول ہے اور نہ ہی پارلیمان پر یقین رکھتے ہیں۔
پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر پارلیمنٹیرین نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کو ایکسپوز کرنے کی باتیں کرنے والی حکومت خود ایکسپوز ہو رہی ہے،حکومت بتائے کون سا ایسا قانونی مسودہ لے کر آئی ہے جسے اپوزیشن نے ردکیا ہو، وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان پر رضا ربانی نے کہا کہ وزیراعظم آئین سے ناواقف نظر آتے ہیں،آرٹیکل 89 کے مطابق ایک بل سے زائد آڑڈیننس کے ذریعے پاس نہیں کر سکتے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک بولے کہ قانون سازی کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ ہے، جس رفتار سے حکومت چل رہی ہے بمشکل پندرہ سے بیس قانون ہی بنا سکے گی،سابق وزیر داخلہ نہ یہ بھی کہا کہ حکومت کو پارلیمنٹ کے قوائد و ضوابط کے مطابق قانون سازی کرنا ہوگی۔
سابق وزیر اطلاعات پرویز ر شید نے کا کہنا تھاکہ موجودہ حکومت کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے،قانون سازی کے لیے ضروری ہوتا ہے حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں جو پی ٹی آئی کے نہیں ہیں،حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشن شپ ہونے چاہیے،اس حکومت کا اپوزیشن سے گفتگو کا آغاز ہی گالی دینے سے ہوتا ہے، وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان پر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما نےکہا کہ پھر اس پارلیمنٹ کو تالہ لگا دیں، ابھی تک حکومت کیجانب سے کوئی اچھا بل نہیں دیکھا، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے چیئرمین جاوید عباسی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بولے کہ رولز آف بزنس کے مطابق وزیر اعظم کو حلف لینے کے ایک ماہ کے اندر قائمہ کمیٹیوں کو بنانا تھا، اس وقت پارلیمان کا مکمل نہ ہونا بدقسمتی ہے، پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کا کہنے ہوالے وزیر اعظم صرف ایک دفعہ سینیٹ تشریف لائے ہیں، اجلاس میں وزرا کے نہ آنے پر اکثر واک آؤ ٹ کیا جاتا ہے،وزیر خزانہ کو فنانس بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں پیش کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا پی ٹی آئی حکومت نہ آئین سے واقف ہے اور نہ سیکھنا چاہتی ہے،یہ حکومت چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کاوزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان کی تائیدپر ۔
مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے کہا کہ وزیر قانون کیخلاف تحریک استحقاق آنی چاہیے،آرڈیننس کے ذریعہ قانون سازی مضحکہ خیز اور جمہوری روایات کیخلاف ہے،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے حکومتی موقف دیتے ہوئے اس شعر سے آغاز کیا، ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا، بولے کہ پی اے سی کی وجہ سے کام 100 دن سے زائدرکا رہا، ایک ہفتے میں قومی اسمبلی کی تمام کمیٹیز بن جائیں گی ، وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ میں آئیں گے اور قانون سازی بھی ہو گی، ہر اجلاس میں قانون سازی کے لیے بل لائے جائیں گے، وزیر پارلیمانی امور نے حکومت کو آفر کی کہ عوامی مفاد کے لیے اپوزیشن بھی کوئی اچھا بل لاناچاہے تو لائے ،حکومت عوامی مفاد کے لیے اپوزیشن کے بل کو ویلکم کرے گی، حکومت کی نیت بالکل ٹھیک ہے۔