اندھیری رات کے مسافر
ہمارے آخری حکمران خاندان نے ہندوئوں پر حکومت بھی کی ان سے لگان بھی وصول کیا اور رشتے بھی لیے۔
ایک دہائی سے پیارے پاکستان میں سیاستدان حکمران تسلسل کے ساتھ آ رہے جا رہے ہیں اس سے قبل فوجی حکمران بھی آتے جاتے رہے ہیں ۔ ہم پاکستانیوں کی نئی نسل ہو یا پرانی اس نے اس بے نتیجہ آمدورفت کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ اس کی عمر ایک تماشائی کی طرح گزر گئی ہے اور گزر رہی ہے ۔ یہ تماشہ کب ختم ہو گا اور کب کوئی زخموں پر مرہم رکھنے والا آئے گا یہ خدا ہی جانتا ہے۔ اب تک جو بھی آیا وہ مٹھی میں نمک بھر کر آیا۔ کئی برس ہوئے میں نے لندن میں ساغر صدیقی کی طرح ایک دیوانے شاعر انجم خیالی سے ان کا ایک شعر سنا تھا۔
اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ شعر ایک پرانے درد کی طرح میرے دل میں زندہ چلا آ رہا ہے۔ اس اندھیری رات کی طرح جس میں میرے ساتھ کبھی کوئی سویلین چل رہا ہوتا ہے اور کبھی اچانک سے کوئی فوجی اس سویلین کی جگہ لے لیتا ہے مگر میں ان میں سے کسی کو نہیں پہچانتا ۔ پتہ نہیں یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں ۔ یہ کون ہوتے ہیں اور ان کا اتا پتا کیا ہوتا ہے۔ یہ اجنبی لوگ ہم میں سے نہیں ہوتے اور شاید اسی لیے ہم انھیں پہچانتے نہیںہیں۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں
ہم نے پاکستان میں ہر طرح کے تجربے کیے۔ہم نے غلام محمد اور چوہدری محمد علی جیسے سول افسروں کو بھی حکمران بنایا۔ حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیاستدانوں کو بھی برداشت کیا اور صنعتکار میاں نواز شریف بھی تین مرتبہ حکمرانی کے عہدے پر فائز رہے۔ فوج کی بات کی جائے تو فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف جیسے سکہ بند فوجی بھی ہم پر حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے ۔ گزشتہ ستر برسوں میں ہم نے ہر رنگ دیکھا لیکن ہماری اندھیری رات مزید گہری ہوتی گئی ۔ اندھیرے بڑھتے گئے اور ان گھپ اندھیروں میں کوئی نہ کوئی ہمارے ساتھ چلتا رہا اور اہم انجم خیالی کی طرح حیراں رہے کہ ''یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے''۔
ہم نے پڑوسیوں سے تنگ آکر ان سے ہٹ کر اپنا ایک گھر بنایا تھا ہمارے پہلے اور آخری لیڈر محمد علی جناح نے بڑی سادگی کے ساتھ کہا تھا کہ جن دو قوموں کا پانی بھی ایک نہیں ہے اور ہندو پانی اور مسلم پانی الگ الگ ہیں تو یہ دونوں ایک ساتھ زندگی کیسے بسر کر سکتے ہیں۔ علیحدہ ہوجانے کا ہمارا فیصلہ درست تھا اور یہ پوری قوم کا فیصلہ تھا لیکن جس سکھ اور سکون کے لیے قوم نے یہ فیصلہ کیا تھا یوں لگتا ہے پاکستان کے لیڈروں کو یہ فیصلہ منظور نہ تھا کیونکہ انھوں نے اس قوم سے سکھ اور سکون چھین لیا اور اس قوم کی آنے والی نسلوں کو اس ملک کے وجود میں آنے کی اصل وجہ سے بھی بے خبر کر دیا تا کہ کبھی کوئی ان سے پوچھ نہ سکے کہ تم لیڈروں نے اس قوم اور ملک کے ساتھ اتنا بڑا فراڈ کیوں کیا اور اس ملک کے مقصد کو کہاں غارت کر دیا ۔ ہمارے دل و دماغ بے خبری کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ ایک سوال ہے ہر ایک چہرے پر کہ میں کون ہوں کیوں ہوں۔
ہمارے لیڈر اپنے آپ میں اور اپنے مفادات میں گم رہے اور ہم اپنے آپ کو طرح طرح کے دھوکے دے دے کر زندہ رہنے کی کوشش کرتے رہے ۔ہم اپنے رہن سہن میں خوشحالی کی نمائش کرتے رہے ۔ ہم کوئی جنگ ہارے بھی تو ہم یہ سچ سمجھتے رہے کہ ہم جیت گئے ہم نے اپنے لیڈروں سے بچ بچا کر اپنے آپ کو اتنا مضبوط جانا کہ ہم ہمیشہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے اور اسے للکارتے رہے۔ ہمارے چہروں کی یہ رونق فی الحقیقت کتنی مصنوعی سہی لیکن زندہ رہنے کے لیے ضروری تھی کیونکہ برصغیر میں ہماری آٹھ سو سالہ حکمرانہ تاریخ نے ہماری جو نفسیات بنا دی تھی اس میں شکست کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
ہمارے آخری حکمران خاندان نے ہندوئوں پر حکومت بھی کی ان سے لگان بھی وصول کیا اور رشتے بھی لیے۔ ہماری تاریخ کی یہ برتری ہمیں مجبور کرتی رہی کہ ہم طاقتور اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود کسی حال میں اپنے آپ کو کمتر نہ سمجھیں۔ چنانچہ ذوالفقارعلی بھٹو نے بھارت دشمنی کا نعرہ لگایا تو ہم نے اسے ہیرو بنا دیا اور نوازشریف نے بھارت سے دوستی اور الفت کا رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی تو اس کا حشر ہم سب کے سامنے ہے۔ ابھی تو جب روابط مزید کھل کر سامنے آئیں گے توہم جیسے حمایتی لوگ بھی اپنے آپ سے شرمائیں گے۔ پاکستانیوں کے پا س جتنی عزت رہ گئی تھی خواہ وہ جھوٹی ہی تھی اس کو بھی دلی کی دوستی میں گنوا دیا گیا۔
بے پناہ کرپشن عمومی بداخلاقی مادی وسائل کی ناتوانی قرضداری کی انتہاء اور خودکشیاں یہ سب ستر برسوں کی بدکردار سیاسی قیادت کا تحفہ تھیں جو ا س قوم کے گلے میں پڑ چکا ہے۔ہم عمر بھر اندھیروں کے مسافر رہے اور آج بھی اندھیرے میں گم ہیں اور جب کسی کے قدموں کی چاپ سنتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ:
اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
کیا کوئی عمران خان ہمیں اس اندھیری رات سے نکال کر کسی روشن صبح کی طرف لے جائے گا؟
اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ شعر ایک پرانے درد کی طرح میرے دل میں زندہ چلا آ رہا ہے۔ اس اندھیری رات کی طرح جس میں میرے ساتھ کبھی کوئی سویلین چل رہا ہوتا ہے اور کبھی اچانک سے کوئی فوجی اس سویلین کی جگہ لے لیتا ہے مگر میں ان میں سے کسی کو نہیں پہچانتا ۔ پتہ نہیں یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں ۔ یہ کون ہوتے ہیں اور ان کا اتا پتا کیا ہوتا ہے۔ یہ اجنبی لوگ ہم میں سے نہیں ہوتے اور شاید اسی لیے ہم انھیں پہچانتے نہیںہیں۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں
ہم نے پاکستان میں ہر طرح کے تجربے کیے۔ہم نے غلام محمد اور چوہدری محمد علی جیسے سول افسروں کو بھی حکمران بنایا۔ حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیاستدانوں کو بھی برداشت کیا اور صنعتکار میاں نواز شریف بھی تین مرتبہ حکمرانی کے عہدے پر فائز رہے۔ فوج کی بات کی جائے تو فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف جیسے سکہ بند فوجی بھی ہم پر حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے ۔ گزشتہ ستر برسوں میں ہم نے ہر رنگ دیکھا لیکن ہماری اندھیری رات مزید گہری ہوتی گئی ۔ اندھیرے بڑھتے گئے اور ان گھپ اندھیروں میں کوئی نہ کوئی ہمارے ساتھ چلتا رہا اور اہم انجم خیالی کی طرح حیراں رہے کہ ''یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے''۔
ہم نے پڑوسیوں سے تنگ آکر ان سے ہٹ کر اپنا ایک گھر بنایا تھا ہمارے پہلے اور آخری لیڈر محمد علی جناح نے بڑی سادگی کے ساتھ کہا تھا کہ جن دو قوموں کا پانی بھی ایک نہیں ہے اور ہندو پانی اور مسلم پانی الگ الگ ہیں تو یہ دونوں ایک ساتھ زندگی کیسے بسر کر سکتے ہیں۔ علیحدہ ہوجانے کا ہمارا فیصلہ درست تھا اور یہ پوری قوم کا فیصلہ تھا لیکن جس سکھ اور سکون کے لیے قوم نے یہ فیصلہ کیا تھا یوں لگتا ہے پاکستان کے لیڈروں کو یہ فیصلہ منظور نہ تھا کیونکہ انھوں نے اس قوم سے سکھ اور سکون چھین لیا اور اس قوم کی آنے والی نسلوں کو اس ملک کے وجود میں آنے کی اصل وجہ سے بھی بے خبر کر دیا تا کہ کبھی کوئی ان سے پوچھ نہ سکے کہ تم لیڈروں نے اس قوم اور ملک کے ساتھ اتنا بڑا فراڈ کیوں کیا اور اس ملک کے مقصد کو کہاں غارت کر دیا ۔ ہمارے دل و دماغ بے خبری کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ ایک سوال ہے ہر ایک چہرے پر کہ میں کون ہوں کیوں ہوں۔
ہمارے لیڈر اپنے آپ میں اور اپنے مفادات میں گم رہے اور ہم اپنے آپ کو طرح طرح کے دھوکے دے دے کر زندہ رہنے کی کوشش کرتے رہے ۔ہم اپنے رہن سہن میں خوشحالی کی نمائش کرتے رہے ۔ ہم کوئی جنگ ہارے بھی تو ہم یہ سچ سمجھتے رہے کہ ہم جیت گئے ہم نے اپنے لیڈروں سے بچ بچا کر اپنے آپ کو اتنا مضبوط جانا کہ ہم ہمیشہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے اور اسے للکارتے رہے۔ ہمارے چہروں کی یہ رونق فی الحقیقت کتنی مصنوعی سہی لیکن زندہ رہنے کے لیے ضروری تھی کیونکہ برصغیر میں ہماری آٹھ سو سالہ حکمرانہ تاریخ نے ہماری جو نفسیات بنا دی تھی اس میں شکست کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
ہمارے آخری حکمران خاندان نے ہندوئوں پر حکومت بھی کی ان سے لگان بھی وصول کیا اور رشتے بھی لیے۔ ہماری تاریخ کی یہ برتری ہمیں مجبور کرتی رہی کہ ہم طاقتور اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود کسی حال میں اپنے آپ کو کمتر نہ سمجھیں۔ چنانچہ ذوالفقارعلی بھٹو نے بھارت دشمنی کا نعرہ لگایا تو ہم نے اسے ہیرو بنا دیا اور نوازشریف نے بھارت سے دوستی اور الفت کا رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی تو اس کا حشر ہم سب کے سامنے ہے۔ ابھی تو جب روابط مزید کھل کر سامنے آئیں گے توہم جیسے حمایتی لوگ بھی اپنے آپ سے شرمائیں گے۔ پاکستانیوں کے پا س جتنی عزت رہ گئی تھی خواہ وہ جھوٹی ہی تھی اس کو بھی دلی کی دوستی میں گنوا دیا گیا۔
بے پناہ کرپشن عمومی بداخلاقی مادی وسائل کی ناتوانی قرضداری کی انتہاء اور خودکشیاں یہ سب ستر برسوں کی بدکردار سیاسی قیادت کا تحفہ تھیں جو ا س قوم کے گلے میں پڑ چکا ہے۔ہم عمر بھر اندھیروں کے مسافر رہے اور آج بھی اندھیرے میں گم ہیں اور جب کسی کے قدموں کی چاپ سنتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ:
اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
کیا کوئی عمران خان ہمیں اس اندھیری رات سے نکال کر کسی روشن صبح کی طرف لے جائے گا؟