محکمہ تعلیم کی مشاورتی ورکشاپ میں ہوشربا انکشافات
17ہزار اسکولوں میں صرف ایک استاد، 3 ہزار غیر فعال، پالیسی مرتب کر رہے ہیں، وزیر تعلیم
محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے صوبے میں تعلیم کی بہتری کیلیے سول سوسائٹی سے تجاویز لینے کے حوالے سے دوسری مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہوشربا انکشافات کیے گئے۔
سندھ بھر میں کل 42000 اسکول ہیں جس میں سے 39000 اسکول صرف پرائمری ہیں جبکہ سیکنڈری میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد زیادہ ہے، صوبے میں ڈیڑھ لاکھ اساتذہ میں سے صرف 9 فیصد یعنی 13ہزار 500 اساتذہ سائنس پڑھا سکتے ہیں جبکہ ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد اساتذہ سائنس اور حساب کا مضمون پڑھا ہی نہیں سکتے۔
سندھ میں 10000 کے قریب اسکول ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں جبکہ 17 ہزار 700 اسکولوں میں صرف ایک استاد موجود ہے، 5 ہزارکے قریب اسکولوں کے بچے میدان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
صوبے میں غیرفعال اسکولوں کی تعداد 3127 تک پہنچ چکی ہے، نرسری میں 7 لاکھ 50 ہزار سے زائد طلبہ داخلہ لیتے ہیں جبکہ یہ تعداد انٹر تک پہنچتے پہنچتے 44000 تک رہ جاتی ہے۔
مشاورتی ورکشاپ میں سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی، ممبران سندھ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی، شہریار مہر، ندا کھڑو، تنزیلہ قمبرانی، قاسم سومرو، نامور ایجوکیشنسٹ، اسکالرز، جرنلسٹس اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سیدسردار شاہ نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں بہت بہتری کی گنجائش ہے اور سرکاری محکمے تنہا عقل کل نہیں، سماجی شعور کے ساتھ پالیسی مرتب کررہے ہیں صرف حکومتی پارٹی ارکان کو مدعو نہیں کیا بلکہ اپوزیشن ممبران کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور تمام مکتبہ فکر کے سرگرم افراد کی تنقید و تجاویز کو کھلے دل سے قبول کیا ہے اور تمام مناسب تجاویز کو تعلیمی ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے گا۔
وزیر تعلیم نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آج مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے 5 گھنٹے تعلیمی پالیسی کے حوالے سے اپنی تجاویز اور آراء پیش کیں، جن کو ہم جائزہ لینے کے بعد اپنی تعلیمی پالیسی کا حصہ بنائیں گے۔
سندھ بھر میں کل 42000 اسکول ہیں جس میں سے 39000 اسکول صرف پرائمری ہیں جبکہ سیکنڈری میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد زیادہ ہے، صوبے میں ڈیڑھ لاکھ اساتذہ میں سے صرف 9 فیصد یعنی 13ہزار 500 اساتذہ سائنس پڑھا سکتے ہیں جبکہ ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد اساتذہ سائنس اور حساب کا مضمون پڑھا ہی نہیں سکتے۔
سندھ میں 10000 کے قریب اسکول ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں جبکہ 17 ہزار 700 اسکولوں میں صرف ایک استاد موجود ہے، 5 ہزارکے قریب اسکولوں کے بچے میدان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
صوبے میں غیرفعال اسکولوں کی تعداد 3127 تک پہنچ چکی ہے، نرسری میں 7 لاکھ 50 ہزار سے زائد طلبہ داخلہ لیتے ہیں جبکہ یہ تعداد انٹر تک پہنچتے پہنچتے 44000 تک رہ جاتی ہے۔
مشاورتی ورکشاپ میں سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی، ممبران سندھ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی، شہریار مہر، ندا کھڑو، تنزیلہ قمبرانی، قاسم سومرو، نامور ایجوکیشنسٹ، اسکالرز، جرنلسٹس اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سیدسردار شاہ نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں بہت بہتری کی گنجائش ہے اور سرکاری محکمے تنہا عقل کل نہیں، سماجی شعور کے ساتھ پالیسی مرتب کررہے ہیں صرف حکومتی پارٹی ارکان کو مدعو نہیں کیا بلکہ اپوزیشن ممبران کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور تمام مکتبہ فکر کے سرگرم افراد کی تنقید و تجاویز کو کھلے دل سے قبول کیا ہے اور تمام مناسب تجاویز کو تعلیمی ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے گا۔
وزیر تعلیم نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آج مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے 5 گھنٹے تعلیمی پالیسی کے حوالے سے اپنی تجاویز اور آراء پیش کیں، جن کو ہم جائزہ لینے کے بعد اپنی تعلیمی پالیسی کا حصہ بنائیں گے۔