پاپائے روم کا دورہ ابو ظہبی اور پاکستان میں سرگرم صہیونی گماشتے
ایک سازش کے تحت اسرائیلی پے رول پر پاکستان میں موجود صہیونیوں کے صحافتی اور مذہبی گماشتے سرگرم ہو چکے ہیں
حالیہ دنوں پاپائے روم مسیحی دنیا کے ایسے واحد رہنما ہیں جو گزشتہ آٹھ سو برس میں پہلے پوپ ہیں کہ جو کسی عرب سرزمین پر آئے ہیں۔ یقیناً ان کا یہ دورہ مسلمانوں اور مسیحی برادری کے مابین محبت و الفت کا مظہر ثابت ہوا اور ہونا بھی چاہیے۔ پاپائے روم کے دورے کو جہاں ابوظہبی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا وہاں دنیا بھر کی مہذب قوموں نے اس دورے کو مثبت انداز میں بیان کیا ہے لیکن پاکستان کی سرزمین پر موجود صہیونی گماشتے موقعے کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے اور حالات و واقعا ت کا رخ موڑ کر اسرائیل کی نوکری کرتے ہوئے پاکستان میں اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے ماحول سازی کرکے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نظریات و افکار کو پامال کیا جائے اور پاکستان کی پیٹھ میں خنجر سے گہرا وار کیا جائے۔
5 فروری 2019 کے روز ''دنیا نیوز'' پر اینکر پرسن کامران خان نے پاپائے روم کے دورہ ابوظہبی پر تبصرہ انتہائی مہارت اور چالاکی سے مثبت انداز میں شروع کرتے ہی اسے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات سے جوڑتے ہوئے پاکستان اسرائیل میں تعلقات قائم کرنے سے نتھی کردیا، جس سے ان کے پس پردہ ناپاک عزائم کھل کر سامنے آئے اور اس ناپاک کھیل میں ان کا ساتھ دینے کےلیے نام نہاد معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہ موصوف تو صہیونیوں کی نمک خواری میں اس قدر آگے چلے گئے کہ قرآن مجید کی آیات کے بارے میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ آیات تو اس وقت کےلیے آئی تھیں۔ گویا آج کے زمانے میں ہم ان آیات کو فراموش کر دیں یا یہ کہ اب یہ آیات کسی سنجیدہ توجہ کے قابل ہی نہیں (نعوذ باللہ)۔
معروف اینکر نے انتہائی مہارت اور چالاکی سے پہلے سوال میں بات کی کہ کیا مسیحی ممالک اور مسلم ممالک کے تعلقات اور خارجہ تعلقات پر کوئی قدغن ہے؟ اس بارے میں مہمان اسکالر نے کہا یقیناً کوئی قدغن نہیں۔ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ یقیناً کوئی قدغن نہیں۔ البتہ اینکر پرسن نے مسیحی اور مسلم تعلقات کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو جان بوجھ کر زیر سوال رکھا اور یہاں پر ان عرب ممالک کو بھی درست ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنہوں نے غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور یوں وہ ان ممالک کو پاکستان کےلیے بطور مثال پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ یہ عوام کو بتاتے کہ اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے جو فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیے ہونے کے ساتھ ساتھ گزشتہ ستر برس سے مظلوم فلسطینیوں کے خون کی ندیاں بہانے میں مصروف ہے۔ اسرائیل کی اس جارحیت اور دہشت گردانہ اقدام کو امریکا کی مسلسل سرپرستی بھی حاصل ہے لیکن شاید اس کام کےلیے دونوں حضرات کو ڈالرز ادا نہیں کیے گئے تھے۔
درج بالا سوال کے تعلق سے اینکر نے سوال اٹھایا کہ قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو دوست نہ بناؤ، تو اس کے جواب میں نام نہاد مذہبی اسکالر نے قرآن کی آیات کو ماضی کے زمانے تک محدود قرار دے دیا کہ گویا قرآن کے کچھ حصے ماضی سے منسوب ہیں اور اب آج کے دور میں ان سے سبق لینے کی ضرورت ختم ہوچکی ہے (ثم نعوذ باللہ)۔
دونوں حضرات نے انتہائی مہارت کے ساتھ ایسے سوالات پیدا کئے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت پاپائے روم کے دورہ ابوظہبی کو اس طرح موڑ توڑ کر پیش کیا کہ عرب ممالک کے بعد اب پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لینے چاہئیں۔ دراصل یہی وہ ناپاک سازش تھی جو صہیونی گماشتوں کے اس عمل سے آشکار ہوئی اور پاکستان کے عوام باخبر ہوئے کہ پاکستان کو کھوکھلا اور غیر مستحکم کرنے کےلیے کس کس بھیس میں کالی بھیڑیں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کے مسیحیوں کے ساتھ یا پھر کسی بھی اور مذہب کے ساتھ، خواہ یہودی بھی کیوں نہ ہوں، تعلقات میں کوئی حرج یقیناً نہیں اور اس حوالے سے اسلامی تعلیمات میں باقاعدہ پیرامیٹرز موجود ہیں۔ جہاں بات اسرائیل کی ہوتی ہے تو معاملہ مسلمان اور عیسائی اور یہودی تعلقات کا نہیں ہوتا بلکہ یہاں معاملہ مظلوم اور ظالم، دونوں میں سے کسی ایک کے چناؤ کا ہے۔ فلسطینی عرب کہ جس میں مسلمان، عیسائی، یہودی (جو صہیونیوں کو مسترد کرتے ہیں) سب کے سب شامل ہیں اور سب کی ایک آواز ہے کہ اسرائیل ایک غاصب جعلی ریاست ہے اور فلسطین پر اس کے ناجائز تسلط کا خاتمہ کیا جائے۔ اسی طرح امریکا میں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو فلسطین کی حمایت کرتی ہے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔
دنیا نیوز کے مذکورہ پروگرام میں دونوں موصوف عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتے ہوئے غاصب صہیونی ریاست کی حمایت میں زمین سازی کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے کیونکہ انہوں نے عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کی بات کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ عقیدہ ریاستوں کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہوسکتا۔ یقیناً اس پر سب متفق ہیں کہ کسی کے عقیدے سے متعلق ریاستوں کے تعلقات انحصار نہیں کرتے بلکہ اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس گفتگو میں ڈرامائی موڑ عین اس وقت آیا جب اینکر پرسن نے نام نہاد مذہبی اسکالر سے پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بات کر ڈالی اور جواب میں انہوں نے کہا کہ دیر آئے درست آئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نام نہاد مذہبی اسکالر جو عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتے تھک نہیں رہے تھے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو کس طرح کی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں؟ جعلی ریاست اسرائیل کا قیام کیا عالمگیر اخلاقیات کا نمونہ ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں، عیسائیوں اور صہیونی مخالف یہودیوں کو جبری جلا وطن کرنا جاوید احمد غامدی کی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کے زمرے میں ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ستر برس میں مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام غامدی صاحب کی تلخیص کی گئی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت شمار ہوگا؟ کیا اسرائیل کی جانب سے غزہ کا بارہ سالہ غیر انسانی محاصرہ بھی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا درس ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے داعش جیسی خونخوار اور اسلام کا نام بدنام کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کا قیام اور ان کی مدد کرنا بھی عالمگیر اخلاقیات ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے لبنان میں فلسطینیوں کا صابرا اور شاتیلا کے کیمپوں میں قتل عام کرنا غامدی صاحب کے نزدیک انسانیت اور عالمگیر اخلاقیات ہے؟ کیا غزہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں دم توڑتے فلسطینی معصوم بچے، مائیں، بزرگ اور جیلوں میں بند کیے گئے فلسطینی، جاوید غامدی صاحب کی اسرائیل کو پڑھائی گئی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا نتیجہ ہیں؟
خلاصہ یہ کہ ایک سازش کے تحت اسرائیلی پے رول پر پاکستان میں موجود صہیونیوں کے گماشتے سرگرم ہو چکے ہیں اور عوام الناس کا ذہن خراب کرنے کےلیے کمزور اور فضول قسم کی باتوں کو منظر عام پر لاکر ان حقائق کو چھپاتے ہیں جو گزشتہ ستر برس سے فلسطینی عوام پر ظلم و ستم ڈھائے جانے سے متعلق ہیں۔ عام لوگوں کو مختلف حیلے بہانوں سے اسرائیل کی ہمدردی کا درس پڑھانے والے یہ صہیونی گماشتے آخر کیوں بھول جاتے ہیں کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ستر سالہ ظلم و ستم کی بدترین تاریخ بھی موجود ہے۔ ہمارا اسرائیل کے خلاف قیام اور جدوجہد بانی پاکستان کی اس نظریاتی بنیاد پر قائم ہے جس کے تحت انہوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے ہی یہ اندیشہ ظاہر کردیا تھا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر بننے والی (ناجائز) ریاست اسرائیل نہ صرف فلسطین کےلیے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کےلیے سنگین خطرہ رہے گی۔ (قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 1937 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا تھا جو آج بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔)
اسرائیل سے تعلقات نہ بنانے کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں یہودی ہیں یا وہ یہودیوں کی ریاست ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں موجود یہودیوں کی بہت بڑی تعداد بھی صہیونی نظریئے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتی اور سب کے سب فلسطین کے نام سے باقی رہنے پر متفق ہیں، لیکن افسوس ہے ان پست ذہن افراد پر جو چند ڈالروں کے عوض اپنا ایمان اور ارض وطن کی محبت اور نظریئے تک کا سودا کرتے ہیں۔
نوجوان نسل کو ایسے حالات میں بہت ہوشیار رہتے ہوئے مملکت خداداد پاکستان کو مستحکم کرنا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی گھناؤنی سازش کرنے والے صہیونی گماشتوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہے، خواہ وہ مذہبی اسکالرز کے لبادے میں ہوں یا انہوں نے ذرائع ابلاغ کی چادر اوڑھ رکھی ہو یا پھر حکومتی صفوں میں ہوں یا کسی اور شکل میں، وہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
5 فروری 2019 کے روز ''دنیا نیوز'' پر اینکر پرسن کامران خان نے پاپائے روم کے دورہ ابوظہبی پر تبصرہ انتہائی مہارت اور چالاکی سے مثبت انداز میں شروع کرتے ہی اسے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات سے جوڑتے ہوئے پاکستان اسرائیل میں تعلقات قائم کرنے سے نتھی کردیا، جس سے ان کے پس پردہ ناپاک عزائم کھل کر سامنے آئے اور اس ناپاک کھیل میں ان کا ساتھ دینے کےلیے نام نہاد معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہ موصوف تو صہیونیوں کی نمک خواری میں اس قدر آگے چلے گئے کہ قرآن مجید کی آیات کے بارے میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ آیات تو اس وقت کےلیے آئی تھیں۔ گویا آج کے زمانے میں ہم ان آیات کو فراموش کر دیں یا یہ کہ اب یہ آیات کسی سنجیدہ توجہ کے قابل ہی نہیں (نعوذ باللہ)۔
معروف اینکر نے انتہائی مہارت اور چالاکی سے پہلے سوال میں بات کی کہ کیا مسیحی ممالک اور مسلم ممالک کے تعلقات اور خارجہ تعلقات پر کوئی قدغن ہے؟ اس بارے میں مہمان اسکالر نے کہا یقیناً کوئی قدغن نہیں۔ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ یقیناً کوئی قدغن نہیں۔ البتہ اینکر پرسن نے مسیحی اور مسلم تعلقات کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو جان بوجھ کر زیر سوال رکھا اور یہاں پر ان عرب ممالک کو بھی درست ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنہوں نے غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور یوں وہ ان ممالک کو پاکستان کےلیے بطور مثال پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ یہ عوام کو بتاتے کہ اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے جو فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیے ہونے کے ساتھ ساتھ گزشتہ ستر برس سے مظلوم فلسطینیوں کے خون کی ندیاں بہانے میں مصروف ہے۔ اسرائیل کی اس جارحیت اور دہشت گردانہ اقدام کو امریکا کی مسلسل سرپرستی بھی حاصل ہے لیکن شاید اس کام کےلیے دونوں حضرات کو ڈالرز ادا نہیں کیے گئے تھے۔
درج بالا سوال کے تعلق سے اینکر نے سوال اٹھایا کہ قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو دوست نہ بناؤ، تو اس کے جواب میں نام نہاد مذہبی اسکالر نے قرآن کی آیات کو ماضی کے زمانے تک محدود قرار دے دیا کہ گویا قرآن کے کچھ حصے ماضی سے منسوب ہیں اور اب آج کے دور میں ان سے سبق لینے کی ضرورت ختم ہوچکی ہے (ثم نعوذ باللہ)۔
دونوں حضرات نے انتہائی مہارت کے ساتھ ایسے سوالات پیدا کئے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت پاپائے روم کے دورہ ابوظہبی کو اس طرح موڑ توڑ کر پیش کیا کہ عرب ممالک کے بعد اب پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لینے چاہئیں۔ دراصل یہی وہ ناپاک سازش تھی جو صہیونی گماشتوں کے اس عمل سے آشکار ہوئی اور پاکستان کے عوام باخبر ہوئے کہ پاکستان کو کھوکھلا اور غیر مستحکم کرنے کےلیے کس کس بھیس میں کالی بھیڑیں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کے مسیحیوں کے ساتھ یا پھر کسی بھی اور مذہب کے ساتھ، خواہ یہودی بھی کیوں نہ ہوں، تعلقات میں کوئی حرج یقیناً نہیں اور اس حوالے سے اسلامی تعلیمات میں باقاعدہ پیرامیٹرز موجود ہیں۔ جہاں بات اسرائیل کی ہوتی ہے تو معاملہ مسلمان اور عیسائی اور یہودی تعلقات کا نہیں ہوتا بلکہ یہاں معاملہ مظلوم اور ظالم، دونوں میں سے کسی ایک کے چناؤ کا ہے۔ فلسطینی عرب کہ جس میں مسلمان، عیسائی، یہودی (جو صہیونیوں کو مسترد کرتے ہیں) سب کے سب شامل ہیں اور سب کی ایک آواز ہے کہ اسرائیل ایک غاصب جعلی ریاست ہے اور فلسطین پر اس کے ناجائز تسلط کا خاتمہ کیا جائے۔ اسی طرح امریکا میں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو فلسطین کی حمایت کرتی ہے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔
دنیا نیوز کے مذکورہ پروگرام میں دونوں موصوف عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتے ہوئے غاصب صہیونی ریاست کی حمایت میں زمین سازی کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے کیونکہ انہوں نے عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کی بات کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ عقیدہ ریاستوں کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہوسکتا۔ یقیناً اس پر سب متفق ہیں کہ کسی کے عقیدے سے متعلق ریاستوں کے تعلقات انحصار نہیں کرتے بلکہ اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس گفتگو میں ڈرامائی موڑ عین اس وقت آیا جب اینکر پرسن نے نام نہاد مذہبی اسکالر سے پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بات کر ڈالی اور جواب میں انہوں نے کہا کہ دیر آئے درست آئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نام نہاد مذہبی اسکالر جو عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتے تھک نہیں رہے تھے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو کس طرح کی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں؟ جعلی ریاست اسرائیل کا قیام کیا عالمگیر اخلاقیات کا نمونہ ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں، عیسائیوں اور صہیونی مخالف یہودیوں کو جبری جلا وطن کرنا جاوید احمد غامدی کی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کے زمرے میں ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ستر برس میں مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام غامدی صاحب کی تلخیص کی گئی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت شمار ہوگا؟ کیا اسرائیل کی جانب سے غزہ کا بارہ سالہ غیر انسانی محاصرہ بھی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا درس ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے داعش جیسی خونخوار اور اسلام کا نام بدنام کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کا قیام اور ان کی مدد کرنا بھی عالمگیر اخلاقیات ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے لبنان میں فلسطینیوں کا صابرا اور شاتیلا کے کیمپوں میں قتل عام کرنا غامدی صاحب کے نزدیک انسانیت اور عالمگیر اخلاقیات ہے؟ کیا غزہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں دم توڑتے فلسطینی معصوم بچے، مائیں، بزرگ اور جیلوں میں بند کیے گئے فلسطینی، جاوید غامدی صاحب کی اسرائیل کو پڑھائی گئی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا نتیجہ ہیں؟
خلاصہ یہ کہ ایک سازش کے تحت اسرائیلی پے رول پر پاکستان میں موجود صہیونیوں کے گماشتے سرگرم ہو چکے ہیں اور عوام الناس کا ذہن خراب کرنے کےلیے کمزور اور فضول قسم کی باتوں کو منظر عام پر لاکر ان حقائق کو چھپاتے ہیں جو گزشتہ ستر برس سے فلسطینی عوام پر ظلم و ستم ڈھائے جانے سے متعلق ہیں۔ عام لوگوں کو مختلف حیلے بہانوں سے اسرائیل کی ہمدردی کا درس پڑھانے والے یہ صہیونی گماشتے آخر کیوں بھول جاتے ہیں کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ستر سالہ ظلم و ستم کی بدترین تاریخ بھی موجود ہے۔ ہمارا اسرائیل کے خلاف قیام اور جدوجہد بانی پاکستان کی اس نظریاتی بنیاد پر قائم ہے جس کے تحت انہوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے ہی یہ اندیشہ ظاہر کردیا تھا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر بننے والی (ناجائز) ریاست اسرائیل نہ صرف فلسطین کےلیے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کےلیے سنگین خطرہ رہے گی۔ (قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 1937 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا تھا جو آج بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔)
اسرائیل سے تعلقات نہ بنانے کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں یہودی ہیں یا وہ یہودیوں کی ریاست ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں موجود یہودیوں کی بہت بڑی تعداد بھی صہیونی نظریئے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتی اور سب کے سب فلسطین کے نام سے باقی رہنے پر متفق ہیں، لیکن افسوس ہے ان پست ذہن افراد پر جو چند ڈالروں کے عوض اپنا ایمان اور ارض وطن کی محبت اور نظریئے تک کا سودا کرتے ہیں۔
نوجوان نسل کو ایسے حالات میں بہت ہوشیار رہتے ہوئے مملکت خداداد پاکستان کو مستحکم کرنا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی گھناؤنی سازش کرنے والے صہیونی گماشتوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہے، خواہ وہ مذہبی اسکالرز کے لبادے میں ہوں یا انہوں نے ذرائع ابلاغ کی چادر اوڑھ رکھی ہو یا پھر حکومتی صفوں میں ہوں یا کسی اور شکل میں، وہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔