بات کا بتنگڑ
بعض اوقات چھوٹا سے واقعہ یا بات بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔
لاہور:
آج رات کو زلزلہ آئے گا، جیدے نے خوفزدہ انداز میں کہا تو سب اس کی طرف چونک کر دیکھنے لگے۔
تمھیں کیسے پتہ چلا کہ زلزلہ آئے گا، رشید نے پوچھا۔
سب لوگ باتیں کر رہے ہیں، جیدے نے کہا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے تو بات کر دی تھی مگر سب کے لئے پریشانی کا ایک نیا جہان پیدا کر دیا تھا ۔
یار سب لوگ باتیں کر رہے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو ہے ۔
مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ زلزلہ آنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے ۔
سائنس نے بڑی ترقی کر لی ہے ہو سکتا ہے کوئی ایسا آلہ ایجاد ہو گیا ہوجو زلزلے کی پہلے ہی اطلاع دے دیتا ہو۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں، ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا تھا ،ابھی سب بیٹھے تھے کہ مسجد میں اعلان ہوا کہ آج زلزلہ آنے کی اطلاع ہے اس لئے تمام لوگ محتاط رہیں۔ مسجد میں اعلان کے بعد گویا بات پایہ ثبو ت کو پہنچ گئی کہ زلزلہ ضرور آئے گا کیونکہ اگر کسی نے اعلان کرایا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے پہلے تصدیق کی ہے تب ہی اعلان کرایا گیا ہے، اب تمام افراد آپس میں صلاح مشورے کرنے لگے کہ زلزلے سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے ، ایک نے مشورہ دیا کہ رات کو کمروں میں سونے کی بجائے چھت پر یا صحن میں سوئیں ، دوسرا کہنے لگا کہ اس میں بھی جان جانے کا خطرہ ہے بہتر یہ ہے کہ رات کسی کھلی جگہ پر گزاری جائے اس کے لئے کھیل کا گراؤنڈ سب سے بہتر ہے۔
رشید یہ سب باتیں سنتا رہا مگر پتہ نہیں اسے کیوں یقین نہیں آیا کہ رات کو زلزلہ آنے کی اطلاع صحیح ہے کیونکہ اس کی زندگی میں آج تک ایسا نہیں ہو ا تھا کہ زلزلے کا پتہ پہلے سے چل گیا ہو اس لئے وہ اپنے ایک دوست کے پاس گیا جو کافی پڑھا لکھا اور سمجھدار تھا ، رشید نے اسے ساری صورتحال بتائی تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ کبھی پہلے ایسا ہوا کہ زلزلے کا پتہ چل جائے، وہ تو جب آجاتا ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ تھوڑا عرصہ پہلے جو زلزلہ آیا اس میں کافی زیادہ نقصان ہوا تھا تب سے لوگوں کے ذہنوں میں خوف بیٹھ گیا ہے ، زلزلے کے بعد تھوڑے عرصے میں مزید چھوٹے موٹے جھٹکے بھی آتے ہیں کسی بیوقوف نے ایسے ہی بات کر دی ہو گی جسے کسی چرب زبان نے آگے پھیلا دیا تم جاؤ اور آرام سے گھر جا کر سو جاؤ۔
رشید نے اپنے دوست کی بات پر عمل کیا ۔ صبح ہوئی بازار گیا تو پتہ چلا کہ قصبے کے بہت سے لوگ زلزلے کے ڈر سے اپنے بیوی بچوں کو لے کر کھلے میدان میں چلے گئے تھے ، جن کے بڑے گھر تھے انھوں نے صحنوں میں بیٹھ کر رات گزاری ، بہت سے مکانوں کو مکینوں سے خالی دیکھا تو اس کا فائدہ چوروں کے ایک گروہ نے اٹھایا اور وہ بڑے آرام سے پانچ گھروں کا صفایا کر کے چلتے بنے ، یوں ایک شخص کے منہ سے نکلنے والی معمولی سی بات آگے چل کر پورے قصبے کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے اور گھروں میں چوری کا باعث بنی۔
بعض اوقات چھوٹا سے واقعہ یا بات بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے کچھ سے کچھ بن جاتا ہے جس سے نا صرف اصل بات کا ہی پتہ نہیں چلتا بلکہ کئی مرتبہ یہی چیز کسی کی بدنامی یا فساد کا باعث بن جاتی ہے ، ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بات کسی ایسے آدمی کے ہتھے چڑھ جائے جو بات کو مرچ مسالہ لگا کر آگے پیش کرنے کا عادی ہو، رائی کا پہاڑ بنانا اسی پر پورا اترتا ہے۔
جیسے ایک واقعہ میں معمولی سی بات پر بارات واپس چلی گئی، ہوا یوں کہ عبدل کی بیٹی کی شادی تھی کیونکہ اس کی ایک ہی بیٹی تھی اس لئے وہ اس کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتا تھا ، اس نے لڑکے والوں کو کہلا بھیجا کہ بارات کے ساتھ بینڈ باجہ ضرور لائیں، بارات والے دن لڑکی کا باپ خوش وخرم نظر آ رہا تھا اور ہر کام میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لے رہا تھا ، بارات آنے میں ابھی تھوڑی دیر باقی تھی کہ ایک لڑکے نے آ کر کہا کہ بارات دوسرے محلے میں پہنچ گئی ہے مگر اس کے ساتھ بینڈ باجہ نہیں دکھائی دیا ، یہ سن کر لڑکی کے والد کو بہت غصہ آیا اور اس نے جذبات میں آ کر کہہ دیا کہ اگر بارات کے ساتھ بینڈ نہیں ہے تو بے شک واپس چلی جائے، لڑکی کے والد نے اس بات کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا ،
اس کا مقصد تو یہ نہیں تھا کہ بارات واپس جائے مگر وہاں کھڑے چند چرب زبانوں کے لئے بات کو بتنگڑ بنانے اور تماشہ دیکھنے کا اچھا موقع تھا ، انھوں نے اس بات کو فوری طور پر باراتیوں تک پہنچایا کہ لڑکی کا والد کہہ رہا ہے اگر بارات بینڈ باجے کے ساتھ نہیں آ رہی تو بے شک واپس چلی جائے، اسے یہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لڑکے والوں نے یہ بات سنی تو سوچ میں پڑ گئے، بعض نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور کہنے لگے کہ جب لڑکی کا والد ہی راضی نہیں تو وہاں کیا لینے جانا اگر دروازے سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تو زیادہ بے عزتی ہو گی۔ یوں بارات واپس چلی گئی ، انھی چرب زبانوں نے اس کی فوری اطلاع لڑکی کے گھر والوں تک پہنچائی، لڑکی کا والد پہلے ہی دل کا مریض تھا ، اسے یہ سنتے ہی دل کا دورہ پڑ گیا اور اسے ہسپتال لے جانے کی تیاریاں کی جانے لگیں ، یوں خوشیوں کے شادیانے بجانے والے گھر میں غموں کی برسات ہونے لگی۔
اسلامی نقطہ نظر اخلاقیات کے حوالے سے بالکل واضح ہے ، اسلام میں بات کا بتنگڑ بنانے والی بری عادات جیسے غیبت ،چغلی، بہتان،بغیر تصدیق کے بات آگے کرنے اورجھوٹ کی سختی سے مما نعت کی گئی ہے ، غیبت جسے آج کل کوئی بڑی برائی تصور نہیں کیا جاتا ، اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی گئی ہے، سورہ الحجرات میں حکم ہو ا ہے کہ ''تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے ،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔''اتنی سخت وعیدکے باوجود غیبت عام ہے ، جہاں دو افراد بیٹھے ہوں غیبت کرتے دکھائی دیں گے۔
اسی طرح ایک اور معاشرتی مرض بغیر تصدیق کے بات کو آگے بڑھانے کے حوالے سے بہت عام ہے ، ادھر بات سنی اْدھر آگے کر دی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ذرا بھی پشیمانی محسوس نہیں کی جاتی بلکہ چرب زبان افراد بات کو مرچ مسالہ لگاکر پیش کرتے ہیں ، حالانکہ اسلام میں تصدیق کے بغیر بات کو آگے کرنے کی مما نعت کی گئی ہے، سورہ حجرات میں واضح حکم ہے''اے ایمان والو!اگر کوئی شریر آدمی تمھار ے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے ضرر نہ پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔''اس آیت کا شان نزول یہ واقعہ بنا کہ حضورﷺ نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ و صدقات وصو ل کرنے کے لے بھیجا(ایک روایت میں قبیلے کا نام بنی وکیعہ آیا ہے) ولید بن عقبہ اور اس قبیلے والوں میں زمانہ جاہلیت سے کچھ عداوت تھی، اس لئے انھیں وہاں جاتے ہوئے اندیشہ ہوا کہ قبیلے والے انھیں کہیں نقصان نہ پہنچا دیں ،
ان لوگوں کو جب پتہ چلا کہ ولید بن عقبہ کو حضورﷺ نے بھیجا ہے تو ان کے استقبال کے لئے آئے، انھیں گمان ہوا کہ یہ لوگ پرانی عداوت کی وجہ سے انھیں قتل کرنے آئے ہیں اس لئے واپس پلٹ گئے اور حضورﷺ سے عرض کر دیا کہ حضورﷺ ان لوگوں نے منع کردیا اور میرے قتل کے درپے ہو گئے ۔ آپ ﷺ نے حضرت خالد ؓ کو تحقیق حال کے لئے بھیجا اور فرمادیا کہ خوب تحقیق کرنا اور جلدی مت کرنا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے وہاں جا کر دیکھا کہ وہ لوگ اذانیں دیتے اور نمازیں پڑھتے ہیں ، پھر انھوں نے زکوٰۃ و صدقات پیش کر دئیے۔ حضرت خالدؓ نے زکوٰۃ و صدقات کی رقوم لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں جس سے حضورﷺ کا اطمینان ہوا ۔ اس واقعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سچے یا معتبر فرد کے سوا اگر کوئی شخص کوئی بات کہے تو اس کی تصدیق ضرور کر لینی چاہیے، مگر ہمارا معاشرتی وتیرہ اس سے بالکل مختلف ہے، خاص طورپر میڈیا نے جب سے ترقی کی ہے صورتحال زیادہ بگڑ چکی ہے،
بڑی بڑی خبروں کو بغیر تصدیق کے چلا دیا جاتا ہے اور اکثر بعد میں تردید بھی نہیں کی جاتی،کچھ یہی چیز عوام میں پنپ رہی ہے، ادھر کسی بات کا پتہ چلا نہیں ادھر اسے آگے بیان کر دیا بلکہ خبر مختلف افراد کی طرف سے بیان ہونے کے بعد کچھ سے کچھ بن جاتی ہے یعنی بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے،کسی جگہ پر دھماکے یا بم رکھے جانے کی خبر چلتے ہی سب اسے آگے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ، جو خبر سنتا یا ٹکر پڑھتا ہے وہ دوسروں سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ تم لوگ ابھی ادھر ہی بیٹھے ہو یہاں بم رکھے جانے یا دھماکے کی اطلاع ہے ،
حالانکہ کچھ دیر بعد نئی خبر آ چکی ہوتی ہے کہ دھماکہ گاڑی کا ٹائر پھٹنے سے ہوا یا بم رکھے جانے کی اطلاع غلط تھی ، مگر لوگوں تک دوسری خبر پہنچنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے اس دوران جو افراتفری پھیلنا یا نقصان ہونا ہوتا ہے وہ ہو چکا ہوتا ہے۔ جیسے ایک پلازہ میں بم رکھے جانے کی اطلاع ملتے ہی وہاں موجود ایک شخص افراتفری میں بھاگا تو باہر نکلتے ہی کار سے ٹکرا کر زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گیا حالانکہ اطلاع جھوٹی تھی کسی نے مذاق میں یہ بات پھیلا دی تھی۔
گلی محلوں میں گھر گھر گھومنے والی بہت سی ایسی چرب زبان خواتین ہوتی ہیں جن کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ ایک گھر سے بات سنی اور پھر اسے بڑھا چڑھا کر آگے بیان کر دیا، انھیں عام طور پر ''ففا کٹنی''یا آگ کے گولے برسانے والی توپ وغیرہ کہا جاتا ہے، ہمارے معاشرے کا یہ کردار بڑا دلچسپ ہے صرف یہی نہیں کہ یہ بات کا بتنگڑ بنانے میں ید طولیٰ رکھتی ہے بلکہ اپنی ذہانت سے بہت سے مفید مشورے بھی ہر وقت اس کی ہتھیلی پر دھرے رہتے ہیں ادھر مسئلہ بیان کیا نہیں فوراً اس کا حل بیان کر دیا، گھر گھر گھومنے کی وجہ سے چونکہ ہر گھر کے حالات ففا کٹنی کے علم میں ہوتے ہیں اس لئے لائی بجھائی کرنے میں اسے بڑی آسانی رہتی ہے، جیسے ایک واقعہ میں ففا کٹنی نے دو خاندانوں میں جھگڑا کرا دیا اور نوبت تھانے کچہری تک جا پہنچی،
ہوا یوں کہ دو خاندانوں میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر رسہ کشی چلی آ رہی تھی، مگر سب صبر کئے بیٹھے تھے کہ کبھی تصفیہ ہو ہی جائے گا ، مائی حمیدہ کا دونوں گھروں میں آنا جاتا تھا ، ایک روز ایک خاندان کی خاتون خانہ سے کہنے لگی ''تم لوگ زمین کا تصفیہ کیوں نہیں کر تے '' تو خاتون خانہ نے کہا کہ مردوں کا کام ہے خود ہی کر لیں گے،اور پھر دوتین کنال زمین ہی تو ہے اس پر کیا جھگڑا کرنا، مائی حمیدہ کہنے لگی ''وہ تو ٹھیک ہے مگر جائیداد کے تنازعہ پر بات بگڑ بھی تو جاتی ہے، یہ سن کر خاتون خانہ نے کہہ دیا کہ بات بگڑتی ہے تو بگڑ جائے ہم کونسا کسی سے ڈرتے ہیں ہمارا حق ہے ہم لے کر رہیں گے۔ مائی حمیدہ اگلے روز جب دوسرے گھر گئی تو اس نے وہاں پر بھی یہی بات چھیڑ دی اور کہا کہ دوسرے گھر والے ایسے ایسے کہہ رہے ہیں،
مائی حمیدہ تو بھوسے کو دیا سلائی دکھا کر چلتی بنی، خاتون خانہ نے یہ بات اپنے شوہر کو بتائی ، تو وہ کہنے لگا اچھا تو یہ بات ہے، پھر وہ اگلے روز دونوں بیٹوں کو لے کر لڑنے مارنے کے لئے کھیتوں میں جا پہنچا اور دوسرے خاندان کے افراد کو دیکھتے ہی کہنے لگا کس زمین پر حق ہے جی تمہارا،دوسرے خاندان والے کونسا ان سے پیچھے رہنے والے تھے وہ بھی میدان میں آگئے، دونوں فریقوں نے خوب ایک دوسرے کو مارا ، اگر لوگ بیچ بچاؤ نہ کراتے تو کسی کی جان چلی جاتی، پھر معاملہ تھانے کچہری میں چلا گیا، یوں ایک معمولی سی بات سے ان میں دشمنی کی بنیاد پڑ گئی۔ کہتے ہیں منہ سے نکلی کوٹھے چڑھی اور جب کوٹھے چڑھ جائے تو اسے کون روکے، اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ ہمیشہ پہلے تولو پھر بولو اور یہی عقلمندوں کا شیوہ ہے ۔
آج رات کو زلزلہ آئے گا، جیدے نے خوفزدہ انداز میں کہا تو سب اس کی طرف چونک کر دیکھنے لگے۔
تمھیں کیسے پتہ چلا کہ زلزلہ آئے گا، رشید نے پوچھا۔
سب لوگ باتیں کر رہے ہیں، جیدے نے کہا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے تو بات کر دی تھی مگر سب کے لئے پریشانی کا ایک نیا جہان پیدا کر دیا تھا ۔
یار سب لوگ باتیں کر رہے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو ہے ۔
مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ زلزلہ آنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے ۔
سائنس نے بڑی ترقی کر لی ہے ہو سکتا ہے کوئی ایسا آلہ ایجاد ہو گیا ہوجو زلزلے کی پہلے ہی اطلاع دے دیتا ہو۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں، ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا تھا ،ابھی سب بیٹھے تھے کہ مسجد میں اعلان ہوا کہ آج زلزلہ آنے کی اطلاع ہے اس لئے تمام لوگ محتاط رہیں۔ مسجد میں اعلان کے بعد گویا بات پایہ ثبو ت کو پہنچ گئی کہ زلزلہ ضرور آئے گا کیونکہ اگر کسی نے اعلان کرایا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے پہلے تصدیق کی ہے تب ہی اعلان کرایا گیا ہے، اب تمام افراد آپس میں صلاح مشورے کرنے لگے کہ زلزلے سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے ، ایک نے مشورہ دیا کہ رات کو کمروں میں سونے کی بجائے چھت پر یا صحن میں سوئیں ، دوسرا کہنے لگا کہ اس میں بھی جان جانے کا خطرہ ہے بہتر یہ ہے کہ رات کسی کھلی جگہ پر گزاری جائے اس کے لئے کھیل کا گراؤنڈ سب سے بہتر ہے۔
رشید یہ سب باتیں سنتا رہا مگر پتہ نہیں اسے کیوں یقین نہیں آیا کہ رات کو زلزلہ آنے کی اطلاع صحیح ہے کیونکہ اس کی زندگی میں آج تک ایسا نہیں ہو ا تھا کہ زلزلے کا پتہ پہلے سے چل گیا ہو اس لئے وہ اپنے ایک دوست کے پاس گیا جو کافی پڑھا لکھا اور سمجھدار تھا ، رشید نے اسے ساری صورتحال بتائی تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ کبھی پہلے ایسا ہوا کہ زلزلے کا پتہ چل جائے، وہ تو جب آجاتا ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ تھوڑا عرصہ پہلے جو زلزلہ آیا اس میں کافی زیادہ نقصان ہوا تھا تب سے لوگوں کے ذہنوں میں خوف بیٹھ گیا ہے ، زلزلے کے بعد تھوڑے عرصے میں مزید چھوٹے موٹے جھٹکے بھی آتے ہیں کسی بیوقوف نے ایسے ہی بات کر دی ہو گی جسے کسی چرب زبان نے آگے پھیلا دیا تم جاؤ اور آرام سے گھر جا کر سو جاؤ۔
رشید نے اپنے دوست کی بات پر عمل کیا ۔ صبح ہوئی بازار گیا تو پتہ چلا کہ قصبے کے بہت سے لوگ زلزلے کے ڈر سے اپنے بیوی بچوں کو لے کر کھلے میدان میں چلے گئے تھے ، جن کے بڑے گھر تھے انھوں نے صحنوں میں بیٹھ کر رات گزاری ، بہت سے مکانوں کو مکینوں سے خالی دیکھا تو اس کا فائدہ چوروں کے ایک گروہ نے اٹھایا اور وہ بڑے آرام سے پانچ گھروں کا صفایا کر کے چلتے بنے ، یوں ایک شخص کے منہ سے نکلنے والی معمولی سی بات آگے چل کر پورے قصبے کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے اور گھروں میں چوری کا باعث بنی۔
بعض اوقات چھوٹا سے واقعہ یا بات بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے کچھ سے کچھ بن جاتا ہے جس سے نا صرف اصل بات کا ہی پتہ نہیں چلتا بلکہ کئی مرتبہ یہی چیز کسی کی بدنامی یا فساد کا باعث بن جاتی ہے ، ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بات کسی ایسے آدمی کے ہتھے چڑھ جائے جو بات کو مرچ مسالہ لگا کر آگے پیش کرنے کا عادی ہو، رائی کا پہاڑ بنانا اسی پر پورا اترتا ہے۔
جیسے ایک واقعہ میں معمولی سی بات پر بارات واپس چلی گئی، ہوا یوں کہ عبدل کی بیٹی کی شادی تھی کیونکہ اس کی ایک ہی بیٹی تھی اس لئے وہ اس کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتا تھا ، اس نے لڑکے والوں کو کہلا بھیجا کہ بارات کے ساتھ بینڈ باجہ ضرور لائیں، بارات والے دن لڑکی کا باپ خوش وخرم نظر آ رہا تھا اور ہر کام میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لے رہا تھا ، بارات آنے میں ابھی تھوڑی دیر باقی تھی کہ ایک لڑکے نے آ کر کہا کہ بارات دوسرے محلے میں پہنچ گئی ہے مگر اس کے ساتھ بینڈ باجہ نہیں دکھائی دیا ، یہ سن کر لڑکی کے والد کو بہت غصہ آیا اور اس نے جذبات میں آ کر کہہ دیا کہ اگر بارات کے ساتھ بینڈ نہیں ہے تو بے شک واپس چلی جائے، لڑکی کے والد نے اس بات کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا ،
اس کا مقصد تو یہ نہیں تھا کہ بارات واپس جائے مگر وہاں کھڑے چند چرب زبانوں کے لئے بات کو بتنگڑ بنانے اور تماشہ دیکھنے کا اچھا موقع تھا ، انھوں نے اس بات کو فوری طور پر باراتیوں تک پہنچایا کہ لڑکی کا والد کہہ رہا ہے اگر بارات بینڈ باجے کے ساتھ نہیں آ رہی تو بے شک واپس چلی جائے، اسے یہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لڑکے والوں نے یہ بات سنی تو سوچ میں پڑ گئے، بعض نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور کہنے لگے کہ جب لڑکی کا والد ہی راضی نہیں تو وہاں کیا لینے جانا اگر دروازے سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تو زیادہ بے عزتی ہو گی۔ یوں بارات واپس چلی گئی ، انھی چرب زبانوں نے اس کی فوری اطلاع لڑکی کے گھر والوں تک پہنچائی، لڑکی کا والد پہلے ہی دل کا مریض تھا ، اسے یہ سنتے ہی دل کا دورہ پڑ گیا اور اسے ہسپتال لے جانے کی تیاریاں کی جانے لگیں ، یوں خوشیوں کے شادیانے بجانے والے گھر میں غموں کی برسات ہونے لگی۔
اسلامی نقطہ نظر اخلاقیات کے حوالے سے بالکل واضح ہے ، اسلام میں بات کا بتنگڑ بنانے والی بری عادات جیسے غیبت ،چغلی، بہتان،بغیر تصدیق کے بات آگے کرنے اورجھوٹ کی سختی سے مما نعت کی گئی ہے ، غیبت جسے آج کل کوئی بڑی برائی تصور نہیں کیا جاتا ، اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی گئی ہے، سورہ الحجرات میں حکم ہو ا ہے کہ ''تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے ،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔''اتنی سخت وعیدکے باوجود غیبت عام ہے ، جہاں دو افراد بیٹھے ہوں غیبت کرتے دکھائی دیں گے۔
اسی طرح ایک اور معاشرتی مرض بغیر تصدیق کے بات کو آگے بڑھانے کے حوالے سے بہت عام ہے ، ادھر بات سنی اْدھر آگے کر دی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ذرا بھی پشیمانی محسوس نہیں کی جاتی بلکہ چرب زبان افراد بات کو مرچ مسالہ لگاکر پیش کرتے ہیں ، حالانکہ اسلام میں تصدیق کے بغیر بات کو آگے کرنے کی مما نعت کی گئی ہے، سورہ حجرات میں واضح حکم ہے''اے ایمان والو!اگر کوئی شریر آدمی تمھار ے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے ضرر نہ پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔''اس آیت کا شان نزول یہ واقعہ بنا کہ حضورﷺ نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ و صدقات وصو ل کرنے کے لے بھیجا(ایک روایت میں قبیلے کا نام بنی وکیعہ آیا ہے) ولید بن عقبہ اور اس قبیلے والوں میں زمانہ جاہلیت سے کچھ عداوت تھی، اس لئے انھیں وہاں جاتے ہوئے اندیشہ ہوا کہ قبیلے والے انھیں کہیں نقصان نہ پہنچا دیں ،
ان لوگوں کو جب پتہ چلا کہ ولید بن عقبہ کو حضورﷺ نے بھیجا ہے تو ان کے استقبال کے لئے آئے، انھیں گمان ہوا کہ یہ لوگ پرانی عداوت کی وجہ سے انھیں قتل کرنے آئے ہیں اس لئے واپس پلٹ گئے اور حضورﷺ سے عرض کر دیا کہ حضورﷺ ان لوگوں نے منع کردیا اور میرے قتل کے درپے ہو گئے ۔ آپ ﷺ نے حضرت خالد ؓ کو تحقیق حال کے لئے بھیجا اور فرمادیا کہ خوب تحقیق کرنا اور جلدی مت کرنا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے وہاں جا کر دیکھا کہ وہ لوگ اذانیں دیتے اور نمازیں پڑھتے ہیں ، پھر انھوں نے زکوٰۃ و صدقات پیش کر دئیے۔ حضرت خالدؓ نے زکوٰۃ و صدقات کی رقوم لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں جس سے حضورﷺ کا اطمینان ہوا ۔ اس واقعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سچے یا معتبر فرد کے سوا اگر کوئی شخص کوئی بات کہے تو اس کی تصدیق ضرور کر لینی چاہیے، مگر ہمارا معاشرتی وتیرہ اس سے بالکل مختلف ہے، خاص طورپر میڈیا نے جب سے ترقی کی ہے صورتحال زیادہ بگڑ چکی ہے،
بڑی بڑی خبروں کو بغیر تصدیق کے چلا دیا جاتا ہے اور اکثر بعد میں تردید بھی نہیں کی جاتی،کچھ یہی چیز عوام میں پنپ رہی ہے، ادھر کسی بات کا پتہ چلا نہیں ادھر اسے آگے بیان کر دیا بلکہ خبر مختلف افراد کی طرف سے بیان ہونے کے بعد کچھ سے کچھ بن جاتی ہے یعنی بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے،کسی جگہ پر دھماکے یا بم رکھے جانے کی خبر چلتے ہی سب اسے آگے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ، جو خبر سنتا یا ٹکر پڑھتا ہے وہ دوسروں سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ تم لوگ ابھی ادھر ہی بیٹھے ہو یہاں بم رکھے جانے یا دھماکے کی اطلاع ہے ،
حالانکہ کچھ دیر بعد نئی خبر آ چکی ہوتی ہے کہ دھماکہ گاڑی کا ٹائر پھٹنے سے ہوا یا بم رکھے جانے کی اطلاع غلط تھی ، مگر لوگوں تک دوسری خبر پہنچنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے اس دوران جو افراتفری پھیلنا یا نقصان ہونا ہوتا ہے وہ ہو چکا ہوتا ہے۔ جیسے ایک پلازہ میں بم رکھے جانے کی اطلاع ملتے ہی وہاں موجود ایک شخص افراتفری میں بھاگا تو باہر نکلتے ہی کار سے ٹکرا کر زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گیا حالانکہ اطلاع جھوٹی تھی کسی نے مذاق میں یہ بات پھیلا دی تھی۔
گلی محلوں میں گھر گھر گھومنے والی بہت سی ایسی چرب زبان خواتین ہوتی ہیں جن کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ ایک گھر سے بات سنی اور پھر اسے بڑھا چڑھا کر آگے بیان کر دیا، انھیں عام طور پر ''ففا کٹنی''یا آگ کے گولے برسانے والی توپ وغیرہ کہا جاتا ہے، ہمارے معاشرے کا یہ کردار بڑا دلچسپ ہے صرف یہی نہیں کہ یہ بات کا بتنگڑ بنانے میں ید طولیٰ رکھتی ہے بلکہ اپنی ذہانت سے بہت سے مفید مشورے بھی ہر وقت اس کی ہتھیلی پر دھرے رہتے ہیں ادھر مسئلہ بیان کیا نہیں فوراً اس کا حل بیان کر دیا، گھر گھر گھومنے کی وجہ سے چونکہ ہر گھر کے حالات ففا کٹنی کے علم میں ہوتے ہیں اس لئے لائی بجھائی کرنے میں اسے بڑی آسانی رہتی ہے، جیسے ایک واقعہ میں ففا کٹنی نے دو خاندانوں میں جھگڑا کرا دیا اور نوبت تھانے کچہری تک جا پہنچی،
ہوا یوں کہ دو خاندانوں میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر رسہ کشی چلی آ رہی تھی، مگر سب صبر کئے بیٹھے تھے کہ کبھی تصفیہ ہو ہی جائے گا ، مائی حمیدہ کا دونوں گھروں میں آنا جاتا تھا ، ایک روز ایک خاندان کی خاتون خانہ سے کہنے لگی ''تم لوگ زمین کا تصفیہ کیوں نہیں کر تے '' تو خاتون خانہ نے کہا کہ مردوں کا کام ہے خود ہی کر لیں گے،اور پھر دوتین کنال زمین ہی تو ہے اس پر کیا جھگڑا کرنا، مائی حمیدہ کہنے لگی ''وہ تو ٹھیک ہے مگر جائیداد کے تنازعہ پر بات بگڑ بھی تو جاتی ہے، یہ سن کر خاتون خانہ نے کہہ دیا کہ بات بگڑتی ہے تو بگڑ جائے ہم کونسا کسی سے ڈرتے ہیں ہمارا حق ہے ہم لے کر رہیں گے۔ مائی حمیدہ اگلے روز جب دوسرے گھر گئی تو اس نے وہاں پر بھی یہی بات چھیڑ دی اور کہا کہ دوسرے گھر والے ایسے ایسے کہہ رہے ہیں،
مائی حمیدہ تو بھوسے کو دیا سلائی دکھا کر چلتی بنی، خاتون خانہ نے یہ بات اپنے شوہر کو بتائی ، تو وہ کہنے لگا اچھا تو یہ بات ہے، پھر وہ اگلے روز دونوں بیٹوں کو لے کر لڑنے مارنے کے لئے کھیتوں میں جا پہنچا اور دوسرے خاندان کے افراد کو دیکھتے ہی کہنے لگا کس زمین پر حق ہے جی تمہارا،دوسرے خاندان والے کونسا ان سے پیچھے رہنے والے تھے وہ بھی میدان میں آگئے، دونوں فریقوں نے خوب ایک دوسرے کو مارا ، اگر لوگ بیچ بچاؤ نہ کراتے تو کسی کی جان چلی جاتی، پھر معاملہ تھانے کچہری میں چلا گیا، یوں ایک معمولی سی بات سے ان میں دشمنی کی بنیاد پڑ گئی۔ کہتے ہیں منہ سے نکلی کوٹھے چڑھی اور جب کوٹھے چڑھ جائے تو اسے کون روکے، اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ ہمیشہ پہلے تولو پھر بولو اور یہی عقلمندوں کا شیوہ ہے ۔