بُک شیلف
’’امریکا جیسے میں نے دیکھا‘‘ امریکہ کے بارے میں ایک گائیڈ کادرجہ رکھتی ہے ۔
SIALKOT:
کتاب: امریکا جیسے میں نے دیکھا (سیاحت نامہ)
مصنف: فقیراﷲ خاں،قیمت: 300 روپے
پبلشرز مثال پبلشرز ، فیصل آباد
فقیراﷲ خاں کامرس گریجوایٹ ہیں۔ قومی فضائی کمپنی (پی آئی اے)کے شعبہ مالیات میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے اور امریکہ کی سیاحت کے بعد یہ کتاب تحریر کردی ۔ امریکہ دنیا کا بہت بڑا ملک اور واحد عالمی طاقت ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے یہ ملک اپنے اندر بے پایاں خوبیاں ،کمالات بھی رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خرابیاں اور برائیاں بھی اس میں بدرجہا اتم پائی جاتی ہیں ۔ اس کی 52 ریاستیں ہیں جن میں سے بعض اس قدر بڑی ہیں کہ دنیا کے بہت سے ممالک ان سے چھوٹے ہیں ۔
فقیراﷲ خاں نے اس ملک کے کم وبیش تمام قابل ذکر شہروں کی سیاحت کی اس دوران بڑی باریک بینی سے امریکیوں کی عادات وسکنات، ان کے رویوں ، ان کے طرز بودوباش کا مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے ۔ جسے انہوںنے بڑے حسن اور خوبی کے ساتھ انتہائی دلچسپ انداز میں سپرد قلم کیا ہے ۔انداز تحریر اور اسلوب ایسا دل کش ہے کہ قاری اس تحریر کے سحر ہی میں گم ہوجا تاہے ۔ یہ کتاب جہاں امریکی تہذیب ، ثقافت اور سماجی رویوں کے بارے میں رہنمائی مہیا کرتی ہے وہاں امریکہ کے بڑے اور معروف شہروں کے بارے میں مکمل معلومات بھی فراہم کرتی ہے اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب امریکہ کے بارے میں ایک گائیڈ کادرجہ رکھتی ہے ۔ تاریخ، سیاست، سیاحت ،تہذیب و تمدن اور عمومی معلومات حاصل کرنے کا شوق رکھنے والوں کوا س کتاب کاضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔
٭٭٭
کتاب: خالی بْک
شاعرہ: صابرہ شاہین
صفحات: 174،قیمت: 200 روپے
ناشر سانجھ ٹمپل روڈ ، لاہور
زیر تبصرہ کتاب ، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ، ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی خاتون شاعرہ صابرہ شاہین کی سرائیکی زبا ن میں لکھی غزلوں ، نظموں کا مجموعہ ہے ۔
صابرہ ماہر تعلیم ہیں اور گورنمنٹ گرلز کالج کوٹ چھٹہ ، ضلع ڈیرہ غازی خان کی وائس پرنسپل ہیں ۔ حال ہی میں انہوںنے ممتازشاعر مختار صدیقی کی حیات و خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ صابرہ شاہین نے نثری ،آزاد ، پابند نظم ، گیت اور غزل کے ساتھ ساتھ دوہڑے اور کافی جیسی کلاسیکل لیکن مشکل اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے شاعری پر اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے ۔ ان کی شاعری لوک روایت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔
جس میں مقامی رنگ اپنے پورے رچائو کے ساتھ چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ممتاز ادیبہ پروفیسر مسرت کلانچوی کے مطابق ''خالی بْک '' ان کے نزدیک کسی خاتون کا سرائیکی میں سب سے عمدہ مجموعہ کلام ہے۔صابرہ شاہین کے ایک استاد صدر شعبہ کیمیا پوسٹ گریجوایٹ گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان پروفیسر محمد صادق نے ان کی شاعری پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ''شاہین کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو زبردست خلاق اور فنی حوالے سے پختہ گو شعراء میں ہوتی ہیں۔''کتاب ایسی ہے کہ جسے پڑھا جانا چاہئے۔
٭٭٭
بھلایا نہ جائے گا (خاکے)
مصنف: صابر لودھی
صفحات: 223،قیمت: 250 روپے
ناشر :مکتبہ روشن خیال، 7 اے سٹریٹ 6 کوچہ محمدی، سلطان پورہ، لاہور
''بھلایا نہ جائے گا'' صابر لودھی کے لکھے ہوئے خاکوں کی پہلی کتاب ہے۔ ایک زندگی پر محیط یادنامہ۔ زندگی کا اگر کوئی دوسرا نام ہوتا تو یاد ہوتا۔ خاکے یاد یں ہی تو ہوتے ہیں۔ دوسری زندگی کے مترادف جنہیں تیسرا آدمی تخلیق کرتا ہے۔ ایک طرح کی گواہی جس میں کسی طرح کا کھوٹ گواہ کے لیے سوہانِ روح بن کر اُسے اندر سے کچوکے لگائے رکھتا ہے۔
صابر لودھی نے ایک استاد کی حیثیت سے زندگی گزاری ہے۔ ملازمت کا طویل عرصہ گورنمنٹ کالج میں گزارا۔ فطری بات ہے آدمی جن لوگوں کے درمیان زیادہ وقت گزارتا ہے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی زندگی پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ '' بھلایا نہ جائے گا'' میں اساتذہ کے خاکے زیادہ نظر آئیں گے۔ ان خاکوں کو پڑھنے کے بعد پہلا خوشگوار احساس یہ ہوتا ہے کہ خاکہ نگارنے اپنی ذات کو یاد ناموں پر غالب نہیں آنے دیا۔ اپنی پیش کار کی حیثیت کو ہدایت کار نہیں بننے دیا۔ ورنہ تو خاکہ نویس شخصیت میں ترفع پیدا کرنے کے طریقے بتاتے بتاتے اپنی ذات کو رول ماڈل بنا دیتے ہیں۔ لودھی صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ صاحب خاکہ سے متعلق اپنے احساس کو بلا کم و کاست بیان کیا ہے۔ ان خاکوں میں بیان کیے گئے واقعات کا دورانیہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے آج تک کی زندگی پر محیط ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ، سید وقار عظیم، قیوم نظر، ڈاکٹر نذر احمد، ڈاکٹر محمد اجمل، رحمان، ڈاکٹر محمد حمید الدین، مرزا محمد منور، غلام الثقلین نقوی، میرزا ریاض، جعفر بلوچ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انورسدید، ڈاکٹر عبدالحمید اعوان اور فرخندہ لودھی اس سفر کی نشانیاں۔ ان خاکوں کی مدد سے ہم پاکستان کاتہذیبی، علمی، سیاسی منظر نامہ مرتب کرسکتے ہیں۔
ایسا منظرنامہ جو دل سے تشکیل دیا گیا ہے۔ صابر لودھی کے یہ خاکے وابستگی کی بہترین مثالیں ہیں۔ ایک طرح کا خراج جس میں محبت ہے۔ صابر لودھی چھوٹے جملے لکھتے ہیں۔ چھوٹے جملے اپنے آپ پر اعتماد کی علامت ہوتے ہیں اور آدمی کو جوڑ کر رکھتے ہیں۔ ان خاکوں میں وابستگی ہی وابستگی ہے۔ اس جرات نے صابر لودھی کو وقائع نویس نہیں بننے دیا بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر شخصیت میں جھانکنے کا موقع بھی دیا ہے۔ ذات تو دریاہوتی ہے اس میں کتنا جھنکا جاسکتا ہے مگر لودھی صاحب نے ان خاکوں میں اپنا آپ صرف کیا ہے اور دوسروں کے لیے ذات کا اسراف معمولی اسراف نہیں ہوتا۔
٭٭٭
کتاب: میں صبح ازل سے تیرا تھا
مصنف: سہیل انور
صفحات: 144،قیمت: 350 روپے
ناشر ماورا پبلشرز ، لاہور
دیارغیر میں بیٹھے اہل علم وہنر بلا شبہ جہاں روٹی روزی کمانے کے لیے برسر کار ہیں وہاں وہ ذہنی آسودگی کے لیے ادب کے سائبان تلے پناہ لیتے اور اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔
سہیل انور بھی دیارِ غیر میں بسنے والے ان چند پاکستانیوں میں سے ہیں جنہوں نے وطن عزیز سے باہر رہ کر علم وادب کی آبیاری کے لیے اپنی ذہنی توانائیوں کو صرف کیا اور آج وہ اس میدان میں بھی سربلند دکھائی دیتے ہیں ۔''میں صبح ِازل سے تیرا تھا'' سہیل انور کی خوبصورت شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جس پر انہیں اردو ادب کے معروف اساتذہ اور مستند اہل قلم نے پسندیدگی کی سند عطا کی ہے ۔ ان میں پروفیسر خواجہ محمد ذکریا ، افتخار عارف، عطاء الحق قاسمی ، خالد شریف اور اسلم کولسری وغیرہ شامل ہیں ۔
اس مجموعہ میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جو کلاسیکیت اور جدیدیت کا خوبصورت امتزاج لیے ہوئے ہیں۔ شعری لطافت ، حسیت تغزل اور چاشنی ان کی شاعری کا خاصا ہے ، عطاء الحق قاسمی کا کہنا ہے کہ سہیل انور کی شاعری پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ شعوری طور پر شاعری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے کسی شعر یا مصرع سے کچے پن کی خوشبو نہیں آئی ۔ یہ کتاب اس معیار کی حامل ہے کہ شعری ذوق رکھنے والے خواتین وحضرات کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔
٭٭٭
تذکرہ الانبیا ؑء
مصنف: مولانا ابوالکلام آزاد
ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردو بازار، لاہور
قیمت: 500 روپے ، صفحات: 392
انبیائے کرام کی زندگیاں بنی نوع انسان کے لیے مشعل راہ ہیں۔
قرآن مجید میں بھی گذشتہ امتوں کے احوال اور انبیائؑ کے قصص بیان کیے گئے ہیں، تاکہ لوگ ان سے سبق حاصل کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ''تذکرہ الانبیاء'' مفسر قرآن اور برصغیر کے ممتاز مذہبی و سیاسی رہنماء مولانا ابوالکلام آزاد کی ان تحریروں پر مشتمل ہے جو انبیا کی پاکیزہ زندگیوں سے متعلق ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ جس تذبذب، بے یقینی، پست ہمتی، بے راہ روی اور اخلاقی زوال کا شکار ہو رہا ہے، اس سے بچنے کی واحد صورت یہی نظر آتی ہے کہ ایک دفعہ پھر ان انبیاؑء کی زندگیوں کی طرف رجوع کیا جائے، جنہیں خالق کائنات نے ہماری رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ کتاب میں مختلف انبیا کے حالات، قرآنی حوالے اور ان کی تشریح و توضیح شامل ہے۔ یہ تحریریں پہلے الہلال اور البلاغ کے صفحات کی زینت بن چکی ہیں، جنہیں عابدہ خاتون نے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔ اس مجموعے کے بارے میں وہ لکھتی ہیں:
''زیر نظر مجموعے میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اصل متن سے ہٹ کر کوئی عبارت شامل نہ ہونے پائے تاکہ مولانا کی تحریر کے شیدا ان کے اسلوب کی لذت سے اپنے فکر و نظر کو سیراب کرتے ہوئے قلوب کو معطر و روشن کر سکیں۔''
کتاب: امریکا جیسے میں نے دیکھا (سیاحت نامہ)
مصنف: فقیراﷲ خاں،قیمت: 300 روپے
پبلشرز مثال پبلشرز ، فیصل آباد
فقیراﷲ خاں کامرس گریجوایٹ ہیں۔ قومی فضائی کمپنی (پی آئی اے)کے شعبہ مالیات میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے اور امریکہ کی سیاحت کے بعد یہ کتاب تحریر کردی ۔ امریکہ دنیا کا بہت بڑا ملک اور واحد عالمی طاقت ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے یہ ملک اپنے اندر بے پایاں خوبیاں ،کمالات بھی رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خرابیاں اور برائیاں بھی اس میں بدرجہا اتم پائی جاتی ہیں ۔ اس کی 52 ریاستیں ہیں جن میں سے بعض اس قدر بڑی ہیں کہ دنیا کے بہت سے ممالک ان سے چھوٹے ہیں ۔
فقیراﷲ خاں نے اس ملک کے کم وبیش تمام قابل ذکر شہروں کی سیاحت کی اس دوران بڑی باریک بینی سے امریکیوں کی عادات وسکنات، ان کے رویوں ، ان کے طرز بودوباش کا مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے ۔ جسے انہوںنے بڑے حسن اور خوبی کے ساتھ انتہائی دلچسپ انداز میں سپرد قلم کیا ہے ۔انداز تحریر اور اسلوب ایسا دل کش ہے کہ قاری اس تحریر کے سحر ہی میں گم ہوجا تاہے ۔ یہ کتاب جہاں امریکی تہذیب ، ثقافت اور سماجی رویوں کے بارے میں رہنمائی مہیا کرتی ہے وہاں امریکہ کے بڑے اور معروف شہروں کے بارے میں مکمل معلومات بھی فراہم کرتی ہے اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب امریکہ کے بارے میں ایک گائیڈ کادرجہ رکھتی ہے ۔ تاریخ، سیاست، سیاحت ،تہذیب و تمدن اور عمومی معلومات حاصل کرنے کا شوق رکھنے والوں کوا س کتاب کاضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔
٭٭٭
کتاب: خالی بْک
شاعرہ: صابرہ شاہین
صفحات: 174،قیمت: 200 روپے
ناشر سانجھ ٹمپل روڈ ، لاہور
زیر تبصرہ کتاب ، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ، ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی خاتون شاعرہ صابرہ شاہین کی سرائیکی زبا ن میں لکھی غزلوں ، نظموں کا مجموعہ ہے ۔
صابرہ ماہر تعلیم ہیں اور گورنمنٹ گرلز کالج کوٹ چھٹہ ، ضلع ڈیرہ غازی خان کی وائس پرنسپل ہیں ۔ حال ہی میں انہوںنے ممتازشاعر مختار صدیقی کی حیات و خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ صابرہ شاہین نے نثری ،آزاد ، پابند نظم ، گیت اور غزل کے ساتھ ساتھ دوہڑے اور کافی جیسی کلاسیکل لیکن مشکل اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے شاعری پر اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے ۔ ان کی شاعری لوک روایت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔
جس میں مقامی رنگ اپنے پورے رچائو کے ساتھ چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ممتاز ادیبہ پروفیسر مسرت کلانچوی کے مطابق ''خالی بْک '' ان کے نزدیک کسی خاتون کا سرائیکی میں سب سے عمدہ مجموعہ کلام ہے۔صابرہ شاہین کے ایک استاد صدر شعبہ کیمیا پوسٹ گریجوایٹ گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان پروفیسر محمد صادق نے ان کی شاعری پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ''شاہین کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو زبردست خلاق اور فنی حوالے سے پختہ گو شعراء میں ہوتی ہیں۔''کتاب ایسی ہے کہ جسے پڑھا جانا چاہئے۔
٭٭٭
بھلایا نہ جائے گا (خاکے)
مصنف: صابر لودھی
صفحات: 223،قیمت: 250 روپے
ناشر :مکتبہ روشن خیال، 7 اے سٹریٹ 6 کوچہ محمدی، سلطان پورہ، لاہور
''بھلایا نہ جائے گا'' صابر لودھی کے لکھے ہوئے خاکوں کی پہلی کتاب ہے۔ ایک زندگی پر محیط یادنامہ۔ زندگی کا اگر کوئی دوسرا نام ہوتا تو یاد ہوتا۔ خاکے یاد یں ہی تو ہوتے ہیں۔ دوسری زندگی کے مترادف جنہیں تیسرا آدمی تخلیق کرتا ہے۔ ایک طرح کی گواہی جس میں کسی طرح کا کھوٹ گواہ کے لیے سوہانِ روح بن کر اُسے اندر سے کچوکے لگائے رکھتا ہے۔
صابر لودھی نے ایک استاد کی حیثیت سے زندگی گزاری ہے۔ ملازمت کا طویل عرصہ گورنمنٹ کالج میں گزارا۔ فطری بات ہے آدمی جن لوگوں کے درمیان زیادہ وقت گزارتا ہے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی زندگی پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ '' بھلایا نہ جائے گا'' میں اساتذہ کے خاکے زیادہ نظر آئیں گے۔ ان خاکوں کو پڑھنے کے بعد پہلا خوشگوار احساس یہ ہوتا ہے کہ خاکہ نگارنے اپنی ذات کو یاد ناموں پر غالب نہیں آنے دیا۔ اپنی پیش کار کی حیثیت کو ہدایت کار نہیں بننے دیا۔ ورنہ تو خاکہ نویس شخصیت میں ترفع پیدا کرنے کے طریقے بتاتے بتاتے اپنی ذات کو رول ماڈل بنا دیتے ہیں۔ لودھی صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ صاحب خاکہ سے متعلق اپنے احساس کو بلا کم و کاست بیان کیا ہے۔ ان خاکوں میں بیان کیے گئے واقعات کا دورانیہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے آج تک کی زندگی پر محیط ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ، سید وقار عظیم، قیوم نظر، ڈاکٹر نذر احمد، ڈاکٹر محمد اجمل، رحمان، ڈاکٹر محمد حمید الدین، مرزا محمد منور، غلام الثقلین نقوی، میرزا ریاض، جعفر بلوچ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انورسدید، ڈاکٹر عبدالحمید اعوان اور فرخندہ لودھی اس سفر کی نشانیاں۔ ان خاکوں کی مدد سے ہم پاکستان کاتہذیبی، علمی، سیاسی منظر نامہ مرتب کرسکتے ہیں۔
ایسا منظرنامہ جو دل سے تشکیل دیا گیا ہے۔ صابر لودھی کے یہ خاکے وابستگی کی بہترین مثالیں ہیں۔ ایک طرح کا خراج جس میں محبت ہے۔ صابر لودھی چھوٹے جملے لکھتے ہیں۔ چھوٹے جملے اپنے آپ پر اعتماد کی علامت ہوتے ہیں اور آدمی کو جوڑ کر رکھتے ہیں۔ ان خاکوں میں وابستگی ہی وابستگی ہے۔ اس جرات نے صابر لودھی کو وقائع نویس نہیں بننے دیا بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر شخصیت میں جھانکنے کا موقع بھی دیا ہے۔ ذات تو دریاہوتی ہے اس میں کتنا جھنکا جاسکتا ہے مگر لودھی صاحب نے ان خاکوں میں اپنا آپ صرف کیا ہے اور دوسروں کے لیے ذات کا اسراف معمولی اسراف نہیں ہوتا۔
٭٭٭
کتاب: میں صبح ازل سے تیرا تھا
مصنف: سہیل انور
صفحات: 144،قیمت: 350 روپے
ناشر ماورا پبلشرز ، لاہور
دیارغیر میں بیٹھے اہل علم وہنر بلا شبہ جہاں روٹی روزی کمانے کے لیے برسر کار ہیں وہاں وہ ذہنی آسودگی کے لیے ادب کے سائبان تلے پناہ لیتے اور اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔
سہیل انور بھی دیارِ غیر میں بسنے والے ان چند پاکستانیوں میں سے ہیں جنہوں نے وطن عزیز سے باہر رہ کر علم وادب کی آبیاری کے لیے اپنی ذہنی توانائیوں کو صرف کیا اور آج وہ اس میدان میں بھی سربلند دکھائی دیتے ہیں ۔''میں صبح ِازل سے تیرا تھا'' سہیل انور کی خوبصورت شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جس پر انہیں اردو ادب کے معروف اساتذہ اور مستند اہل قلم نے پسندیدگی کی سند عطا کی ہے ۔ ان میں پروفیسر خواجہ محمد ذکریا ، افتخار عارف، عطاء الحق قاسمی ، خالد شریف اور اسلم کولسری وغیرہ شامل ہیں ۔
اس مجموعہ میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جو کلاسیکیت اور جدیدیت کا خوبصورت امتزاج لیے ہوئے ہیں۔ شعری لطافت ، حسیت تغزل اور چاشنی ان کی شاعری کا خاصا ہے ، عطاء الحق قاسمی کا کہنا ہے کہ سہیل انور کی شاعری پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ شعوری طور پر شاعری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے کسی شعر یا مصرع سے کچے پن کی خوشبو نہیں آئی ۔ یہ کتاب اس معیار کی حامل ہے کہ شعری ذوق رکھنے والے خواتین وحضرات کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔
٭٭٭
تذکرہ الانبیا ؑء
مصنف: مولانا ابوالکلام آزاد
ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردو بازار، لاہور
قیمت: 500 روپے ، صفحات: 392
انبیائے کرام کی زندگیاں بنی نوع انسان کے لیے مشعل راہ ہیں۔
قرآن مجید میں بھی گذشتہ امتوں کے احوال اور انبیائؑ کے قصص بیان کیے گئے ہیں، تاکہ لوگ ان سے سبق حاصل کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ''تذکرہ الانبیاء'' مفسر قرآن اور برصغیر کے ممتاز مذہبی و سیاسی رہنماء مولانا ابوالکلام آزاد کی ان تحریروں پر مشتمل ہے جو انبیا کی پاکیزہ زندگیوں سے متعلق ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ جس تذبذب، بے یقینی، پست ہمتی، بے راہ روی اور اخلاقی زوال کا شکار ہو رہا ہے، اس سے بچنے کی واحد صورت یہی نظر آتی ہے کہ ایک دفعہ پھر ان انبیاؑء کی زندگیوں کی طرف رجوع کیا جائے، جنہیں خالق کائنات نے ہماری رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ کتاب میں مختلف انبیا کے حالات، قرآنی حوالے اور ان کی تشریح و توضیح شامل ہے۔ یہ تحریریں پہلے الہلال اور البلاغ کے صفحات کی زینت بن چکی ہیں، جنہیں عابدہ خاتون نے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔ اس مجموعے کے بارے میں وہ لکھتی ہیں:
''زیر نظر مجموعے میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اصل متن سے ہٹ کر کوئی عبارت شامل نہ ہونے پائے تاکہ مولانا کی تحریر کے شیدا ان کے اسلوب کی لذت سے اپنے فکر و نظر کو سیراب کرتے ہوئے قلوب کو معطر و روشن کر سکیں۔''