اچانک دولت مند ہوجانے والے خبردار
دنیا میں والدین کے لیے بچے ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور جب بچوں کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو والدین ان۔۔۔
دنیا میں والدین کے لیے بچے ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور جب بچوں کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو والدین ان کی تکلیف دور کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، اسی طرح کا ایک واقعہ گوجرانوالہ کے علاقہ سرفراز کالونی میں پیش آیا جہاں پر والدین کا سب سے بڑا 12 سالہ بیٹا 12 لاکھ تاوان کے لیے اغوا کر لیا گیا اور والدین اپنے بچے کو بازیاب کرانے کے لیے سب کچھ بیچ ڈالنے پر آ گئے کہ اغوا کار ان کے بیٹے کو چھوڑ دیں لیکن ظالموں نے کم سن بچے کو مار ڈالا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ انعام اللہ پراپرٹی ڈیلر کے دن پھرے اور وہ اپنی برادری میں نمایاں ہو گیا، بیٹے دانش کو موبائل فون اور موٹر سائیکل تک مہیا کر دی۔ کئی رشتہ دار حسد کرنے لگے تاہم ضرورت کے وقت اس کے آگے ہاتھ بھی پھیلاتے۔ 16 جون 2013 کی صبح دانش اچانک غائب ہو گیا، کافی دیرتک گھر نہ لوٹنے پر گھر والے پریشان ہوئے توموبائل فون پر رابطے کرنے لگے لیکن فون بند ملتا تو تشویش بڑھی، بالآخر اس کے والد انعام اللہ نے تھانہ سبزی منڈی کو مطلع کیا۔ پولیس نے کارروائی شروع کردی۔ 17 جون کو انعام اللہ کو بیٹے کے نمبر سے ہی فون آیا ''دانش چاہیے تو 12 لاکھ روپے کا انتظام کرو''۔
فون سنتے ہی انعام اللہ کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، اس نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی جس پر ایس پی سٹی ڈویژن کیپٹن (ر) ملک لیاقت علی نے ایس ایچ او تھانہ سبزی منڈی ثناء اللہ ڈھلو کی نگرانی میں سب انسپکٹر جاوید گورایہ اور اے ایس آئی محمد خلیل پر مشتمل ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ بہ ہرحال انعام اللہ نے 12 لاکھ روپے کا انتظام کر لیا۔ 19 جون کو ایک مختلف نمبر سے فون آیا۔ پولیس نے انعام کو اغوا کاروں کے ساتھ لمبی بات کرنے کو کہا، اس دوران انعام کو کہیں شک گذراکہ آواز اس کے ایک رشتہ دار شانی کی سی ہے۔ پولیس نے اس شک پر اپنی تفتیش شروع کر دی۔
شانی صادق روڈ کا رہائشی تھا، پولیس کو سم ڈیٹیکٹِو کے ذریعے سے اس کا ٹھکانہ معلوم ہو گیا جس پر اسے 19 جون کی رات ہی گرفتار کر لیا گیا تاہم وہ بچے کے بارے میں نہیں بتا رہا تھا، کبھی وہ لاہور تو کبھی سیالکوٹ کی بات کرتا۔ اس طرح 20 جون کا دن آگیا تو پولیس کے ساتھ انعام اللہ اور اس کی بیوی نے ملزم کی منت سماجت کی کہ وہ دانش کا پتا بتا دے، اسے معاف کر دیا جائے گا۔ ملزم نے بتایا کہ اس نے دانش کو اغوا کے پہلے ہی روز قتل کر دیا تھا، اس کے ساتھ ہی جگہ بھی بتا دی جس پر سمبڑیال تھانے رابطہ کیا گیا وہاں سے معلوم ہوا کہ چار روز قبل ایک بچے کی نعش کو لاوارث کرکے دفن کیا گیا ہے، بچے کی تصاویر منگوائی گئیں تو وہ دانش ہی کی تھیں۔ ملزم شان عرف شانی نے بتایا کہ اس نے شہباز اور عتیق کے ساتھ مل کر ایک بڑی رقم حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بنایا۔
ملزم شان اور شہباز نے بتایا کہ شان کی ڈیوٹی تھی کہ وہ بچے کو گھر سے لائے گا اور شہباز کے خالی مکان میں رکھیں گے، عتیق تاوان مانگے گا۔ شان نے بتایا کہ اس نے دانش سے دوستی کی، بچے کو ایک دو بار فلم بھی دکھائی، اغوا کے روز اسے سیر کے بہانے فون کر کے بلایااور پھر اپنے ساتھ مسافر وین کے ذریعے سمبڑیال شہباز کے خالی گھر میں لے گیا، جہاں عتیق پہلے سے موجود تھا۔ ملزموں نے بتایا کہ جب انہیں پتہ چلا کہ انعام اللہ نے پولیس کو اطلاع دے دی ہے تو انہوں نے اسی رات بچے کو پینٹ کی بیلٹ نکال کر گلا دبا کر قتل کر دیا گیا۔ دوسرے روز ان کے گھر بچے کے فون سے ہی کال کی کہ اتنے پیسے دو تو چھوڑ دیں گے۔ ملزموں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے دانش کو قتل کرنے کے بعد اندھیرے میں قریبی نہر کنارے گڑھا کھود کر دبا دیاتھا۔
کیس کے تفتیشی آفیسر سب انسپکٹر جاوید نے بتایا کہ انہوں نے کارروائی کرکے میجسٹریٹ کے حکم پر قبرکشائی کرائی اور نعش کو واپس گوجرانوالہ لائے۔ نعش علاقہ میں پہنچنے پر کہرام مچ گیا۔ ایس پی سٹی ملک لیاقت علی نے کہا ہے کہ اغوا کاروں کو سخت سزا دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔