مسائل کا حل ٹاؤن کی سطح پر
پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی شہر میں بڑھتے ہوئے امن و امان و دیگر مسائل کا حل کیا ہوسکتا ہے؟۔۔۔
پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی شہر میں بڑھتے ہوئے امن و امان و دیگر مسائل کا حل کیا ہوسکتا ہے؟ ہم سب اپنے اپنے طور پر کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ یہ سوال کچھ ہی عرصہ قبل راقم نے جامعہ کراچی میں اپنے طلبا سے کیا۔مختلف طلبا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایک طالبعلم کا خیال تھا کہ جس طرح کسی اجڑے ہوئے اسکول کو کوئی فلاحی ادارہ گود لے کر دوبارہ سے فعال بنالیتا ہے بالکل ویسے ہی کراچی کے مختلف ٹاؤن کو گود لے کر شہر کے مسائل بہت حد تک حل کیے جاسکتے ہیں۔
اس تجویز کو دیگر طلبا نے بھی پسند کیا اور اس سلسلے میں مزید تجاویز بھی دیں اور یہ بھی کہا کہ تجرباتی طور پر اس تجویزکے لیے لیاری ٹاؤن کا انتخاب کیا جائے کیونکہ وہاں سب سے زیادہ امن و امان کا مسئلہ بھی ہے، بیروزگاری بھی ہے اور مہنگائی کے باعث ضروریات زندگی وہاں کے باسیوں کے لیے ایک مسئلہ بن چکی ہیں۔ جو تجاویز طلبا نے پیش کیں راقم انھیں یہاں پیش کر رہا ہے۔ تجاویز کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد و ادارے اپنے اپنے طور پر کسی بھی ٹاؤن میں کچھ ذمے داریاں لے سکتے ہیں، مثلاً فلاحی ادارے (این جی اوز) اور وفاقی و صوبائی اور سینیٹ کے حکومتی نمائندے اپنے اپنے طور پر ٹاؤن کی سطح پر تعلیمی اداروں کو گود لے سکتے ہیں، ذہین و نادار طلبا کو تعلیم کے حصول میں مالی امداد وغیرہ کے ذریعے مدد دے سکتے ہیں۔
اس طرح یہی لوگ ٹاؤن میں بے روزگار افراد کو 10 سے 50 ہزار تک کے بلاسود قرضے خود یا ان علاقوں میں موجود بینکوں سے اپنی ضمانت پر دلوا سکتے ہیں، اس عمل سے بیروزگاری کے خاتمے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ بیروزگاری کے سبب ہی نوجوان آوارہ گردی کرتے ہیں اور جرائم کی طرف راغب ہوجاتے ہیں، جب انھیں روزگار ملے گا تو ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچے گا کہ وہ فالتو بیٹھ کر غلط کاموں کی طرف توجہ دیں بزرگوں کا بھی کہنا ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔اسی طرح ٹاؤن کے محلے دار بزرگ، ڈاکٹرز اور پڑھے لکھے لوگ مل کر اپنے ہی علاقے میں مختلف تعمیری سرگرمیاں کرسکتے ہیں مثلاً نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں رہنمائی دے سکتے ہیں۔
دفتر میں کام کرنیوالے علاقے یا محلے کی سطح پر نوجوانوں کو دفتری زبان جیسے انگریزی میں ڈرافٹنگ یا اکاؤنٹس کی مہارت میں مدد دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان بھی اپنی خدمات والنٹیئرلی پیش کرکے ٹاؤن کی سطح پر مثبت سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹاؤن میں پہلے سے موجود کلینک رکھنے والے ڈاکٹرز بھی فعال کردار ادا کرسکتے ہیں مثلاً اسٹور کی میڈیسن مثلاً ٹانک یا سیرپ کئی کئی سو روپے کا ہوتا ہے جب کہ ایک مریض عموماً آدھی بوتل استعمال کرتا ہے باقی سیرپ بچ جاتا ہے۔ اگر اس قسم کی دوائیں کلینک پر کھلی بھی دستیاب ہوں اور مریض کو حسب خوراک دے کر قیمت وصول کرلی جائے تو اس سے مریض کو فائدہ ہوگا جب کہ ڈاکٹر کو بھی کوئی نقصان نہ ہوگا کیونکہ بقایا سیرپ کسی اور مریض کو دیا جاسکتا ہے۔
ٹاؤن میں رہنے والے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اپنے علاقے میں بھی والنٹیئرلی کچھ وقت دے کر لوگوں کو طبی سہولیات کے حصول میں مدد دے سکتے ہیں۔نوجوانوں کے لیے کھیل کے میدان اور بچوں کے لیے پارک بھی بہت ضروری ہیں، حکومت کی جانب سے قائم کردہ پارک اور گراؤنڈز آج کل خستہ حالی کا شکار ہیں اگر محلے کے لوگ اپنے قریبی گراؤنڈ اور پارک کو اس طرح گود لے لیں کہ صبح و شام آتے جاتے اس کی دیکھ بھال کریں ، کچھ افراد پانی وغیرہ بھی اپنے اپنے طور پر فراہم کردیں تو یہ پارک اجڑنے کے بجائے آباد رہ سکتے ہیں۔ پارکس کے آباد رہنے میں محلے داروں کا بنیادی کردار ہوتا ہے، محلے کے بزرگ اس میں اپنا کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں اور نوجوانوں کو بھی ہفتہ صفائی، شجرکاری مہم وغیرہ کے نام سے اپنے ساتھ ملاسکتے ہیں۔
کراچی شہر میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے باعث اکثر پارک کی دیکھ بال تقریباً ختم ہوگئی ہے جس سے ان پارکوں میں گھاس بھی ختم ہوئی اور بچوں کے جھولے نامعلوم افراد توڑ توڑ کر لے گئے۔ اگر محلے کے لوگ ان کی دیکھ بھال میں شریک ہوجاتے تو ایسا نہ ہوتا۔انفرادی سطح پر بھی لوگ اپنے ٹاؤن میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مثلاً راقم کے ایک دوست نے اپنے طور پر محلے میں ایک بک بینک قائم کیا ہوا تھا جس کا مقصد نئی کلاسوں میں جانے والے طلبا سے پرانا کورس لینا اور کسی اور طالبعلم کا پرانا کورس فراہم کرنا تھا۔ اس طرح محلے کے طالبعلموں کو ایک جگہ سے اپنی پرانی کلاس کا کورس دے کر نئی کلاس کا کورس بلامعاوضہ مل جاتا ہے۔ دینی طبقے کی طرف سے بھی تعاون اہم تبدیلی لاسکتا ہے دینی طبقے کے اس کردار سے لوگوں میں جب صبر وتحمل، برداشت و قناعت اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کو شعور پیدا ہوگا تو پھر معاشرتی مسائل و جرائم میں بھی کمی آئے گی اور مہنگائی میں لوگ جینے کا درست معنوں میں ڈھنگ بھی سیکھ سکھیں گے۔ بات نہایت چھوٹی مگر کام کی ہے۔ آئیے غور کریں۔
اس تجویز کو دیگر طلبا نے بھی پسند کیا اور اس سلسلے میں مزید تجاویز بھی دیں اور یہ بھی کہا کہ تجرباتی طور پر اس تجویزکے لیے لیاری ٹاؤن کا انتخاب کیا جائے کیونکہ وہاں سب سے زیادہ امن و امان کا مسئلہ بھی ہے، بیروزگاری بھی ہے اور مہنگائی کے باعث ضروریات زندگی وہاں کے باسیوں کے لیے ایک مسئلہ بن چکی ہیں۔ جو تجاویز طلبا نے پیش کیں راقم انھیں یہاں پیش کر رہا ہے۔ تجاویز کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد و ادارے اپنے اپنے طور پر کسی بھی ٹاؤن میں کچھ ذمے داریاں لے سکتے ہیں، مثلاً فلاحی ادارے (این جی اوز) اور وفاقی و صوبائی اور سینیٹ کے حکومتی نمائندے اپنے اپنے طور پر ٹاؤن کی سطح پر تعلیمی اداروں کو گود لے سکتے ہیں، ذہین و نادار طلبا کو تعلیم کے حصول میں مالی امداد وغیرہ کے ذریعے مدد دے سکتے ہیں۔
اس طرح یہی لوگ ٹاؤن میں بے روزگار افراد کو 10 سے 50 ہزار تک کے بلاسود قرضے خود یا ان علاقوں میں موجود بینکوں سے اپنی ضمانت پر دلوا سکتے ہیں، اس عمل سے بیروزگاری کے خاتمے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ بیروزگاری کے سبب ہی نوجوان آوارہ گردی کرتے ہیں اور جرائم کی طرف راغب ہوجاتے ہیں، جب انھیں روزگار ملے گا تو ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچے گا کہ وہ فالتو بیٹھ کر غلط کاموں کی طرف توجہ دیں بزرگوں کا بھی کہنا ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔اسی طرح ٹاؤن کے محلے دار بزرگ، ڈاکٹرز اور پڑھے لکھے لوگ مل کر اپنے ہی علاقے میں مختلف تعمیری سرگرمیاں کرسکتے ہیں مثلاً نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں رہنمائی دے سکتے ہیں۔
دفتر میں کام کرنیوالے علاقے یا محلے کی سطح پر نوجوانوں کو دفتری زبان جیسے انگریزی میں ڈرافٹنگ یا اکاؤنٹس کی مہارت میں مدد دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان بھی اپنی خدمات والنٹیئرلی پیش کرکے ٹاؤن کی سطح پر مثبت سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹاؤن میں پہلے سے موجود کلینک رکھنے والے ڈاکٹرز بھی فعال کردار ادا کرسکتے ہیں مثلاً اسٹور کی میڈیسن مثلاً ٹانک یا سیرپ کئی کئی سو روپے کا ہوتا ہے جب کہ ایک مریض عموماً آدھی بوتل استعمال کرتا ہے باقی سیرپ بچ جاتا ہے۔ اگر اس قسم کی دوائیں کلینک پر کھلی بھی دستیاب ہوں اور مریض کو حسب خوراک دے کر قیمت وصول کرلی جائے تو اس سے مریض کو فائدہ ہوگا جب کہ ڈاکٹر کو بھی کوئی نقصان نہ ہوگا کیونکہ بقایا سیرپ کسی اور مریض کو دیا جاسکتا ہے۔
ٹاؤن میں رہنے والے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اپنے علاقے میں بھی والنٹیئرلی کچھ وقت دے کر لوگوں کو طبی سہولیات کے حصول میں مدد دے سکتے ہیں۔نوجوانوں کے لیے کھیل کے میدان اور بچوں کے لیے پارک بھی بہت ضروری ہیں، حکومت کی جانب سے قائم کردہ پارک اور گراؤنڈز آج کل خستہ حالی کا شکار ہیں اگر محلے کے لوگ اپنے قریبی گراؤنڈ اور پارک کو اس طرح گود لے لیں کہ صبح و شام آتے جاتے اس کی دیکھ بھال کریں ، کچھ افراد پانی وغیرہ بھی اپنے اپنے طور پر فراہم کردیں تو یہ پارک اجڑنے کے بجائے آباد رہ سکتے ہیں۔ پارکس کے آباد رہنے میں محلے داروں کا بنیادی کردار ہوتا ہے، محلے کے بزرگ اس میں اپنا کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں اور نوجوانوں کو بھی ہفتہ صفائی، شجرکاری مہم وغیرہ کے نام سے اپنے ساتھ ملاسکتے ہیں۔
کراچی شہر میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے باعث اکثر پارک کی دیکھ بال تقریباً ختم ہوگئی ہے جس سے ان پارکوں میں گھاس بھی ختم ہوئی اور بچوں کے جھولے نامعلوم افراد توڑ توڑ کر لے گئے۔ اگر محلے کے لوگ ان کی دیکھ بھال میں شریک ہوجاتے تو ایسا نہ ہوتا۔انفرادی سطح پر بھی لوگ اپنے ٹاؤن میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مثلاً راقم کے ایک دوست نے اپنے طور پر محلے میں ایک بک بینک قائم کیا ہوا تھا جس کا مقصد نئی کلاسوں میں جانے والے طلبا سے پرانا کورس لینا اور کسی اور طالبعلم کا پرانا کورس فراہم کرنا تھا۔ اس طرح محلے کے طالبعلموں کو ایک جگہ سے اپنی پرانی کلاس کا کورس دے کر نئی کلاس کا کورس بلامعاوضہ مل جاتا ہے۔ دینی طبقے کی طرف سے بھی تعاون اہم تبدیلی لاسکتا ہے دینی طبقے کے اس کردار سے لوگوں میں جب صبر وتحمل، برداشت و قناعت اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کو شعور پیدا ہوگا تو پھر معاشرتی مسائل و جرائم میں بھی کمی آئے گی اور مہنگائی میں لوگ جینے کا درست معنوں میں ڈھنگ بھی سیکھ سکھیں گے۔ بات نہایت چھوٹی مگر کام کی ہے۔ آئیے غور کریں۔