غلاموں کے غلام
’’اے آزادی تیر ے نام پر کیا کیا ظلم کیے جاتے ہیں ‘‘یہ مادام رولاں کے آخری الفا ظ تھے جو اس نے تختہ دار پر کہے جو۔۔۔
''اے آزادی تیر ے نام پر کیا کیا ظلم کیے جاتے ہیں ''یہ مادام رولاں کے آخری الفا ظ تھے جو اس نے تختہ دار پر کہے جو اب ساری دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ مادام رولاں انقلاب فرانس کے عہد کی ایک تاریخ ساز ہستی تھی اور یہ 1793 کی بات ہے ادھر دوسری جانب لاہور سازش کیس 1929 میں درج ہوا بھگت سنگھ ، بی کے دت، سکھ دیو اورکشوری لال وہرا کو اس میں ملوث کیاگیا لاہور سازش کیس پورے ہندوستان میں مشہور ہوا ۔ تمام سیاسی تنظیموں نے جلسوں کے ذریعے اس مقدمے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لوگوں سے کہا ان میں ایک الزام میں بھی صداقت نہیں یہ مقدمہ نو ماہ تک عدالت میں چلتا رہا لیکن قانونی معاملات آگے نہیں بڑھے بلکہ مقدمے کی کارروائی الٹی حکومت کے گلے پڑ گئی کیونکہ انقلابیوں نے اس کارروائی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا انھوں نے ایسے بیانات ریکارڈ کرائے جن سے انھوں نے اپنے سیاسی مقاصد بڑی وضاحت کے ساتھ عوام تک پیش کر دئیے ۔
یہ حالات حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہے تھے چنانچہ وائسرا ئے کے حکم کے تحت مقدمے کی سماعت کے لیے خصو صی ٹربیونل قائم کیاگیا اس ٹربیونل میں انقلابیوں کو نہ وکیل کی سہولت حاصل تھی نہ اپنے دفاع میں وہ کسی گواہ کو پیش کرسکتے تھے حتیٰ کہ اس قانون کے تحت ان کی اپنی موجودگی بھی عدالت میں ضروری نہ تھی انصاف کے نام پر ٹربیونل کا یہ ڈراما پانچ مہینے تک چلتا رہا حتیٰ کہ اکتوبر 1930 میں بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھ دیو کو سزائے موت سنائی گئی دوسرے ساتھی ملزموں کو عمر قید اور بہت سے دیگر کارکنوں کو طویل المدت قید کی سزاد ی گئی ۔ ان بہادر انقلابیوں کو 23 مارچ 1931 کوصبح7:15 بجے لاہور سینٹر ل جیل میں پھانسی دے دی گئی اور 9 بج کر 30 منٹ پر ان کی لاشوں کو پچھلی دیوار توڑ کر باہر نکالا گیا اور انہیں11:30 بجے تک دریائے ستلج کے کنارے پہنچایاگیا جہاں لاشوں پر پیڑول چھڑک کر آگ لگا دی گئی ۔
بھگت سنگھ نے موت سے پہلے گورنر کو ایک خط لکھا جس میں اس نے کہا '' یہ جنگ اب ایک نئی شان و شو کت کے ساتھ لڑی جائے گی جس میں بہادری اور جرأت کے نئے باب رقم ہونگے ۔ اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہندوستان میں ایک سو شلسٹ جمہوری نظام قائم نہیں ہو جاتا ۔ اب سرمایہ داری اور سامراجی استحصال کے دن پورے ہو چکے ہیں ۔ یہ جنگ ہم نے شروع کی نہ ہم نے اس کو ختم کیا یہ جنگ ظالم اورمظلوم کے درمیان صدیوں پہلے شروع ہوئی ہم نے اس کو تیز کر نے میں اپنا معمولی سا حصہ ڈالا ہماری معمولی سی قربانی شاید ایک بہت بڑی دیوار میں ایک اینٹ کی مانند ہے'' گاندھی بھی کہہ رہے تھے کہ حالیہ تاریخ میں ایسا کوئی آدمی نہیں گذرا جو معاشرے میں ایک رومانی کردار بن گیا ہو یہ اعزا ز صرف بھگت سنگھ کے حصے میں آیاہے۔ آج جو دنیا بھر کے انسانوں کو آزادی نصیب ہے اسی آزادی کی خاطر پوری دنیا کے انسانوں نے عظیم جدوجہد کی ہے اسی آزادی کی خاطر زہر کے پیالے پیئے گئے اسی آزادی کی خاطر لوگ جلتی آگ میں زندہ جلا دیے گئے اسی آزادی کی خاطر لوگ سولی پر چڑھ گئے لوگ جلا وطن ہوئے اسی آزادی کی خاطر لو گ زندگی بھر مفلسی اور غربت کی آگ میں جلتے رہے لیکن ہمت نہیں ہاری اور جد وجہد جاری رکھی لوگوں کی قربانیاں رنگ لے آئیں اور آج دنیا بھر کے لوگ آزاد ہیں اور اپنی آزادی کی حفاظت کررہے ہیں اور آزادی کی نعمتوں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
ادھر دوسری جانب 1947 میں پاکستان تو ضرور آزاد ہوا لیکن پاکستان کے عوام کو آزادی نصیب نہ ہوسکی لوگوں کو امید تھی اور یقین تھا کہ نئے ملک میں ان کو آزادی ، خو شحالی اور جمہوریت نصیب ہوگی نئے ملک میں وہ با اختیار ہونگے طاقت ور ہونگے ان کے حقوق بغیر سفارش اور پیسے ان کے دروازے پر انہیںملیں گے ان پر نہ کوئی ظلم ہوگا اور نہ ہی ناانصافی ہوگی ملک چلانے کے تمام فیصلے وہ خود کریں گے خواتین اور اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہونگے ، برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے اور تقسیم کے بعد عوام کو نئے ملک میں غلاموں کی غلامی نصیب ہوئی ملک بننے کے ساتھ ہی ہم سے پے در پے غلطیاں ہوتی چلی گئیں ہمیں فوری طورپر ملک کو چلانے کے لیے آئین بنانا چاہیے تھا، جمہوریت قائم کرنی چاہیے تھی بنگالیوں کو حقوق دینے چاہیے تھے۔
خارجہ پالیسی میں امریکا اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات میں توازن برقرار رکھنا چاہیے تھا عوام کو کمزور او ر تقسیم کرنے کی بجائے انہیں مضبوط اور خوشحال بنانا چاہیے تھا پڑوسیوں سے تعلقات خوشگوار رکھنے چاہیے تھے اور جو ان کے ساتھ مسائل تھے انہیں بیٹھ کر حل کر نے چاہیے تھے نہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی کو اپنے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی اجازت دینے کی کوئی ضرورت تھی ، لیکن افسوس صد افسوس ایسا کچھ نہیں ہوسکا بدقسمتی سے قائداعظم کا جلدانتقال ہوگیا اور اس کے بعد بیورو کریسی اور اشرافیہ نے اپنے پنجے گاڑھنے شروع کر دیے اور اشرافیہ نے پاکستان کے عوام کو زنجیروں میں جکڑنا شروع کر دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج پاکستان کے 18کروڑ عوام کا نصیب غلامی بنی ہوئی ہے ۔یہ ملک برصغیر کے عوام نے اپنی عظیم قربانیوں اور سیاسی جدو جہد کے نتیجے میں حاصل کیا یہ ملک اس لیے حاصل نہیں کیا تھا کہ وہ نئے ملک میں بھی غلام بنے رہیں ۔
پاکستان کے اصل مالک 18 کروڑ عوام ہیں خوشحالی ، آزادی ، جمہوریت ان کا حق ہے یہ کسی آسمانی کتاب میں نہیں لکھا ہوا کہ ملک کے اصل مالک ، غربت ، بھو ک غلامی اور افلاس کی آگ میں جلتے رہیں اور چند ہزار افراد پر مشتمل یہ اشرافیہ عیاشیاں کرتی پھرے ۔ اور ملک کے اصل مالکوں پر مالک بنی بیٹھی رہے ۔فقر اختیار کرنے سے پہلے ایک دن خواجہ فرید الدین عطارؒ اپنی عطاری کی آراستہ و پیراستہ دکان میں بڑی شان سے رونق افروز تھے۔ کسی طرف سے ایک درویش ادھر آنکلا اس نے خواجہ صاحب سے سوال کیا ، بابا راہ خدا میں فقیر کو کچھ دے دے۔خواجہ صاحب اپنے کام میں مصروف تھے انھوں نے درویش کی طرف کوئی توجہ نہ کی جب اس نے باربار اپنا سوال دہرایا تو خواجہ صاحب چمک کر بولے ۔
'' میاں اپنا راستہ لو۔ دیوانوں کی طرح کیوں گھو م رہے ہو۔ '' درویش بولا''بابا میں تو اپنا راستہ لوں گا لیکن تم اپنا راستہ کس طرح لوگے ''۔ خواجہ صاحب بولے '' میرے اور تمہارے راستہ لینے میں کیافرق ہوسکتا ہے ؟'' درویش بولا''اچھا تو کیا میری طرح مر سکتا ہے '' ۔ خواجہ صاحب بولے ''ہاں بے شک '' ۔ درویش بولا'' اچھا تو دیکھ میں کیسے مرتا ہوں '' ۔ یہ کہہ کر درویش اپنا کمبل سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا اور ایک بار زور سے اللہ کہہ کر واصل بحق ہوگیا ۔ یہ واقعہ دیکھ کر خواجہ عطار ؒکی حالت متغیر ہو گئی ۔ ساری دکان کھڑے کھڑے لٹا دی اور راہ فقر اختیار کرلی ۔ہم منتظرہیں خدا ہماری اشرافیہ کو کب سیدھے رستے پر لاتا ہے۔
یہ حالات حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہے تھے چنانچہ وائسرا ئے کے حکم کے تحت مقدمے کی سماعت کے لیے خصو صی ٹربیونل قائم کیاگیا اس ٹربیونل میں انقلابیوں کو نہ وکیل کی سہولت حاصل تھی نہ اپنے دفاع میں وہ کسی گواہ کو پیش کرسکتے تھے حتیٰ کہ اس قانون کے تحت ان کی اپنی موجودگی بھی عدالت میں ضروری نہ تھی انصاف کے نام پر ٹربیونل کا یہ ڈراما پانچ مہینے تک چلتا رہا حتیٰ کہ اکتوبر 1930 میں بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھ دیو کو سزائے موت سنائی گئی دوسرے ساتھی ملزموں کو عمر قید اور بہت سے دیگر کارکنوں کو طویل المدت قید کی سزاد ی گئی ۔ ان بہادر انقلابیوں کو 23 مارچ 1931 کوصبح7:15 بجے لاہور سینٹر ل جیل میں پھانسی دے دی گئی اور 9 بج کر 30 منٹ پر ان کی لاشوں کو پچھلی دیوار توڑ کر باہر نکالا گیا اور انہیں11:30 بجے تک دریائے ستلج کے کنارے پہنچایاگیا جہاں لاشوں پر پیڑول چھڑک کر آگ لگا دی گئی ۔
بھگت سنگھ نے موت سے پہلے گورنر کو ایک خط لکھا جس میں اس نے کہا '' یہ جنگ اب ایک نئی شان و شو کت کے ساتھ لڑی جائے گی جس میں بہادری اور جرأت کے نئے باب رقم ہونگے ۔ اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہندوستان میں ایک سو شلسٹ جمہوری نظام قائم نہیں ہو جاتا ۔ اب سرمایہ داری اور سامراجی استحصال کے دن پورے ہو چکے ہیں ۔ یہ جنگ ہم نے شروع کی نہ ہم نے اس کو ختم کیا یہ جنگ ظالم اورمظلوم کے درمیان صدیوں پہلے شروع ہوئی ہم نے اس کو تیز کر نے میں اپنا معمولی سا حصہ ڈالا ہماری معمولی سی قربانی شاید ایک بہت بڑی دیوار میں ایک اینٹ کی مانند ہے'' گاندھی بھی کہہ رہے تھے کہ حالیہ تاریخ میں ایسا کوئی آدمی نہیں گذرا جو معاشرے میں ایک رومانی کردار بن گیا ہو یہ اعزا ز صرف بھگت سنگھ کے حصے میں آیاہے۔ آج جو دنیا بھر کے انسانوں کو آزادی نصیب ہے اسی آزادی کی خاطر پوری دنیا کے انسانوں نے عظیم جدوجہد کی ہے اسی آزادی کی خاطر زہر کے پیالے پیئے گئے اسی آزادی کی خاطر لوگ جلتی آگ میں زندہ جلا دیے گئے اسی آزادی کی خاطر لوگ سولی پر چڑھ گئے لوگ جلا وطن ہوئے اسی آزادی کی خاطر لو گ زندگی بھر مفلسی اور غربت کی آگ میں جلتے رہے لیکن ہمت نہیں ہاری اور جد وجہد جاری رکھی لوگوں کی قربانیاں رنگ لے آئیں اور آج دنیا بھر کے لوگ آزاد ہیں اور اپنی آزادی کی حفاظت کررہے ہیں اور آزادی کی نعمتوں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
ادھر دوسری جانب 1947 میں پاکستان تو ضرور آزاد ہوا لیکن پاکستان کے عوام کو آزادی نصیب نہ ہوسکی لوگوں کو امید تھی اور یقین تھا کہ نئے ملک میں ان کو آزادی ، خو شحالی اور جمہوریت نصیب ہوگی نئے ملک میں وہ با اختیار ہونگے طاقت ور ہونگے ان کے حقوق بغیر سفارش اور پیسے ان کے دروازے پر انہیںملیں گے ان پر نہ کوئی ظلم ہوگا اور نہ ہی ناانصافی ہوگی ملک چلانے کے تمام فیصلے وہ خود کریں گے خواتین اور اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہونگے ، برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے اور تقسیم کے بعد عوام کو نئے ملک میں غلاموں کی غلامی نصیب ہوئی ملک بننے کے ساتھ ہی ہم سے پے در پے غلطیاں ہوتی چلی گئیں ہمیں فوری طورپر ملک کو چلانے کے لیے آئین بنانا چاہیے تھا، جمہوریت قائم کرنی چاہیے تھی بنگالیوں کو حقوق دینے چاہیے تھے۔
خارجہ پالیسی میں امریکا اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات میں توازن برقرار رکھنا چاہیے تھا عوام کو کمزور او ر تقسیم کرنے کی بجائے انہیں مضبوط اور خوشحال بنانا چاہیے تھا پڑوسیوں سے تعلقات خوشگوار رکھنے چاہیے تھے اور جو ان کے ساتھ مسائل تھے انہیں بیٹھ کر حل کر نے چاہیے تھے نہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی کو اپنے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی اجازت دینے کی کوئی ضرورت تھی ، لیکن افسوس صد افسوس ایسا کچھ نہیں ہوسکا بدقسمتی سے قائداعظم کا جلدانتقال ہوگیا اور اس کے بعد بیورو کریسی اور اشرافیہ نے اپنے پنجے گاڑھنے شروع کر دیے اور اشرافیہ نے پاکستان کے عوام کو زنجیروں میں جکڑنا شروع کر دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج پاکستان کے 18کروڑ عوام کا نصیب غلامی بنی ہوئی ہے ۔یہ ملک برصغیر کے عوام نے اپنی عظیم قربانیوں اور سیاسی جدو جہد کے نتیجے میں حاصل کیا یہ ملک اس لیے حاصل نہیں کیا تھا کہ وہ نئے ملک میں بھی غلام بنے رہیں ۔
پاکستان کے اصل مالک 18 کروڑ عوام ہیں خوشحالی ، آزادی ، جمہوریت ان کا حق ہے یہ کسی آسمانی کتاب میں نہیں لکھا ہوا کہ ملک کے اصل مالک ، غربت ، بھو ک غلامی اور افلاس کی آگ میں جلتے رہیں اور چند ہزار افراد پر مشتمل یہ اشرافیہ عیاشیاں کرتی پھرے ۔ اور ملک کے اصل مالکوں پر مالک بنی بیٹھی رہے ۔فقر اختیار کرنے سے پہلے ایک دن خواجہ فرید الدین عطارؒ اپنی عطاری کی آراستہ و پیراستہ دکان میں بڑی شان سے رونق افروز تھے۔ کسی طرف سے ایک درویش ادھر آنکلا اس نے خواجہ صاحب سے سوال کیا ، بابا راہ خدا میں فقیر کو کچھ دے دے۔خواجہ صاحب اپنے کام میں مصروف تھے انھوں نے درویش کی طرف کوئی توجہ نہ کی جب اس نے باربار اپنا سوال دہرایا تو خواجہ صاحب چمک کر بولے ۔
'' میاں اپنا راستہ لو۔ دیوانوں کی طرح کیوں گھو م رہے ہو۔ '' درویش بولا''بابا میں تو اپنا راستہ لوں گا لیکن تم اپنا راستہ کس طرح لوگے ''۔ خواجہ صاحب بولے '' میرے اور تمہارے راستہ لینے میں کیافرق ہوسکتا ہے ؟'' درویش بولا''اچھا تو کیا میری طرح مر سکتا ہے '' ۔ خواجہ صاحب بولے ''ہاں بے شک '' ۔ درویش بولا'' اچھا تو دیکھ میں کیسے مرتا ہوں '' ۔ یہ کہہ کر درویش اپنا کمبل سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا اور ایک بار زور سے اللہ کہہ کر واصل بحق ہوگیا ۔ یہ واقعہ دیکھ کر خواجہ عطار ؒکی حالت متغیر ہو گئی ۔ ساری دکان کھڑے کھڑے لٹا دی اور راہ فقر اختیار کرلی ۔ہم منتظرہیں خدا ہماری اشرافیہ کو کب سیدھے رستے پر لاتا ہے۔