وزیراعظم کی افغان پالیسی
وزیراعظم پاکستان جنہوں نے وزارت خارجہ کا قلم دان بھی اپنے پاس رکھا ہواہےپاکستان کی خارجہ پالیسی کوایک نئی سمت دینے۔۔۔
وزیراعظم پاکستان جنہوں نے وزارت خارجہ کا قلم دان بھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک نئی سمت دینے کیلئے بڑی شد و مد سے کوشاں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس محاذ پر انھیں بڑے سنگین چیلنج درپیش ہیں لیکن وہ ایک عملی سوچ اور واضح نصب العین کیساتھ اس راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کررہے ہیں جس کا تعین بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ ان کی خواہش ہے کہ خارجہ امور کے چیلنجوں کو مواقعے کی صورت میں تبدیل کردیا جائے تاکہ اس کے بعد تمام تر توجہ ملک کی معیشت کی کایا پلٹنے پر مرکوز کی جاسکے۔ چنانچہ اسی اخلاص نیت کیساتھ انھوں نے بھارت کی جانب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور افغانستان کی جانب بھی دست تعاون دراز کیا ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو پاکستان کے بارے میں اس کا مخاصمانہ رویہ اس لیے قابل فہم ہے کہ اس ملک کے قائدین جو ہندو اکثریت کے نمائندے تھے ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ برصغیر تقسیم ہو اور پاکستان وجود میں آئے۔
اکھنڈ بھارت ان کا کل بھی نعرہ تھا اور آج بھی وہ اکھنڈ بھارت کا ہی خواب دیکھ رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ان کی کوشش مسلسل یہی رہی ہے کہ کسی طرح یا تو اس ملک کو ہڑپ کرلیا جائے یا پھر اس کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے، مگر جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق بھارتی حکمران اپنے مقصد میں ناکام ہی رہے۔ جہاں تک پاکستان، افغان تعلقات کا معاملہ ہے تو سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور اس کی غالب اکثریت کے پاکستانی عوام کے ساتھ خون کے گہرے رشتے ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کہ افغانستان کے بیشتر حکمران پاکستان کے مخالف ہی رہے ہیں، ہماری آنکھوں میں وہ مناظر آج بھی محفوظ ہیں جب افغان حکمران سردار دائود اور سردار نعیم بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ اس طرح گلے مل رہے تھے گویا دونوں آپس میں سگے بھائی ہوں۔
اس میں وہ منظر بھی یاد ہے جب ساٹھ کی دہائی میں سرحدی گاندھی باچا خان صاحب کو بھارتی حکومت نے ہندوستان بلایا تھا اور راجدھانی دلی میں ان کے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، جہاں انھیں بھارت نوازی کے صلے میں لاکھوں روپے کی تھیلی بھی بطور نذرانہ پیش کی گئی تھی۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ طالبان کے دور کے سوائے افغانستان میں جتنے بھی حکمران آئے وہ بھارت نواز ہی نکلے، یہی وجہ تھی کہ مسلم ملک ہونے کے باوجود افغانستان ہی وہ ملک تھا جس نے بہت تاخیر کے بعد بمشکل پاکستان کے قیام کو تسلیم کیا تھا۔ اگر افغانستان حکمرانوں کا بس چلتا تو وہ اپنے غیر ملکی آقائوں کے اشارے پر ڈیورنڈ لائن کی سرحدی زنجیر کو اٹک کے مقام تک لے آتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغان حکمرانوں نے پاکستان کو خواہ مخواہ کی مشکلات میں مبتلا کرنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ تلخ لیکن ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ افغان حکمران اپنے بیرونی آقائوں کے اشارے پر کٹھ پتلی کی طرح ناچتے رہے اور آج بھی ناچ رہے ہیں۔
ان میں اتنی غیرت اور حمیت بھی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے اس احسان عظیم کا ہی بدلہ چکادیں جو اس نے سوویت جارحیت سے تحفظ کی صورت میں کیا تھا اور جس کا خمیازہ اسے آج تک دہشت گردی کے نہ رکنے والے سلسلے کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے ، اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کی سرزمین پر موجود افغان باشندے بھی پاکستان کی کمزور معیشت کے کندھوں پر ایک ناقابل برداشت بوجھ بنے ہوئے ہیں اور ان سے تعلق رکھنے والے بعض عناصر دہشت گردی اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ سچ پوچھیے تو افغانستان کو روسی جارحیت سے بچانے کا سودا پاکستان کو بڑا مہنگا پڑا ہے جس کی قیمت اسے طرح طرح سے مسلسل ادا کرنا پڑ رہی ہے جس میں وہ ڈرون حملے بھی ہیں جو رکنے کا نام نہیں لے رہے اور جن کے نتیجے میں نہ جانے کتنے معصوم پاکستانی باشندے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی اور عدم استحکام کا سب سے بڑا سبب افغانستان ہی ہے جو نا صرف خود ناحق تباہی و بربادی کا شکار ہورہا ہے بلکہ پاکستان کیلئے بھی ایک ناسور اور خوامخواہ کا درد سر بنا ہوا ہے۔اب جبکہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا میں بہت زیادہ طویل عرصہ باقی نہیں رہا ہے، نواز شریف کی نوزائیدہ حکومت نے اس ملک کیساتھ پاکستان کے تعلقات کو نارمل کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی ہے اور تمام معاملات کو نیک نیتی کیساتھ طے کرنے کی غرض سے افغان صدر کو پاکستان کے دورے کی دعوت کا خصوصی پیغام پہنچانے کیلئے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کو کابل کے دورے پر روزانہ کیا تھا۔ سرتاج عزیز نے اس دورے میں افغان قیادت کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ پاکستان نہ صرف افغانستان میں قیام امن و استحکام کا خواہاں ہے بلکہ وہ افغان قیادت کے امن پروسیس کی بھرپور حمایت بھی جاری رکھے گا۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے سرتاج عزیز کے اس دورے پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں قیام امن کے عمل میں پاکستان کو ایک نہایت اہم پارٹنر سمجھتا ہے۔
قارئین کرام امریکا کے علاوہ برطانیہ کی بھی خواہش ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے عمل میں اپنا کردار ادا کرے۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ افغان قیادت نے پاکستان کی جانب سے کی جانیوالی پہل کے جواب میں کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نے وزیراعظم نواز شریف کے دعوت نامے کو خوشدلی سے قبول کرنے کے بجائے اس دورے کے بارے میں کچھ من مانی شرائط عائد کردی ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت نے افغان صدر کو دورہ پاکستان کی یہ پرخلوص دعوت وطن عزیز کی فوجی قیادت کی مکمل حمایت کے ساتھ دی ہے۔
بین الاقوامی اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ افغان صدر نہ صرف اس دعوت کو انتہائی خوش دلی سے قبول کرتے بلکہ خیر سگالی کے اس جذبے کے اظہار پر وزیراعظم میاں نواز شریف کا شکریہ بھی ادا کرتے مگر اس کے بالکل برعکس اپنی روایتی تنگ نظری اور بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھوں نے بین الاقوامی آداب سفارت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور کو صرف ٹکا سا جواب دے دیا اور اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ ان کا یہ نامناسب اقدام پوری دنیا میں ان کے بارے میں ایک منفی رویے کے اظہار اور رسوائی کا سبب بنے گا۔افغان صدر کی جانب سے پاکستان کے دورے کے بارے میں یہ لنگڑی لولی شرائط عائد کی گئی ہیں کہ اس مجوزہ دورے کا مقصد واضح ہو اور دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات اور پرامن مذاکرات اولین ترجیح ہوں تو صرف اسی صورت میں افغان وفد پاکستان کا دورہ کرے گا۔
قارئین کرام ہم پوری تحقیق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان کے صدر کرزئی کا یہ منفی رویہ نہ صرف ان کے امیج کو برباد کرنے کا سبب بنے گا بلکہ Back Fire کرے گا کیونکہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ دنوں دفتر خارجہ کے دورے کے موقع پر یہ واضح کردیا تھا کہ افغانستان میں ہمارا کوئی گروپ نہیں ہے، مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی کابل میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہی بات دہرائی تھی۔سیدھی اور سچی بات یہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے حوالے سے ایک انتہائی مناسب اور موزوں پالیسی کا مظاہرہ کیا ہے جسے سفارتی زبان میں Pragmatism کہنا بالکل بجا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونیوالے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوگئے تو افغانستان پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس بدنصیب ملک میں برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے امکانات روشن ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں آفت زدہ افغان عوام بالآخر سکھ اور چین کا سانس لے سکیں گے اور یہ بھی ایک خوش آئند پیش رفت ہے کہ طالبان رہنمائوں کی جانب سے بھی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جس سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ شاید انھیں یہ احساس ہوگیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے کیونکہ اس طویل جنگ کے نتیجے میں افغانستان اور اس کے عوام کو تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ افغانستان کے Fall out نے پاکستان کی سیاست اور معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور دہشت گرد گروپوں کے عذاب نے اسے رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں دیا۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح پوری دنیا پر عیاں ہوجانی چاہیے کہ وزیراعظم نواز شریف اب پاکستان کو افغانستان کے اندرونی تنازعات اور معاملات سے بالکل الگ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اس متاثرہ خطے میں قیام امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے کا بنیادی تقاضا بھی یہی ہے۔