دہشت گرد باپ
خبر ہے کہ اوکاڑہ کی تحصیل دیبالپور میں ایک باپ نے چھ سال پہلے پسند کی شادی کرنے پر اپنی بیٹی، اس کے دو۔۔۔
خبر ہے کہ اوکاڑہ کی تحصیل دیبالپور میں ایک باپ نے چھ سال پہلے پسند کی شادی کرنے پر اپنی بیٹی، اس کے دو بچوں اور داماد سمیت چھ افراد کو قتل کردیا۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ منگل دیبالپور کے گائوں تارا سنگھ میں طاہر سرور نامی شخص نے چھ سال پہلے شوکت میو کی بیٹی شہناز سے پسند کی شادی کی تھی اور گائوں سے چلا گیا تھا۔ وہ عرصہ پانچ یا چھ سال بعد گائوں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ واپس آیا۔ واقعہ کے مطابق گذشتہ پیر اور منگل کی درمیانی شب شوکت میو نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر طاہر کے گھر میں گُھس کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں شہناز، اس کا شوہر طاہر، ان کا بیٹا عدنان طاہر، بیٹی رامش طاہر، بھائی نواز اور زاہد ہلاک ہوگئے۔ خبر کے مطابق فائرنگ کے بعد ملزمان فرار ہوگئے اور پولیس نے لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا کر تفتیش شروع کردی ہے۔ یہاں پرخبر ختم ہوجاتی ہے ۔
ذرا غور کریں ہمارا ملک دہشت گردی کے عذاب سہہ رہا ہے۔ ملک کا کوئی شہر اور کوئی صوبہ دہشت گردوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے۔ بعض صوبوں مثلاً بلوچستان، دور سندھ میں دہشت گردی اور صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اب تو ان شہروں اور علاقوں تک بھی دہشت گرد پہنچ گئے ہیں جہاں پہلے یا انھوں نے خود جانا پسند نہیں کیا تھا یا وہاں تک رسائی ممکن نہ تھی۔
ہم لوگ دہشت گرد اُسے کہتے ہیں جو خود کش حملے کرتا ہے یعنی وہ اس یقین کے ساتھ تباہی پھیلاتا ہے کہ اس عمل میں وہ خود پہلے مارا جائے گا اور بعد میں دوسرے لوگ جنھیں وہ مارنا چاہتا ہے مریں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جان کی بازی لگانا کا محاورہ کہنا آسان بات ہے لیکن اس پر باقاعدہ عمل کرنا صرف وہی جانتا ہے جو اس عمل کے بعد اس دنیا میں خود بھی نہیں رہتا۔ اگر کوئی ثبوت ملتا ہے تو وہ اُس کا سر ہوتا ہے جس کا دھڑ کے ساتھ رشتہ منقطع ہوچکا ہوتا ہے یہ ہمارا موضوع نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ، کب سے ہو رہا ہے اور کب تک ہوتا رہے گا۔ میں تو اس کا موازنہ اوپر بیان کیے گئے واقعہ سے کرنا چاہوں گا جہاں ایک سگے باپ نے اپنی سگی بیٹی اور اس کے پورے گھرانے کو محض اس بات پر قتل کیا کہ اس نے شادی اپنی پسند سے کی تھی۔مجھے سمجھ میں یہ بات نہیں آتی بحیثیت قوم اور ملک ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اور کس طرح اپنے ملک کے بد نصیب اور مصیبت زدہ لوگوں کو دہشت گردی سے نجات دلا سکتے ہیں جب کہ ہم خود اپنے گھروں اور خاندانوں کے اندر دہشت گرد بن جاتے ہیں۔
ذرا غور کریں تو دہشت گرد کیوں دھماکے کرتے ہیں، کیوں تباہیاں پھیلاتے ہیں، کیوں بے گناہ لوگوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرتے ہیں ، اس لیے کہ انھیں ان کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی۔ چاہے وہ سیاسی بات ہو، معاشرتی بات ہو، سماجی بات ہو، مذہبی بات ہو ، فرقہ وارانہ بات ہو، لسانی بات ہو یا کوئی بھی بات ہو وہ بات چونکہ انھیں پسند نہیں اس لیے اس بات کے کرنے والے ان کے نزدیک اس حد تک قابل نفرت ہوجاتے ہیں کہ انھیں صفحہء ہستی سے مٹانے کے لیے انھیں اگر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑے تو وہ اس سے قطعاً نہیں چوکتے۔ ان کی اِسی سوچ کی بنیاد پر دنیا بھر کے لوگ انھیں اچھا نہیں سمجھتے اور اسی وجہ سے ان کے خلاف نبردآزما رہتے ہیں۔ بیالیس ملکوں کی فوج مل کر ان کے خلاف جنگ کررہی ہے اور نہ صرف ملک عزیز پاکستان کے اندر بلکہ باہر بھی اس آفت سے نجات حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔
بین الاقومی سطح پر اسلحہ اور گولہ بارود استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اب دنیا اس نتیجے پر بھی پہنچی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے مذاکرات بھی ہونے چاہیں یعنی بات چیت کے ذریعے بھی کوششیں کرنی چاہیے تاکہ امن اور سکون قائم ہوسکے۔
میں صرف حیرت کا شکار ہوں کہ شوکت میو کے خلاف جنگ کس نے لڑنی ہے یا اس کے ساتھ مذاکرات کس نے کرنے ہیں۔ ہمارا وطن عزیز شوکت میو پیدا کرنے میں بھی مہارت تامہ رکھتا ہے جو ہر سُو پھیلی ہوئی جہالت کی بھٹی میں تیار ہوتے ہیں ۔ جس طرح شوکت میو بھی مسلسل پیدا ہوئے چلے جا رہے ہیں ان کے خلاف بیالیس ملکوں کی فوج کبھی اکٹھی نہیں ہوئی کیونکہ یہ مسئلہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔اور مہذب دنیا شاید اسی لیے ہمارے اس مسئلے کے اندر مداخلت نہیں کرسکتی۔مجھے تو یو ں لگتا ہے کہ اگر شوکت میو ختم ہوجائے تو دہشت گرد خود بخود ختم ہو جائیں گے لیکن شوکت میو شاید کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ختم ہونا تو درکنار وہ کبھی پکڑا بھی نہیں جائے گا کیونکہ ہر جاہل اور ظالم باپ کے اندر ایک شوکت میو چھپا ہوتا ہے۔
جہالت سے مراد صرف جعلی یا اصلی اسناد سے محرو م ہونا نہیں ہے بلکہ آکسفورڈ اور کیمرج کے تعلیم یافتہ باپ بھی اکثر اوقات اپنے اندر شوکت میو کو چھپائے رکھتے ہیں۔ یہ ایک گھنائونی حقیقت ہے جس کی باقاعدہ نشاندہی ضروری ہے اس کی نشاندہی نہیں کی جا رہی۔ اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوششیں کسی بھی سطح پر نہیں ہو رہیں۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ ہمارے اندر کا شوکت میو ہمیں ایسا کرنے نہیں دیتا اور ہم اس قدر بزدل، بے بس اور مجبور ہیں کہ اپنے اندر کے شوکت میو کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔ اس لیے مستقبل قریب میں اگر کوئی یہ امید رکھتا ہے کہ بیٹیوں کا قتل ہونا بند ہوجائے گا تو ایسا شخص شوکت میو کی طاقت کے بارے میں غلط اندازے لگائے بیٹھا ہے جس کا خمیازہ وہ کسی بھی وقت بھگت سکتاہے۔ اسی لیے شوکت میو زندہ باد ، بیٹیاں مردہ باد ۔
خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔